نیا شہرمبارک مگر
ہمارے ہاں ایسی کئی مثالیں موجود ہیں کہ جانے والی حکومتوں کے پروجیکٹس کو نئی منتخب حکومتیں اہمیت نہیں دیتیں۔
لاہورکے مضافات میں راوی ریور فرنٹ اربن پروجیکٹ کا وزیر اعظم پاکستان عمران خان نے سنگ بنیاد رکھدیا ہے، یہ ملک میں اسلام آباد کی تعمیرکے بعد دوسرا نیا شہر ہوگا۔ اسلام آباد ایوب خان کے سنہری دورکی یادگار ہے، اب اگر راوی کے کنارے یہ نیا شہر تعمیر ہوجاتا ہے تو یہ پاکستان تحریک انصاف کا کارنامہ قرار دیا جائے گا۔
اس نئے شہر میں عمران خان کی دلچسپی اور لگن سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اسے بسا کر تاریخ میں اپنا نام درج کرانا چاہتے ہیں لیکن نیا شہر بسانا اتنا آسان نہیں ہے، اس کے لیے کثیر فنڈزکی ضرورت ہوگی۔ اسلام آباد کی تعمیر پر اربوں روپے خرچ ہوئے تھے۔ اس وقت پاکستان کا قومی خزانہ بھرا ہوا تھا۔ امریکی ایڈکی بھرمار تھی پھر عالمی مالیاتی اداروں سے قرض کا حصول بھی آسان تھا اس وقت ملک میں کرپشن کا نام و نشان بھی نہیں تھا، تاہم اس وقت ملکی خزانے کا حال سب پر ہی عیاں ہے۔ کسی طرح قرض حاصل کرکے ملک کے کام چلائے جا رہے ہیں اگر قرضے نہ ملیں تو ملک کو چلانا محال ہو جائے۔
کہا جا رہا ہے کہ سابقہ حکومتوں نے اتنی کرپشن کی ہے کہ ملک کی معیشت کا بھٹہ بٹھا دیا ہے تو جب ملک کا یہ حال ہے تو پھر نئے شہرکوکیسے تعمیر کیا جائے گا۔ چنانچہ نئے شہرکے بسانے کا معاملہ سیاسی تو ہو سکتا ہے اس میں عوام کا موجودہ حالات میں دلچسپی لینا مشکل ہے۔ تحریک انصاف کو ابھی اپنی انتخابی تحریک کے دوران عوام سے کیے گئے وعدوں کے مطابق ملک سے بے روزگاری کو ختم کرنا اور بے گھر خاندانوں کو بسانا ہے۔ گھروں اورنوکریوں کی آس میں جن لوگوں نے ووٹ دیے تھے حقیقت یہ ہے کہ اب وہ مایوس ہو چکے ہیں تاہم حکومت ضرور اپنے وعدوں کو پورا کرنے کے لیے پرعزم نظر آتی ہے۔
موجودہ سخت مالی مشکلات کے اس دور میں راوی ریور پروجیکٹ کا سنگ بنیاد رکھنا ایک بولڈ اقدام کہا جاسکتا ہے۔ اس پروجیکٹ کی تکمیل کے لیے اربوں روپوں کے خرچ کے علاوہ کئی سال کا عرصہ درکار ہوگا۔ ہمارا ملک ایک جمہوری ملک ہے یہاں ہر پانچ سال بعد عام انتخابات منعقد ہوتے ہیں اورحکومتیں بدل جاتی ہیں بعض دفعہ وہ اپنی مدت پوری بھی نہیں کر پاتی ہیں۔ اس وقت پی ٹی آئی حکومت کے تین سال باقی ہیں، اس کے بعد کیا پتا عوام کس پارٹی کو اپنے ووٹ کے ذریعے ملک میں حکمرانی کا حق عطا کردیں اگر اگلا الیکشن کوئی دوسری سیاسی پارٹی جیت گئی اور اس نے اس نئے شہرکے پروجیکٹ کو اپنی ترجیحات میں شامل نہ کیا تو پھر کیا ہوگا۔
ہمارے ہاں ایسی کئی مثالیں موجود ہیں کہ جانے والی حکومتوں کے پروجیکٹس کو نئی منتخب حکومتیں اہمیت نہیں دیتیں اور وہ اپنے حساب سے نئے پروجیکٹس کو شروع کردیتی ہیں، تو پھر اس پروجیکٹ پر جو بھی رقم موجودہ حکومت خرچ کرے گی، اس کے رائیگاں جانے کا احتمال ہے۔ کچھ لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ کیا ملک کے موجودہ شہروں کے مسائل مکمل نہیں ہے ،کیا لاہور کے تمام شہری مسائل حل ہو چکے ہیں۔
وہاں کے عوام کو تمام شہری سہولیات میسر آچکی ہیں۔ لاہور ہی کیا ملک کا کوئی بھی شہر ایسا نہیں ہے جو تمام ضروری بنیادی سہولتوں سے آراستہ ہو چکا ہو۔ لاہور،کراچی، اسلام آباد جیسے ملک کے بڑے شہروں کی حالت زار پر وہاں کے شہری سو سو آنسو رو رہے ہیں۔ لاہورکو برصغیر کا ایسا تاریخی اور خوبصورت شہر سمجھا جاتا تھا، جس کے بھارت میں شامل نہ ہونے کا پنڈت نہروکو بھی افسوس تھا کلدیپ نیئر نے اپنے ایک کالم میں لکھا تھا۔
میں نے لندن میں ریڈ کلف سے سوال کیا تھا کہ اس نے لاہور بھارت کوکیوں نہیں دیا تو اس کا جواب تھا کہ پاکستان کے حصے میں کوئی بھی اچھا شہر نہیں آ رہا تھا مگر اسے ایک اہم شہر دینا تھا لہٰذا لاہور اسے دینا پڑا۔ آج ہم نے لاہورکی کیا حالت بنا رکھی ہے یہ شہر وہ ترقی نہ کرسکا جو اس کا حق تھا۔ اس کی ناقص منصوبہ بندی کی وجہ سے حالیہ بارشوں نے اسے ڈبو دیا ہے وہاں کے شہری آج بھی جدید بنیادی شہری سہولتوں سے محروم ہیں۔
کراچی ملک کا سب سے بڑا شہر ہونے کے علاوہ ملک کا فنانشل کیپیٹل ہے یہ ملک کو سب سے زیادہ ریونیو مہیا کرتا ہے۔ حال ہی میں ملک کے تمام شہروں سے وصول کیے گئے ٹیکسوں کی ایک تفصیلی رپورٹ حکومتی ادارہ اعداد و شمارکی جانب سے جاری کی گئی ہے۔ اس کے مطابق ملک کے تمام شہروں کے مقابلے میں کراچی سے سب سے زیادہ ریونیو اکٹھا کیا گیا ہے اور یہ صرف اسی دفعہ نہیں ہوا ہے بلکہ ہر سال کراچی نمبر ون پر ہی ہوتا ہے مگر افسوس کہ کراچی کے بنیادی مسائل کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ اس سے مسلسل یتیموں جیسا سلوک کیا جا رہا ہے۔
سندھ حکومت نے جان بوجھ کر اسے کھنڈر بنا دیا ہے شاید اس لیے کہ اسے یہاں سے اس کی مرضی کے مطابق ووٹ نہیں ملتے۔ پاک سرزمین پارٹی کے چیئرمین مصطفیٰ کمال نے درست ہی کہا ہے کہ پیپلز پارٹی نے کراچی کو لاڑکانہ اور حیدرآباد کو موئن جو دڑو بنا دیا ہے۔
کراچی ہی کیا سندھ کے کسی بھی شہرکی حالت تسلی بخش نہیں ہے۔ کراچی کو حالیہ بارشوں نے سخت نقصان پہنچایا ہے۔ یہاں انسانی جانوں کے زیاں کے علاوہ کافی مالی نقصان بھی ہوا ہے۔ سندھ حکومت اس شہرکے مسائل کو خود حل کرنے کے بجائے وفاق سے مدد مانگتی ہے۔ عمران خان خوش قسمتی سے اس شہرکو بہت اہمیت دیتے ہیں انھوں نے کراچی کے عوام کے مطالبے پر اس شہر کے انفرا اسٹرکچرکو درست کرنے کے لیے پہلے 161ارب روپے کے پیکیج کا اعلان کیا تھا مگر ملکی معاشی مسائل کی وجہ سے وہ رقم کراچی کو نہ مل سکی۔
اب انھوں نے حالیہ بارشوں سے شدید تباہی کو دیکھتے ہوئے گیارہ سو ارب روپے کے نئے پیکیج کا اعلان کیا ہے، مگر اس کے اعلان کے دوسرے ہی دن وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات نے اعلان کیا کہ وفاق پیکیج کی رقم کا ایک پیسہ بھی سندھ حکومت کو نہیں دے سکتا کیونکہ ان کے مطابق یہ رقم کرپشن کی نذر ہوسکتی ہے۔ وفاق کے اس بیان پر سندھ حکومت کا کہنا ہے کہ وفاق کا کراچی پیکیج صرف لولی پاپ ہے جب خزانہ خالی ہے تو وہ کراچی پیکیج کے لیے کہاں سے فنڈز مہیا کرے گا۔ سندھ حکومت کو وفاق پر طنزکرنے کا اس لیے موقعہ ملا ہے کہ وہ جب پہلے اعلان کردہ پیکیج کے 161 ارب روپے کراچی کو نہیں دے سکا تو اس سے کئی گنا زیادہ رقم اب کہاں سے فراہم کرے گا۔
حقیقت یہ ہے کہ ملکی وسائل کی کمی کی وجہ سے اس دفعہ کے سالانہ بجٹ میں ترقیاتی کاموں اور دیگر شعبوں کے جائز اخراجات میں بھی کافی کٹوتی کردی گئی ہے۔ اس سے عوامی مسائل کے حل کے سلسلے میں بھی مناسب رقم خرچ نہیں کی جاسکے گی۔ ایسے حالات میں کسی نئے شہرکے بسانے کے پروجیکٹ کا شروع کرنا عجیب سا لگتا ہے۔ چنانچہ ملک کی موجودہ بد ترین معاشی حالت کے پیش نظر حکومت کو نئے شہر بسانے سے پہلے ملک کے تمام چھوٹے بڑے شہروں کی حالت زارکو درست کرنے اور انھیں بنیادی شہری سہولیات فراہم کرنے پر توجہ مرکوزکرنا چاہیے اور ان اہداف کو حاصل کرنے کے بعد ضرورکسی نئے شہرکو بسانے کے لیے سوچا جاسکتا ہے۔
اس نئے شہر میں عمران خان کی دلچسپی اور لگن سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اسے بسا کر تاریخ میں اپنا نام درج کرانا چاہتے ہیں لیکن نیا شہر بسانا اتنا آسان نہیں ہے، اس کے لیے کثیر فنڈزکی ضرورت ہوگی۔ اسلام آباد کی تعمیر پر اربوں روپے خرچ ہوئے تھے۔ اس وقت پاکستان کا قومی خزانہ بھرا ہوا تھا۔ امریکی ایڈکی بھرمار تھی پھر عالمی مالیاتی اداروں سے قرض کا حصول بھی آسان تھا اس وقت ملک میں کرپشن کا نام و نشان بھی نہیں تھا، تاہم اس وقت ملکی خزانے کا حال سب پر ہی عیاں ہے۔ کسی طرح قرض حاصل کرکے ملک کے کام چلائے جا رہے ہیں اگر قرضے نہ ملیں تو ملک کو چلانا محال ہو جائے۔
کہا جا رہا ہے کہ سابقہ حکومتوں نے اتنی کرپشن کی ہے کہ ملک کی معیشت کا بھٹہ بٹھا دیا ہے تو جب ملک کا یہ حال ہے تو پھر نئے شہرکوکیسے تعمیر کیا جائے گا۔ چنانچہ نئے شہرکے بسانے کا معاملہ سیاسی تو ہو سکتا ہے اس میں عوام کا موجودہ حالات میں دلچسپی لینا مشکل ہے۔ تحریک انصاف کو ابھی اپنی انتخابی تحریک کے دوران عوام سے کیے گئے وعدوں کے مطابق ملک سے بے روزگاری کو ختم کرنا اور بے گھر خاندانوں کو بسانا ہے۔ گھروں اورنوکریوں کی آس میں جن لوگوں نے ووٹ دیے تھے حقیقت یہ ہے کہ اب وہ مایوس ہو چکے ہیں تاہم حکومت ضرور اپنے وعدوں کو پورا کرنے کے لیے پرعزم نظر آتی ہے۔
موجودہ سخت مالی مشکلات کے اس دور میں راوی ریور پروجیکٹ کا سنگ بنیاد رکھنا ایک بولڈ اقدام کہا جاسکتا ہے۔ اس پروجیکٹ کی تکمیل کے لیے اربوں روپوں کے خرچ کے علاوہ کئی سال کا عرصہ درکار ہوگا۔ ہمارا ملک ایک جمہوری ملک ہے یہاں ہر پانچ سال بعد عام انتخابات منعقد ہوتے ہیں اورحکومتیں بدل جاتی ہیں بعض دفعہ وہ اپنی مدت پوری بھی نہیں کر پاتی ہیں۔ اس وقت پی ٹی آئی حکومت کے تین سال باقی ہیں، اس کے بعد کیا پتا عوام کس پارٹی کو اپنے ووٹ کے ذریعے ملک میں حکمرانی کا حق عطا کردیں اگر اگلا الیکشن کوئی دوسری سیاسی پارٹی جیت گئی اور اس نے اس نئے شہرکے پروجیکٹ کو اپنی ترجیحات میں شامل نہ کیا تو پھر کیا ہوگا۔
ہمارے ہاں ایسی کئی مثالیں موجود ہیں کہ جانے والی حکومتوں کے پروجیکٹس کو نئی منتخب حکومتیں اہمیت نہیں دیتیں اور وہ اپنے حساب سے نئے پروجیکٹس کو شروع کردیتی ہیں، تو پھر اس پروجیکٹ پر جو بھی رقم موجودہ حکومت خرچ کرے گی، اس کے رائیگاں جانے کا احتمال ہے۔ کچھ لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ کیا ملک کے موجودہ شہروں کے مسائل مکمل نہیں ہے ،کیا لاہور کے تمام شہری مسائل حل ہو چکے ہیں۔
وہاں کے عوام کو تمام شہری سہولیات میسر آچکی ہیں۔ لاہور ہی کیا ملک کا کوئی بھی شہر ایسا نہیں ہے جو تمام ضروری بنیادی سہولتوں سے آراستہ ہو چکا ہو۔ لاہور،کراچی، اسلام آباد جیسے ملک کے بڑے شہروں کی حالت زار پر وہاں کے شہری سو سو آنسو رو رہے ہیں۔ لاہورکو برصغیر کا ایسا تاریخی اور خوبصورت شہر سمجھا جاتا تھا، جس کے بھارت میں شامل نہ ہونے کا پنڈت نہروکو بھی افسوس تھا کلدیپ نیئر نے اپنے ایک کالم میں لکھا تھا۔
میں نے لندن میں ریڈ کلف سے سوال کیا تھا کہ اس نے لاہور بھارت کوکیوں نہیں دیا تو اس کا جواب تھا کہ پاکستان کے حصے میں کوئی بھی اچھا شہر نہیں آ رہا تھا مگر اسے ایک اہم شہر دینا تھا لہٰذا لاہور اسے دینا پڑا۔ آج ہم نے لاہورکی کیا حالت بنا رکھی ہے یہ شہر وہ ترقی نہ کرسکا جو اس کا حق تھا۔ اس کی ناقص منصوبہ بندی کی وجہ سے حالیہ بارشوں نے اسے ڈبو دیا ہے وہاں کے شہری آج بھی جدید بنیادی شہری سہولتوں سے محروم ہیں۔
کراچی ملک کا سب سے بڑا شہر ہونے کے علاوہ ملک کا فنانشل کیپیٹل ہے یہ ملک کو سب سے زیادہ ریونیو مہیا کرتا ہے۔ حال ہی میں ملک کے تمام شہروں سے وصول کیے گئے ٹیکسوں کی ایک تفصیلی رپورٹ حکومتی ادارہ اعداد و شمارکی جانب سے جاری کی گئی ہے۔ اس کے مطابق ملک کے تمام شہروں کے مقابلے میں کراچی سے سب سے زیادہ ریونیو اکٹھا کیا گیا ہے اور یہ صرف اسی دفعہ نہیں ہوا ہے بلکہ ہر سال کراچی نمبر ون پر ہی ہوتا ہے مگر افسوس کہ کراچی کے بنیادی مسائل کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ اس سے مسلسل یتیموں جیسا سلوک کیا جا رہا ہے۔
سندھ حکومت نے جان بوجھ کر اسے کھنڈر بنا دیا ہے شاید اس لیے کہ اسے یہاں سے اس کی مرضی کے مطابق ووٹ نہیں ملتے۔ پاک سرزمین پارٹی کے چیئرمین مصطفیٰ کمال نے درست ہی کہا ہے کہ پیپلز پارٹی نے کراچی کو لاڑکانہ اور حیدرآباد کو موئن جو دڑو بنا دیا ہے۔
کراچی ہی کیا سندھ کے کسی بھی شہرکی حالت تسلی بخش نہیں ہے۔ کراچی کو حالیہ بارشوں نے سخت نقصان پہنچایا ہے۔ یہاں انسانی جانوں کے زیاں کے علاوہ کافی مالی نقصان بھی ہوا ہے۔ سندھ حکومت اس شہرکے مسائل کو خود حل کرنے کے بجائے وفاق سے مدد مانگتی ہے۔ عمران خان خوش قسمتی سے اس شہرکو بہت اہمیت دیتے ہیں انھوں نے کراچی کے عوام کے مطالبے پر اس شہر کے انفرا اسٹرکچرکو درست کرنے کے لیے پہلے 161ارب روپے کے پیکیج کا اعلان کیا تھا مگر ملکی معاشی مسائل کی وجہ سے وہ رقم کراچی کو نہ مل سکی۔
اب انھوں نے حالیہ بارشوں سے شدید تباہی کو دیکھتے ہوئے گیارہ سو ارب روپے کے نئے پیکیج کا اعلان کیا ہے، مگر اس کے اعلان کے دوسرے ہی دن وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات نے اعلان کیا کہ وفاق پیکیج کی رقم کا ایک پیسہ بھی سندھ حکومت کو نہیں دے سکتا کیونکہ ان کے مطابق یہ رقم کرپشن کی نذر ہوسکتی ہے۔ وفاق کے اس بیان پر سندھ حکومت کا کہنا ہے کہ وفاق کا کراچی پیکیج صرف لولی پاپ ہے جب خزانہ خالی ہے تو وہ کراچی پیکیج کے لیے کہاں سے فنڈز مہیا کرے گا۔ سندھ حکومت کو وفاق پر طنزکرنے کا اس لیے موقعہ ملا ہے کہ وہ جب پہلے اعلان کردہ پیکیج کے 161 ارب روپے کراچی کو نہیں دے سکا تو اس سے کئی گنا زیادہ رقم اب کہاں سے فراہم کرے گا۔
حقیقت یہ ہے کہ ملکی وسائل کی کمی کی وجہ سے اس دفعہ کے سالانہ بجٹ میں ترقیاتی کاموں اور دیگر شعبوں کے جائز اخراجات میں بھی کافی کٹوتی کردی گئی ہے۔ اس سے عوامی مسائل کے حل کے سلسلے میں بھی مناسب رقم خرچ نہیں کی جاسکے گی۔ ایسے حالات میں کسی نئے شہرکے بسانے کے پروجیکٹ کا شروع کرنا عجیب سا لگتا ہے۔ چنانچہ ملک کی موجودہ بد ترین معاشی حالت کے پیش نظر حکومت کو نئے شہر بسانے سے پہلے ملک کے تمام چھوٹے بڑے شہروں کی حالت زارکو درست کرنے اور انھیں بنیادی شہری سہولیات فراہم کرنے پر توجہ مرکوزکرنا چاہیے اور ان اہداف کو حاصل کرنے کے بعد ضرورکسی نئے شہرکو بسانے کے لیے سوچا جاسکتا ہے۔