خواب بھی ہوتی ہے
آج ہم اردوکی ان عام غلطیوں پربات کریں جوہم روزمرّہ زندگی میں کرتے ہیں، لیکن ہمیں پتانہیں لگتاکہ ہم کیاغلطی کررہے ہیں۔
زباں فہمی کالم نمبر 67
وحشت میں ہر اِک نقشہ اُلٹا نظر آتا ہے
مجنوں نظر آتی ہے، لیلیٰ نظر آتا ہے
''تبدیلی سرکار'' نے کئی اعتبار سے تبدیلی کا اہتمام کیا ہے اور جب تک یہ سرکار تبدیل نہیں ہوتی، ہم تبدیلی کے معانی بھی تبدیل کرنے کا نہیں سوچ سکتے۔ ابھی کل کی بات ہے کہ ہمارے وزیراعظم، شہر لاہور کے بالکل ساتھ ہی ایک اور شہر کا سنگ بنیاد رکھنے کی تقریب میں ''کبھی نہ تبدیل ہونے والے'' (یا اُن کے خیال میں ہونے والی) عوام و (زمیں جنبدنہ جنبد کے مصداق، ''کبھی نہ تبدیل ہونے والے'') خواص سے حسب عادت ، ''کبھی نہ تبدیل ہونے والے'' انداز میں خطاب فرمارہے تھے۔ انھوں نے روانی میں فرمایا، یہ ایک چھوٹی سی خوُاب (خُوا.....ب، بجائے خاب) ہوتی ہے۔ اگر اُن کا ''کبھی نہ تبدیل ہونے والا''، فی البدیہ خطاب کا یہ سلسلہ جاری رہا تو اردوزبان وادب کے ''کھاتے'' میں یقیناً کافی تبدیلی آئے گی۔
خیریہ تو ایک وقتی اور غیرارادی طور پر سرزد ہونے والا ایک لسانی لطیفہ ہے جسے جلد بھلادیا جائے گا۔ پہلے تو یہ ہوتا تھا کہ غیراہل زبان، اردو بولتے اور لکھتے ہوئے تذکیر وتانیث کی غلطی کرجاتے تھے، مگر اَب ہمارے یہاں گراوٹ اور زوال کا معاملہ ایسا ہے کہ ہر شعبے سے متعلق مشاہیر (اہل زبان) کی زبان، تذکیروتانیث کی ادائی میں غلطی کرجاتی ہے۔
زیادہ افسوس جب ہوتا ہے، جب کوئی نامور ادیب، شاعر، صحافی یا ''نشریات کار'' (Broadcaster) ایسا کرتا ہے اور پھر ڈھٹائی سے اس پر قایم رہتا ہے۔ جب کوئی اس مقام شہرت تک پہنچ جائے کہ اُس کا کہا اور لکھا ہوا سند اور حرف آخر مانا جائے تو اُسے لب کُشائی اور خامہ فرسائی دونوں عمل میں بہت احتیاط کی ضرورت ہے۔ درس تدریس میں بھی ایسا ہی ہے۔
شاید یہ حکایت 'زباں فہمی' کے قارئین کرام کے لیے قندمکرر ہو، مگر لکھے بغیر چارہ بھی نہیں۔ یہ کوئی سترہ برس پیچھے کی بات ہے۔ خاکسار اُن دنوں ایک بہت معروف نجی درس گاہ سے بطور معلم اردو منسلک تھا۔ اس کالج کی سب سے ''فاضل'' معلمہ اردو کی ایک پرانی درخواست، اتفاق سے میرے ہاتھ آگئی، جس میں انھوں نے اسکول کے کسی نادان طالب علم کی طرح لکھا تھا: ''بخدمت جنابہ وائس پرنسپل صاحبہ''.........یہ اُن معلمہ کی زباں دانی کا ایک نمونہ ہے جن کی ''برسوں کی محنت '' دو بیاضوں میں اس طرح محفوظ تھی کہ پوری پوری شرح کے صفحات کا ٹ کر چسپاں کردیے گئے تھے جنھیں دیکھ کر وہ گزشتہ گیارہ سال سے اعلیٰ ثانوی جماعتوں کے طلبہ و طالبات کو اردو پڑھا رہی تھیں اور بعدازآں بھی مدتوں پڑھاتی رہیں۔ معلوم نہیں کہ اب بھی وہیں ہیں یا کہیں اور اردو کے ساتھ شغل فرمارہی ہیں۔
بہ یک وقت اردو زبان و ادب اور لسانیات میں ایم اے کی اسناد کی حامل، بے چاری اُستانی کو یہ معلوم نہ تھا کہ جناب کی مؤنث نہیں ہوتی اور عربی لفظ جنابہ کا مطلب ہے: ''جُنبی یعنی ناپاک عورت جس پر غسل واجب ہو۔'' لفظ عوام کے غلط استعمال کی بابت کئی بار ذکر ہوا۔ آج ایک کالج کی معلمہ نے واٹس ایپ پر گفتگو کرتے ہوئے، خواص کو بھی مؤنث بناڈالا۔ پہلے اگر کوئی عربی پڑھا ہوا غیراہل زبان مولوی یہ کہتا، تمھارا کتاب کہاں ہے۔
(اس قیاس پر کہ عربی میں یہ مذکر ہے تو اردومیں بھی ہوگا) تو بچے ہنستے تھے، مگر وہ پرانے زمانے کی بات تھی، آج ہمارے یہاں اہل زبان اساتذہ، اہل قلم، اہل سیاست، اداکار، گلوکار، نشریات کار سمیت بہت بڑی تعداد میں ایسے لوگ موجود ہیں جو کسی لفظ کے درست استعمال، بشمول تذکیر وتانیث سے بے خبر ہوتے ہوئے، ٹوکے جانے پر بھی یہ سمجھتے ہیں کہ اس سے کیا فرق پڑتا ہے، بات تو سمجھ میں آتی ہے نا (یا اُن کے الفاظ میں سمجھ آتی ہے)۔ ایک بار پھر یہ عرض کردوں کہ یہ رویہ محض اردو کے ساتھ رَوا رکھا جاتا ہے۔
کوئی پاکستانی انگریزی یا کوئی علاقائی زبان، خواہ سہواً ہی سہی، غلط بول کے تو دکھائے، لوگ اسے خو ب آئینہ دکھاتے ہیں۔ لفظ جناب کی طرح، حضرت بھی بلاامتیازِصنف، مردوعورت دونوں کے لیے استعمال ہوتا ہے (اسلامی تاریخ کے قرون اولیٰ کے تمام مقدس اسماء میں ایسا ہی ہے، مثلاً حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ' اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا، علیٰ ہٰذاالقیاس)، زوج یعنی شریک حیات (ویسے اردو میں زوجہ بھی مستعمل ہے)، یتیم ، کھلاڑی (مزاحاً کھلاڑن کہا جاتا ہے، مگر درست نہیں)، ساتھی، دوست (سہیلی کو دوست کہنا اور پھر جمع دوستیں بنانا، ان دنوں بہت مقبول ہے، مگر غلط ہے)، مسافر (یاد نہیں کہیں کسی نے مسافرہ بھی لکھ دیا تھا، حالانکہ غلط ہے)، دشمن، بچہ (اردومیں بچی مستعمل ہے)، پرندہ، درندہ، چرندہ، صدر، وزیر، وزیراعظم سمیت متعدد الفاظ کی مثال بھی اسی طرح ہے۔
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ مذکر اسماء میں تمام خونی رشتوں کی مؤنث موجود ہے جیسے والد والدہ، باپ ماں، ابا اماں، ابوامی، بھائی بہن، بیٹا بیٹی، چچا چچی، (ویسے غالباً میواتی بولی کے زیرِاثر، ٹی وی کے ایک ڈرامے میں چچا کو چاچُو کہا گیا، پھر تو چل سو چل.... چاچا اور چاچی، پنجابی سے اردو میں دَر آئے ہیں)، تایا تائی (تاؤ پنجابی سے آیا ہے)، ماموں مُمانی، (کسی ہندوستانی فلم کے زیرِاثر ماموں کا مطلب تو بے وقوف رائج ہوگیا ہے، لگے ہاتھو ں ممانی کا بھی کچھ کیا جائے، ورنہ وہ عقل مندی کی علامت کہلائے گی)، دادا دادی (کئی عشرے پہلے کے ایک ڈرامے کے اثر سے دادو اور دادُو کہنے کا غلط رواج بھی چل پڑا)، نانا نانی (وہی معاملہ کہ نانو اور نانُو چل پڑا)، اسی طرح خالہ خالو (ان دنوں تو آنٹی یا آنی اور انکل کہنے کا روا ج ہے۔
یہ آنی ایجاد ہے محترمہ حسینہ معین کی)، پھوپھی پھوپھا ( عام اردو بول چال میں پھُپھو اور پھُپھا تو رائج ہیں، مگر پھُپھڑ پنجابی سے آیا ہے)۔ ہم چونکہ بہت ماڈرن ہوچکے ہیں، اس لیے ہمارے گھروں میں اب انکل اور آنٹی کی بہتات ہے ، پتا ہی نہیں چلتا کہ باپ کی طر ف سے کوئی رشتہ ہے یا ماں کی طرف سے۔ دیگر رشتوں اور متنوع اسماء پر نظر ڈالیں۔
بھائی بھاوج/بھابھی، بیٹا بہو، بیٹی داماد، بھانجابھانجی، بھتیجا بھتیجی، پوتا پوتی، نواسا نواسی، سُسر/خُسر:ساس/خوش دامن، سالا سالی، سمدھی سمدھن، خلیرا بھائی خلیری بہن (خالہ زاد)، ممیرا بھائی ممیری بہن (ماموں زاد) اور پھُپھیرا بھائی پھپھیری بہن (پھوپھی زاد)۔ بعض دیگر اسماء کی مثالیں دیکھیے۔ بندہ بندی/باندی، غلام کنیز، ہمسایہ ہمسائی، صاحب زادہ صاحب زادی، پسر دُختر، کُنوارا کنواری، میاں بیوی، خاوندجورُو، خصم عورت، بیگ بیگم (اصل میں بیغ اور بیغُم یعنی امیر یا سردار اور اس کی بیوی: ترکی)، نواب بیگم، مرد عورت، رنڈوا رانڈ /بیوہ، شہزادہ شہزادی، راجا/راجہ رانی، بادشاہ مَلِکہ، مَلِک ملِکہ، سردار سردارنی (مگر یہ محض بول چال میں رائج ہے)، مہتر مہترانی، جمعدارجمعدارنی، مُلّا مُلّانی، خواجہ خاتون (تلفظ: خاجہ)، استاداُستانی، معلم معلمہ، طالب علم طالبہ، (مگر شاگرد سے شاگردہ بنانا درست نہیں)، حاجی حجّن (میمنی، گجراتی میں حاجیانی)، شاعر شاعرہ ، سلطان سلطانہ، صاحب صاحبہ، ضعیف ضعیفہ، مالک مالکہ /مالکِن، وارث وارثہ، مریض مریضہ، حبیب حبیبہ، محبوب محبوبہ، عاشق عاشقہ (مگر یہ رائج نہیں، اس کے برعکس فاعل مفعول کے اصول پر معشوق سے معشوقہ بناکر رائج کیا گیا)، عزیز عزیزہ (عزیزی فارسی سے آیا ہے۔
نیز عزیزم اور عزیز من)، اور دیگر بے شمار۔گندہ گندی، کالا کالی، گورا گوری، سانولا سانولی، سنہرا سنہری، چِٹّا چِٹّی (اردو میں کم، مگر پنجابی میں عام طور پر مستعمل)۔ رنگوں کے معاملے میں بھی اردو بہت وسیع ہے۔ رنگوں کی بات چل نکلی ہے تو زبان وبیان کا ایک منفرد پہلو دعوت تحقیق دیتا ہے۔ لفظ رنگ مذکر ہے، مگر رنگت مؤنث۔ یہ ساری فہرست سرسری نظر سے دیکھیں اور خود فیصلہ کریں کہ کونسی زبان اس درجہ متنوع ذخیرہ الفاظ میں اردو کا مقابلہ کرسکتی ہے۔
آسمان سے آسمانی (یعنی ہلکا نیلارنگ، دونوں ہی مذکر)، نیل اور نیلم سے نیلا نیلی، پیلا پیلی، ہرا ہری، سفیدسفیدی، (سفیدہ ایک کیمیائی شئے اور ایک پودے کا نام)، اُودا اُودی، بینگن بینگنی (سبزی اور اس سے منسوب رنگ، دونوں مذکر)، مٹیالا مٹیالی، خاک (مؤنث) سے خاکی (مذکر)]لطف کی بات یہ ہے کہ یہ لفظ فرینچ کے توسط سے انگریزی میں داخل ہوا اور آج بھی دونوں زبانوں میں بہ اختلاف تلفظ، مروج ہے۔
فرینچ تلفظ ہے: کاکی۔ کہیے کیسا؟؟ ہم زیادہ انگریز ہیں تو اس کی بجائےDusty brown/Muddy brown کہتے ہیں[۔ گندم گندمی (جنس یعنی فصل اور اس سے منسوب رنگ، دونوں مذکر) گلاب گلابی (پھول اور اس سے منسوب رنگ، نیز شراب کی عرفیت)، اب چونکہ ہم ترقی کرچکے ہیں تو You know، آتشیں گلابی کو Shocking pink کہتے ہیں۔ جامن جامنی (پھل مذکر اور اس سے منسوب رنگ، دونوں مذکر)، عناب عنابی (دونوں مذکر)، قِرمِز قِرمِزی (کیڑا اور اس سے منسوب رنگ، دونوں مذکر)، گیروا گیروی (گیرو سے منسوب، مذکر)، فیروزہ فیروزی (ایک قیمتی پتھر اور اس سے منسوب رنگ، دونوں مذکر)، نارنجی (پھل نارنگی سے منسوب رنگ، مذکر۔ ایک نجی ٹی وی چینل پر پیش کیے جانے والے ترکی ڈرامے میں پھل کو کئی مرتبہ نارنجی کہا گیا، اس سے مترجمین کی زباں دانی کا پتا چلتا ہے)، شفتالو (آڑو کا قدیم فارسی نام اور اس سے منسوب رنگ، دونوں مذکر۔ آج کل تو منھ ٹیڑھا کرکے Peachکہتے ہیں)، ایک پھول ہے فُوشیا (Fuchsia) جس کا رنگ ہلکے گلابی سے شوخ گلابی تک ہوتا ہے، مگر ہم تو شوخ گلابی کو فُوشیا کہتے ہیں۔
یہ پھول ایک جرمن معالج اور معلم Leonhart Fuchs سے منسوب ہے۔ [https://en.wikipedia.org/wiki/Fuchsia]۔ یاد آیا کہ ہم کاسنی (Chicory) کے پھول کی نسبت سے کاسنی رنگ بھی کہتے ہیں۔ طبی اعتبار سے مفید، یہ پھول ہلکے آسمانی نیلے یا مٹیالے نیلے یا کہیں کہیں نسبتاًگہرے نیلے رنگ کا ہوتا ہے یا ''برفانی نیلا'' (Ice-blue)، مگر ہمارے یہاں خواتین Light purple کو کاسنی۔یا۔ ہلکا جامنی کہتی ہیں۔ بنفشہ سے موسوم رنگ بنفشئی کہنے کا رواج نہیں رہا، اب Violetسننے میں آتا ہے۔ ویسے کاسنی اور بنفشہ دونوں ہی دواؤں میں استعمال ہوتے ہیں۔ بیضہ یعنی انڈہ (مذکر) سے بیضوی شکل اور رنگت (مؤنث) بھی اب کم کم سننے میں آتا ہے۔ بیضوی شکل کو تو ہم Oval کہہ کر کام چلاتے ہیں، البتہ بیضوی رنگت کو پتا نہیں کیا کہتے ہیں۔
جانوروں میں بھی تذکیروتانیث طے شدہ ہیں، جیسے گائے بیل، بچھڑا بچھیا، بھینس بھینسا، (البتہ کٹّا مفرد ہے)، بکری بکرا (لیلا مفرد ہے)، کتا کتیا، بلی بلّا، بطخ بطخا، مرغی مرغا (چوزہ مفرد ہے)، ناگ ناگِن (مگر سانپ سے سانپن نہیں ہوتی)، ہرن ہرنی، ہاتھی ہتھنی، لومڑی لومڑ، شیر شیرنی، گدھا گدھی، سؤر سؤرنی (البتہ خنزیر مفرد ہے)، توتا توتی (یہاں فارسی والا طُوطی بمعنی توتا مراد نہیں)، چڑیا چڑا، کوّا کوّی، شکوا شکوی، وغیرہ، البتہ بھیڑ، بگلا، شِکرا، باز، عقاب، شاہین، بلبل، کوئل، گُرسل، اُلّو، گِدھ، نیل گائے، گینڈا، چیتا، تیندوا، سیہہ، مُورخور، بھیڑیاجیسے ناموں کا استعمال دونوں اصناف میں مشترک ہے۔
یہ تمام مثالیں حقیقی تذکیروتانیث کی ہیں، جبکہ غیرحقیقی تذکیر وتانیث سے مراد اُن (بے جان) چیزوں کے لیے تعین صنف کی ہے جنھیں اہل ِزبان اپنے طور پر، مذکر یا مؤنث بولتے ہیں، مثال کے طور پر گیند، (اسی طرح انگریزی Ball)، بَلّا (انگریزی Bat)، ہاکی، فٹ بال، میز (بعض علاقوں کی بولی ٹھولی میں میز مذکر ہے)، کُرسی، الماری (نیز Almirah)، کمرا (کمرہ درست نہیں)، اور ایسے ہی بے شمار الفاظ۔ تمام مہینوں اور دنوں کے نام مذکر ہیں، ماسوائے جمعرات کے، کسی بھی قسم کی آواز کے لیے مستعمل الفاظ مؤنث ہیں، پہاڑوں کے نام مذکر، مگر پہاڑیوں کے مؤنث ، زبانیں تمام مؤنث ، ماسوائے زمین کے تمام سیاروں کے نام مذکر، تمام ستارے مذکر، نمازوں کے نام مؤنث، مقدس الہامی کتب اور صحائف کے اسماء مؤنث، تقریباً تما م دھاتوں کے نام مؤنث، ماسوائے چاندی اور قلعی کے، تمام دریاؤں کے نام مذکر، ماسوائے گنگا اور جمنا (قدیم تاریخ سے مرعوب لوگ دریائے سندھ کو سندھو ندی کہہ کر مؤنث قراردیتے ہیں)، تمام ممالک کے نام مذکر، تمام شہروں کے نام مذکر، ماسوائے دِلّی کے (البتہ دہلی مذکر)، البتہ لفظ ریاست مؤنث ہے۔
اردو زبان وتہذیب کے دو بڑے مراکز دِلّی اور لکھنؤ میں تذکیر وتانیث کے اختلاف کے باوجود، اردو میں اکثر مقامات پر تذکیر وتانیث کا متفق علیہ ہونا بھی مُسلّم اور مشہور ہے، البتہ بعض علاقوں کی بولی ٹھولی میں اختلاف بھی ملتا ہے جیسے بِہار (ہندوستان)، بنگال (دونوں)، اُڑیسہ (اب اوڈیشا) آسام اور پورب کے اُن شہروں میں جو کبھی بہِار کا حصہ تھے یا اب تک اُن سے قریب ہیں (اعظم گڑھ، گورکھ پور، شکارپور، غازی پور) ان مقامات میں بہت سے مشہور مؤنث اسماء کو مذکر بولنے اور لکھنے کا رواج ہے۔ حیدرآباد، دکن/ گردونواح میں چونکہ پنجابی، گوجری اور دکنی نے مل جل کر اردو کی شکل اختیار کی تو اُس علاقے میں بھی شمالی ہند سے تذکیروتانیث کا اختلاف پایا جاتا ہے۔ دِلّی، میرٹھ اور آس پاس کے شہروں میں، جو الفاظ عموماً مذکر بولے جاتے تھے۔
وہ لکھنؤ اور مضافات میں مؤنث قرار پائے۔ سانس دِلّی میں مذکر ہے تو لکھنؤ میں مؤنث (پنجابی بھی اس سے متفق ہے)، دِلّی میں دہی مذکر ہے تو لکھنؤ اور پنجاب میں مؤنث، ایماء، مانند اور اس طرح کے متعدد الفاظ کا معاملہ یہی ہے۔ پنجابی، ہندکو، سرائیکی اور پنجابی کی مختلف شاخوں میں تذکیر وتانیث کہیں اردو کے مطابق تو کہیں اس کے برعکس ہے، مگر یا د رکھیں کہ جب اردو بولی اور لکھی جائے گی تو معیار، اہل زبان اور لغت کی بنیاد پر مانا جائے گا جیسے اردو میں درد ہوتا ہے۔
لالچ ہوتا ہے، مروڑ اُٹھتا ہے وغیرہ، خواہ پنجابی میں برعکس ہو۔ زبان کے بگاڑ کے ضمن میں ایک دورازکار حوالہ بھی ملاحظہ فرمائیں۔ اپنی نوجوانی میں جوش ملیح آبادی کے زمانہ دہریت کا یہ قول سن کر بہت طیش آتا تھا کہ ''یہ کوئی قرآن وحدیث ہے کہ جیسے چاہا، غلط سلط پڑھ دیا''(معاذاللہ).........تو آج کے نازک دور میں اردو بولنے والے اہل زبان و غیر اہل زبان کا معاملہ بھی یہی ہے کہ جیسے چاہا، کچھ بھی کہہ دیا ، لکھ مارا، نہ معلومات کے حصول کی خواہش نہ تصحیح وتحقیق کی لگن۔ ایک معاصر روزنامے میں ایک صاحب اردو زبان وبیان کی اصلاح کے موضوع پر خامہ آرائی فرماتے ہیں۔ محض اتفاقاً اُن کے ایک پرانے کالم پر (آن لائن) نظر پڑی تو دل باغ باغ ، بلکہ Garden gardenہوگیا۔ ابتدائی سطور میں فرماتے ہیں:''کوشش کریں گے۔
آج ہم اردو کی اُن عام غلطیوں پر بات کریں جو ہم روزمرّہ زندگی میں کرتے ہیں، لیکن ہمیں پتا نہیں لگتا کہ ہم کیا غلطی کررہے ہیں۔'' اب چونکہ سیکھنے والے کم ہیں اور سکھانے والے بھی خال خال، جو ہیں تو اُن میں بھی بھانت بھانت کے شامل ہیں، لہٰذا ہم ایسے کم مایہ لوگ بھی ماہر شمار کیے جاتے ہیں۔ مرحوم پروفیسر علی حیدرملک کہا کرتے تھے: ''ہم Lilliputiansکے عہد میں جی رہے ہیں۔'' اُن کا اشارہ Jonathan Swiftکے مشہور سفرنامے Gulliver's Travelsکے ایک فرضی جزیرے Lilliput میں رہنے والے بونوں کی طرف تھا۔ مختصر لفظوں میں وضاحت یہ ہے کہ ہر شعبے میں قحط الرجال ہے اور ''اندھوں میں کانا راجا'' قسم کی مخلوق نمایاں نظر آتی ہے۔ اللہ بس، باقی ہوس!
وحشت میں ہر اِک نقشہ اُلٹا نظر آتا ہے
مجنوں نظر آتی ہے، لیلیٰ نظر آتا ہے
''تبدیلی سرکار'' نے کئی اعتبار سے تبدیلی کا اہتمام کیا ہے اور جب تک یہ سرکار تبدیل نہیں ہوتی، ہم تبدیلی کے معانی بھی تبدیل کرنے کا نہیں سوچ سکتے۔ ابھی کل کی بات ہے کہ ہمارے وزیراعظم، شہر لاہور کے بالکل ساتھ ہی ایک اور شہر کا سنگ بنیاد رکھنے کی تقریب میں ''کبھی نہ تبدیل ہونے والے'' (یا اُن کے خیال میں ہونے والی) عوام و (زمیں جنبدنہ جنبد کے مصداق، ''کبھی نہ تبدیل ہونے والے'') خواص سے حسب عادت ، ''کبھی نہ تبدیل ہونے والے'' انداز میں خطاب فرمارہے تھے۔ انھوں نے روانی میں فرمایا، یہ ایک چھوٹی سی خوُاب (خُوا.....ب، بجائے خاب) ہوتی ہے۔ اگر اُن کا ''کبھی نہ تبدیل ہونے والا''، فی البدیہ خطاب کا یہ سلسلہ جاری رہا تو اردوزبان وادب کے ''کھاتے'' میں یقیناً کافی تبدیلی آئے گی۔
خیریہ تو ایک وقتی اور غیرارادی طور پر سرزد ہونے والا ایک لسانی لطیفہ ہے جسے جلد بھلادیا جائے گا۔ پہلے تو یہ ہوتا تھا کہ غیراہل زبان، اردو بولتے اور لکھتے ہوئے تذکیر وتانیث کی غلطی کرجاتے تھے، مگر اَب ہمارے یہاں گراوٹ اور زوال کا معاملہ ایسا ہے کہ ہر شعبے سے متعلق مشاہیر (اہل زبان) کی زبان، تذکیروتانیث کی ادائی میں غلطی کرجاتی ہے۔
زیادہ افسوس جب ہوتا ہے، جب کوئی نامور ادیب، شاعر، صحافی یا ''نشریات کار'' (Broadcaster) ایسا کرتا ہے اور پھر ڈھٹائی سے اس پر قایم رہتا ہے۔ جب کوئی اس مقام شہرت تک پہنچ جائے کہ اُس کا کہا اور لکھا ہوا سند اور حرف آخر مانا جائے تو اُسے لب کُشائی اور خامہ فرسائی دونوں عمل میں بہت احتیاط کی ضرورت ہے۔ درس تدریس میں بھی ایسا ہی ہے۔
شاید یہ حکایت 'زباں فہمی' کے قارئین کرام کے لیے قندمکرر ہو، مگر لکھے بغیر چارہ بھی نہیں۔ یہ کوئی سترہ برس پیچھے کی بات ہے۔ خاکسار اُن دنوں ایک بہت معروف نجی درس گاہ سے بطور معلم اردو منسلک تھا۔ اس کالج کی سب سے ''فاضل'' معلمہ اردو کی ایک پرانی درخواست، اتفاق سے میرے ہاتھ آگئی، جس میں انھوں نے اسکول کے کسی نادان طالب علم کی طرح لکھا تھا: ''بخدمت جنابہ وائس پرنسپل صاحبہ''.........یہ اُن معلمہ کی زباں دانی کا ایک نمونہ ہے جن کی ''برسوں کی محنت '' دو بیاضوں میں اس طرح محفوظ تھی کہ پوری پوری شرح کے صفحات کا ٹ کر چسپاں کردیے گئے تھے جنھیں دیکھ کر وہ گزشتہ گیارہ سال سے اعلیٰ ثانوی جماعتوں کے طلبہ و طالبات کو اردو پڑھا رہی تھیں اور بعدازآں بھی مدتوں پڑھاتی رہیں۔ معلوم نہیں کہ اب بھی وہیں ہیں یا کہیں اور اردو کے ساتھ شغل فرمارہی ہیں۔
بہ یک وقت اردو زبان و ادب اور لسانیات میں ایم اے کی اسناد کی حامل، بے چاری اُستانی کو یہ معلوم نہ تھا کہ جناب کی مؤنث نہیں ہوتی اور عربی لفظ جنابہ کا مطلب ہے: ''جُنبی یعنی ناپاک عورت جس پر غسل واجب ہو۔'' لفظ عوام کے غلط استعمال کی بابت کئی بار ذکر ہوا۔ آج ایک کالج کی معلمہ نے واٹس ایپ پر گفتگو کرتے ہوئے، خواص کو بھی مؤنث بناڈالا۔ پہلے اگر کوئی عربی پڑھا ہوا غیراہل زبان مولوی یہ کہتا، تمھارا کتاب کہاں ہے۔
(اس قیاس پر کہ عربی میں یہ مذکر ہے تو اردومیں بھی ہوگا) تو بچے ہنستے تھے، مگر وہ پرانے زمانے کی بات تھی، آج ہمارے یہاں اہل زبان اساتذہ، اہل قلم، اہل سیاست، اداکار، گلوکار، نشریات کار سمیت بہت بڑی تعداد میں ایسے لوگ موجود ہیں جو کسی لفظ کے درست استعمال، بشمول تذکیر وتانیث سے بے خبر ہوتے ہوئے، ٹوکے جانے پر بھی یہ سمجھتے ہیں کہ اس سے کیا فرق پڑتا ہے، بات تو سمجھ میں آتی ہے نا (یا اُن کے الفاظ میں سمجھ آتی ہے)۔ ایک بار پھر یہ عرض کردوں کہ یہ رویہ محض اردو کے ساتھ رَوا رکھا جاتا ہے۔
کوئی پاکستانی انگریزی یا کوئی علاقائی زبان، خواہ سہواً ہی سہی، غلط بول کے تو دکھائے، لوگ اسے خو ب آئینہ دکھاتے ہیں۔ لفظ جناب کی طرح، حضرت بھی بلاامتیازِصنف، مردوعورت دونوں کے لیے استعمال ہوتا ہے (اسلامی تاریخ کے قرون اولیٰ کے تمام مقدس اسماء میں ایسا ہی ہے، مثلاً حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ' اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا، علیٰ ہٰذاالقیاس)، زوج یعنی شریک حیات (ویسے اردو میں زوجہ بھی مستعمل ہے)، یتیم ، کھلاڑی (مزاحاً کھلاڑن کہا جاتا ہے، مگر درست نہیں)، ساتھی، دوست (سہیلی کو دوست کہنا اور پھر جمع دوستیں بنانا، ان دنوں بہت مقبول ہے، مگر غلط ہے)، مسافر (یاد نہیں کہیں کسی نے مسافرہ بھی لکھ دیا تھا، حالانکہ غلط ہے)، دشمن، بچہ (اردومیں بچی مستعمل ہے)، پرندہ، درندہ، چرندہ، صدر، وزیر، وزیراعظم سمیت متعدد الفاظ کی مثال بھی اسی طرح ہے۔
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ مذکر اسماء میں تمام خونی رشتوں کی مؤنث موجود ہے جیسے والد والدہ، باپ ماں، ابا اماں، ابوامی، بھائی بہن، بیٹا بیٹی، چچا چچی، (ویسے غالباً میواتی بولی کے زیرِاثر، ٹی وی کے ایک ڈرامے میں چچا کو چاچُو کہا گیا، پھر تو چل سو چل.... چاچا اور چاچی، پنجابی سے اردو میں دَر آئے ہیں)، تایا تائی (تاؤ پنجابی سے آیا ہے)، ماموں مُمانی، (کسی ہندوستانی فلم کے زیرِاثر ماموں کا مطلب تو بے وقوف رائج ہوگیا ہے، لگے ہاتھو ں ممانی کا بھی کچھ کیا جائے، ورنہ وہ عقل مندی کی علامت کہلائے گی)، دادا دادی (کئی عشرے پہلے کے ایک ڈرامے کے اثر سے دادو اور دادُو کہنے کا غلط رواج بھی چل پڑا)، نانا نانی (وہی معاملہ کہ نانو اور نانُو چل پڑا)، اسی طرح خالہ خالو (ان دنوں تو آنٹی یا آنی اور انکل کہنے کا روا ج ہے۔
یہ آنی ایجاد ہے محترمہ حسینہ معین کی)، پھوپھی پھوپھا ( عام اردو بول چال میں پھُپھو اور پھُپھا تو رائج ہیں، مگر پھُپھڑ پنجابی سے آیا ہے)۔ ہم چونکہ بہت ماڈرن ہوچکے ہیں، اس لیے ہمارے گھروں میں اب انکل اور آنٹی کی بہتات ہے ، پتا ہی نہیں چلتا کہ باپ کی طر ف سے کوئی رشتہ ہے یا ماں کی طرف سے۔ دیگر رشتوں اور متنوع اسماء پر نظر ڈالیں۔
بھائی بھاوج/بھابھی، بیٹا بہو، بیٹی داماد، بھانجابھانجی، بھتیجا بھتیجی، پوتا پوتی، نواسا نواسی، سُسر/خُسر:ساس/خوش دامن، سالا سالی، سمدھی سمدھن، خلیرا بھائی خلیری بہن (خالہ زاد)، ممیرا بھائی ممیری بہن (ماموں زاد) اور پھُپھیرا بھائی پھپھیری بہن (پھوپھی زاد)۔ بعض دیگر اسماء کی مثالیں دیکھیے۔ بندہ بندی/باندی، غلام کنیز، ہمسایہ ہمسائی، صاحب زادہ صاحب زادی، پسر دُختر، کُنوارا کنواری، میاں بیوی، خاوندجورُو، خصم عورت، بیگ بیگم (اصل میں بیغ اور بیغُم یعنی امیر یا سردار اور اس کی بیوی: ترکی)، نواب بیگم، مرد عورت، رنڈوا رانڈ /بیوہ، شہزادہ شہزادی، راجا/راجہ رانی، بادشاہ مَلِکہ، مَلِک ملِکہ، سردار سردارنی (مگر یہ محض بول چال میں رائج ہے)، مہتر مہترانی، جمعدارجمعدارنی، مُلّا مُلّانی، خواجہ خاتون (تلفظ: خاجہ)، استاداُستانی، معلم معلمہ، طالب علم طالبہ، (مگر شاگرد سے شاگردہ بنانا درست نہیں)، حاجی حجّن (میمنی، گجراتی میں حاجیانی)، شاعر شاعرہ ، سلطان سلطانہ، صاحب صاحبہ، ضعیف ضعیفہ، مالک مالکہ /مالکِن، وارث وارثہ، مریض مریضہ، حبیب حبیبہ، محبوب محبوبہ، عاشق عاشقہ (مگر یہ رائج نہیں، اس کے برعکس فاعل مفعول کے اصول پر معشوق سے معشوقہ بناکر رائج کیا گیا)، عزیز عزیزہ (عزیزی فارسی سے آیا ہے۔
نیز عزیزم اور عزیز من)، اور دیگر بے شمار۔گندہ گندی، کالا کالی، گورا گوری، سانولا سانولی، سنہرا سنہری، چِٹّا چِٹّی (اردو میں کم، مگر پنجابی میں عام طور پر مستعمل)۔ رنگوں کے معاملے میں بھی اردو بہت وسیع ہے۔ رنگوں کی بات چل نکلی ہے تو زبان وبیان کا ایک منفرد پہلو دعوت تحقیق دیتا ہے۔ لفظ رنگ مذکر ہے، مگر رنگت مؤنث۔ یہ ساری فہرست سرسری نظر سے دیکھیں اور خود فیصلہ کریں کہ کونسی زبان اس درجہ متنوع ذخیرہ الفاظ میں اردو کا مقابلہ کرسکتی ہے۔
آسمان سے آسمانی (یعنی ہلکا نیلارنگ، دونوں ہی مذکر)، نیل اور نیلم سے نیلا نیلی، پیلا پیلی، ہرا ہری، سفیدسفیدی، (سفیدہ ایک کیمیائی شئے اور ایک پودے کا نام)، اُودا اُودی، بینگن بینگنی (سبزی اور اس سے منسوب رنگ، دونوں مذکر)، مٹیالا مٹیالی، خاک (مؤنث) سے خاکی (مذکر)]لطف کی بات یہ ہے کہ یہ لفظ فرینچ کے توسط سے انگریزی میں داخل ہوا اور آج بھی دونوں زبانوں میں بہ اختلاف تلفظ، مروج ہے۔
فرینچ تلفظ ہے: کاکی۔ کہیے کیسا؟؟ ہم زیادہ انگریز ہیں تو اس کی بجائےDusty brown/Muddy brown کہتے ہیں[۔ گندم گندمی (جنس یعنی فصل اور اس سے منسوب رنگ، دونوں مذکر) گلاب گلابی (پھول اور اس سے منسوب رنگ، نیز شراب کی عرفیت)، اب چونکہ ہم ترقی کرچکے ہیں تو You know، آتشیں گلابی کو Shocking pink کہتے ہیں۔ جامن جامنی (پھل مذکر اور اس سے منسوب رنگ، دونوں مذکر)، عناب عنابی (دونوں مذکر)، قِرمِز قِرمِزی (کیڑا اور اس سے منسوب رنگ، دونوں مذکر)، گیروا گیروی (گیرو سے منسوب، مذکر)، فیروزہ فیروزی (ایک قیمتی پتھر اور اس سے منسوب رنگ، دونوں مذکر)، نارنجی (پھل نارنگی سے منسوب رنگ، مذکر۔ ایک نجی ٹی وی چینل پر پیش کیے جانے والے ترکی ڈرامے میں پھل کو کئی مرتبہ نارنجی کہا گیا، اس سے مترجمین کی زباں دانی کا پتا چلتا ہے)، شفتالو (آڑو کا قدیم فارسی نام اور اس سے منسوب رنگ، دونوں مذکر۔ آج کل تو منھ ٹیڑھا کرکے Peachکہتے ہیں)، ایک پھول ہے فُوشیا (Fuchsia) جس کا رنگ ہلکے گلابی سے شوخ گلابی تک ہوتا ہے، مگر ہم تو شوخ گلابی کو فُوشیا کہتے ہیں۔
یہ پھول ایک جرمن معالج اور معلم Leonhart Fuchs سے منسوب ہے۔ [https://en.wikipedia.org/wiki/Fuchsia]۔ یاد آیا کہ ہم کاسنی (Chicory) کے پھول کی نسبت سے کاسنی رنگ بھی کہتے ہیں۔ طبی اعتبار سے مفید، یہ پھول ہلکے آسمانی نیلے یا مٹیالے نیلے یا کہیں کہیں نسبتاًگہرے نیلے رنگ کا ہوتا ہے یا ''برفانی نیلا'' (Ice-blue)، مگر ہمارے یہاں خواتین Light purple کو کاسنی۔یا۔ ہلکا جامنی کہتی ہیں۔ بنفشہ سے موسوم رنگ بنفشئی کہنے کا رواج نہیں رہا، اب Violetسننے میں آتا ہے۔ ویسے کاسنی اور بنفشہ دونوں ہی دواؤں میں استعمال ہوتے ہیں۔ بیضہ یعنی انڈہ (مذکر) سے بیضوی شکل اور رنگت (مؤنث) بھی اب کم کم سننے میں آتا ہے۔ بیضوی شکل کو تو ہم Oval کہہ کر کام چلاتے ہیں، البتہ بیضوی رنگت کو پتا نہیں کیا کہتے ہیں۔
جانوروں میں بھی تذکیروتانیث طے شدہ ہیں، جیسے گائے بیل، بچھڑا بچھیا، بھینس بھینسا، (البتہ کٹّا مفرد ہے)، بکری بکرا (لیلا مفرد ہے)، کتا کتیا، بلی بلّا، بطخ بطخا، مرغی مرغا (چوزہ مفرد ہے)، ناگ ناگِن (مگر سانپ سے سانپن نہیں ہوتی)، ہرن ہرنی، ہاتھی ہتھنی، لومڑی لومڑ، شیر شیرنی، گدھا گدھی، سؤر سؤرنی (البتہ خنزیر مفرد ہے)، توتا توتی (یہاں فارسی والا طُوطی بمعنی توتا مراد نہیں)، چڑیا چڑا، کوّا کوّی، شکوا شکوی، وغیرہ، البتہ بھیڑ، بگلا، شِکرا، باز، عقاب، شاہین، بلبل، کوئل، گُرسل، اُلّو، گِدھ، نیل گائے، گینڈا، چیتا، تیندوا، سیہہ، مُورخور، بھیڑیاجیسے ناموں کا استعمال دونوں اصناف میں مشترک ہے۔
یہ تمام مثالیں حقیقی تذکیروتانیث کی ہیں، جبکہ غیرحقیقی تذکیر وتانیث سے مراد اُن (بے جان) چیزوں کے لیے تعین صنف کی ہے جنھیں اہل ِزبان اپنے طور پر، مذکر یا مؤنث بولتے ہیں، مثال کے طور پر گیند، (اسی طرح انگریزی Ball)، بَلّا (انگریزی Bat)، ہاکی، فٹ بال، میز (بعض علاقوں کی بولی ٹھولی میں میز مذکر ہے)، کُرسی، الماری (نیز Almirah)، کمرا (کمرہ درست نہیں)، اور ایسے ہی بے شمار الفاظ۔ تمام مہینوں اور دنوں کے نام مذکر ہیں، ماسوائے جمعرات کے، کسی بھی قسم کی آواز کے لیے مستعمل الفاظ مؤنث ہیں، پہاڑوں کے نام مذکر، مگر پہاڑیوں کے مؤنث ، زبانیں تمام مؤنث ، ماسوائے زمین کے تمام سیاروں کے نام مذکر، تمام ستارے مذکر، نمازوں کے نام مؤنث، مقدس الہامی کتب اور صحائف کے اسماء مؤنث، تقریباً تما م دھاتوں کے نام مؤنث، ماسوائے چاندی اور قلعی کے، تمام دریاؤں کے نام مذکر، ماسوائے گنگا اور جمنا (قدیم تاریخ سے مرعوب لوگ دریائے سندھ کو سندھو ندی کہہ کر مؤنث قراردیتے ہیں)، تمام ممالک کے نام مذکر، تمام شہروں کے نام مذکر، ماسوائے دِلّی کے (البتہ دہلی مذکر)، البتہ لفظ ریاست مؤنث ہے۔
اردو زبان وتہذیب کے دو بڑے مراکز دِلّی اور لکھنؤ میں تذکیر وتانیث کے اختلاف کے باوجود، اردو میں اکثر مقامات پر تذکیر وتانیث کا متفق علیہ ہونا بھی مُسلّم اور مشہور ہے، البتہ بعض علاقوں کی بولی ٹھولی میں اختلاف بھی ملتا ہے جیسے بِہار (ہندوستان)، بنگال (دونوں)، اُڑیسہ (اب اوڈیشا) آسام اور پورب کے اُن شہروں میں جو کبھی بہِار کا حصہ تھے یا اب تک اُن سے قریب ہیں (اعظم گڑھ، گورکھ پور، شکارپور، غازی پور) ان مقامات میں بہت سے مشہور مؤنث اسماء کو مذکر بولنے اور لکھنے کا رواج ہے۔ حیدرآباد، دکن/ گردونواح میں چونکہ پنجابی، گوجری اور دکنی نے مل جل کر اردو کی شکل اختیار کی تو اُس علاقے میں بھی شمالی ہند سے تذکیروتانیث کا اختلاف پایا جاتا ہے۔ دِلّی، میرٹھ اور آس پاس کے شہروں میں، جو الفاظ عموماً مذکر بولے جاتے تھے۔
وہ لکھنؤ اور مضافات میں مؤنث قرار پائے۔ سانس دِلّی میں مذکر ہے تو لکھنؤ میں مؤنث (پنجابی بھی اس سے متفق ہے)، دِلّی میں دہی مذکر ہے تو لکھنؤ اور پنجاب میں مؤنث، ایماء، مانند اور اس طرح کے متعدد الفاظ کا معاملہ یہی ہے۔ پنجابی، ہندکو، سرائیکی اور پنجابی کی مختلف شاخوں میں تذکیر وتانیث کہیں اردو کے مطابق تو کہیں اس کے برعکس ہے، مگر یا د رکھیں کہ جب اردو بولی اور لکھی جائے گی تو معیار، اہل زبان اور لغت کی بنیاد پر مانا جائے گا جیسے اردو میں درد ہوتا ہے۔
لالچ ہوتا ہے، مروڑ اُٹھتا ہے وغیرہ، خواہ پنجابی میں برعکس ہو۔ زبان کے بگاڑ کے ضمن میں ایک دورازکار حوالہ بھی ملاحظہ فرمائیں۔ اپنی نوجوانی میں جوش ملیح آبادی کے زمانہ دہریت کا یہ قول سن کر بہت طیش آتا تھا کہ ''یہ کوئی قرآن وحدیث ہے کہ جیسے چاہا، غلط سلط پڑھ دیا''(معاذاللہ).........تو آج کے نازک دور میں اردو بولنے والے اہل زبان و غیر اہل زبان کا معاملہ بھی یہی ہے کہ جیسے چاہا، کچھ بھی کہہ دیا ، لکھ مارا، نہ معلومات کے حصول کی خواہش نہ تصحیح وتحقیق کی لگن۔ ایک معاصر روزنامے میں ایک صاحب اردو زبان وبیان کی اصلاح کے موضوع پر خامہ آرائی فرماتے ہیں۔ محض اتفاقاً اُن کے ایک پرانے کالم پر (آن لائن) نظر پڑی تو دل باغ باغ ، بلکہ Garden gardenہوگیا۔ ابتدائی سطور میں فرماتے ہیں:''کوشش کریں گے۔
آج ہم اردو کی اُن عام غلطیوں پر بات کریں جو ہم روزمرّہ زندگی میں کرتے ہیں، لیکن ہمیں پتا نہیں لگتا کہ ہم کیا غلطی کررہے ہیں۔'' اب چونکہ سیکھنے والے کم ہیں اور سکھانے والے بھی خال خال، جو ہیں تو اُن میں بھی بھانت بھانت کے شامل ہیں، لہٰذا ہم ایسے کم مایہ لوگ بھی ماہر شمار کیے جاتے ہیں۔ مرحوم پروفیسر علی حیدرملک کہا کرتے تھے: ''ہم Lilliputiansکے عہد میں جی رہے ہیں۔'' اُن کا اشارہ Jonathan Swiftکے مشہور سفرنامے Gulliver's Travelsکے ایک فرضی جزیرے Lilliput میں رہنے والے بونوں کی طرف تھا۔ مختصر لفظوں میں وضاحت یہ ہے کہ ہر شعبے میں قحط الرجال ہے اور ''اندھوں میں کانا راجا'' قسم کی مخلوق نمایاں نظر آتی ہے۔ اللہ بس، باقی ہوس!