ملکی سیاسی نظام … سلگتی چنگاریوں کو آگ نہ بننے دیں
سیاسی نظام کو عوامی رائے کے بجائے پراکسی کے تحت چلانا ملک اور عوام کے لیے مہلک ثابت ہو رہا ہے۔
ملک کا سیاسی نظام آج جس نہج پر ہے ، اس پر ہمارے دوست وصی شاہ کا ایک شعر پوری طرح منطبق ہوتا ہے۔''یہ آگ لگنے کا وقت ہے لوگو۔ پھر اس کے بعد نہ تختہ ہے اور تخت لوگو۔'' اس نہج تک ہم کیسے پہنچے۔
اس کا جواب منیرؔ نیازی مرحوم کے ایک پنجابی شعر کے میں پنہاں ہے۔ ''ویلے لنگھ گئے توبہ والے... راتاں ہوکے بھر دیاں نئیں۔'' گزشتہ سات دہائیوں کے دوران ہمارے ملک میںجیسی سیاست کی گئی، یہ سب کچھ اسی کا شاخسانہ ہے۔ مختلف حکومتوں نے پارلیمنٹ، عدلیہ، انتظامیہ اور دوسرے قومی اداروں کو آئین اور قانون کے دائرے میں چلانے کے بجائے ذاتی اور گروہی مفادات کے تابع رکھنے کی کوشش کی۔
عوام کے اصل نمایندے ہوں یا ٹیسٹ ٹیوب قیادت قومی درد رکھنے والے دانشور ہوں یا سیاسی مبصرین یک زبان ہو کر کہہ رہے ہیں ہیں کہ قومی ڈائیلاگ یا Truth Commission بنائے بغیر ملک کے نظام کی اصلاح ممکن نہیں۔
قومی ڈائیلاگ کے حوالے سے ہر ذی شعور یہ کہتا ہے کہ جب تک ملک کے تمام ادارے اور افراد ملکی آئین اور قانون کے ضابطوں کے تحت کام نہ کریں گے اس وقت تک ہم اپنے سیاسی نظام کو درست نہیں کر سکتے۔ بین الاقوامی شہرت یافتہ بیرسٹر سر ڈاکٹر امجد ملک نے اس حوالے سے رہنمائی کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت پاکستان ملکی اور عالمی منظر نامے میں انتہائی مشکل صورتحال سے دوچار ہے ۔ ملک کو اس صورتحال سے نکالنے کے لیے آئین کے آرٹیکل 5 کی پابندی لازم ہے ہے۔ اس آرٹیکل کے تحت ہر پاکستانی کا فرض ہے کہ وہ ریاست کی فلاح و بہبود اور بقا آئین اور قانون کی حکمرانی کو ہر حال میں مقدم رکھے۔
آئین کا آرٹیکل واضح طور پر کہتا ہے کہ ریاست کی بقا اس سے وفاداری آئین اور قانون کی عملداری ہی میں پنہاں ہے۔ ہمارا سیاسی اور انتظامی نظام دو عملی کا شکار رہا ہے، ہم آئین اور قانون کا نام لیتے ہیں لیکن اس پر عمل نہیں کرتے۔ اسی طرح غیر جانب دار اور دوطرفہ احتساب کرنے کے بجائے یکطرفہ احتساب کرتے ہیں ۔ نام ہم مفاہمت کا لیتے ہیں لیکن عملاً ہم مخاصمت کے قائل ہیں۔ نام ہم آزادی اظہار رائے کا لیتے ہیں لیکن عملاً صحافیوں کو ہراساں کرتے ہیں۔ دانشمندی کا تقاضا ہے کہ ہم ان چنگاریوں کو ٹھنڈا کریں ،کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ چنگاری بھڑک کر پورے نظام کو جھلسا یا خاکستر کر دے۔
گزشتہ کئی دہائیوں سے آنیوالی حکومتوں نے نعرے تو بہت لگائے کہ وہ انتخابی اصلاحات کریںگی، معیشت ٹھیک کریں گی، تعلیم اور صحت کی سہولتیں فراہم کریںگی لیکن کچھ بھی نہ ہو سکا۔ ملک کو ریاست مدینہ بنانے یا حضرت عمر کا نظام انصاف اور طرز حکمرانی لانے کے دعویدار نہ تو اپنے ساتھ حکومت میں شریک کسی ساتھی کو پکڑ کر سزا دے سکے ہیں اور نہ ہی ماضی کے حکمرانوں سے لوٹی ہوئی دولت واپس لا سکے ہیں، بلکہ جن کو عدالتوں سے سزا ہوئی اور وہ جیل ضمانت کرا کر علاج کی غرض سے حکو متِ کی اجازت سے بیرون ملک جا چکے ہیں۔ہمارا نظام انھیں واپس لانے میں بے بس ہے۔
اس پس منظر میں عوام جائیں تو جائیں کہاں؟ بھلا بتائیے پھر ایسے نظام سے چپکے رہنا کس طرح قومی مفاد میں ہے۔ صدارتی نظام کے دعویداروں سے کیا کوئی یہ پوچھ سکتا ہے کہ صدر ایوب، صدر یحییٰ، صدر ضیا الحق، صدر مشرف بلا شرکت غیرے نصف سے زیادہ سیاسی تاریخ میں برسراقتدار رہے ہیں ،کیا ان کا صدارتی نظام عوام کے مسائل حل کر سکا ہے؟ اسی طرح لولی لنگڑی پارلیمانی حکومتیں بھی عوام کو کچھ نہ دے سکیں۔ کوئی بھی نظام برا نہیں ہوتا، اس نظام کو چلانے کے لیے جو قواعد و ضوابط اور اصول ہیں ان پر عمل کرنا ہی نظام کی کامیابی ہوتی ہے۔ ملک میں 1973 کے آئین کے تحت وسیع تر اتفاق رائے پارلیمانی نظام پرکیا گیا۔ اگر اس نظام میں خامیاں ہیں تو انھیں ضروری ترامیم کے ذریعے درست کیا جاسکتا ہے۔ لیکن نظام کو فوری رد کرنا دانشمندی نہیں، پارلیمانی نظام ملکی سالمیت کے لیے بہتر تصور کیا جاتا ہے ۔ صدارتی نظام نے ملک کو دولخت کردیا ۔
ہماری تہتر سال کی سیاسی تاریخ ملک اور قوم کو ایسے مقام پر لے آئی ہے کہ اب مزید دیر کی گنجائش نہیں، تین مرتبہ ملک کے وزیر اعظم رہنے والی شخصیت اور ملک کی بڑی اور چھوٹی سیاسی جماعتوں کی اکثریت جس طرح کا بیانیہ لے کر سامنے آگئی ہیں، وہ درپیش خطرات کا اشارہ دے ہے۔ ہمیں مل بیٹھ کر اس صورتحال کا حل نکالنا ہے۔ ہمیں سلگتی آگ پر تیل نہیں چھڑکنے کے بجائے اسے بجھانے کے اقدامات کرنے ہیں۔
ملک میں قومی ڈائیلاگ عظیم تر قومی مفاد میں ہے۔ سیاسی نظام کو عوامی رائے کے بجائے پراکسی کے تحت چلانا ملک اور عوام کے لیے مہلک ثابت ہو رہا ہے۔ اس حوالے سے جو بھی ڈائیلاگ کیا جائے و ہ ماوراء آئین نہیں ہونا چاہیے۔ آئین اور قانونی تقاضوں کو سامنے رکھ کر اس قومی ڈائیلاگ اور Truth commision کا آغاز کرنا وقت کا اہم ترین تقاضا ہے۔ اگر ہم نے اس پر عمل کرنے میں دیر کردی تو جلسے جلوس دھرنے اور اسٹریٹ پاور ملک کو دوبارہ زیرو پوائنٹ پر لے جائیں گے جس سے کسی کو کچھ حاصل نہیں ہوگا۔
ہمیں تاریخ سے سبق سیکھنا ہے۔ مل بیٹھ کر اس معاملے کو حل کرنا ہے ۔ملک کی معیشت کسی بھی اعتبار سے کسی بھی طرح کسی بھی قسم کے ایڈونچر کی متحمل نہیں ہو سکتی۔ پاکستان کی جغرافیائی حیثیت اور ملک کے مستقبل کا تقاضا ہے کہ قومی ڈائیلاگ کے عمل میں دیر نہ کی جائے۔ بقول شخصے ''اونٹ ابھی خیمے کے اندر ہے'' اور اس وقت ڈائیلاگ کرنا اور حل نکالنا آسان ہے۔وما علینا الا البلاغ۔
اس کا جواب منیرؔ نیازی مرحوم کے ایک پنجابی شعر کے میں پنہاں ہے۔ ''ویلے لنگھ گئے توبہ والے... راتاں ہوکے بھر دیاں نئیں۔'' گزشتہ سات دہائیوں کے دوران ہمارے ملک میںجیسی سیاست کی گئی، یہ سب کچھ اسی کا شاخسانہ ہے۔ مختلف حکومتوں نے پارلیمنٹ، عدلیہ، انتظامیہ اور دوسرے قومی اداروں کو آئین اور قانون کے دائرے میں چلانے کے بجائے ذاتی اور گروہی مفادات کے تابع رکھنے کی کوشش کی۔
عوام کے اصل نمایندے ہوں یا ٹیسٹ ٹیوب قیادت قومی درد رکھنے والے دانشور ہوں یا سیاسی مبصرین یک زبان ہو کر کہہ رہے ہیں ہیں کہ قومی ڈائیلاگ یا Truth Commission بنائے بغیر ملک کے نظام کی اصلاح ممکن نہیں۔
قومی ڈائیلاگ کے حوالے سے ہر ذی شعور یہ کہتا ہے کہ جب تک ملک کے تمام ادارے اور افراد ملکی آئین اور قانون کے ضابطوں کے تحت کام نہ کریں گے اس وقت تک ہم اپنے سیاسی نظام کو درست نہیں کر سکتے۔ بین الاقوامی شہرت یافتہ بیرسٹر سر ڈاکٹر امجد ملک نے اس حوالے سے رہنمائی کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت پاکستان ملکی اور عالمی منظر نامے میں انتہائی مشکل صورتحال سے دوچار ہے ۔ ملک کو اس صورتحال سے نکالنے کے لیے آئین کے آرٹیکل 5 کی پابندی لازم ہے ہے۔ اس آرٹیکل کے تحت ہر پاکستانی کا فرض ہے کہ وہ ریاست کی فلاح و بہبود اور بقا آئین اور قانون کی حکمرانی کو ہر حال میں مقدم رکھے۔
آئین کا آرٹیکل واضح طور پر کہتا ہے کہ ریاست کی بقا اس سے وفاداری آئین اور قانون کی عملداری ہی میں پنہاں ہے۔ ہمارا سیاسی اور انتظامی نظام دو عملی کا شکار رہا ہے، ہم آئین اور قانون کا نام لیتے ہیں لیکن اس پر عمل نہیں کرتے۔ اسی طرح غیر جانب دار اور دوطرفہ احتساب کرنے کے بجائے یکطرفہ احتساب کرتے ہیں ۔ نام ہم مفاہمت کا لیتے ہیں لیکن عملاً ہم مخاصمت کے قائل ہیں۔ نام ہم آزادی اظہار رائے کا لیتے ہیں لیکن عملاً صحافیوں کو ہراساں کرتے ہیں۔ دانشمندی کا تقاضا ہے کہ ہم ان چنگاریوں کو ٹھنڈا کریں ،کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ چنگاری بھڑک کر پورے نظام کو جھلسا یا خاکستر کر دے۔
گزشتہ کئی دہائیوں سے آنیوالی حکومتوں نے نعرے تو بہت لگائے کہ وہ انتخابی اصلاحات کریںگی، معیشت ٹھیک کریں گی، تعلیم اور صحت کی سہولتیں فراہم کریںگی لیکن کچھ بھی نہ ہو سکا۔ ملک کو ریاست مدینہ بنانے یا حضرت عمر کا نظام انصاف اور طرز حکمرانی لانے کے دعویدار نہ تو اپنے ساتھ حکومت میں شریک کسی ساتھی کو پکڑ کر سزا دے سکے ہیں اور نہ ہی ماضی کے حکمرانوں سے لوٹی ہوئی دولت واپس لا سکے ہیں، بلکہ جن کو عدالتوں سے سزا ہوئی اور وہ جیل ضمانت کرا کر علاج کی غرض سے حکو متِ کی اجازت سے بیرون ملک جا چکے ہیں۔ہمارا نظام انھیں واپس لانے میں بے بس ہے۔
اس پس منظر میں عوام جائیں تو جائیں کہاں؟ بھلا بتائیے پھر ایسے نظام سے چپکے رہنا کس طرح قومی مفاد میں ہے۔ صدارتی نظام کے دعویداروں سے کیا کوئی یہ پوچھ سکتا ہے کہ صدر ایوب، صدر یحییٰ، صدر ضیا الحق، صدر مشرف بلا شرکت غیرے نصف سے زیادہ سیاسی تاریخ میں برسراقتدار رہے ہیں ،کیا ان کا صدارتی نظام عوام کے مسائل حل کر سکا ہے؟ اسی طرح لولی لنگڑی پارلیمانی حکومتیں بھی عوام کو کچھ نہ دے سکیں۔ کوئی بھی نظام برا نہیں ہوتا، اس نظام کو چلانے کے لیے جو قواعد و ضوابط اور اصول ہیں ان پر عمل کرنا ہی نظام کی کامیابی ہوتی ہے۔ ملک میں 1973 کے آئین کے تحت وسیع تر اتفاق رائے پارلیمانی نظام پرکیا گیا۔ اگر اس نظام میں خامیاں ہیں تو انھیں ضروری ترامیم کے ذریعے درست کیا جاسکتا ہے۔ لیکن نظام کو فوری رد کرنا دانشمندی نہیں، پارلیمانی نظام ملکی سالمیت کے لیے بہتر تصور کیا جاتا ہے ۔ صدارتی نظام نے ملک کو دولخت کردیا ۔
ہماری تہتر سال کی سیاسی تاریخ ملک اور قوم کو ایسے مقام پر لے آئی ہے کہ اب مزید دیر کی گنجائش نہیں، تین مرتبہ ملک کے وزیر اعظم رہنے والی شخصیت اور ملک کی بڑی اور چھوٹی سیاسی جماعتوں کی اکثریت جس طرح کا بیانیہ لے کر سامنے آگئی ہیں، وہ درپیش خطرات کا اشارہ دے ہے۔ ہمیں مل بیٹھ کر اس صورتحال کا حل نکالنا ہے۔ ہمیں سلگتی آگ پر تیل نہیں چھڑکنے کے بجائے اسے بجھانے کے اقدامات کرنے ہیں۔
ملک میں قومی ڈائیلاگ عظیم تر قومی مفاد میں ہے۔ سیاسی نظام کو عوامی رائے کے بجائے پراکسی کے تحت چلانا ملک اور عوام کے لیے مہلک ثابت ہو رہا ہے۔ اس حوالے سے جو بھی ڈائیلاگ کیا جائے و ہ ماوراء آئین نہیں ہونا چاہیے۔ آئین اور قانونی تقاضوں کو سامنے رکھ کر اس قومی ڈائیلاگ اور Truth commision کا آغاز کرنا وقت کا اہم ترین تقاضا ہے۔ اگر ہم نے اس پر عمل کرنے میں دیر کردی تو جلسے جلوس دھرنے اور اسٹریٹ پاور ملک کو دوبارہ زیرو پوائنٹ پر لے جائیں گے جس سے کسی کو کچھ حاصل نہیں ہوگا۔
ہمیں تاریخ سے سبق سیکھنا ہے۔ مل بیٹھ کر اس معاملے کو حل کرنا ہے ۔ملک کی معیشت کسی بھی اعتبار سے کسی بھی طرح کسی بھی قسم کے ایڈونچر کی متحمل نہیں ہو سکتی۔ پاکستان کی جغرافیائی حیثیت اور ملک کے مستقبل کا تقاضا ہے کہ قومی ڈائیلاگ کے عمل میں دیر نہ کی جائے۔ بقول شخصے ''اونٹ ابھی خیمے کے اندر ہے'' اور اس وقت ڈائیلاگ کرنا اور حل نکالنا آسان ہے۔وما علینا الا البلاغ۔