کچھ کہاوتوں کے بارے میں
ہم خوش ہوتے ہیں جب کوئی پڑھنے والا ہماری کسی غلطی پر ہماری کلاس لیتا ہے کیوں کہ اس کا صاف مطلب یہی ہوتا ہے کہ۔۔۔
ISLAMABAD:
ہم خوش ہوتے ہیں جب کوئی پڑھنے والا ہماری کسی غلطی پر ہماری کلاس لیتا ہے کیوں کہ اس کا صاف مطلب یہی ہوتا ہے کہ ہمیں صرف پڑھا نہیں جاتا بلکہ نہایت غور اور توجہ سے پڑھا جاتا ہے، سمجھا بھی جاتا ہے اور اس پر تنقیدی نظر بھی رکھی جاتی ہے ایسے پڑھنے والوں کا ہم جتنا بھی شکریہ ادا کریں کم ہے جو ہمارے ساتھ ہماری کوئی غلطی یا کوتاہی شیئر کرتے ہیں
گرچہ ہے سو سو خرابی سے ولے باایں ہمہ
ذکر میرا مجھ سے بہتر ہے کہ اس محفل میں ہے
خانیوال سے ہمارے ایک ایسے ہی قاری نے ہمیں بی جمالو کے ذکر پر کچھ فرمائش کی ہے انھوں نے جو کچھ بتایا ہے اس کا ذکر ہم تفصیل سے تو نہیں کر سکتے کیوں کہ ویسے بھی پاکستانی قوم میں ''نفرت'' کے بڑے بڑے کارخانے دھڑا دھڑ پیداوار دے رہے ہیں خاص طور پر مذہب کے نام پر منافرت کا دھندہ تو گلی گلی میں چل رہا ہے ... اور ویسے بھی ہم مذہبی معاملات سے حتی الوسع دور رہنا پسند کرتے ہیں۔
مذہبی بحث میں نے کی ہی نہیں
فالتو عقل مجھ میں تھی ہی نہیں
جہاں تک بی جمالو کا کردار ہے یہ تقریباً ہر معاشرے میں ہوتا ہے، ہمیں یاد ہے بلیک اینڈ وائٹ زمانے میں اس پر ایک ڈرامہ سیریل بھی چلا تھا یہ ایک ایسی عورت ہوتی ہے جس کی شادی نہیں ہوئی ہے بلکہ یوں کہئے کہ کسی نے اسے گھاس نہیں ڈالی ہوتی، اپنی اس ''محرومی''سے اس کے اندر ایک انتقامی جذبہ پیدا ہو جاتا ہے وہ ہر وقت جلتی بھنتی رہتی ہے کہ
سب کی باراتیں آئیں میری نہیں آئی
راما دہائی ہے دہائی
چنانچہ وہ دوسروں کی گھر گرہستی میں آگ لگانے کو اپنا مشن بنا لیتی ہے جس گھر میں نوکری کرتی ہے وہاں بھس میں چنگاری ڈال اگلے گھر کو برباد کرنے چل دیتی ہے، یاد رہے کہ بی جمالو کے کردار کے لیے شادی سے محرومی اور انتقامی جذبہ بنیادی چیز ہوتی ہے، پشتو میں ایسے لوگوں کو ''سینہہ کا تیر'' کہتے ہیں، سینہہ ایک جنگلی جانور ہوتا ہے جس کے جسم پر بالوں کی جگہ چتکبرے رنگ کے تیر اگے ہوتے ہیں، پتہ نہیں کیسے یہ بات مشہور ہو گئی کہ جس کے گھر میں سینہہ کا تیر پہنچ جاتا ہے وہاں لڑائیاں بہت ہوتی ہیں چنانچہ اگلے زمانوں میں اکثر بدخواہوں کے گھر میں کہیں چھپا کر سینہہ کا تیر رکھ دیتے تھے اور اگر کسی گھر میں لڑائیاں ہوتیں تو لوگ گھر کے کونے کھدرے اور دیواری دراڑوں وغیرہ میں ''سینہہ کا تیر'' تلاش کرتے، چنانچہ اصطلاحاً شر پسند اور لڑانے والے لوگوں کو سینہہ کا تیر کہا جاتا ہے آپ چاہیں تو پاکستان کے لیڈروں کو بلاشک و شبہ سینہہ کا تیر کہہ سکتے ہیں
یہ فتنہ آدمی کی خانہ ویرانی کو کیا کم ہے
ہوئے تم دوست جس کے دشمن اس کا آسماں کیوں ہو
مطلب یہ کہ اس قسم کے کردار ہر معاشرے میں ہوتے ہیں چاہے ان کا نام کچھ بھی ہو لیکن کام ایک ہی ہوتا ہے اب اگر کوئی ابلیسی ذہن ایسے کرداروں کو کسی خاص حوالے سے موسوم کرتا ہے تو یہ اس کے خبث باطن کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں۔ دوسری کہاوت جس میں ہمارے قاری نے گرفت کی ہے وہ ہے نہ تین میں نہ تیرا میں، یہ کہاوت عام طور پر نکمے پن، کسمپرس(کس ما پرس۔کَس کا مطلب ہے کوئی،ما کا مطلب نہیں،پُرس کا مطلب پوچھنا) اور بے کار قسم کے لوگوں کے لیے استعمال کی جاتی ہے ہمیں تو حیرت کا جھٹکا لگا جب ہمارے قاری نے اس کہاوت کو بھی دینی تعصب اور شیطانی ذہنیت کے حوالے سے بہت دور تک اثرات رکھنے والا بتایا، یہ تو ایک عام سی بات ہے کہ کچھ لوگ کسی بھی شمار و قطار میں نہیں ہوتے ہر معاشرے میں ایسے لوگوں کا حوالہ ملتا ہے، پشتو میں اس کے حوالے دو کہانیوں کی صورت میں ملتے ہیں ایسے لوگوں کو بڑھیا کا بیٹا کہا جاتا ہے اور کہانی یہ ہے کہ ایک بڑھیا ایک قبر پر زار و قطار رو رہی تھی اس راستے سے کسی بزرگ کا گزر ہوا۔ انھوں نے بڑھیا سے پوچھا کہ کیا تمہارے بیٹے میں خوبیاں بہت تھیں اس کے اندر ایسی کیا خاص بات تھی؟، بڑھیا نے کہا ... ہائے کیا بتاؤں ... میرا بیٹا نہ کسی برائی میں تھا نہ اچھائی میں اس کا نہ کوئی دشمن تھا نہ کوئی دوست۔ بزرگ نے کہا پھر تم اس نکھٹو کے لیے عبث رو رہی ہو جس کا وجود وعدم وجود برابر تھا جو نہ تین میں تھا نہ تیرا میں، وہ بھی کوئی آدمی ہوتا ہے جس کا نہ کوئی دوست ہو نہ دشمن
بے فائدہ ہی گزرتی ہے ہو گرچہ عمر حضر
حضرت بھی کل کہیں گے کہ ہم کیا کیا کیے
نہ دوست نہ دشمن پرایک حقیقہ یاد آیا، ایوب خان اور فاطمہ جناح کے الیکشن کے سلسلے میں ایک جلسہ پشاور کے چوک یادگار میں ہو رہا تھا اس میں میاں ممتاز محمد دولتانہ نے ایوب خان کی خارجہ پالیسی پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ ایوب خان کہتا ہے ہماری امریکا سے بھی دوستی ہے اور روس سے بھی، چین بھی ہمارا دوست ہے اور روس بھی ... ہماری کسی سے دشمنی نہیں بلکہ سب سے دوستی ہے۔ میں کہتا ہوں کہ بازار میں جس کی سب سے دوستی ہوتی ہے اس کا کوئی دوست نہیں ہوتا
دشمنی نے میری کھویا غیر کو
کس قدر دشمن ہے دیکھا چاہیے
نہ تین میں نہ تیرا میں ... کے پیچھے اکثر ایک اور کہانی بھی بیان کی جاتی ہے کہتے ہیں ایک مشہور و معروف طوائف کواپنے نوکر نے بتایا کہ باہر ایک آدمی ہے جو ملنا چاہتا ہے، طوائف نے پوچھا کیا نام بتایا ہے اس نے ۔ نوکر نے نام بتایا تو طوائف نے نوکر سے کہا جا کر رجسٹر میں دیکھو کہ اس کا نام کس کیٹگری میں ہے۔ طوائف نے اپنے پرستاروں کے باقاعدہ رجسٹر بنائے ہوئے تھے جن میں پرستاروں کو ان کے مرتبے کے مطابق درج کیا جاتا تھا، تین نمبر کا رجسٹر ان لوگوں کے لیے تھا جو خاندانی نواب اور بڑے بڑے لوگ ہوتے تھے، نوکر نے وہ رجسٹر دیکھا تو اس میں اس شخص کا نام نہیں تھا پھر اس نے تیرہ نمبر کا رجسٹر دیکھا جس میں نئے نئے مالدار ہونے والے نو دولتیوں کا اندراج ہوتا تھا، اس میں بھی نام نہیں تھا تو آکر طوائف سے بولا کہ یہ شخص تو نہ تین میں ہے نہ تیرا میں۔ طوائف نے کہا کہ اگر تین میں بھی نہیں ہے اور تیرا میں بھی نہیں ... تو اسے چلتا کر دو یہ کسی کام کا نہیں ہے
لاغر اتنا ہوں کہ گر تو بزم میں ''جا'' دے مجھے
میرا ذمے دیکھ کر گر کوئی بتلا دے مجھے
ویسے اس قاری کے ہم شکر گزار ہیں کہ انھوں نے ہماری معلومات میں اضافہ کیا اور یہ بتایا کہ وہ کہاوتیں امثال اور اقوال زریں بھی ''انسانی ابلیست'' سے خالی نہیں ہیں جن کو ہم اپنے سیدھے سادھے لیکن تجربہ کاربزرگوں کے تجربات کا نچوڑ سمجھے ہوئے ہیں جو ہمارا قیمتی سرمایہ ہیں جو حقیقت میں جواہر ہیں، لیکن شیطانی ذہن تو شیطانی ہوتا ہے کرنے پر آتا ہے تو شہد میں بھی زہر پلا سکتا ہے ؎
رگ و پے میں جب اترے زہر غم پھر دیکھئے کیا ہو
ابھی تو تلخئ کام و دہن کی آزمائش ہے
ہم خوش ہوتے ہیں جب کوئی پڑھنے والا ہماری کسی غلطی پر ہماری کلاس لیتا ہے کیوں کہ اس کا صاف مطلب یہی ہوتا ہے کہ ہمیں صرف پڑھا نہیں جاتا بلکہ نہایت غور اور توجہ سے پڑھا جاتا ہے، سمجھا بھی جاتا ہے اور اس پر تنقیدی نظر بھی رکھی جاتی ہے ایسے پڑھنے والوں کا ہم جتنا بھی شکریہ ادا کریں کم ہے جو ہمارے ساتھ ہماری کوئی غلطی یا کوتاہی شیئر کرتے ہیں
گرچہ ہے سو سو خرابی سے ولے باایں ہمہ
ذکر میرا مجھ سے بہتر ہے کہ اس محفل میں ہے
خانیوال سے ہمارے ایک ایسے ہی قاری نے ہمیں بی جمالو کے ذکر پر کچھ فرمائش کی ہے انھوں نے جو کچھ بتایا ہے اس کا ذکر ہم تفصیل سے تو نہیں کر سکتے کیوں کہ ویسے بھی پاکستانی قوم میں ''نفرت'' کے بڑے بڑے کارخانے دھڑا دھڑ پیداوار دے رہے ہیں خاص طور پر مذہب کے نام پر منافرت کا دھندہ تو گلی گلی میں چل رہا ہے ... اور ویسے بھی ہم مذہبی معاملات سے حتی الوسع دور رہنا پسند کرتے ہیں۔
مذہبی بحث میں نے کی ہی نہیں
فالتو عقل مجھ میں تھی ہی نہیں
جہاں تک بی جمالو کا کردار ہے یہ تقریباً ہر معاشرے میں ہوتا ہے، ہمیں یاد ہے بلیک اینڈ وائٹ زمانے میں اس پر ایک ڈرامہ سیریل بھی چلا تھا یہ ایک ایسی عورت ہوتی ہے جس کی شادی نہیں ہوئی ہے بلکہ یوں کہئے کہ کسی نے اسے گھاس نہیں ڈالی ہوتی، اپنی اس ''محرومی''سے اس کے اندر ایک انتقامی جذبہ پیدا ہو جاتا ہے وہ ہر وقت جلتی بھنتی رہتی ہے کہ
سب کی باراتیں آئیں میری نہیں آئی
راما دہائی ہے دہائی
چنانچہ وہ دوسروں کی گھر گرہستی میں آگ لگانے کو اپنا مشن بنا لیتی ہے جس گھر میں نوکری کرتی ہے وہاں بھس میں چنگاری ڈال اگلے گھر کو برباد کرنے چل دیتی ہے، یاد رہے کہ بی جمالو کے کردار کے لیے شادی سے محرومی اور انتقامی جذبہ بنیادی چیز ہوتی ہے، پشتو میں ایسے لوگوں کو ''سینہہ کا تیر'' کہتے ہیں، سینہہ ایک جنگلی جانور ہوتا ہے جس کے جسم پر بالوں کی جگہ چتکبرے رنگ کے تیر اگے ہوتے ہیں، پتہ نہیں کیسے یہ بات مشہور ہو گئی کہ جس کے گھر میں سینہہ کا تیر پہنچ جاتا ہے وہاں لڑائیاں بہت ہوتی ہیں چنانچہ اگلے زمانوں میں اکثر بدخواہوں کے گھر میں کہیں چھپا کر سینہہ کا تیر رکھ دیتے تھے اور اگر کسی گھر میں لڑائیاں ہوتیں تو لوگ گھر کے کونے کھدرے اور دیواری دراڑوں وغیرہ میں ''سینہہ کا تیر'' تلاش کرتے، چنانچہ اصطلاحاً شر پسند اور لڑانے والے لوگوں کو سینہہ کا تیر کہا جاتا ہے آپ چاہیں تو پاکستان کے لیڈروں کو بلاشک و شبہ سینہہ کا تیر کہہ سکتے ہیں
یہ فتنہ آدمی کی خانہ ویرانی کو کیا کم ہے
ہوئے تم دوست جس کے دشمن اس کا آسماں کیوں ہو
مطلب یہ کہ اس قسم کے کردار ہر معاشرے میں ہوتے ہیں چاہے ان کا نام کچھ بھی ہو لیکن کام ایک ہی ہوتا ہے اب اگر کوئی ابلیسی ذہن ایسے کرداروں کو کسی خاص حوالے سے موسوم کرتا ہے تو یہ اس کے خبث باطن کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں۔ دوسری کہاوت جس میں ہمارے قاری نے گرفت کی ہے وہ ہے نہ تین میں نہ تیرا میں، یہ کہاوت عام طور پر نکمے پن، کسمپرس(کس ما پرس۔کَس کا مطلب ہے کوئی،ما کا مطلب نہیں،پُرس کا مطلب پوچھنا) اور بے کار قسم کے لوگوں کے لیے استعمال کی جاتی ہے ہمیں تو حیرت کا جھٹکا لگا جب ہمارے قاری نے اس کہاوت کو بھی دینی تعصب اور شیطانی ذہنیت کے حوالے سے بہت دور تک اثرات رکھنے والا بتایا، یہ تو ایک عام سی بات ہے کہ کچھ لوگ کسی بھی شمار و قطار میں نہیں ہوتے ہر معاشرے میں ایسے لوگوں کا حوالہ ملتا ہے، پشتو میں اس کے حوالے دو کہانیوں کی صورت میں ملتے ہیں ایسے لوگوں کو بڑھیا کا بیٹا کہا جاتا ہے اور کہانی یہ ہے کہ ایک بڑھیا ایک قبر پر زار و قطار رو رہی تھی اس راستے سے کسی بزرگ کا گزر ہوا۔ انھوں نے بڑھیا سے پوچھا کہ کیا تمہارے بیٹے میں خوبیاں بہت تھیں اس کے اندر ایسی کیا خاص بات تھی؟، بڑھیا نے کہا ... ہائے کیا بتاؤں ... میرا بیٹا نہ کسی برائی میں تھا نہ اچھائی میں اس کا نہ کوئی دشمن تھا نہ کوئی دوست۔ بزرگ نے کہا پھر تم اس نکھٹو کے لیے عبث رو رہی ہو جس کا وجود وعدم وجود برابر تھا جو نہ تین میں تھا نہ تیرا میں، وہ بھی کوئی آدمی ہوتا ہے جس کا نہ کوئی دوست ہو نہ دشمن
بے فائدہ ہی گزرتی ہے ہو گرچہ عمر حضر
حضرت بھی کل کہیں گے کہ ہم کیا کیا کیے
نہ دوست نہ دشمن پرایک حقیقہ یاد آیا، ایوب خان اور فاطمہ جناح کے الیکشن کے سلسلے میں ایک جلسہ پشاور کے چوک یادگار میں ہو رہا تھا اس میں میاں ممتاز محمد دولتانہ نے ایوب خان کی خارجہ پالیسی پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ ایوب خان کہتا ہے ہماری امریکا سے بھی دوستی ہے اور روس سے بھی، چین بھی ہمارا دوست ہے اور روس بھی ... ہماری کسی سے دشمنی نہیں بلکہ سب سے دوستی ہے۔ میں کہتا ہوں کہ بازار میں جس کی سب سے دوستی ہوتی ہے اس کا کوئی دوست نہیں ہوتا
دشمنی نے میری کھویا غیر کو
کس قدر دشمن ہے دیکھا چاہیے
نہ تین میں نہ تیرا میں ... کے پیچھے اکثر ایک اور کہانی بھی بیان کی جاتی ہے کہتے ہیں ایک مشہور و معروف طوائف کواپنے نوکر نے بتایا کہ باہر ایک آدمی ہے جو ملنا چاہتا ہے، طوائف نے پوچھا کیا نام بتایا ہے اس نے ۔ نوکر نے نام بتایا تو طوائف نے نوکر سے کہا جا کر رجسٹر میں دیکھو کہ اس کا نام کس کیٹگری میں ہے۔ طوائف نے اپنے پرستاروں کے باقاعدہ رجسٹر بنائے ہوئے تھے جن میں پرستاروں کو ان کے مرتبے کے مطابق درج کیا جاتا تھا، تین نمبر کا رجسٹر ان لوگوں کے لیے تھا جو خاندانی نواب اور بڑے بڑے لوگ ہوتے تھے، نوکر نے وہ رجسٹر دیکھا تو اس میں اس شخص کا نام نہیں تھا پھر اس نے تیرہ نمبر کا رجسٹر دیکھا جس میں نئے نئے مالدار ہونے والے نو دولتیوں کا اندراج ہوتا تھا، اس میں بھی نام نہیں تھا تو آکر طوائف سے بولا کہ یہ شخص تو نہ تین میں ہے نہ تیرا میں۔ طوائف نے کہا کہ اگر تین میں بھی نہیں ہے اور تیرا میں بھی نہیں ... تو اسے چلتا کر دو یہ کسی کام کا نہیں ہے
لاغر اتنا ہوں کہ گر تو بزم میں ''جا'' دے مجھے
میرا ذمے دیکھ کر گر کوئی بتلا دے مجھے
ویسے اس قاری کے ہم شکر گزار ہیں کہ انھوں نے ہماری معلومات میں اضافہ کیا اور یہ بتایا کہ وہ کہاوتیں امثال اور اقوال زریں بھی ''انسانی ابلیست'' سے خالی نہیں ہیں جن کو ہم اپنے سیدھے سادھے لیکن تجربہ کاربزرگوں کے تجربات کا نچوڑ سمجھے ہوئے ہیں جو ہمارا قیمتی سرمایہ ہیں جو حقیقت میں جواہر ہیں، لیکن شیطانی ذہن تو شیطانی ہوتا ہے کرنے پر آتا ہے تو شہد میں بھی زہر پلا سکتا ہے ؎
رگ و پے میں جب اترے زہر غم پھر دیکھئے کیا ہو
ابھی تو تلخئ کام و دہن کی آزمائش ہے