کراچی آپریشن کے دوران قتل کی سنگین وارداتوں میں ملوث مجرم قانون کی گرفت سے آزاد
آپریشن کے دوران مجرموں نے قتل کی متعدد وارداتوں میں ایک ساتھ کئی افراد کو ہلاک کردیا.
کراچی پولیس کے سربراہ ایڈیشنل آئی جی شاہد حیات نے3 ماہ کے آپریشن کے دوران 10ہزار ملزمان کی گرفتاری کا دعویٰ کیا لیکن ہائی پروفائل کیسز کے ملزمان تاحال قانون کی گرفت سے باہر ہیں اسی آپریشن کے دوران ملزمان نے قتل کی کئی وارداتوں میں ایک ساتھ 2، 4 اور 5 افراد کو ہلاک کیا اور باآسانی فرار ہوگئے ۔
تفصیلات کے مطابق کراچی میں امن و امان کی صورتحال بہتر بنانے کے لیے وفاقی حکومت نے کئی فیصلے کیے اور کراچی پولیس کی قیادت کے علاوہ کئی سینئر افسرکو تبدیل کیا گیا، ڈی آئی جی شاہد حیات نے ستمبر میں شروع ہونے والے آپریشن کے بعد دسمبر تک 3 ماہ کے دوران 10 ہزار ملزمان کی گرفتاری کا دعویٰ کیا لیکن اس دوران کسی بھی ہائی پروفائل کیس کے ملزمان قانون کی گرفت میں نہ آسکے، شہر میں شیخ الحدیث مولانا اسلم شیخو پوری، تحریک انصاف کی سینئر رہنما زہرا شاہد،مجلس وحدت المسلمین کے رہنما علامہ دیدار جلبانی ، لیاری سے تعلق رکھنے والے ظفر بلوچ اور کئی سیاسی و مذہبی رہنمائوں اور کارکنوں کو نامعلوم ملزمان نے سرعام ہلاک کردیا ۔
لیکن کسی بھی وارات کے ملزم پولیس کے ہاتھوں گرفتار نہ ہوسکے آپریشن کے دوران ہی ملزمان نے کئی وارداتوں میں ایک ساتھ 2، 3، 4 حتیٰ کہ 5 افراد کو بھی ایک ساتھ موت کے گھاٹ اتارا ، پیپلز چورنگی پر 2 سگے بھائی ، مسکن چورنگی پر یونیورسٹی کے 2 طالبعلم ، مسکن چورنگی پر ایک ہی خاندان کے 3 افراد ، اورنگی ٹائون میں باپ بیٹا ، نیو کراچی میں میاں بیوی ، جیل خانہ جات کا ڈی ایس پی ، اورنگی ٹائون میں دکان پر 4 افراد اور حتیٰ کہ تھانے کے سامنے ہی پولیس اہلکار کو قتل کیا گیا، بھتہ نہ دینے کی پاداش میں تاجر بھی اسی آپریشن کے دوران نشانہ بنے، ملزمان نے نارتھ ناظم آباد میں مدنی مسجد کے قریب تبلیغی جماعت سے تعلق رکھنے والے 2 غیر ملکی علما سمیت 3 افراد اور آدھے گھنٹے بعد سخی حسن میں ڈبل کیبن گاڑی میں سوار5 افراد کو موت کے گھاٹ اتارا لیکن ہر واردات کے بعد مجرم باآسانی فرار ہوگئے، تیموریہ میں ملزمان نے نہ صرف ایک شخص کو قتل کیا بلکہ اس کا سر کاٹ کر اپنے ہمراہ لے گئے اور دوسرے دن سہراب گوٹھ فلائی اوور سے لٹکادیا، شہریوں کا کہنا ہے کہ مجرم سرعام سڑکوں پر موت بانٹ رہے ہیں جس سے پولیس کی کارکردگی پر سوالیہ نشان لگ گیا ہے کراچی پولیس کے سربراہ شاہد حیات کے دعوے کھوکھلے ثابت ہورہے ہیں۔
تفصیلات کے مطابق کراچی میں امن و امان کی صورتحال بہتر بنانے کے لیے وفاقی حکومت نے کئی فیصلے کیے اور کراچی پولیس کی قیادت کے علاوہ کئی سینئر افسرکو تبدیل کیا گیا، ڈی آئی جی شاہد حیات نے ستمبر میں شروع ہونے والے آپریشن کے بعد دسمبر تک 3 ماہ کے دوران 10 ہزار ملزمان کی گرفتاری کا دعویٰ کیا لیکن اس دوران کسی بھی ہائی پروفائل کیس کے ملزمان قانون کی گرفت میں نہ آسکے، شہر میں شیخ الحدیث مولانا اسلم شیخو پوری، تحریک انصاف کی سینئر رہنما زہرا شاہد،مجلس وحدت المسلمین کے رہنما علامہ دیدار جلبانی ، لیاری سے تعلق رکھنے والے ظفر بلوچ اور کئی سیاسی و مذہبی رہنمائوں اور کارکنوں کو نامعلوم ملزمان نے سرعام ہلاک کردیا ۔
لیکن کسی بھی وارات کے ملزم پولیس کے ہاتھوں گرفتار نہ ہوسکے آپریشن کے دوران ہی ملزمان نے کئی وارداتوں میں ایک ساتھ 2، 3، 4 حتیٰ کہ 5 افراد کو بھی ایک ساتھ موت کے گھاٹ اتارا ، پیپلز چورنگی پر 2 سگے بھائی ، مسکن چورنگی پر یونیورسٹی کے 2 طالبعلم ، مسکن چورنگی پر ایک ہی خاندان کے 3 افراد ، اورنگی ٹائون میں باپ بیٹا ، نیو کراچی میں میاں بیوی ، جیل خانہ جات کا ڈی ایس پی ، اورنگی ٹائون میں دکان پر 4 افراد اور حتیٰ کہ تھانے کے سامنے ہی پولیس اہلکار کو قتل کیا گیا، بھتہ نہ دینے کی پاداش میں تاجر بھی اسی آپریشن کے دوران نشانہ بنے، ملزمان نے نارتھ ناظم آباد میں مدنی مسجد کے قریب تبلیغی جماعت سے تعلق رکھنے والے 2 غیر ملکی علما سمیت 3 افراد اور آدھے گھنٹے بعد سخی حسن میں ڈبل کیبن گاڑی میں سوار5 افراد کو موت کے گھاٹ اتارا لیکن ہر واردات کے بعد مجرم باآسانی فرار ہوگئے، تیموریہ میں ملزمان نے نہ صرف ایک شخص کو قتل کیا بلکہ اس کا سر کاٹ کر اپنے ہمراہ لے گئے اور دوسرے دن سہراب گوٹھ فلائی اوور سے لٹکادیا، شہریوں کا کہنا ہے کہ مجرم سرعام سڑکوں پر موت بانٹ رہے ہیں جس سے پولیس کی کارکردگی پر سوالیہ نشان لگ گیا ہے کراچی پولیس کے سربراہ شاہد حیات کے دعوے کھوکھلے ثابت ہورہے ہیں۔