ہیپاٹائٹس فری پاکستان کیلئے مل کر جدوجہد کرنا ہوگی

1کروڑپاکستانی ہیپاٹائٹس کا شکار، متاثرہ ممالک میں پاکستان سر فہرست ہے: ماہرین صحت کا ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں اظہار خیال

1کروڑپاکستانی ہیپاٹائٹس کا شکار، متاثرہ ممالک میں پاکستان سر فہرست ہے: ماہرین صحت کا ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں اظہار خیال ۔ فوٹو : فائل

پاکستان میں اس وقت ایک کروڑ سے زائد افراد ہیپاٹائٹس کا شکار ہیں اور اس حوالے سے پاکستان کا شمار ہیپاٹائٹس سے متاثرہ خطرناک ترین ممالک میں ہوتا ہے۔

اس مرض کی سنگین صورتحال کے پیش نظر کے موقع پر ''ایکسپریس فورم'' میںایک مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں ماہرین صحت نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ فورم کی رپورٹ نذر قارئین ہے۔

ڈاکٹر خالد محمود

(پراجیکٹ منیجر ہیپاٹائٹس کنٹرول پروگرام پنجاب)

رواں سال ہیپاٹائٹس کے عالمی دن (جو کہ ہر برس 28 جولائی کو منایا جاتا ہے) کا پیغام 'ہیپاٹائٹس فری فیوچر' ہے۔ نوازئیدہ بچے ہمارا مستقبل ہیں لہٰذا ہمیں انہیں محفوظ رکھنا ہے۔ بچے کو پیدائش کے 24 گھنٹوں کے اندر اندر حفاظتی ٹیکے لگوائے جائیں اور اس کے ساتھ ساتھ حاملہ ماں کی سکریننگ بھی کی جائے ۔ 'ہیپاٹائٹس فری فیوچر' منصوبے کے 5 ستون ہیں جن میں بچاؤ، ٹیسٹ اور علاج، سب کی شمولیت، پروگرام کو وسیع کرنا اور اسے برقرار رکھنا شامل ہیں۔ ہم اس پر کام کر رہے ہیں اور بچاؤ کیلئے آگاہی دے رہے ہیں۔

مفت ٹیسٹ اور علاج کیا جارہا ہے، دور دراز علاقوں کے لوگوں کو بھی شامل کیا گیا ہے، پروگرام کو وسیع بھی کر رہے ہیں اور کورونا کی وباء کے دوران بھی ہم نے اسے برقرار رکھا ہے۔ ہمارا مائیکرو پری وینشن کا پروگرام بہترین ہے، ہم گھر گھر جا کر مریض ڈھونڈھ رہے ہیں اور ہیپاٹائٹس کو کنٹرول کر رہے ہیں۔ اسے عالمی ادارہ صحت نے بھی سراہا ہے اور دنیا ہمارے کام کی معترف ہے۔

گورنرپنجاب کی ہدایت پر ہم نے سب سے پہلے بہاولپور یونیورسٹی میں تمام طلبہ اور سٹاف کی سکریننگ کی اور متاثرہ افراد کو مفت علاج بھی فراہم کیا۔ ہم ہیپاٹائٹس فری یونیورسٹی پروگرام کے تحت پنجاب کے تمام تعلیمی اداروں کی سکریننگ کریں گے۔پنجاب کے ضلعی و تحصیل ہیڈکوارٹر ہسپتالوں میں 144 کلینک کام کر رہے ہیں ، ان کی تعداد میں اضافہ ضروری ہے۔

ہمارے ہیپاٹائٹس کنٹرول پروگرام کا ماڈل ایجوکیٹ، پریوینٹ، ٹیسٹ اینڈ ٹریٹ ہے اور ہم اس کے تحت ہی ہیپاٹائٹس کے خلاف بڑی لڑائی لڑ رہے ہیں اور اس میں کافی حد تک کامیاب بھی ہوئے ہیں۔کورونا وائرس کی اس مشکل صورتحال میں بھی ہم نے ہیپاٹائٹس کا علاج جاری رکھا جو ہمارے بہترین نظام کا عکاس ہے۔

ہیپاٹائٹس سے متاثرہ ممالک میں ہم پہلے نمبر پر ہیں لہٰذا ہمیں اس کے خلاف بڑی لڑائی لڑنی ہے۔ اس کے لیے ہر شخص کو ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ علامات نے خود نہیں بتانا کہ ہیپاٹائٹس ہے بلکہ اس کیلئے ہمیں خود کو جاننا ہوگا، اپنا ٹیسٹ کروانا ہوگا اور پازیٹیو آنے پر مکمل علاج بھی کروانا ہوگا۔ حکومت ہیپاٹائٹس کے حوالے سے تمام سہولیات مفت فراہم کر رہی ہے۔ گزشتہ برس وزیراعظم ہیپاٹائٹس کنٹرول پروگرام کا اعلان کیا گیا تھاجو آخری مراحل میں ہے۔ 60 ارب روپے کے اس منصوبے پر جلد کام کا آغاز ہوجائے گا جس سے ہیپاٹائٹس کے خاتمے میں مدد ملے گی۔

کورونا وائرس کی وجہ سے فنڈز کا مسئلہ پیدا ہوا تاہم اس بجٹ میں حکومت پنجاب نے ہیپاٹائٹس کنٹرول پروگرام کیلئے 1 ارب روپے مختص کیے ہیں۔ ہیپاٹائٹس پر قابو پانے کیلئے ہمیں عالمی ادارہ صحت اور USAID کا تعاون حاصل ہے، ہم پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے تحت بھی بے شمار کام کر رہے ہیں، ہم نے بہت لمبا سفر طے کیا ہے اور ہمارا پروگرام بھی بہترین ہے، اب ہمیں ٹیکنیکل سپورٹ نہیں بلکہ فنڈز کی ضرورت ہے تاکہ ہیپاٹائٹس کے خاتمے کا مشن پورا ہوسکے۔

پروفیسر ڈاکٹر غیاث النبی طیب

(معروف ماہر امراض معدہ و جگر )

ہیپاٹائٹس سے متاثرہ ممالک میں پاکستان دوسرے نمبر ہے جبکہ پہلے نمبر پر چین ہے کیونکہ اس کی آبادی زیادہ ہے۔ اگر آبادی کے تناسب سے دیکھا جائے تو ہم دنیا میں ہیپاٹائٹس سے متاثرہ ممالک میں سر فہرست ہیں۔ پاکستان میں ہیپاٹائٹس کے پھیلنے کا جائزہ لیں تو ماہرین کے نزدیک ملک میں جب چیچک کے ٹیکے لگائے گئے تھے۔

ا س وقت یہ مرض پھیلا۔ موجودہ تعداد کا جائزہ لیا جائے تو پاکستان میں 1 کروڑ سے زائد افراد ہیپاٹائٹس 'سی' کا شکار ہیں جو بہت بڑی تعداد ہے۔اس وقت دنیا کی توجہ ہیپاٹائٹس 'سی' پر ہے، ہیپاٹائٹس بی، اے اور ای بھی اہم ہیں تاہم ہیپاٹائٹس 'سی' سے جان چھڑوائی جاسکتی ہے۔

ہیپاٹائٹس 'سی' کے ساتھ میرا تعلق 1989ء سے ہے جب آسٹریلیامیں ایک کانفرنس میں پہلی مرتبہ ہیپاٹائٹس 'سی' کا ذکر ہوا تو میرے استاد محتر م پروفیسر نصراللہ چودھری نے مجھے اسائنمنٹ دی کہ ایک نئے وائرس کی تفصیل آئی ہے لہٰذا اس پر تحقیق کرو۔ اس وقت میں نے تحقیق کرکے ابتدائی پیپرز اکٹھے کیے اور ایک پریزینٹیشن دی کہ پاکستان میں ہیپاٹائٹس 'سی' کیا ہوسکتا ہے۔

تب سے اب تک میں ہیپاٹائٹس کے حوالے سے کام کر رہا ہوں۔ 1986ء میں ہیپاٹائٹس کا ایک آدھ کیس ہوتا تھا۔ 1992ء تک ہسپتالوں میں لائنیں لگ گئیں اور 2010ء کے بعد سے ہیپاٹائٹس 'سی' کی وجہ سے لیور کینسر کے کیسز میں اضافہ ہوا۔ اس وقت تک اسلام آباد میں ایک لیور سینٹر نے2ہزار،دوسرے نے 500، لاہور کے سینٹر نے600 جبکہ سندھ کے ایک سینٹر نے 150 لیور ٹرانسپلانٹ کیے اور ابھی مزید کام جاری ہے۔


1995ء میں حکومت پنجاب نے سب سے پہلے ہیپاٹائٹس کنٹرول پروگرام دیا اور ادویات منگوانی شروع کی۔ اس وقت ٹیکے لگائے جاتے تھے، یہ طریقہ علاج مہنگا بھی تھا اور ہر مریض کیلئے موثر بھی نہیں تھا۔ یہ مخصوص مریضوں کو لگائے جاسکتے تھے مگر چھوٹی عمر، شوگر و دیگر بیماریوں میں مبتلا مریضوں کو خاطر خواہ فائدہ نہیں ہوتا تھا اور بیشتر کو لگائے ہی نہیں جاسکتے تھے، نتیجہ یہ نکلا کے ٹیکوں کے سائڈ افیکٹس ومحدود علاج ہونے کی وجہ سے کیس بڑھتے گئے اور 2005ء سے 2010ء تک ہیپاٹائٹس 'سی' ہر گھر کا مسئلہ بن گیا جس کے بعد 10میں سے 1 شخص کو یہ مرض لاحق ہوا۔

انتقال خون، ٹیکے، آلات جراحی، شیونگ ریزر، دانتوں کا برش، تولیہ و دیگر اشیاء سے ہیپاٹائٹس پھیل سکتا ہے۔ ہیپاٹائٹس کا مریض دوسروں کو یہ وائرس منتقل کرسکتا ہے۔اگر کسی خاندان میں ہیپاٹائٹس سی کا کوئی مریض ہے یا کسی کو پہلے ہوا ہو تو وہ پورا خاندان اپنا ہیپاٹائٹس کا ٹیسٹ کروائے اور موثر علاج کی طرف جائے ورنہ اگر یہ دائمی شکل اختیار کر گیا تو مسائل پیدا ہوسکتے ہیں۔

ماں سے نوزائدہ بچے کو ہیپاٹائٹس کی منتقلی کا 6 فیصد امکان ہوتا ہے لہٰذا پیدائش کے 24 گھنٹے کے اندر اندر لازمی ویکسی نیشن کروائیں۔ 2015ء میں ہیپاٹائٹس کی نئی ادویات آئیں تو پنجاب حکومت نے ہیپاٹائٹس کنٹرول پروگرام کو وسیع کیا جس کے بعد تمام ٹیچنگ ہسپتالوں میں ہیپاٹائٹس کلینک بنے، ٹیچنگ گیسٹرو انٹرولوجی یونٹس کی سکیم بنی۔ا

س کے ساتھ ساتھ تمام تحصیل اور ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹرز میں ہیپاٹائٹس کلینک بنے اور PKLI بنایا گیا۔ اس وقت 144 ضلعی و تحصیل ہسپتالوں اور 17 ٹیچنگ ہسپتالوں میں ہیپاٹائٹس کے کلینک موجود ہیں جہاں ہیپاٹائٹس کے حوالے سے خصوصی سٹاف، ادویات و دیگر سہولیات موجود ہیں۔ سرکاری ہسپتالوں میں سالانہ ایک لاکھ تیس ہزار جبکہ نجی ہسپتالوں میں پانچ لاکھ سے زائد ہیپاٹائٹس مریضوں کا علاج ہورہا ہے جو بہت بڑی تعداد ہے اور ابھی اس کپیسٹی کو مزید بڑھایا جارہا ہے۔

حکومت پاکستان نے 2030ء تک ملک سے ہیپاٹائٹس کا خاتمہ کرنے کیلئے عالمی ادارہ صحت سے کمٹمنٹ کی ہے لہٰذا معاشرے کے تمام طبقات کو مل کر ہیپاٹائٹس فری پاکستان بنانا ہوگا۔ 2030ء تک ہیپاٹائٹس سے بچاؤ کے لیے 90 فیصدایسے عوامل کو کنٹرول کریں گے جن سے یہ پھیلتا ہے۔اس میں باربر سیفٹی، انجیکشن سیفٹی، سیف بلڈ ٹرانسفیوژن و دیگر شامل ہیں۔ اس حوالے سے حکومت نے ہیپاٹائٹس ایکٹ اور سیف بلڈ ٹرانسفیوژن ایکٹ منظور کیا۔ یہ تمام کاوشیں ہیپاٹائٹس 'سی' کے پھیلاؤ کو روکنے کیلئے ہے۔ دوسری مرحلہ 'ٹیسٹ اور سب کا علاج' ہے۔

ہم ہیپاٹائٹس کے حوالے سے 5 فیصد سے زائد ممالک کی کیٹگری میں آتے ہیں۔ ان ممالک کیلئے عالمی ادارہ صحت کی تجویز ہے کہ سب کا ٹیسٹ کریں اور علاج کریں۔ اس کے چار طریقے ہیں۔ پہلا یہ کہ آگاہی دی جائے، جس کے گھر میں ہیپاٹائٹس کا کوئی مریض موجود ہے یا کسی نے خون لگوایا ہے تو وہ اپنا ٹیسٹ لازمی کروائے اور پازیٹیو آنے کی صورت میں علاج کروائے۔

دوسرا یہ کہ اگر آپ نے کسی موقع پر خون عطیہ کیا تھا اور بعد میں ہیپاٹائٹس پازیٹیوآگیا تو سسٹم موجود ہے کہ خون لگنے والے کو ٹریس کرکے لوپ میں لاسکتے ہیں۔ تیسرا یہ کہ ہسپتال میں داخل ہوئے ہیں تو سرجری و دیگر علاج سے پہلے ہیپاٹائٹس کا ٹیسٹ لازمی کیا جائے اور اس کی روشنی میں علاج کیا جائے۔ یہ تین طریقے 'میکروالیمی نیشن' ہیں۔ چوتھا طریقہ 'مائیکرو الیمی نیشن ' ہے جس پر کام ہورہا ہے۔اس میں ایسا نظام بنایا گیا ہے کہ ہم خود مریضوں کے پاس جائیں۔ اس حوالے سے گھر گھر جاکر مریض تلاش کیے جا رہے ہیں۔

اس کا پائلٹ پراجیکٹ کامیاب رہا لہٰذا اس طرح ہیپاٹائٹس کا خاتمہ زیادہ جلد اور بہتر طریقے سے ہوسکتا ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے ساتھ ایک اور کمٹمنٹ یہ بھی کی گئی ہے کہ ہم نے ہیپاٹائٹس کے مریضوں کو جگر کی بیماری کی آخری سٹیج اور جگر کے کینسر سے بچانا ہے۔ اس حوالے سے بھی کام جاری ہے۔ ہیپاٹائٹس کی روک تھام کیلئے اب تک تین پی سی ون بن چکے ہیں۔

پہلا 1995ء میں بنا، دوسرا 2017ء میں بنا جبکہ اب تیسرا پی سی ون بن چکا ہے جو آخری مراحل میں ہے۔ اس کی روشنی میں آئندہ 10 برس کام کیا جائے گا۔ وزیراعظم ہیپاٹائٹس کنٹرول پروگرام کا جلد آغاز ہونے والا ہے جس کے بعد صوبائی پروگرام اس سے منسلک ہوجائیں گے تاکہ موثر طریقے سے کام کو آگے بڑھایا جاسکے۔ ہیپاٹائٹس فری دنیا اور ہیپاٹائٹس فری پاکستان کیلئے سب کو مل کر جدوجہد کرنا ہوگا۔

ڈاکٹر بلال ناصر

(کنسلٹنٹ گیسٹرو انٹرولوجسٹ )

ہیپاٹائٹس ہمارے ملک میں 'ایپی ڈیمک' ہے۔ ہمارے 6 فیصد سے زائد افراد ہیپاٹائٹس 'سی' جبکہ 2 فیصد سے زائد ہیپاٹائٹس 'بی' کا شکار ہیں۔ ہیپاٹائٹس 'اے' اور 'ای'، جو دائمی شکل اختیار نہیں کرتے مگر ان سے بھی کافی لوگ متاثر ہوسکتے ہیں۔ دائمی یرقان کے شکار زیادہ تر مریض اس وقت ہمارے پاس آتے ہیں جب بہت زیادہ خرابی ہوچکی ہوتی ہے۔

جلد از جلد تشخیص اور علاج مقصود ہے۔ جلد اور بروقت علاج سے نہ صرف پیچیدگیوں سے بچا جاسکتا ہے بلکہ اس سے ہمارے ہیلتھ سسٹم پر بوجھ بھی کم ہوگا۔ ابتدائی 8 سے 10 برسوں میں اس کی کوئی خاص علامات نہیں ہوتیں۔ جسم میں درد، جوڑوں میں درد، ہلکا بخار، تھکاوٹ ہیپاٹائٹس کی علامات میں شامل ہیں مگر یہ دیگر بیماریوں میں بھی ہوتی ہیں اس لیے لوگ زیادہ توجہ نہیں دیتے۔ اس کی سنگین علامات میں پیٹ میں پانی کا بھرنا، پاؤں کی سوجن، کالا پاخانہ، خون کی قے و دیگر شامل ہیں۔ایسی حالت میں علاج کے امکانات کم ہوجاتے ہیں اور پیچیدگیاں مزید بڑھنے کا خطرہ ہوتا ہے۔

ہیپاٹائٹس کی علامات ظاہر ہونے پر فوری معالج سے رجوع کیا جائے اور تاخیر نہ کی جائے، اگر ابتداء میں ہی تشخیص اور علاج ہوجائے تو بہت سارے مسائل اور پیچیدگیوں سے بچا جاسکتا ہے۔ علامات ظاہر ہونے پر مریض کی سکریننگ کی جاتی ہے۔

پی سی آر کا ٹیسٹ، بیس لائن ٹیسٹ ، ایل ایف ٹی، سی بی سی و دیگر ٹیسٹ کیے جاتے ہیں۔ ان ٹیسٹ سے مرض کی سٹیج کا تعین کیا جاتا ہے اور پھر اس کے مطابق علاج کیا جاتا ہے۔ 97 فیصد ہیپاٹائٹس کے مریضوں کا کامیاب علاج ہوجاتا ہے، اب گولیوں کی شکل میں بھی اس کا علاج ممکن ہے اور یہ طریقہ علاج ہر طرح کے لیے موثر ہے۔

گولیوں سے علاج کا طریقہ موجود ہے جو تین ماہ کیلئے دی جاتی ہیں تاہم مرض کی نوعیت یا مخصوص حالت میں دورانیہ 6ماہ تک بڑھایا جاسکتا ہے۔ہیپاٹائٹس کے ہر مریض کا اس طرح علاج نہیں کیا جاتا بلکہ جن کا پی سی آر پازیٹیو ہوتا ہے ان کو ادویات دی جاتی ہیں۔ یہ ادویات ہر سٹیج کے مریض کو دی جاسکتی ہیں۔ جن کا لیور ٹرانسپلانٹ ہونا ہوتا ہے، انہیں بھی اس سے پہلے ادویات دی جاسکتی ہیں کہ ہیپاٹائٹس کا خاتمہ ہوسکے۔ ہیپاٹائٹس کی شکار حاملہ ماں کے علاج کیلئے بچے کی پیدائش کا انتظار کیا جاتا ہے۔

اس دوران بچے کو منتقلی کا ایک فیصد امکان ہوتا ہے، پیدائش کے 24 گھنٹے کے اندر اندر بچے کی ویکسی نیشن کی جاتی ہے اور پھر ماں کا علاج کیا جاتا ہے تاہم ہیپاٹائٹس 'بی' کا علاج پریگرینسی کے دوران بھی جاری رکھا جاتا ہے کیونکہ اس کی منتقلی کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔ آج کل کورونا وائرس کا مسئلہ ہے جس کی وجہ سے لوگ جاننا چاہتے ہیں کہ کیا کورونا وائرس کے شکار ہیپاٹائٹس کے مریض کو ہیپاٹائٹس کی ادویات دے سکتے ہیں یا نہیں۔اس کا جواب یہ ہے کہ کورونا کا شکار ہونے پر بھی ہیپاٹائٹس کے مریض کی ادویات بند نہیں کر نی چاہیے بلکہ علاج جاری رکھنا چاہیے۔
Load Next Story