ایک سیاسی جماعت کی جانب سے انگوٹھوں کی تصدیق کو تماشا بنایا جارہا ہے چوہدری نثارعلی
کراچی سمیت ملک کے کئی حلقوں میں ڈالے گئے ووٹوں کی اکثریت جعلی نہیں بلکہ غیر تصدیق شدہ ہے، وزیرداخلہ
وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے کہا ہے کہ جعلی ووٹوں اور غیر تصدیق شدہ ووٹوں میں بہت فرق ہے، کئی حلقوں میں مقناطیسی سیاہی استعمال ہی نہیں ہوئی اس لئے خدشہ ہے کہ ان حلقوں میں 60 یا 65 ہزار نہیں بلکہ 60 سے 65 فیصد ووٹ غیر تصدیق شدہ ہوسکتے ہیں۔
قومی اسمبلی میں شاہ محمود قریشی اور دیگر اپوزیشن ارکان کے اظہار خیال کے جواب میں وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ انہوں نے کبھی کسی کے خلاف ناشائستہ زبان استعمال نہیں کی، انہوں نے جو کچھ کہا وہ ایک سیاسی جماعت کے رہنماؤں کی باتوں کو بنیاد پر کیا ہے، قانونی طور پر نادرا وزارت داخلہ کے ماتحت ہے اور اسے الیکشن کمیشن کے تحت ماتحت نہیں کیا جارہا۔ انہوں نے کہا کہ ایک سیاسی جماعت کی جانب سے انگوٹھوں کی تصدیق کو تماشا بنایا جارہا ہے، وہ گزشتہ ورز بھی یہ کہہ چکے ہیں کہ وہ اس مسئلے کےحل کے لئے راضی ہیں ہم بھی اسی پر راضی ہیں۔ لیکن ایوان میں شورشرابہ مسئلے کا حل نہیں بلکہ حقائق کی بنیاد پر بات کی جانی چاہئے۔
وفاقی وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ تحریک انصاف کی جانب سے جب بھی ایوان میں بات کی جاتی ہے تو یہی شکوہ کیا جاتا ہے کہ الیکشن ٹریبونل ان کی عزرداریوں پر فیصلے نہیں کررہی وہ اپنا شکوہ الیکشن ٹریبونل سے کریں ، الیکشن کمیشن یا الیکشن ٹریبونل وفاقی حکومت کے ماتحت نہیں، ان کا کہنا تھا کہ ان کو ملنے والے کوائف کے مطابق کئی حلقوں میں وہ مقناطیسی سیاہی استعمال ہی نہیں ہوئی جس کے بارے میں الیکشن کمیشن کی جانب سے کی جانی تھی بلکہ انگوٹھوں کے نشان لینے کے لئے اسٹیمپ پیڈز پر وہ سیاہی استعمال کی گئی جسے پہلے ان مٹ سیاہی کہا جاتا تھا۔ ووٹوں کی دو قسمیں ہیں ایک تو جعلی ووٹ ہیں اور دوسرے غیر تصدیق شدہ، کچھ مقامات پر لوگوں نے 25 ،25 ووٹ ڈالے ان کو گرفتار کیا جانا چاہئے اور وہاں تعینات پولنگ کے عملے کے خلاف کارروائی ہونی چاہئے کہ ایسا کیوں ہوا، یہی وجہ ہے کہ کراچی سمیت ملک کے کئی حلقوں میں ڈالے گئے ووٹوں کی اکثریت جعلی نہیں بلکہ غیر تصدیق شدہ ہے، یہ وہ ووٹ ہیں جن کی تصدیق نادرا کے نظام کے تحت ہو نہیں سکی، اگر کہیں بھی مقناطیسی سیاہی استعمال نہیں ہوئی تو قصور منتخب نمائندوں کا نہیں ، جن کی ذمہ داری تھی ان کے خلاف ایف آئی آر کیوں درج نہیں ہوتی۔
چوہدری نثار کا کہنا تھا کہ سب سے پہلے یہ تحقیق ہونی چاہیئے کہ کیا ہر پولنگ اسٹیشن پر مقناطیسی سیاہی کی ترسیل ہوئی اور اس سلسلے میں کمیٹی قائم کرلیتے ہیں جس میں اپوزیشن کی خواہش کے مطابق کسی بھی جج کو شامل کر لیں اور اگر یہ کمیٹی قائم ہوتی ہے تو کمیٹی کے سامنے ان کے تین سوال ہوں گے کہ پولنگ اسٹیشنز پر مقناطیسی سیاہی کا استعمال ہی نہیں تو اس کے بعد سوال یہ پیدا ہوگا اس کے ذمہ دار کون ہیں اور ان کے خلاف کیا کارروائی کی جانی چاہئے،دوسرا یہ کہ کیا نادرا نے الیکشن کمیشن کو یہ یقین دہانی کرائی تھی کہ وہ عام سیاہی کے ذریعے بھی ووٹوں کی تصدیق کرسکے گی، اور تیسرا سوال یہ کہ کیا مقناطیسی سیاہی جیسی بلا دنیا میں کہیں استعمال ہوئی اور اگر یہ انہونی ایجاد تھی تو بلدیاتی انتخابات میں اس کا استعمال کیوں نہیں ہورہا ہے لیکن وہ دیکھ رہے ہیں کہ انگوٹھوں کے نشانات کی تصدیق کو سیاسی ہتھکنڈے کے طور پر استعمال کیا جارہا ہے، اس کے باوجود وہ یہ کہتے ہیں کہ اپوزیشن جس پر راضی ہیں ہم بھی اسی پر خوش ہیں۔
قومی اسمبلی میں شاہ محمود قریشی اور دیگر اپوزیشن ارکان کے اظہار خیال کے جواب میں وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ انہوں نے کبھی کسی کے خلاف ناشائستہ زبان استعمال نہیں کی، انہوں نے جو کچھ کہا وہ ایک سیاسی جماعت کے رہنماؤں کی باتوں کو بنیاد پر کیا ہے، قانونی طور پر نادرا وزارت داخلہ کے ماتحت ہے اور اسے الیکشن کمیشن کے تحت ماتحت نہیں کیا جارہا۔ انہوں نے کہا کہ ایک سیاسی جماعت کی جانب سے انگوٹھوں کی تصدیق کو تماشا بنایا جارہا ہے، وہ گزشتہ ورز بھی یہ کہہ چکے ہیں کہ وہ اس مسئلے کےحل کے لئے راضی ہیں ہم بھی اسی پر راضی ہیں۔ لیکن ایوان میں شورشرابہ مسئلے کا حل نہیں بلکہ حقائق کی بنیاد پر بات کی جانی چاہئے۔
وفاقی وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ تحریک انصاف کی جانب سے جب بھی ایوان میں بات کی جاتی ہے تو یہی شکوہ کیا جاتا ہے کہ الیکشن ٹریبونل ان کی عزرداریوں پر فیصلے نہیں کررہی وہ اپنا شکوہ الیکشن ٹریبونل سے کریں ، الیکشن کمیشن یا الیکشن ٹریبونل وفاقی حکومت کے ماتحت نہیں، ان کا کہنا تھا کہ ان کو ملنے والے کوائف کے مطابق کئی حلقوں میں وہ مقناطیسی سیاہی استعمال ہی نہیں ہوئی جس کے بارے میں الیکشن کمیشن کی جانب سے کی جانی تھی بلکہ انگوٹھوں کے نشان لینے کے لئے اسٹیمپ پیڈز پر وہ سیاہی استعمال کی گئی جسے پہلے ان مٹ سیاہی کہا جاتا تھا۔ ووٹوں کی دو قسمیں ہیں ایک تو جعلی ووٹ ہیں اور دوسرے غیر تصدیق شدہ، کچھ مقامات پر لوگوں نے 25 ،25 ووٹ ڈالے ان کو گرفتار کیا جانا چاہئے اور وہاں تعینات پولنگ کے عملے کے خلاف کارروائی ہونی چاہئے کہ ایسا کیوں ہوا، یہی وجہ ہے کہ کراچی سمیت ملک کے کئی حلقوں میں ڈالے گئے ووٹوں کی اکثریت جعلی نہیں بلکہ غیر تصدیق شدہ ہے، یہ وہ ووٹ ہیں جن کی تصدیق نادرا کے نظام کے تحت ہو نہیں سکی، اگر کہیں بھی مقناطیسی سیاہی استعمال نہیں ہوئی تو قصور منتخب نمائندوں کا نہیں ، جن کی ذمہ داری تھی ان کے خلاف ایف آئی آر کیوں درج نہیں ہوتی۔
چوہدری نثار کا کہنا تھا کہ سب سے پہلے یہ تحقیق ہونی چاہیئے کہ کیا ہر پولنگ اسٹیشن پر مقناطیسی سیاہی کی ترسیل ہوئی اور اس سلسلے میں کمیٹی قائم کرلیتے ہیں جس میں اپوزیشن کی خواہش کے مطابق کسی بھی جج کو شامل کر لیں اور اگر یہ کمیٹی قائم ہوتی ہے تو کمیٹی کے سامنے ان کے تین سوال ہوں گے کہ پولنگ اسٹیشنز پر مقناطیسی سیاہی کا استعمال ہی نہیں تو اس کے بعد سوال یہ پیدا ہوگا اس کے ذمہ دار کون ہیں اور ان کے خلاف کیا کارروائی کی جانی چاہئے،دوسرا یہ کہ کیا نادرا نے الیکشن کمیشن کو یہ یقین دہانی کرائی تھی کہ وہ عام سیاہی کے ذریعے بھی ووٹوں کی تصدیق کرسکے گی، اور تیسرا سوال یہ کہ کیا مقناطیسی سیاہی جیسی بلا دنیا میں کہیں استعمال ہوئی اور اگر یہ انہونی ایجاد تھی تو بلدیاتی انتخابات میں اس کا استعمال کیوں نہیں ہورہا ہے لیکن وہ دیکھ رہے ہیں کہ انگوٹھوں کے نشانات کی تصدیق کو سیاسی ہتھکنڈے کے طور پر استعمال کیا جارہا ہے، اس کے باوجود وہ یہ کہتے ہیں کہ اپوزیشن جس پر راضی ہیں ہم بھی اسی پر خوش ہیں۔