پاکستان پر تنقید کے بجائے بھارت کو پاکستانی چینلز پرعائد پابندی اٹھانی چاہئے
میں انٹرنیٹ پر ایک طویل عرصے سے پاکستانی نیوز چینل دیکھ رہا ہوں اور یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ صرف کچھ چینلز کو چھوڑکر۔۔۔
میں کوئی ٹی وی کا کیڑا نہیں اور ٹی وی صرف نیوز چینلز اور کبھی کبھار کرکٹ میچ دیکھنے کے لئے کھولتا ہوں، اگرچہ میرے کیبل کنکشن پر تقریباًً 906 چینلز دستیاب ہیں لیکن اسی دوران میری ماں کی طرح لاکھوں بھارتی اپنا فارغ وقت صرف ایک سے دوسرے چینل پر منتقل ہونے، روزانہ کے ڈرامے دیکھنے میں گزار دیتے ہیں ( ایکتا کپور کے ساس بہو کی طرح ڈرامے سب سے زیادہ دیکھے جاتے ہیں)۔
906 چیلنز، ایک بہت بڑی تعداد ہے، ہے نا؟
اب میں چاہتا ہوں کہ آپ اندازہ لگائیں کہ ان میں پاکستانی چینلز کی تعداد کتنی ہے؟ 5، 10، 15، 20، کوئی بھی؟
اس کا صحیح جواب صفر (0) ہے۔
ہاں، بے شک، ایک بھی پاکستانی چینل کو بھارت میں دکھائے جانے کی اجازت نہیں ہے، پھر بھی بھارتی چینلز کثیر تعداد میں پاکستان میں آزادانہ دستیاب ہیں۔
میری والدہ جو کہ بھارتی ٹی وی شوز کے بگڑتے ہوئے معیار پر سخت افسوس کا اظہار کرتی ہیں، پاکستانی چینلز کو تازہ ہوا کا ایک جھونکا تصور کرتے ہوئے ان کا خیر مقدم کریں گی۔ 80 کی دہائی میں بھارت میں پاکستان ٹیلی ویژن کے دیواریں، وارث اور جنگل جیسے ڈراموں کی مقبولیت کو فراموش نہیں کیا جانا چاہیے اور پاکستانی چینلز کے موجودہ پروگراموں میں بھی اتنی صلاحیت ہے کہ وہ ان کی طرح مقبول ہو سکیں۔
https://www.dailymotion.com/video/x3qvgt_pakistani-drama_shortfilms
https://www.dailymotion.com/video/xsia5g_waris-ptv-classic-drama-serial-part-1-12_shortfilms
مگرافسوس کہ بھارت میں یہ صورتحال ہے اور جب گذشتہ روز لاہور ہائیکورٹ نے پاکستان میں بھارتی فلموں اور ٹی وی سیریلز کی نمائش پر یہ کہتے ہوئے پابندی عائد کر دی کہ موجودہ دو طرفہ تجارتی معاہدے کے تحت یہ منفی فہرست میں شامل ہیں تو بھارتی وزیر برائے اطلاعات و نشریات منیش تیواری نے ٹوئٹر پر غصے سے بھر ایک ردعمل دیا کہ
آخر کار، بھارتی سیاستدانوں کو صرف ایک وجہ چاہئے تاکہ وہ پاکستان کو تنقید کا نشانہ بنا سکیں، بالخصوص انتخابی مہم کے دوران۔
میں مسٹر تیواری کی اس بات سے سے اتفاق کرتا ہوں کہ آئیڈیاز پر پابندی نہیں لگائی جاسکتی یا نہیں لگائی جانی چاہیے۔ لیکن کیا ہم جو بولتے ہیں وہ کرسکتے ہیں؟
میں ایک بھارتی شہری ہونے کے ناطے یہ جاننا چاہوں گا کہ کیوں پاکستانی چینلز کو بھارت میں دکھائے جانے کی اجازت نہیں دی جارہی جبکہ عدالت کا یہ فیصلہ آنے سے پہلے تک پاکستان میں متعدد بھارتی چینلز کو بآسانی دستیاب تھے۔
آپ نے میڈیا کے اصولوں کو لچکدار بنانے کے لئے کیا اقدامات کئے کہ پاکستانی چینلز بھارت میں دکھائے جاسکتے؟
آپ نے دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کو بہتر بنانے کے لئے کیا اقدامات کئے؟
اس کا جواب کچھ نہیں۔
میں انٹرنیٹ پر ایک طویل عرصے سے پاکستانی نیوز چینل دیکھ رہا ہوں اور یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ صرف کچھ چینلز کو چھوڑ کر بیشتر بھارت کے حامی ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ میں حال ہی میں ایک پاکستانی نیوز چینل دیکھ رہا تھا جب لائن آف کنٹرول پر پاکستانی اور بھارتی افواج کے درمیان شدید جھڑپیں جاری تھیں۔ جب ایک پاکستانی سیاستدان نے نیوز چینل پر بھارت کے خلاف سخت موقف اختیار کرنے کی کوشش کی تو خاتون اینکر نے اپنے چہرے پر مصنوعی مسکراہٹ سجاتے ہوئے جواب دیا کہ،
افسوس کہ میں نے کبھی کسی بھارتی اینکرز کو اس طرح دوستانہ انداز میں بات کرتے ہوئے نہیں دیکھا۔
پاکستان میں بھارت کی حمایت کی یہ سطح ہے اور یہ ہمدردی ہے کہ دوسری جانب ہم اب بھی ماضی میں رہ رہے ہیں جب پی ٹی وی کی جموں و کشمیر سمیت اندرونی معاملات پر بھارت مخالف مہم پریشانی کی ایک وجہ ہوا کرتی تھی۔
ہمیں اس بات کو نہیں بھولنا چاہئے کہ میڈیا سوچ کو بدلنے کے لئے ایک موثر آلہ ہے اور ہمیں لازماً پاکستان اور بھارت کے عوام کو ایک دوسرے کے قریب لانے کے لیے اس کے صحیح استعمال کی ضروت ہے۔
میں لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے سے بہت مایوس ہوں اور امید کرتا ہوں کہ حکومت پاکستان اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کہ پاکستانی ناظرین بھارتی فلموں، ڈراموں اور ٹی وی مواد سے محروم نہ ہوں مناسب اقدامات اٹھائے گی۔
مجھے اس بات پر تشویش ہے کہ اس پابندی سے پاکستانی فلم اور ٹی وی صنعت میں کوئی مثبت اثر پڑے گا۔
بالی ووڈ کے معروف بینر بالاجی ٹیلی فلم کے سی ای او تنوج گرج نے اس پابندی کے جواب میں ٹوئٹرپر پیغام دیا کہ
دریں اثنا، اس سلسلے میں بھارت کو بھی بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ بہت ہی اچھا ہوگا کہ مسٹر تیواری کی جانب سے پاکستان کو دیا جانے والے سبق پہلے وہ خود اور ان کی حکومت سیکھے۔ بھارتی حکومت کو مزید وقت برباد نہیں کرنا چاہیے اور پاکستانی چینلز پر سے پابندی اٹھا دینی چاہیے۔
آئیے ایک صاف ستھرا کھیل کھیلتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[poll id="184"]
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
906 چیلنز، ایک بہت بڑی تعداد ہے، ہے نا؟
اب میں چاہتا ہوں کہ آپ اندازہ لگائیں کہ ان میں پاکستانی چینلز کی تعداد کتنی ہے؟ 5، 10، 15، 20، کوئی بھی؟
اس کا صحیح جواب صفر (0) ہے۔
ہاں، بے شک، ایک بھی پاکستانی چینل کو بھارت میں دکھائے جانے کی اجازت نہیں ہے، پھر بھی بھارتی چینلز کثیر تعداد میں پاکستان میں آزادانہ دستیاب ہیں۔
میری والدہ جو کہ بھارتی ٹی وی شوز کے بگڑتے ہوئے معیار پر سخت افسوس کا اظہار کرتی ہیں، پاکستانی چینلز کو تازہ ہوا کا ایک جھونکا تصور کرتے ہوئے ان کا خیر مقدم کریں گی۔ 80 کی دہائی میں بھارت میں پاکستان ٹیلی ویژن کے دیواریں، وارث اور جنگل جیسے ڈراموں کی مقبولیت کو فراموش نہیں کیا جانا چاہیے اور پاکستانی چینلز کے موجودہ پروگراموں میں بھی اتنی صلاحیت ہے کہ وہ ان کی طرح مقبول ہو سکیں۔
https://www.dailymotion.com/video/x3qvgt_pakistani-drama_shortfilms
https://www.dailymotion.com/video/xsia5g_waris-ptv-classic-drama-serial-part-1-12_shortfilms
مگرافسوس کہ بھارت میں یہ صورتحال ہے اور جب گذشتہ روز لاہور ہائیکورٹ نے پاکستان میں بھارتی فلموں اور ٹی وی سیریلز کی نمائش پر یہ کہتے ہوئے پابندی عائد کر دی کہ موجودہ دو طرفہ تجارتی معاہدے کے تحت یہ منفی فہرست میں شامل ہیں تو بھارتی وزیر برائے اطلاعات و نشریات منیش تیواری نے ٹوئٹر پر غصے سے بھر ایک ردعمل دیا کہ
پاکستان کے وطن پرستوں کو یہ پتا ہونا چاہئے کہ فلمیں اور ٹی وی سیریلز صرف آئیڈیاز ہیں اور انہیں روکا یا ان پر پابندی نہیں لگائی جاسکتی۔ پاکستانی حکومت کو جتنی جلدی ممکن ہے انہیں منفی فہرست سے ہٹا دینا چاہیئے۔
آخر کار، بھارتی سیاستدانوں کو صرف ایک وجہ چاہئے تاکہ وہ پاکستان کو تنقید کا نشانہ بنا سکیں، بالخصوص انتخابی مہم کے دوران۔
میں مسٹر تیواری کی اس بات سے سے اتفاق کرتا ہوں کہ آئیڈیاز پر پابندی نہیں لگائی جاسکتی یا نہیں لگائی جانی چاہیے۔ لیکن کیا ہم جو بولتے ہیں وہ کرسکتے ہیں؟
میں ایک بھارتی شہری ہونے کے ناطے یہ جاننا چاہوں گا کہ کیوں پاکستانی چینلز کو بھارت میں دکھائے جانے کی اجازت نہیں دی جارہی جبکہ عدالت کا یہ فیصلہ آنے سے پہلے تک پاکستان میں متعدد بھارتی چینلز کو بآسانی دستیاب تھے۔
آپ نے میڈیا کے اصولوں کو لچکدار بنانے کے لئے کیا اقدامات کئے کہ پاکستانی چینلز بھارت میں دکھائے جاسکتے؟
آپ نے دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کو بہتر بنانے کے لئے کیا اقدامات کئے؟
اس کا جواب کچھ نہیں۔
میں انٹرنیٹ پر ایک طویل عرصے سے پاکستانی نیوز چینل دیکھ رہا ہوں اور یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ صرف کچھ چینلز کو چھوڑ کر بیشتر بھارت کے حامی ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ میں حال ہی میں ایک پاکستانی نیوز چینل دیکھ رہا تھا جب لائن آف کنٹرول پر پاکستانی اور بھارتی افواج کے درمیان شدید جھڑپیں جاری تھیں۔ جب ایک پاکستانی سیاستدان نے نیوز چینل پر بھارت کے خلاف سخت موقف اختیار کرنے کی کوشش کی تو خاتون اینکر نے اپنے چہرے پر مصنوعی مسکراہٹ سجاتے ہوئے جواب دیا کہ،
جناب آپ کو ایسا نہیں لگتا کہ ہمیں بھارت کی طرف دوستی کی پیشرفت کرنی چاہیئے؟
افسوس کہ میں نے کبھی کسی بھارتی اینکرز کو اس طرح دوستانہ انداز میں بات کرتے ہوئے نہیں دیکھا۔
پاکستان میں بھارت کی حمایت کی یہ سطح ہے اور یہ ہمدردی ہے کہ دوسری جانب ہم اب بھی ماضی میں رہ رہے ہیں جب پی ٹی وی کی جموں و کشمیر سمیت اندرونی معاملات پر بھارت مخالف مہم پریشانی کی ایک وجہ ہوا کرتی تھی۔
ہمیں اس بات کو نہیں بھولنا چاہئے کہ میڈیا سوچ کو بدلنے کے لئے ایک موثر آلہ ہے اور ہمیں لازماً پاکستان اور بھارت کے عوام کو ایک دوسرے کے قریب لانے کے لیے اس کے صحیح استعمال کی ضروت ہے۔
میں لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے سے بہت مایوس ہوں اور امید کرتا ہوں کہ حکومت پاکستان اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کہ پاکستانی ناظرین بھارتی فلموں، ڈراموں اور ٹی وی مواد سے محروم نہ ہوں مناسب اقدامات اٹھائے گی۔
مجھے اس بات پر تشویش ہے کہ اس پابندی سے پاکستانی فلم اور ٹی وی صنعت میں کوئی مثبت اثر پڑے گا۔
بالی ووڈ کے معروف بینر بالاجی ٹیلی فلم کے سی ای او تنوج گرج نے اس پابندی کے جواب میں ٹوئٹرپر پیغام دیا کہ
دریں اثنا، اس سلسلے میں بھارت کو بھی بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ بہت ہی اچھا ہوگا کہ مسٹر تیواری کی جانب سے پاکستان کو دیا جانے والے سبق پہلے وہ خود اور ان کی حکومت سیکھے۔ بھارتی حکومت کو مزید وقت برباد نہیں کرنا چاہیے اور پاکستانی چینلز پر سے پابندی اٹھا دینی چاہیے۔
آئیے ایک صاف ستھرا کھیل کھیلتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[poll id="184"]
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔