وفاقی اداروں میں نئے علاج کی منظوری دینے کی اہلیت نہیں

پاکستان میں اسی دوا کے استعمال کی اجازت دی جاتی ہے جس کی ترقی یافتہ ممالک میں منظوری دی گئی ہو، ڈاکٹر عبیدعلی

اسپتالوں میں امراض کا غیرمستند علاج جاری ہے،غیرمستندعلاج کے مضر اثرات سے مریضوں کو آگاہ نہیں کیا جاتا،ڈاکٹر طاہرشمسی۔ فوٹو: فائل

پاکستان کے کسی بھی ادارے میں نئے علاج کی منظوری دینے اور نہ ہی ملک میں کسی نئی دوا کو جانچنے کی اہلیت ہے۔

ہمارے ملک میں کسی نئے علاج کی منظوری ترقی یافتہ ممالک سے مشروط ہے، جب تک امریکا، یورپ، جاپان، آسٹریلیا اور کینیڈا کے مجاز اداروں سے منظوری نہیں ملتی اس وقت تک پاکستان میں کوئی بھی نئی دوا یا نیا طریقہ علاج رائج نہیں کیا جاتاکیونکہ ہمارے پاس اہلیت اور تجربے کا فقدان ہے،یہی وجہ سے پاکستان میں ان حوالہ جاتی ممالک سے منظوری سے مشروط دوا اور علاج استعمال کرنے کی اجازت ہوتی ہے۔

پاکستان میں اسی دوا کے استعمال کی اجازت دی جاتی ہے جو کسی ترقی یافتہ ممالک میں استعمال کی گئی ہو اور اس کے استعمال کی منظوری دی گئی ہو،پاکستان میں ڈرگ ریگولیڑی اتھارٹی ادارہ ہے جہاں زیادہ زور ادویات کی رجسٹریشن اور قیمتوں کے تعین پرکیا جاتا ہے۔

ڈریپ کے سابق سینئر افیسر ڈاکٹر عبید علی نے ایکسپریس کو بتایاکہ پاکستان میں وہی دوا منظور کی جاتی ہے جوکسی ترقی یافتہ ممالک میں کامیابی سے استعمال کی جارہی ہو، انھوں نے مزید کہا کہ ہماری تحقیق و پڑتال کو دنیا میں ابھی تک وہ مقام نہیں مل سکا جو نئی دوا کو ترقی یافتہ دنیا میں منظور کراسکے، دونوں صورتحال میں ابھی تک ہم کمزور ہیں۔


انھوں نے مزید کہا کہ پاکستان میں ہر قسم کے طریقہ علاج کو جانچنے کی ذمے داری حکومت کے پاس ہوتی ہے اور پاکستان اپنے آئینی کردار کے عین مطابق یہ ذمے داری ڈرگ ریگولیڑی اتھارٹی کو قانون کے تحت دی گئی ہے، اس اتھارٹی کا ادویات کو جانچنے کا اپنا اختیار ہے، دنیا میں کوئی بھی دوا مختلف سخت ترین اعصاب شکن آزمائشی مراحل سے گزر کر مارکیٹ تک پہنچتی ہے اور ایک نئی دوا کو مارکیٹ تک لانے میں کم ازکم اربوں روپے درکار ہوتے ہیں۔

ڈاکٹر عبید علی نے بتایا کہ کسی نئی دوا کی ایجاد سے لے کر مارکیٹ پہنچانے میں پاکستان کا کوئی قابل ذکر کردار نہیں، دوا بیرون ممالک میں استعمال ہونے کے بعد پاکستان میں لائی جاتی ہے اور پھر ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی اسے پاکستان میں استعمال کرنے کی اجازت دیتی ہے۔

انھوں نے کہا کہ اس وقت پاکستان ترقی یافتہ ممالک سے ایک صدی پیچھے ہے،قومی ادارہ برائے امراض خون کے سربراہ ڈاکٹر طاہر شمسی نے بتایا کہ ڈریپ دواؤں کی رجسٹریشن کا کام انجام دیتی ہے لیکن امریکی اداریایف ڈی اے کے بر خلاف علاج کی منظوری اس کے دائرہ کار میں نہیں آتی جس کی وجہ سے بہت سارے امراض کے غیرمستند اور بغیر منظوری کے بغیرکئی علاج مختلف اسپتالوں میں کیے جارہے ہیں،غیر مستند علاج کی افادیت اور اسکے مضر اثرات سے مریضوں کو بھی آگاہ نہیں کیا جاتا۔

انھوں نے کہا کہ ضرورت اس بات کی ہے کہ مختلف نئے علاج کی منظوری کیلیے فریم ورک بنایا جائے جوڈریپ کے ماتحت ہونا چاہیے تاکہ نئے علاج کیلیے مریضوں کو تختہ مشق سے بچایا جاسکے۔
Load Next Story