لاہور شہر میں صفائی ستھرائی کا مسئلہ
لاہور کے بارے میں ملک بھر میں یہ تاثر موجود ہے کہ اس شہر کاانفرااسٹرکچر بہتر حالت میں ہے۔
صفائی نصف ایمان کی حدیث مبارکہ کی تکذیب دیکھنی ہو تو ہمارے میگا سٹی کراچی کی حالت دیکھ سکتے ہیں۔
حالیہ بارشوں نے پاکستان کے سب سے بڑے شہر اور کاروباری مرکز کراچی کے شہری جس مشکل اور اعصاب شکن حالات سے گزرے' ان سے پورا ملک آگاہ ہے۔ کراچی شہر کا سیوریج سسٹم مفلوج ہو گیا' گندے نالے اوور فلو ہو گئے' سڑکیں اور گلیاں دریا کا منظر پیش کرنے لگیں' حتیٰ کہ شہر کے پوش ایریاز کے شہری بھی اتنے تنگ اور پریشان ہوئے کہ وہ مظاہروں پر مجبور ہو گئے ۔
گھروں میں بارشوں کا پانی داخل ہو گیا اور لوگوں کا بے پناہ مالی نقصان ہوا۔ کراچی کا یہ حال ایک دن میں یا ایک سال میں نہیں ہوا بلکہ کئی دہائیوں کی بدانتظامی 'کرپشن 'سستی اور کاہلی اور سیاسی چپقلش نے شہری اداروں کو مفلوج کر دیا ۔شہر کسی باقاعدہ ٹاؤن پلاننگ کے بجائے خود رو جھاڑیوں کی طرح بڑھنا شروع ہوا اور آخر کار وہ وقت آ گیا جب اس شہر کو صاف رکھنا نا ممکن ہو گیا۔کوڑوں کے ڈھیر لگ گئے 'گندے نالوں کو صاف کرنے والا عملہ صرف تنخواہیں وصول کرنے تک رہ گیا' شہری اداروں کی افسر شاہی لینڈ مافیا کے ساتھ مل کر اپنے فرائض کو نظر انداز کرنے لگی اور اس کا آخری نظارہ حالیہ بارشوں نے دیکھ لیا۔
لاہور کے بارے میں ملک بھر میں یہ تاثر موجود ہے کہ اس شہر کاانفرااسٹرکچر بہتر حالت میں ہے'یہاں بلدیاتی ادارے اپنا کام کر رہے ہیں'سیوریج سسٹم کو اپ ڈیٹ رکھا جارہا ہے۔جس کی وجہ سے مون سون کی بارشوں میں لاہور شہرکا وہ حشر نہیں ہوتا جو کراچی کا ہوا ہے۔یہ تاثر کسی حد تک درست بھی ہے لیکن اب حالات ایسے بن رہے ہیں کہ لاہور شہر میں بھی صفائی ستھرائی اور سیوریج کا انفرااسٹرکچر زوال کی طرف جاتا نظر آ رہا ہے۔ لاہورمیں کوڑا کرکٹ پھیلتا ہی چلاجا رہا ہے۔اسے اٹھانے والا عملہ کم ہی نظر آتا ہے۔
ایک خبر کے مطابق شہر میں 12ہزار ٹن سے زائد کوڑا کرکٹ مزید پھیل گیا ہے۔حالات کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے چئیر مین ایل ڈبلیو ایم سی لاہور نے سی ای او اور دیگر عملے کے ہمراہ لاہور شہر کے بیشتر مقامات کا ہنگامی دورہ کیا اور صفائی انتظامات کا جائزہ لیااورسرکاری مشینری سے شہر میں صفائی آپریشن کا آغازکر دیا ہے۔اس سلسلہ میں افسران و عملہ کی اتوار کی چھٹی بھی منسوخ کر دی گئی ہے۔
سرکاری مشینری سے کوڑا اٹھانا شروع کردیا ہے جب کہ زیادہ کوڑا ہونے کی وجہ سے ایمر جنسی نافذکرنے پر غور شروعکیا جا رہا ہے۔جب ادارے سست روی کا شکار ہو جائیں 'افسر اور نچلے عملے کو جواب دہی کا خوف نہ رہے یا صوبائی حکومت شہری اداروں کو کم فنڈز دینا شروع کر دے تو پھر شہر کا انفرااسٹرکچر خراب ہونا شروع ہوجاتا ہے اور یہ غفلت مسلسل جاری رہے تو بلاآخر بڑے شہر اس حالت تک پہنچ جاتے ہیں جس حالت میں کراچی پہنچ چکا ہے۔
پنجاب حکومت کو بھی اس حوالے سے مربوط پالیسی بنانے کی ضرورت ہے۔محض باتوں سے کام نہیں چلے گا 'اس کے لیے فنڈز مہیا کرنے انتہائی ضروری ہے اور اس کے ساتھ ساتھ سرکاری عملے کی تنخواہوں اور مراعات میں اضافہ بھی ضروری ہے تاکہ وہ دلجمعی سے اپنے فرائض ادا کر سکیں ۔ اس کے ساتھ سرکاری افسروں اور عملے کی جوابدہی کا میکنزم بھی ایسا ہونا چاہیے کہ جو کوئی بھی بدعنوانی یا غفلت کا مرتکب ہو ،وہ بچ کر نہ نکل سکے۔
حالیہ بارشوں نے پاکستان کے سب سے بڑے شہر اور کاروباری مرکز کراچی کے شہری جس مشکل اور اعصاب شکن حالات سے گزرے' ان سے پورا ملک آگاہ ہے۔ کراچی شہر کا سیوریج سسٹم مفلوج ہو گیا' گندے نالے اوور فلو ہو گئے' سڑکیں اور گلیاں دریا کا منظر پیش کرنے لگیں' حتیٰ کہ شہر کے پوش ایریاز کے شہری بھی اتنے تنگ اور پریشان ہوئے کہ وہ مظاہروں پر مجبور ہو گئے ۔
گھروں میں بارشوں کا پانی داخل ہو گیا اور لوگوں کا بے پناہ مالی نقصان ہوا۔ کراچی کا یہ حال ایک دن میں یا ایک سال میں نہیں ہوا بلکہ کئی دہائیوں کی بدانتظامی 'کرپشن 'سستی اور کاہلی اور سیاسی چپقلش نے شہری اداروں کو مفلوج کر دیا ۔شہر کسی باقاعدہ ٹاؤن پلاننگ کے بجائے خود رو جھاڑیوں کی طرح بڑھنا شروع ہوا اور آخر کار وہ وقت آ گیا جب اس شہر کو صاف رکھنا نا ممکن ہو گیا۔کوڑوں کے ڈھیر لگ گئے 'گندے نالوں کو صاف کرنے والا عملہ صرف تنخواہیں وصول کرنے تک رہ گیا' شہری اداروں کی افسر شاہی لینڈ مافیا کے ساتھ مل کر اپنے فرائض کو نظر انداز کرنے لگی اور اس کا آخری نظارہ حالیہ بارشوں نے دیکھ لیا۔
لاہور کے بارے میں ملک بھر میں یہ تاثر موجود ہے کہ اس شہر کاانفرااسٹرکچر بہتر حالت میں ہے'یہاں بلدیاتی ادارے اپنا کام کر رہے ہیں'سیوریج سسٹم کو اپ ڈیٹ رکھا جارہا ہے۔جس کی وجہ سے مون سون کی بارشوں میں لاہور شہرکا وہ حشر نہیں ہوتا جو کراچی کا ہوا ہے۔یہ تاثر کسی حد تک درست بھی ہے لیکن اب حالات ایسے بن رہے ہیں کہ لاہور شہر میں بھی صفائی ستھرائی اور سیوریج کا انفرااسٹرکچر زوال کی طرف جاتا نظر آ رہا ہے۔ لاہورمیں کوڑا کرکٹ پھیلتا ہی چلاجا رہا ہے۔اسے اٹھانے والا عملہ کم ہی نظر آتا ہے۔
ایک خبر کے مطابق شہر میں 12ہزار ٹن سے زائد کوڑا کرکٹ مزید پھیل گیا ہے۔حالات کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے چئیر مین ایل ڈبلیو ایم سی لاہور نے سی ای او اور دیگر عملے کے ہمراہ لاہور شہر کے بیشتر مقامات کا ہنگامی دورہ کیا اور صفائی انتظامات کا جائزہ لیااورسرکاری مشینری سے شہر میں صفائی آپریشن کا آغازکر دیا ہے۔اس سلسلہ میں افسران و عملہ کی اتوار کی چھٹی بھی منسوخ کر دی گئی ہے۔
سرکاری مشینری سے کوڑا اٹھانا شروع کردیا ہے جب کہ زیادہ کوڑا ہونے کی وجہ سے ایمر جنسی نافذکرنے پر غور شروعکیا جا رہا ہے۔جب ادارے سست روی کا شکار ہو جائیں 'افسر اور نچلے عملے کو جواب دہی کا خوف نہ رہے یا صوبائی حکومت شہری اداروں کو کم فنڈز دینا شروع کر دے تو پھر شہر کا انفرااسٹرکچر خراب ہونا شروع ہوجاتا ہے اور یہ غفلت مسلسل جاری رہے تو بلاآخر بڑے شہر اس حالت تک پہنچ جاتے ہیں جس حالت میں کراچی پہنچ چکا ہے۔
پنجاب حکومت کو بھی اس حوالے سے مربوط پالیسی بنانے کی ضرورت ہے۔محض باتوں سے کام نہیں چلے گا 'اس کے لیے فنڈز مہیا کرنے انتہائی ضروری ہے اور اس کے ساتھ ساتھ سرکاری عملے کی تنخواہوں اور مراعات میں اضافہ بھی ضروری ہے تاکہ وہ دلجمعی سے اپنے فرائض ادا کر سکیں ۔ اس کے ساتھ سرکاری افسروں اور عملے کی جوابدہی کا میکنزم بھی ایسا ہونا چاہیے کہ جو کوئی بھی بدعنوانی یا غفلت کا مرتکب ہو ،وہ بچ کر نہ نکل سکے۔