چوبیس گھنٹے…
کمرے میں ہی آپ کوکھانا اورچائے دی جاتی ہے مگر کمرہ آپ کو کال کوٹھڑی لگنے لگتا ہے اورکھانا زہربھرا،حلق سے اترتاہی نہیں۔
آپ کو تھکاوٹ بہت جلد محسوس ہونے لگے، پورے جسم میں عجیب سا درد ہو رہا ہو، گلے میں سوزش ہو، سر درد سے پھٹ رہا ہو اور کچھ کھا لینے سے پیٹ میں بوجھل پن ہو جائے تو آپ کو خود بھی اندازہ ہو جاتا ہے کہ کسی ڈاکٹر کے پاس جانے کی ضرورت نہیں بلکہ یہ سیدھا سادہ کورونا کا کیس ہے اور آپ بدقت ہمت مجتمع کرتے ہیں کہ کورونا ٹسٹ کروا لیا جائے۔
آپ اپنے گھر کے قریبی کورونا ٹسٹنگ کے مرکز میں جاتے ہیں، جہاں پر اندر داخلے سے پہلے آپ کا ٹمپریچر چیک کیا جاتا ہے اور پھر آپ کو اپنے نمبر کی چٹ دے کر انتظار گاہ میں بٹھادیا جاتا ہے۔ یہاں پر سماجی فاصلے کی خاص ضرورت نہیں سمجھی جاتی کیونکہ شاید وہاں سب وہی لوگ ہوتے ہیں جنھیں کورونا کا لازمی مریض سمجھا ہوا ہوتا ہے ۔ آپ کا نمبر آتا ہے اور آپ کے منہ اور ناک سے نمونہ جات حاصل کیے جاتے ہیں۔ چند لمحوں کا سہی مگر یہ ایک تکلیف دہ عمل ہے۔
'' چوبیس گھنٹوں میں آپ کے ٹسٹ کا نتیجہ آ جائے گا، آپ کو فون پر پیغام آ جائے گا، نتیجہ لینے کے لیے آپ کو دوبارہ آنے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ آپ کا نتیجہ آپ کو ای میل کے ذریعے بھی بھیج دیا جائے گا ۔'' آپ کو بتایا جاتا ہے۔ ذہن میں پہلا خیال آتا ہے کہ آپ کو لازمی کورونا ہو گا اور وہ کورونا کے مریضوں کو واپس وہاں بلا کر دوسروں کو خطرے میں نہیں ڈال سکتے ۔ آپ وہاں سے نکلتے ہیں تو قدم من من بھر کے ہو رہے ہوتے ہیں، جسم اندر سے ہولے ہولے کانپ رہا ہوتا ہے اور کورونا کا خوف آپ کو اپنی جکڑ میں لے لیتا ہے۔
آپ گاڑی میں بیٹھ کر گھر واپس جاتے ہوئے دنیا کی دوڑ میں بھاگنے والوں کو حسرت سے دیکھتے ہیں۔ اپنے گھر میں پہنچتے ہیں تو وہیں سے احتیاط کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ نتیجہ اگرچہ نہیں آیا مگر شک تو ہے اور شک ایسی بین بین کی کیفیت ہے کہ اس میں کچھ بھی واضع نہیں ہوتا، سو احتیاط کرنا بہتر ہے کہ اپنے پیاروں میں سے کوئی اور بھی مبتلا نہ ہو جائے ... کیا معلوم کہ پہلے ہی ہم کسی کو اپنے ہاتھوں، چھینک یا کھانسی سے وائرس منتقل کر چکے ہوں ؟ ایک خوف سر اٹھاتا ہے اور دل سے دعا نکلتی ہے کہ ایسا نہ ہوا ہو۔ آپ اپنے ہاتھوں سے گھر کی ہر چیز کو اس طرح بچاتے ہیں جیسے کہ آپ کوئی اچھوت ہوں، اپنے کمرے میں جا کرگوشہ نشینی اختیار کر لیتے ہیں۔ ''بچوں کو میرے کمرے میں نہ آنے دیں اور کوئی بڑا بھی بلا ضرورت نہ آئے!! '' آپ ہدایت جاری کرتے ہیں اوربستر پرآرام کرنے کے لیے لیٹ جاتے ہیں۔
اپنے ہی کمرے کو آپ حسرت سے دیکھتے ہیں، دل آس اور یاس کے جھولے میں جھول رہا ہوتا ہے۔ ''کل جب نتیجہ آئے گا تو...'' آپ سوچتے ہوئے کروٹیں بدلتے ہیں، '' جانے کون سا کمرہ ہوگا جس میں مجھے دوسروں سے علیحدہ کر دیا جائے گا؟ '' ایک خیال آتا ہے۔ '' ہو سکتا ہے کہ اسپتال جانا پڑے؟ '' مگر خود ہی اپنے اس خیال کی تردید کر دی جاتی ہے کہ اتنے برے حالات نہیں ہیں۔ '' جانے میں نے کس کس چیز کو چھوا ہو گا اور کہاں کہاں پر میں نے خطرے کے آثار پیدا کر دیے ہوں گے؟ '' خاتون خانہ کی تو یہ پریشانی سب سے سوا ہوتی ہے کہ وہ گھر کے ہر کونے کھدرے تک رسائی رکھتی ہے۔
'' ایک لسٹ بنا لینی چاہیے ان چیزوں کی کہ جن کی چودہ دن کے لیے ضرورت پڑ سکتی ہے! '' منظم قسم کے لوگ اپنے طریقے سے سوچنا شروع کر دیتے ہیں۔ '' کتابیں تو لازمی ہونا چاہئیں کہ وقت گزارنا مشکل ہو جائے گا، کتنا سویا جا سکتا ہے!! '' لسٹ میں کتابیں لکھ لی جاتی ہیں ۔ ٹی وی کی سہولت کسی کو میسر ہو سکتی ہے کسی کو نہیں ... ''چلو فون تو ہوگا ہی پاس، پرانے دوستو ں سے گپ شپ بھی ہو جائے گی کہ جن سے عام معمول میں بات کرنے کو وقت نہیں ملتا ۔' گھر والوں کے بغیر اتنا وقت کیسے کٹے گا، ان کی شکل تو دن میں کہیں ایک آدھ بار ہی دیکھنے کو ملے گی۔ سب ڈر سے بھی دور رہیں گے، رہنا بھی چاہیے، احتیاط اچھی چیز ہے! '' خود ہی اپنی سوچ کا جواب دیا جاتا ہے ۔ ''نمازوںاور تلاوت قرآن کا وقت تو کافی ملے گا، ترجمے کے ساتھ قرآ ن پاک پڑھنے کا اس سے اچھا موقع اور کون سا ملے گا۔ '' لیکن یہ کیسا بیمار پڑنا ہے کہ کئی تیمار دار ہی نہ ہو گا!!
جوں جوں آپ کا تنہا وقت گزرتا جاتا ہے، منفی سوچیں احاطہ کرنا شروع کر دیتی ہیں، آپ اپنے اور گھر والوں کے درمیان جس سماجی فاصلے کو احتیاطا قائم کر لیتے ہیں وہ غیر محسوس طریقے سے آپ کو خوف میں مبتلا کر دیتا ہے اور آپ خود کو کورونا کا لاعلاج مریض سمجھنا شروع کردیتے ہیں ۔ اپنے ارد گرد کی ہر چیز کو حسرت سے دیکھنا شروع کر دیتے ہیں کہ شاید یہ سب دوبارہ دیکھنا نصیب نہ ہو۔ آپ غیر محسوس طریقے سے سمجھنے لگتے ہیں کہ آپ کا آخری وقت قریب آرہا ہے ، چوبیس گھنٹے کے بعد کورونا کی تصدیق ہو جائے گی اور پھر موت کی چاپیں آپ کو نمایاں محسوس ہونے لگیں گی۔ آپ خواہ مخواہ میں اپنے فون سے کچھ نہ کچھ delete کرنا شروع کردیتے ہیں، کچھ ایسا جو آپ کا اپنا اہم راز ہو۔
اپنی الماری کھول کر اپنے پرفیوم اور دیگر سامان کو دیکھ کر آپ حسرت سے سوچتے ہیں کہ انھیں کس وقت کے لیے سنبھال کر رکھا تھا، جو کچھ پاس ہو اسے فورا خرچ کر دینا چاہیے تھا۔ آپ کا دل تو ہر چیز سے اوبھ چکا ہوتا ہے۔ کمرے کی بڑی سی کھڑکی کا پردہ ہٹا کر آپ باہر کے نظارے سے محظوظ ہونا چاہتے ہیں مگر وہ سب بھی آ پ کو محظوظ نہیں کرتا ، '' قدرت کے یہ نظارے، سب کچھ یہیں رہے گا، سارا نظام چلتا رہے گا۔ ایک ہمارے چلے جانے سے کس کو کیا فرق پڑے گا؟ '' یہ سوچ احساس دلاتی ہے کہ ہم جب تک زندہ رہتے ہیں، خود کو کتنا ناگزیر سمجھتے ہیں ۔
آپ اپنے فون پر کورونا کے بارے میں معلومات کا صفحہ کھول لیتے ہیں اور یہ جان لیوا ثابت ہوتا ہے کیونکہ آپ جو کچھ پڑھتے جاتے ہیں ، وہ سب آپ پر وارد ہوتا جاتا ہے، آپ کی سانس مشکل سے چلنے لگتی ہے، کھانسی بڑھ جاتی ہے اور گلا بند ہوجاتا ہے، جسم تیز بخار سے تپنے لگتا ہے۔ آپ لیٹ کر گہرے گہرے سانس لینے لگتے ہیں۔ سونا چاہیں تو سو نہیں سکتے کہ آنکھ بند کرتے ہی آنکھوں کے بند پردوں پر کورونا کے موٹے موٹے لال وائرس رقص کرتے ہیں اور آپ گھبرا کر پسینے میں شرابورہوجاتے ہیں ۔ آپ کا پوراکمرہ تصور میں ان ناچتے ہوئے وائرس سے بھرا ہوا ہوتا ہے ۔ آپ اس سارے وقت میں سوتے جاگتے ہیں، بھیانک خواب دیکھتے ہیں اور اس سے بھی بھیانک خیالات جاگتے میں آپ کے ذہن میں بھر جاتے ہیں ۔
کمرے میں ہی آپ کو کھانا اور چائے دی جاتی ہے مگر کمرہ آپ کو کال کوٹھڑی لگنے لگتا ہے اورکھانا زہر بھرا، حلق سے اترتا ہی نہیں۔ بھوک مر جاتی ہے اور آپ الٹے سیدھے خیالات میں کھوئے رہتے ہیں ۔ وہ سب اچھے اچھے کھانے یاد آتے ہیں جو اپنے خاندان کے ساتھ مل کر کھائے ہوتے ہیں، اب شاید کبھی ایسا کھانا بھی نصیب میں نہ ہو۔ ''گزشتہ کئی مہینوں سے کورونا کے باعث اپنے سگے بہن بھائیو ں تک سے ملنا موقوف ہو چکا ہے، کیا ان سب سے ملاقات اب نہیں ہو گی، یونہی جانا پڑے گا؟ '' اس سوچ سے دل اتنا ملول ہوتا ہے کہ انسان اپنی بے بسی پر تنہا رونے لگتا ہے ۔ ان چوبیس گھنٹوں میںانسا ن کئی برسوں کا احاطہ کرلیتا ہے، کئی سوچیں، مسکراہٹیں، یادیں، پچھتاوے، ندامتیں ۔ اپنا محاسبہ کرنے کو یہ چوبیس گھنٹے ایک زندگی جتنے طویل ہو جاتے ہیں ۔ کئی بار مرااور جیا جاتا ہے ۔
فون پر پیغام آتا ہے تو خوف سے کھولنے کو دل نہیں چاہتا ، لیکن کھولنا تو ہے... اور زیر لب دعاؤں کے ورد کرتے ہوئے پیغام کھول کر... '' میرا ٹسٹ کلیر ہے!!'' کا نعرہ، '' میرے اللہ ، تیرا لاکھوں اور کروڑوں بار شکر ہے!! '' آنکھوں میں آنسو۔ لیکن دل میں یہ سوچ ضرور آتی ہے کہ جن لوگوں کا ٹسٹ کورونا مثبت آتا ہے، ا س لمحے کے بعد ان بے چاروں پر کیا گزرتی ہو گی۔ اللہ ان سب کو محفوظ رکھے، آمین !!
نوٹ ۔ ( یہ ایک آپ بیتی ہے اور میرا اندازہ ہے کہ آج کل یہ جگ بیتی بھی ہے! )
آپ اپنے گھر کے قریبی کورونا ٹسٹنگ کے مرکز میں جاتے ہیں، جہاں پر اندر داخلے سے پہلے آپ کا ٹمپریچر چیک کیا جاتا ہے اور پھر آپ کو اپنے نمبر کی چٹ دے کر انتظار گاہ میں بٹھادیا جاتا ہے۔ یہاں پر سماجی فاصلے کی خاص ضرورت نہیں سمجھی جاتی کیونکہ شاید وہاں سب وہی لوگ ہوتے ہیں جنھیں کورونا کا لازمی مریض سمجھا ہوا ہوتا ہے ۔ آپ کا نمبر آتا ہے اور آپ کے منہ اور ناک سے نمونہ جات حاصل کیے جاتے ہیں۔ چند لمحوں کا سہی مگر یہ ایک تکلیف دہ عمل ہے۔
'' چوبیس گھنٹوں میں آپ کے ٹسٹ کا نتیجہ آ جائے گا، آپ کو فون پر پیغام آ جائے گا، نتیجہ لینے کے لیے آپ کو دوبارہ آنے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ آپ کا نتیجہ آپ کو ای میل کے ذریعے بھی بھیج دیا جائے گا ۔'' آپ کو بتایا جاتا ہے۔ ذہن میں پہلا خیال آتا ہے کہ آپ کو لازمی کورونا ہو گا اور وہ کورونا کے مریضوں کو واپس وہاں بلا کر دوسروں کو خطرے میں نہیں ڈال سکتے ۔ آپ وہاں سے نکلتے ہیں تو قدم من من بھر کے ہو رہے ہوتے ہیں، جسم اندر سے ہولے ہولے کانپ رہا ہوتا ہے اور کورونا کا خوف آپ کو اپنی جکڑ میں لے لیتا ہے۔
آپ گاڑی میں بیٹھ کر گھر واپس جاتے ہوئے دنیا کی دوڑ میں بھاگنے والوں کو حسرت سے دیکھتے ہیں۔ اپنے گھر میں پہنچتے ہیں تو وہیں سے احتیاط کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ نتیجہ اگرچہ نہیں آیا مگر شک تو ہے اور شک ایسی بین بین کی کیفیت ہے کہ اس میں کچھ بھی واضع نہیں ہوتا، سو احتیاط کرنا بہتر ہے کہ اپنے پیاروں میں سے کوئی اور بھی مبتلا نہ ہو جائے ... کیا معلوم کہ پہلے ہی ہم کسی کو اپنے ہاتھوں، چھینک یا کھانسی سے وائرس منتقل کر چکے ہوں ؟ ایک خوف سر اٹھاتا ہے اور دل سے دعا نکلتی ہے کہ ایسا نہ ہوا ہو۔ آپ اپنے ہاتھوں سے گھر کی ہر چیز کو اس طرح بچاتے ہیں جیسے کہ آپ کوئی اچھوت ہوں، اپنے کمرے میں جا کرگوشہ نشینی اختیار کر لیتے ہیں۔ ''بچوں کو میرے کمرے میں نہ آنے دیں اور کوئی بڑا بھی بلا ضرورت نہ آئے!! '' آپ ہدایت جاری کرتے ہیں اوربستر پرآرام کرنے کے لیے لیٹ جاتے ہیں۔
اپنے ہی کمرے کو آپ حسرت سے دیکھتے ہیں، دل آس اور یاس کے جھولے میں جھول رہا ہوتا ہے۔ ''کل جب نتیجہ آئے گا تو...'' آپ سوچتے ہوئے کروٹیں بدلتے ہیں، '' جانے کون سا کمرہ ہوگا جس میں مجھے دوسروں سے علیحدہ کر دیا جائے گا؟ '' ایک خیال آتا ہے۔ '' ہو سکتا ہے کہ اسپتال جانا پڑے؟ '' مگر خود ہی اپنے اس خیال کی تردید کر دی جاتی ہے کہ اتنے برے حالات نہیں ہیں۔ '' جانے میں نے کس کس چیز کو چھوا ہو گا اور کہاں کہاں پر میں نے خطرے کے آثار پیدا کر دیے ہوں گے؟ '' خاتون خانہ کی تو یہ پریشانی سب سے سوا ہوتی ہے کہ وہ گھر کے ہر کونے کھدرے تک رسائی رکھتی ہے۔
'' ایک لسٹ بنا لینی چاہیے ان چیزوں کی کہ جن کی چودہ دن کے لیے ضرورت پڑ سکتی ہے! '' منظم قسم کے لوگ اپنے طریقے سے سوچنا شروع کر دیتے ہیں۔ '' کتابیں تو لازمی ہونا چاہئیں کہ وقت گزارنا مشکل ہو جائے گا، کتنا سویا جا سکتا ہے!! '' لسٹ میں کتابیں لکھ لی جاتی ہیں ۔ ٹی وی کی سہولت کسی کو میسر ہو سکتی ہے کسی کو نہیں ... ''چلو فون تو ہوگا ہی پاس، پرانے دوستو ں سے گپ شپ بھی ہو جائے گی کہ جن سے عام معمول میں بات کرنے کو وقت نہیں ملتا ۔' گھر والوں کے بغیر اتنا وقت کیسے کٹے گا، ان کی شکل تو دن میں کہیں ایک آدھ بار ہی دیکھنے کو ملے گی۔ سب ڈر سے بھی دور رہیں گے، رہنا بھی چاہیے، احتیاط اچھی چیز ہے! '' خود ہی اپنی سوچ کا جواب دیا جاتا ہے ۔ ''نمازوںاور تلاوت قرآن کا وقت تو کافی ملے گا، ترجمے کے ساتھ قرآ ن پاک پڑھنے کا اس سے اچھا موقع اور کون سا ملے گا۔ '' لیکن یہ کیسا بیمار پڑنا ہے کہ کئی تیمار دار ہی نہ ہو گا!!
جوں جوں آپ کا تنہا وقت گزرتا جاتا ہے، منفی سوچیں احاطہ کرنا شروع کر دیتی ہیں، آپ اپنے اور گھر والوں کے درمیان جس سماجی فاصلے کو احتیاطا قائم کر لیتے ہیں وہ غیر محسوس طریقے سے آپ کو خوف میں مبتلا کر دیتا ہے اور آپ خود کو کورونا کا لاعلاج مریض سمجھنا شروع کردیتے ہیں ۔ اپنے ارد گرد کی ہر چیز کو حسرت سے دیکھنا شروع کر دیتے ہیں کہ شاید یہ سب دوبارہ دیکھنا نصیب نہ ہو۔ آپ غیر محسوس طریقے سے سمجھنے لگتے ہیں کہ آپ کا آخری وقت قریب آرہا ہے ، چوبیس گھنٹے کے بعد کورونا کی تصدیق ہو جائے گی اور پھر موت کی چاپیں آپ کو نمایاں محسوس ہونے لگیں گی۔ آپ خواہ مخواہ میں اپنے فون سے کچھ نہ کچھ delete کرنا شروع کردیتے ہیں، کچھ ایسا جو آپ کا اپنا اہم راز ہو۔
اپنی الماری کھول کر اپنے پرفیوم اور دیگر سامان کو دیکھ کر آپ حسرت سے سوچتے ہیں کہ انھیں کس وقت کے لیے سنبھال کر رکھا تھا، جو کچھ پاس ہو اسے فورا خرچ کر دینا چاہیے تھا۔ آپ کا دل تو ہر چیز سے اوبھ چکا ہوتا ہے۔ کمرے کی بڑی سی کھڑکی کا پردہ ہٹا کر آپ باہر کے نظارے سے محظوظ ہونا چاہتے ہیں مگر وہ سب بھی آ پ کو محظوظ نہیں کرتا ، '' قدرت کے یہ نظارے، سب کچھ یہیں رہے گا، سارا نظام چلتا رہے گا۔ ایک ہمارے چلے جانے سے کس کو کیا فرق پڑے گا؟ '' یہ سوچ احساس دلاتی ہے کہ ہم جب تک زندہ رہتے ہیں، خود کو کتنا ناگزیر سمجھتے ہیں ۔
آپ اپنے فون پر کورونا کے بارے میں معلومات کا صفحہ کھول لیتے ہیں اور یہ جان لیوا ثابت ہوتا ہے کیونکہ آپ جو کچھ پڑھتے جاتے ہیں ، وہ سب آپ پر وارد ہوتا جاتا ہے، آپ کی سانس مشکل سے چلنے لگتی ہے، کھانسی بڑھ جاتی ہے اور گلا بند ہوجاتا ہے، جسم تیز بخار سے تپنے لگتا ہے۔ آپ لیٹ کر گہرے گہرے سانس لینے لگتے ہیں۔ سونا چاہیں تو سو نہیں سکتے کہ آنکھ بند کرتے ہی آنکھوں کے بند پردوں پر کورونا کے موٹے موٹے لال وائرس رقص کرتے ہیں اور آپ گھبرا کر پسینے میں شرابورہوجاتے ہیں ۔ آپ کا پوراکمرہ تصور میں ان ناچتے ہوئے وائرس سے بھرا ہوا ہوتا ہے ۔ آپ اس سارے وقت میں سوتے جاگتے ہیں، بھیانک خواب دیکھتے ہیں اور اس سے بھی بھیانک خیالات جاگتے میں آپ کے ذہن میں بھر جاتے ہیں ۔
کمرے میں ہی آپ کو کھانا اور چائے دی جاتی ہے مگر کمرہ آپ کو کال کوٹھڑی لگنے لگتا ہے اورکھانا زہر بھرا، حلق سے اترتا ہی نہیں۔ بھوک مر جاتی ہے اور آپ الٹے سیدھے خیالات میں کھوئے رہتے ہیں ۔ وہ سب اچھے اچھے کھانے یاد آتے ہیں جو اپنے خاندان کے ساتھ مل کر کھائے ہوتے ہیں، اب شاید کبھی ایسا کھانا بھی نصیب میں نہ ہو۔ ''گزشتہ کئی مہینوں سے کورونا کے باعث اپنے سگے بہن بھائیو ں تک سے ملنا موقوف ہو چکا ہے، کیا ان سب سے ملاقات اب نہیں ہو گی، یونہی جانا پڑے گا؟ '' اس سوچ سے دل اتنا ملول ہوتا ہے کہ انسان اپنی بے بسی پر تنہا رونے لگتا ہے ۔ ان چوبیس گھنٹوں میںانسا ن کئی برسوں کا احاطہ کرلیتا ہے، کئی سوچیں، مسکراہٹیں، یادیں، پچھتاوے، ندامتیں ۔ اپنا محاسبہ کرنے کو یہ چوبیس گھنٹے ایک زندگی جتنے طویل ہو جاتے ہیں ۔ کئی بار مرااور جیا جاتا ہے ۔
فون پر پیغام آتا ہے تو خوف سے کھولنے کو دل نہیں چاہتا ، لیکن کھولنا تو ہے... اور زیر لب دعاؤں کے ورد کرتے ہوئے پیغام کھول کر... '' میرا ٹسٹ کلیر ہے!!'' کا نعرہ، '' میرے اللہ ، تیرا لاکھوں اور کروڑوں بار شکر ہے!! '' آنکھوں میں آنسو۔ لیکن دل میں یہ سوچ ضرور آتی ہے کہ جن لوگوں کا ٹسٹ کورونا مثبت آتا ہے، ا س لمحے کے بعد ان بے چاروں پر کیا گزرتی ہو گی۔ اللہ ان سب کو محفوظ رکھے، آمین !!
نوٹ ۔ ( یہ ایک آپ بیتی ہے اور میرا اندازہ ہے کہ آج کل یہ جگ بیتی بھی ہے! )