استحکام پاکستان میں ہندوبرادری کا کردار

پاکستان کی بقا وسلامتی اور معاشی واقتصادی سرگرمیوں میں ہندوبرادری اپنا پورا حصہ ڈال رہی ہے۔

پاکستانی پرچم میں موجود سفید رنگ کی پٹی منارٹی کے وجود اور ان کے مساوی حقوق کی ضمانت ہے، یہ رنگ امن ،سلامتی اور جدوجہد پاکستان سے عبارت ہے۔ ہندوئوں سمیت دیگر اقلیتوں نے قیام پاکستان میں بھرپورادا کیا تھا اور اب بھی استحکام پاکستان میںبھی تن ،من، دھن سے اپنا کردار ادا کررہے ہیں۔

یہ دیش ہمارا ہے، اس کی بنیاد رکھنے اور اس کی تعمیر میں ہندو برادری نے عملی جدوجہد کی ہے۔آج کا المیہ یہ ہے کہ ایسا منفی تاثر ابھارنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ پاکستان میں اقلیتیں غیر محفوظ ہیں،جب کہ حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔ راقم الحروف کے ذہن میں یہ بات تھی کہ اس موضوع پر چندتاریخی حقائق پیش کروں تاکہ دھند صاف ہواور ہرطرف اجالا ہوجائے۔ تاریخ کے مطالعے سے یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ1931میں دوسری گول میز کانفرنس کے دوران سر آغا خان کی قیادت میں ایک معاہدہ طے پایا جو تاریخ میں ''اقلیتوں کا معاہدہ'' کے عنوان سے درج ہوا اور یوں اقلیتوں نے معاہدے کی پاسداری کرتے ہوئے مشترکہ عملی جدوجہد میں اپنا حصہ ڈالا۔

جدوجہد آزادی جب 23مارچ 1940 تک آپہنچی تو لاہور میں تاریخ ساز قرارداد پاکستان پیش ہوئی تو اس اجلاس میں منارٹی کی نمایندگی جنھوں نے کی ان کے نام ستیا پرکاش سنگھا، سی ای گبن، ایم ایل رلیا رام، جوشو افصل الدین، الفریڈ پرشاد، ایف ای چوہدری، بہادر ایس پی سنگھا، آر اے گومز، ایس ایس البرٹ اور راجکماری امرت کور ہیں ۔

قیام پاکستان کے لیے تاریخی جدوجہد اپنے بام عروج پر پہنچی آزاد فضائوں میں سب نے سانس لیا تو پاکستان کی دستور ساز اسمبلی کی صدارت شیڈول کاسٹ رہنما جوگندر ناتھ منڈل نے کی جو کہ پاکستان کے پہلے وزیر قانون بھی تھے۔ان کے علاوہ کرن شنکر رائے، دھیریندر ناتھ دتہ، پریم ہری ورما، راج کمار چکرورتی، سرس چٹو پادھینا، بھویندرکمار دتہ،چندر موجدار، بیروت چندرمنڈل، سری ڈی رائے، نارائن سانیال، پریندر کار،گنگا سرن، لال اوتار، نارائن گجرال، بھیم سین، سی این گبن، بی ایل رلیا رام جیسے رہنما بھی شریک تھے۔ تاریخ بھری ہوئی ہے ایسے حقائق سے کس کس کا ذکر کیا جائے ۔

سندھ کی سرزمین عبارت ہے، محبت سے ۔ انسان دوستی اور بین المذاہب ہم آہنگی کا اگر آپ نے عملی مشاہدہ کرنا ہوتو تھرپارکر تشریف لائیں، کیونکہ پاکستان میں ہندو برادری کا سب سے بڑا ضلع ہے،مٹھی اور اسلام کوٹ تحصیلوں میں بالترتیب 80 تا0 9 فیصد ہندو برادری آبادہے ، تھرپارکر کو ایک منفرد اعزاز بھی حاصل ہے کہ یہ پاکستان کا سب سے پرامن علاقہ مانا جاتاہے۔ مسلمان اور ہندو ایک دوسرے کا دل سے حد درجہ احترام کرتے ہیں۔


غربت اور بے روزگاری کے باوجود تھر پارکر میں جرائم کی شرح سب سے کم ہے۔ لیکن مقام افسوس ہے کہ امن پسند لوگوں کے لیے زندگی کی بنیادی ضروریات کا اس دور میں بھی فقدان ہے۔ تھر میں قحط سالی، بھوک اور بیماری موجود ہیں۔ سوال تو یہ ابھرتا ہے کہ کیا یہ علاقہ بھی کبھی اہلِ اقتدار کی توجہ حاصل کر سکے گا؟

یہاں آپ کو رواداری اور انسان دوستی کی زندہ مثالیں دیکھنے کو ملتی ہیں۔مسلم برادری ہندوئوں کی ہولی، دیوالی اور بیساکھی جیسی تقریبات میں بھرپور شمولیت اختیار کرتی ہے۔ اور ہندؤوں کے مذہبی تہوار جیسے تیجڑی، تھادڑی، نورتا، دیاری اور چیتی چاند کو احترام کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔ جو پُرامن اور مذہبی جوش و خروش سے منائے جاتے ہیں۔اسی طرح مسلمانوں کی عیدین کے موقع پر ہندو برادری خیر سگالی اور محبت ایسے جذبات کا اظہار کرتی ہے۔ ہندو برادری نہ صرف محرم الحرام میں کسی قسم کی کوئی تقریب منعقد نہیں کرتی بلکہ محرم کے جلوس میں شامل ہو کر عزاداروں کو پانی اور کھانا بھی مہیا کرتی ہے۔

لہذا یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ چند واقعات کو بنیاد بنا کر بین الاقوامی طور پر پاکستان کو تنہا کرنے کی سازش اور پروپیگنڈے کے سوا کچھ نہیں ہے۔مذہبی منافرت کس ملک میں نہیں ہے؟ پاکستان میں جتنے بھی مذہبی نوعیت کے واقعات ہوئے تو اس میں عوام سے زیادہ قصور ان لوگوں کا تھا جو مذہبی جذبات کو مشتعل کرکے اپنے مقاصد کا حصول چاہتے ہیں، پاکستان میں رہنے والی تمام مذہبی کمیونٹیز سے زیادہ مسلمانوں کو سب سے زیادہ دہشت گردی کا نشانہ بنایا جاتا ہے، منارٹیز کی عبادت گاہوں سے زیادہ مسلمانوں کے مقدس مقامات، مساجد، مزارعات، قبرستان، یہاں تک کہ جنازوں تک کو بھی دہشت گردی کا نشانہ بنایا گیا ہے۔

بانی پاکستان قائداعظم نے نئے وطن میں اقلیتوں کو تحفظ اورحقوق کی بھرپور یقینی دہانی کروائی تھی ، ہم اس پر کامل یقین رکھتے ہیں۔ لہذا میں مودبانہ گزارش کرنا چاہتا ہوں، پاکستان میںاقلیتوں کے مسائل کا حل ان کے نمایندوں کے پاس ہے، پاکستان میں غیر مسلموں کے سماجی مسائل کے حل کے لیے ان سے تجاویز لے کر آئین کا حصہ بنانا چاہیے۔ پاکستان نے ہندوؤں کی دیوالی میں سرکاری طور پر تعطیل کا اعلان کر کے فراخ دلی و مساوات کی اچھی مثال قائم کی ہے۔

پاکستان کی بقا وسلامتی اور معاشی واقتصادی سرگرمیوں میں ہندوبرادری اپنا پورا حصہ ڈال رہی ہے،ہم اپنے وطن کو خوشحال اور ترقی یافتہ دیکھنا چاہتے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہندو برادری اپنے حقوق کے لیے اپنی ہی ذات، کاسٹ سے اپنے نمایندہ منتخب کریں تا کہ ان کے حقیقی مسائل سے پاکستان کے عوام بھی درست آگاہ ہو سکیں اور بے بنیاد پروپیگنڈوں سے غلط فہمی پیدا نہ ہو۔ ہندو برادری نے قیام پاکستان میں اپنا بھرپور کردار ادا کیا تھا اور آج استحکام وتعمیر پاکستان کے لیے کوشاں ہے، کیونکہ یہ ہمارا وطن ہے اور آئین پاکستان کے تحت ہمیں بنیادی حقوق حاصل ہیں ، البتہ اگر کچھ مسائل درپیش ہیں تو ان کا حل ملکر نکالنا ہمارا اولین فرض ہے۔
Load Next Story