پانچ سیر سے ایک پاؤ تک
آنے والے وقت میں قوت خرید کیا ہوگی یہ لمحہ فکریہ ہے۔
یادش بخیر یہ تذکرہ ہے 1970 کے آس پاس کا۔ واقعہ یہ ہے کہ اس وقت جب بازار میں صارفین کسی بھی خوردنی اشیا کی خریداری کی غرض سے تشریف لے جاتے تو جب کوئی صارف کسی بھی چیز کے بارے میں اس کی قیمت معلوم کرتا تو اس وقت دکاندار اس صارف کو بتاتا کہ یہ چیز دو سیر آپ کو اتنے پیسوں میں ملے گی۔
عرض کرتا چلوں کہ اس وقت اعشاری نظام ناپ تول میں نافذ نہیں ہوا تھا اور ہر چیز سیر کے تول کے حساب سے صارف کو دستیاب ہوتی تھی جب کہ پیمائش میں گز کا لفظ استعمال ہوتا تھا اور زمینی فاصلہ میل کے طور پر بیان کیا جاتا تھا۔ اس وقت ہماری اپنی عمر عزیز فقط 12 سال رہی ہوگی۔ چنانچہ اس وقت جوکہ بزرگ لوگ تھے وہ بیان کیا کرتے تھے کہ بھئی ہمارے دور میں جب کسی خوردنی اشیا کی قیمت معلوم کی جاتی تو دکاندار اس وقت پانچ سیر کی قیمت بتایا کرتے تھے اور زمینی فاصلے کے لیے لفظ کوس استعمال ہوتا تھا۔ مثلاً کہ فلاں گاؤں کا فاصلہ ہمارے گاؤں سے اتنے کوس ہے۔
بہرکیف پھر ہم پلٹ کر 1970 کے زمانے میں واپس جاتے ہیں کہ اس زمانے میں تمام خوردنی اشیا کی قیمت دو سیر وزن کے مساوی بتائی جاتی تھی یہاں مثال دے کر اگر بیان کریں تو چاول، آٹا، چنے، ثابت مسور، گڑ، آلو، پیاز تمام قسم کی سبزیاں و پھل وغیرہ کی قیمت دو سیر کے وزن کے برابر بتائی جاتی۔ البتہ یہ بات صارف پر منحصر ہوتی کہ وہ کوئی چیز کتنی خریدے گا۔ دو سیر، چار سیر یا ایک سیر۔
اپنی ضرورت کو مدنظر رکھتے ہوئے صارف خریداری کرتا البتہ غالباً 1976 کی بات ہے کہ جب ملک میں اعشاری نظام رائج ہوا اور سیر کی جگہ کلو، گز کی جگہ میٹر، میل کی جگہ کلومیٹر کا نظام متعارف کرایا گیا چنانچہ اب ناپ تول کی بات اس طرح ہوتی کہ صارف کو بتایا جاتا کہ اس چیز کی قیمت ایک کلو کی یہ ہے، ایک میٹر کپڑے کی قیمت یہ ہے اور فلاں گاؤں کا فاصلہ اتنے کلو میٹر ہے۔ اس طرح اعشاری نظام چلتا رہا اور عصر حاضر میں بھی یہی نظام نافذ العمل ہے۔
یہ ضرور ہے کہ جب ملک میں اعشاری نظام متعارف ہوا تو ہم اگرچہ شعور کی دنیا میں قدم رکھ چکے تھے مگر ہم یہ ادراک کرنے سے قاصر تھے کہ ہمارے بزرگوں کے دور میں کسی بھی چیز کی قیمت بتاتے وقت پانچ سیر وزن کی قیمت بتائی جاتی۔ ہمارے دور میں دو سیر وزن کی قیمت بتائی جاتی اور 1980 کے آس پاس کسی بھی وزن کی قیمت ایک کلو کے حساب سے بتائی جاتی، ایسا کیوں تھا
۔ بعدازاں جب 1985 میں شادی کے بعد آٹے دال کے بھاؤ معلوم کرنے کے لیے بازار کا رخ کیا تو لگ پتا گیا۔ تب معلوم ہوا کہ وزن کم کرکے قیمت کیوں بتائی جاتی ہے۔ تب ہم پر یہ انکشاف ہوا کہ دراصل وقت گزرنے کے ساتھ لوگوں کی قوت خرید کم ہو رہی ہے۔ اس لیے اشیا کی قیمت کم وزن کے حساب سے بتائی جاتی ہے۔ صداقت تو یہ ہے کہ اس پورے عمل کے پس پردہ جو چیز تھی وہ تھی گرانی یعنی مہنگائی۔یہ وہ چیز تھی جس نے قیام پاکستان کے وقت جنم لیا اور اولین 25 سالوں میں سست روی سے اور بعدازاں بڑی سرعت سے پرورش پائی۔ یہ حقیقت ہے کہ 1970 تک ملک میں پیسے کی ریل پیل یا فراوانی نہ تھی۔
البتہ جب 1970 کے بعد آمرانہ حکومتوں کے دو ادوار اختتام پذیر ہوئے، عوامی دور حکومت میں معاشی ترقی کا آغاز بھی ہوا البتہ یہ ضرور ہوا کہ اب انسانی اقدار تم توڑنے لگی تھیں اور ذاتی مفادات ان اقدار پر فوقیت پا رہے تھے جس کا نتیجہ یہ سامنے آیا کہ ہر کوئی ذاتی مفاد حاصل کرنے کے لیے زیادہ سے زیادہ جستجو میں لگ گیا۔ چنانچہ تاجر حضرات بھی تو اسی سماج کا حصہ تھے وہ کیوں پیچھے رہتے۔ چنانچہ وہ بھی دو اور دو چار کے قائل ہوگئے اور ان کی زائد منافع خوری کے باعث مہنگائی نے خوب پرورش پائی اور اب یہ مہنگائی ایک توانا بیل کی شکل میں ہمارے سامنے ہے۔
چنانچہ اس مہنگائی کے باعث کسی بھی چیز کی قیمت آج سے دس بارہ برس قبل وزن کے اعتبار سے آدھا کلو میں بتائی جانے لگی۔ سبب یہی تھا کہ عام صارف کی قوت خرید بے حد کم ہوچکی تھی۔ اب عصر حاضر میں کیفیت یہ ہے کہ آج جب آپ کسی دکاندار سے کسی چیز کی قیمت معلوم کریں گے تو دکاندار جو قیمت بتاتا ہے وہ وزن کے حساب سے ایک پاؤ میں بتاتا ہے مثلاً اگر آپ نے معلوم کیا کہ بھائی یہ میتھی کیا بھاؤ میں دے رہے ہو، تو جواب آئے گا پچاس روپے پاؤ۔
بھنڈی چالیس روپے پاؤ، لوکی، کریلا، بینگن، توری، ٹینڈا، شملہ مرچ، گوبھی، کھیرا کے ساتھ ہر وہ چیز جو کھانے میں استعمال ہوتی ہے بالخصوص سبزیاں سب کی قیمت پاؤ کے وزن کے حساب سے بتائی جاتی ہے البتہ دوکاندار سے استفسار کیا کہ بھائی قیمت کلو کے بجائے پاؤ میں کیوں بتاتے ہو، تو جواب ملتا ہے صاحب! اگر آپ سے کہا جائے کہ میتھی دو سو روپے فی کلو ہے، بھنڈی ایک سو ساٹھ روپے و دیگر تمام سبزیاں ایک سو چالیس روپے فی کلو ہیں تو آپ کی کیا کیفیت ہوگی؟
گویا صورت حال یہ سامنے آئی کہ ہماری قوت خرید اس قدر کم ہوچکی ہے کہ قیام پاکستان کے وقت صارف اگر یک مشت ادائیگی پر کوئی چیز پانچ سیر خریدتا تھا تو آج کا صارف ایک پاؤ چیز خریدنے کی قوت پر آ چکا ہے۔ آنے والے وقت میں قوت خرید کیا ہوگی یہ لمحہ فکریہ ہے۔ ہم اعلیٰ حکام سے فقط یہ ضرور عرض کریں گے کہ خدارا محنت کشوں کی اجرتوں میں معقول حد تک اضافہ ضرور کیا جائے بصورت دیگر جسم و تن کا رشتہ قائم رکھنا مشکل ہو جائے گا۔
عرض کرتا چلوں کہ اس وقت اعشاری نظام ناپ تول میں نافذ نہیں ہوا تھا اور ہر چیز سیر کے تول کے حساب سے صارف کو دستیاب ہوتی تھی جب کہ پیمائش میں گز کا لفظ استعمال ہوتا تھا اور زمینی فاصلہ میل کے طور پر بیان کیا جاتا تھا۔ اس وقت ہماری اپنی عمر عزیز فقط 12 سال رہی ہوگی۔ چنانچہ اس وقت جوکہ بزرگ لوگ تھے وہ بیان کیا کرتے تھے کہ بھئی ہمارے دور میں جب کسی خوردنی اشیا کی قیمت معلوم کی جاتی تو دکاندار اس وقت پانچ سیر کی قیمت بتایا کرتے تھے اور زمینی فاصلے کے لیے لفظ کوس استعمال ہوتا تھا۔ مثلاً کہ فلاں گاؤں کا فاصلہ ہمارے گاؤں سے اتنے کوس ہے۔
بہرکیف پھر ہم پلٹ کر 1970 کے زمانے میں واپس جاتے ہیں کہ اس زمانے میں تمام خوردنی اشیا کی قیمت دو سیر وزن کے مساوی بتائی جاتی تھی یہاں مثال دے کر اگر بیان کریں تو چاول، آٹا، چنے، ثابت مسور، گڑ، آلو، پیاز تمام قسم کی سبزیاں و پھل وغیرہ کی قیمت دو سیر کے وزن کے برابر بتائی جاتی۔ البتہ یہ بات صارف پر منحصر ہوتی کہ وہ کوئی چیز کتنی خریدے گا۔ دو سیر، چار سیر یا ایک سیر۔
اپنی ضرورت کو مدنظر رکھتے ہوئے صارف خریداری کرتا البتہ غالباً 1976 کی بات ہے کہ جب ملک میں اعشاری نظام رائج ہوا اور سیر کی جگہ کلو، گز کی جگہ میٹر، میل کی جگہ کلومیٹر کا نظام متعارف کرایا گیا چنانچہ اب ناپ تول کی بات اس طرح ہوتی کہ صارف کو بتایا جاتا کہ اس چیز کی قیمت ایک کلو کی یہ ہے، ایک میٹر کپڑے کی قیمت یہ ہے اور فلاں گاؤں کا فاصلہ اتنے کلو میٹر ہے۔ اس طرح اعشاری نظام چلتا رہا اور عصر حاضر میں بھی یہی نظام نافذ العمل ہے۔
یہ ضرور ہے کہ جب ملک میں اعشاری نظام متعارف ہوا تو ہم اگرچہ شعور کی دنیا میں قدم رکھ چکے تھے مگر ہم یہ ادراک کرنے سے قاصر تھے کہ ہمارے بزرگوں کے دور میں کسی بھی چیز کی قیمت بتاتے وقت پانچ سیر وزن کی قیمت بتائی جاتی۔ ہمارے دور میں دو سیر وزن کی قیمت بتائی جاتی اور 1980 کے آس پاس کسی بھی وزن کی قیمت ایک کلو کے حساب سے بتائی جاتی، ایسا کیوں تھا
۔ بعدازاں جب 1985 میں شادی کے بعد آٹے دال کے بھاؤ معلوم کرنے کے لیے بازار کا رخ کیا تو لگ پتا گیا۔ تب معلوم ہوا کہ وزن کم کرکے قیمت کیوں بتائی جاتی ہے۔ تب ہم پر یہ انکشاف ہوا کہ دراصل وقت گزرنے کے ساتھ لوگوں کی قوت خرید کم ہو رہی ہے۔ اس لیے اشیا کی قیمت کم وزن کے حساب سے بتائی جاتی ہے۔ صداقت تو یہ ہے کہ اس پورے عمل کے پس پردہ جو چیز تھی وہ تھی گرانی یعنی مہنگائی۔یہ وہ چیز تھی جس نے قیام پاکستان کے وقت جنم لیا اور اولین 25 سالوں میں سست روی سے اور بعدازاں بڑی سرعت سے پرورش پائی۔ یہ حقیقت ہے کہ 1970 تک ملک میں پیسے کی ریل پیل یا فراوانی نہ تھی۔
البتہ جب 1970 کے بعد آمرانہ حکومتوں کے دو ادوار اختتام پذیر ہوئے، عوامی دور حکومت میں معاشی ترقی کا آغاز بھی ہوا البتہ یہ ضرور ہوا کہ اب انسانی اقدار تم توڑنے لگی تھیں اور ذاتی مفادات ان اقدار پر فوقیت پا رہے تھے جس کا نتیجہ یہ سامنے آیا کہ ہر کوئی ذاتی مفاد حاصل کرنے کے لیے زیادہ سے زیادہ جستجو میں لگ گیا۔ چنانچہ تاجر حضرات بھی تو اسی سماج کا حصہ تھے وہ کیوں پیچھے رہتے۔ چنانچہ وہ بھی دو اور دو چار کے قائل ہوگئے اور ان کی زائد منافع خوری کے باعث مہنگائی نے خوب پرورش پائی اور اب یہ مہنگائی ایک توانا بیل کی شکل میں ہمارے سامنے ہے۔
چنانچہ اس مہنگائی کے باعث کسی بھی چیز کی قیمت آج سے دس بارہ برس قبل وزن کے اعتبار سے آدھا کلو میں بتائی جانے لگی۔ سبب یہی تھا کہ عام صارف کی قوت خرید بے حد کم ہوچکی تھی۔ اب عصر حاضر میں کیفیت یہ ہے کہ آج جب آپ کسی دکاندار سے کسی چیز کی قیمت معلوم کریں گے تو دکاندار جو قیمت بتاتا ہے وہ وزن کے حساب سے ایک پاؤ میں بتاتا ہے مثلاً اگر آپ نے معلوم کیا کہ بھائی یہ میتھی کیا بھاؤ میں دے رہے ہو، تو جواب آئے گا پچاس روپے پاؤ۔
بھنڈی چالیس روپے پاؤ، لوکی، کریلا، بینگن، توری، ٹینڈا، شملہ مرچ، گوبھی، کھیرا کے ساتھ ہر وہ چیز جو کھانے میں استعمال ہوتی ہے بالخصوص سبزیاں سب کی قیمت پاؤ کے وزن کے حساب سے بتائی جاتی ہے البتہ دوکاندار سے استفسار کیا کہ بھائی قیمت کلو کے بجائے پاؤ میں کیوں بتاتے ہو، تو جواب ملتا ہے صاحب! اگر آپ سے کہا جائے کہ میتھی دو سو روپے فی کلو ہے، بھنڈی ایک سو ساٹھ روپے و دیگر تمام سبزیاں ایک سو چالیس روپے فی کلو ہیں تو آپ کی کیا کیفیت ہوگی؟
گویا صورت حال یہ سامنے آئی کہ ہماری قوت خرید اس قدر کم ہوچکی ہے کہ قیام پاکستان کے وقت صارف اگر یک مشت ادائیگی پر کوئی چیز پانچ سیر خریدتا تھا تو آج کا صارف ایک پاؤ چیز خریدنے کی قوت پر آ چکا ہے۔ آنے والے وقت میں قوت خرید کیا ہوگی یہ لمحہ فکریہ ہے۔ ہم اعلیٰ حکام سے فقط یہ ضرور عرض کریں گے کہ خدارا محنت کشوں کی اجرتوں میں معقول حد تک اضافہ ضرور کیا جائے بصورت دیگر جسم و تن کا رشتہ قائم رکھنا مشکل ہو جائے گا۔