تھا تو وہ خاک نشین ہی …
شاید اسی اعتمادکے سبب کرنل صاحب نے سوچا ہوگاکہ ان سے ایک سوال پوچھنا چاہیے۔
یار، ایک حسرت رہ گئی، یہ جینٹل مین بسم اللہ والے کرنل ریٹائرڈاشفاق تھے۔ انھوں نے اپنی حسرت کو یاد کیا اور مجھے اس دن کی یاد آئی جب ظہر کی نماز کے بعد مسجد سے میرا نکلنا تھوڑا مشکل ہو گیا تھا۔
پیش امام نے نماز مکمل کی تو میں نے پلٹ کر دیکھا، تین ستاروں والی وردی میں ملبوس ایک بزرگ عین میرے پیچھے مصروف نماز تھے۔ کچھ دیر میں نے انتظار کیا، اس کے بعد پھر پلٹ کر دیکھا، نماز ابھی جاری تھی۔ کچھ دیر کے بعد بھی صورت حال ایسی ہی تھی۔ میں نے اٹھنے کا ارادہ ایک بار پھر ملتوی کر دیا ۔
فائیو کور کی مسجد زیادہ بڑی نہ تھی لیکن نمازیوں سے بھری ہوئی تھی اور ان میں سے کسی کو بھی میری طرح فوراً کہیں جانے کی جلدی نہ تھی۔نماز سے فارغ ہوئے تو کرنل(ر) اشفاق نے ہنستے ہوئے کہا کہ یار، جنرل عثمانی کو تم اِس بے چینی سے دیکھ رہے تھے کہ جیسے ہی وہ سلام پھیریں، تم ان کا انٹرویو کھڑکا دو گے۔ ''اچھا تو یہ جنرل عثمانی تھے؟''۔ خوش گوار حیرت کے ساتھ میں نے سوچا۔ میری حیرت کا ایک پس منظر تھا۔
ان ہاؤس مساجد میں جہاں ایک ہی دفتر کے لوگ نماز پڑھتے ہیں اور باہر کے لوگ عام طور پر نہیں ہوتے یا کم ہوتے ہیں،جماعت کے کھڑا ہونے سے پہلے سربراہِ ادارہ یا بزرگ کا چند منٹ انتظار کرلیاجاتا ہے، اکثر مقامات پر تو اِن بزرگوں کے لیے اور امام کے عین پیچھے نماز کی جگہ بھی رکھ لی جاتی ہے۔ فائیو کور کی مسجد میں بھی ایسا کر لیا جاتا تو اس میں کچھ حرج نہ ہوتا لیکن یہ دیکھ کر حیرت اور مسرت ہوئی کہ یہاں ایسا نہیں تھا۔
جنرل عثمانی کے بارے میں میرا یہ پہلا تاثر تھا، خوش گوار اور شان دار۔دوران نماز اور بعد میں نے انھیں جس انداز میں مصروف مناجات پایا، ایسے مناظر کم ہی دیکھنے کو ملتے ہیں۔''تو گویا شخص اللہ کے حضور آتے ہوئے اپنی جرنیلی کہیں باہر چھوڑ آتا ہے''۔ میں نے خوش دلی کے ساتھ سوچا۔
کچھ دنوں کے بعد حالات بدل گئے اور جنرل صاحب سے ملاقات کی ایک اور سبیل پیدا ہوگئی۔ جنرل پرویز مشرف کے فوجی انقلاب کی بیشتر کارروائی کراچی میں ہوئی تھی جس کے بہت سے مناظریہاں کے صحافیوں کی ایک بڑی تعداد کو ایئرپورٹ پر دیکھنے کا موقع بھی ملا تھا۔ ان کی پہلی تقریر بھی یہیں سے نشر ہوئی لیکن اس کے بعد جنرل صاحب اسلام آباد گئے تو بس وہیں کے ہو کر رہ گئے۔ کراچی والوں کو ان سے بالمشافہ ملنے اور بات کرکے انھیں دیکھنے اور سمجھنے کا موقع ہی نہ ملا۔
شکوے شکایت اور احتجاج کی یہ آوازیں جنرل مشرف تک بالآخر پہنچ ہی گئیں۔ اس سلسلے میں کرنل صاحب کے توسط سے جنرل مظفر عثمانی کراچی والوں کی آواز وقت کے اِس طاقت ور حکمراں تک پہنچانے کا ذریعہ بنے۔ وہ رمضان المبارک کے دن تھے اور مزار قائد اعظمؒ کے احاطے کی باغ جناح کی صورت میں تزئین آرائش کا کام مکمل ہو چکا تھا ، ملاقات کی یہ صورت اسی باغ کی افتتاحی تقریب کے موقع پر پیدا کی گئی۔ماہِ مبارک میں ہونے والی تقریبات میں ویسے بھی کافی افراتفری ہوتی ہے لیکن اگر افطاری اور نماز کا اہتمام بھی کرنا پڑجائے تواس میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ اس بار بھی کچھ ایسا ہی ہوا لیکن اس ہٹو بچو میں بھی دیکھنے کو بہت مل گیا۔
افطاری کرنے والوں نے افطاری کی۔ اس کے بعد کسی نے سیگریٹ سلگائی اور کوئی نماز کی طرف بھاگا ، ان میں مہمان خصوصی یعنی چیف ایگزیکٹو پاکستان جنرل پرویز مشرف بھی تھے اور ان کے میزبان اور کور کمانڈر کراچی جنرل عثمانی بھی۔اس بار معاملہ چوں کہ سادہ مزاج کور کمانڈر کا نہیں تھا، اس لیے ضروری سمجھا گیا کہ نمازکے لیے خصوصی انتظامات کیے جائیں۔ ان انتظامات کے تحت جنرل مشرف عین امام صاحب کے پیچھے اور جنرل عثمانی ان کے دائیں جانب تھے۔
جوں ہی نماز ختم ہوئی، امام صاحب نے دعا کے لیے ہاتھ اٹھا دیے، اس موقع پر انھوں نے ذمے داران وقت کی کامیابی اور فتح ونصرت کے لیے خشوع و خضوع سے دعائیںکیں، اس دوران کچھ بے صبرے سنت اور نوافل کی ادائیگی میں مصروف ہو چکے تھے، گویا راستہ بالکل اسی انداز میں بند ہو چکا تھا جیسے اُس روز فائیو کور کی مسجد میں میرے لیے بند ہوا تھا لیکن اس بار معاملہ کسی بے بضاعت صحافی کا نہیں جسے مزدوری پر جانے کے لیے تادیر انتظار کرناپڑے بلکہ قوت و اختیار سے چھلکتے ہوئے چیف ایگزیکٹو کا تھاجیسے ہی امام نے دعا کے لیے اٹھے ہوئے ہاتھ منہ پر پھیرے،جنرل مشرف اٹھ کھڑے ہوئے اوربڑی تیز رفتاری کے ساتھ نماز میں مصروف لوگوں کے سامنے سے گزرنے لگے۔
اس مشکل میں اُن کا میزبان کیاکرے؟ ممکن ہے کہ اُس لمحے خشوع و خضوع سے نماز ادا کرنے کے عادی کور کمانڈر کوکچھ پریشانی لاحق ہوئی ہو لیکن کسی چوکس کمان دار کی طرح فیصلہ کرنے میں انھیں زیادہ دیر نہ لگی۔ جنرل مشرف جس دم اپنے محافظوں کے جلو میں تیزی کے ساتھ آگے بڑھ رہے تھے، عین اسی وقت جنرل عثمانی نے بھی ان کے قدموں کے ساتھ قدم ملانے کے لیے ذرا لمبے ڈگ بھرنے شروع کردیے، کتنا مشکل ہوجاتا ہے، کسی حکمراں کا ساتھ دینا، ایک خیال میرے ذہن میں سرسرایا۔
جنرل مشرف کے اقتدار کو ابھی چند ماہ ہی گزرے ہوں گے کہ جنرل عثمانی کو ڈپٹی چیف آف آرمی اسٹاف بنا دیا گیا۔جنرل مشرف نے انھیں ترقی کیوں دی؟ اس سلسلے میں لوگوں کی رائے منقسم ہے، بعض لوگوں کا خیال ہے کہ یہ اس بہادری اور وفاداری کا انعام تھا جس کا مظاہرہ جنرل عثمانی نے۱۲؍ اکتوبر کی طویل طوفانی رات کے دوران کیا تھا۔ کچھ کی رائے اس کے برعکس ہے۔جنرل عثمانی کے والد فوت ہوئے تو اس موقع پر وہ جس حلیے میں دکھائی دیے،کہا جاتا ہے کہ اس سے بعض طاقت ور حلقوں میں تشویش کی لہر دوڑ گئی۔
اتنے بڑے فوجی افسر کے سر پر اس وقت پاکستانی دیہاتیوں جیسے عام سے صافے کی پگڑی تھی اور وہ دیکھنے میں ایک طاقت ور روشن خیال جرنیل کے ساتھی کے بجائے کسی گاؤں کی مسجد کے پیش امام لگتے تھے، طالبان کی زور آوری کے دور میں یہ حلیہ کہا جاتا ہے کہ ان کے مستقبل کا فیصلہ کر گیا،کیوں کہ وائس چیف آف آرمی اسٹاف بننے کے بعد وہ کور کمانڈر جیسے طاقت ور جرنیل نہیں رہے تھے بلکہ نرے اسٹاف افسر ہو کر رہ گئے تھے جس کا اختیارصرف اپنے پی ایس اور چند دوسرے ماتحتوں تک ہی محدود رہتا ہے اور وہ بھی فوج سے جلد فارغ کردینے کے لیے۔
جنرل عثمانی اور کرنل (ر)اشفاق کا بہت ساتھ رہا ہے، ایک زمانے میں دونوں بزرگوں کے درمیان درست انگریزی لکھنے کے معاملے میں بحث مباحثے بھی ہوجایا کرتے تھے، ایک بار تو تلخی اتنی بڑھی کہ خدا ترس جرنیل نے اپنے ماتحت کو شیر کی نگاہ سے دیکھتے ہوئے خبردار کیا کہ دیکھو ، اگر تم غلط ثابت ہوئے تو فائیو کور میں تمھارا یہ دن آخری بھی ہوسکتا ہے۔ اس چیلنج میں ماتحت کامیاب رہا تو ان کے درمیان اعتماد کا ایسا خوبصورت رشتہ بنا جو تادم آخر قائم رہا۔
شاید اسی اعتمادکے سبب کرنل صاحب نے سوچا ہوگاکہ ان سے ایک سوال پوچھنا چاہیے۔ سوال بڑا سادہ اور آسان تھا۔ ۱۲؍ اکتوبر کی شام وزیر اعظم کے ملٹری سیکریٹری بریگیڈئر جاوید اقبال نے انھیں فون کر کے وزیر اعظم کی اس خواہش سے آگاہ کیا تھا کہ جیسے ہی جنرل مشرف کراچی میں اتریں، انھیں حفاظتی تحویل میں لے لیا جائے۔تھوڑی دیر کے بعد جنرل ضیاالدین نے انھیں فوج کے سربراہ کی حیثیت سے اپنی نامزدگی سے آگاہ کیا اور اس خواہش کا اظہار کیا کہ جنرل مشرف کو حفاظت سے کسی میس میں پہنچا دیا جائے تاکہ وہ کوئی رکاوٹ پیدا نہ کرسکیں۔
یہ ایک تاریخی موقع تھا، اس سے قبل پنڈی کور اور اس کا ٹرپل ون بریگیڈ اس قسم کے اہداف پر کام کیا کرتا تھا، یہ پہلی بارتھی جب کراچی کور ایسی صورت حال سے دوچار ہوئی، اس مرحلے پر جنرل عثمانی اگر مختلف فیصلہ کرتے تو آج تاریخ مختلف ہوتی، کرنل (ر)اشفاق اُن سے پوچھنا یہ چاہتے تھے کہ کیا سبب تھاکہ انھوں نے ایک مختلف فیصلہ کر کے تاریخ میں اپنے لیے جگہ نہ بنائی؟
پیش امام نے نماز مکمل کی تو میں نے پلٹ کر دیکھا، تین ستاروں والی وردی میں ملبوس ایک بزرگ عین میرے پیچھے مصروف نماز تھے۔ کچھ دیر میں نے انتظار کیا، اس کے بعد پھر پلٹ کر دیکھا، نماز ابھی جاری تھی۔ کچھ دیر کے بعد بھی صورت حال ایسی ہی تھی۔ میں نے اٹھنے کا ارادہ ایک بار پھر ملتوی کر دیا ۔
فائیو کور کی مسجد زیادہ بڑی نہ تھی لیکن نمازیوں سے بھری ہوئی تھی اور ان میں سے کسی کو بھی میری طرح فوراً کہیں جانے کی جلدی نہ تھی۔نماز سے فارغ ہوئے تو کرنل(ر) اشفاق نے ہنستے ہوئے کہا کہ یار، جنرل عثمانی کو تم اِس بے چینی سے دیکھ رہے تھے کہ جیسے ہی وہ سلام پھیریں، تم ان کا انٹرویو کھڑکا دو گے۔ ''اچھا تو یہ جنرل عثمانی تھے؟''۔ خوش گوار حیرت کے ساتھ میں نے سوچا۔ میری حیرت کا ایک پس منظر تھا۔
ان ہاؤس مساجد میں جہاں ایک ہی دفتر کے لوگ نماز پڑھتے ہیں اور باہر کے لوگ عام طور پر نہیں ہوتے یا کم ہوتے ہیں،جماعت کے کھڑا ہونے سے پہلے سربراہِ ادارہ یا بزرگ کا چند منٹ انتظار کرلیاجاتا ہے، اکثر مقامات پر تو اِن بزرگوں کے لیے اور امام کے عین پیچھے نماز کی جگہ بھی رکھ لی جاتی ہے۔ فائیو کور کی مسجد میں بھی ایسا کر لیا جاتا تو اس میں کچھ حرج نہ ہوتا لیکن یہ دیکھ کر حیرت اور مسرت ہوئی کہ یہاں ایسا نہیں تھا۔
جنرل عثمانی کے بارے میں میرا یہ پہلا تاثر تھا، خوش گوار اور شان دار۔دوران نماز اور بعد میں نے انھیں جس انداز میں مصروف مناجات پایا، ایسے مناظر کم ہی دیکھنے کو ملتے ہیں۔''تو گویا شخص اللہ کے حضور آتے ہوئے اپنی جرنیلی کہیں باہر چھوڑ آتا ہے''۔ میں نے خوش دلی کے ساتھ سوچا۔
کچھ دنوں کے بعد حالات بدل گئے اور جنرل صاحب سے ملاقات کی ایک اور سبیل پیدا ہوگئی۔ جنرل پرویز مشرف کے فوجی انقلاب کی بیشتر کارروائی کراچی میں ہوئی تھی جس کے بہت سے مناظریہاں کے صحافیوں کی ایک بڑی تعداد کو ایئرپورٹ پر دیکھنے کا موقع بھی ملا تھا۔ ان کی پہلی تقریر بھی یہیں سے نشر ہوئی لیکن اس کے بعد جنرل صاحب اسلام آباد گئے تو بس وہیں کے ہو کر رہ گئے۔ کراچی والوں کو ان سے بالمشافہ ملنے اور بات کرکے انھیں دیکھنے اور سمجھنے کا موقع ہی نہ ملا۔
شکوے شکایت اور احتجاج کی یہ آوازیں جنرل مشرف تک بالآخر پہنچ ہی گئیں۔ اس سلسلے میں کرنل صاحب کے توسط سے جنرل مظفر عثمانی کراچی والوں کی آواز وقت کے اِس طاقت ور حکمراں تک پہنچانے کا ذریعہ بنے۔ وہ رمضان المبارک کے دن تھے اور مزار قائد اعظمؒ کے احاطے کی باغ جناح کی صورت میں تزئین آرائش کا کام مکمل ہو چکا تھا ، ملاقات کی یہ صورت اسی باغ کی افتتاحی تقریب کے موقع پر پیدا کی گئی۔ماہِ مبارک میں ہونے والی تقریبات میں ویسے بھی کافی افراتفری ہوتی ہے لیکن اگر افطاری اور نماز کا اہتمام بھی کرنا پڑجائے تواس میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ اس بار بھی کچھ ایسا ہی ہوا لیکن اس ہٹو بچو میں بھی دیکھنے کو بہت مل گیا۔
افطاری کرنے والوں نے افطاری کی۔ اس کے بعد کسی نے سیگریٹ سلگائی اور کوئی نماز کی طرف بھاگا ، ان میں مہمان خصوصی یعنی چیف ایگزیکٹو پاکستان جنرل پرویز مشرف بھی تھے اور ان کے میزبان اور کور کمانڈر کراچی جنرل عثمانی بھی۔اس بار معاملہ چوں کہ سادہ مزاج کور کمانڈر کا نہیں تھا، اس لیے ضروری سمجھا گیا کہ نمازکے لیے خصوصی انتظامات کیے جائیں۔ ان انتظامات کے تحت جنرل مشرف عین امام صاحب کے پیچھے اور جنرل عثمانی ان کے دائیں جانب تھے۔
جوں ہی نماز ختم ہوئی، امام صاحب نے دعا کے لیے ہاتھ اٹھا دیے، اس موقع پر انھوں نے ذمے داران وقت کی کامیابی اور فتح ونصرت کے لیے خشوع و خضوع سے دعائیںکیں، اس دوران کچھ بے صبرے سنت اور نوافل کی ادائیگی میں مصروف ہو چکے تھے، گویا راستہ بالکل اسی انداز میں بند ہو چکا تھا جیسے اُس روز فائیو کور کی مسجد میں میرے لیے بند ہوا تھا لیکن اس بار معاملہ کسی بے بضاعت صحافی کا نہیں جسے مزدوری پر جانے کے لیے تادیر انتظار کرناپڑے بلکہ قوت و اختیار سے چھلکتے ہوئے چیف ایگزیکٹو کا تھاجیسے ہی امام نے دعا کے لیے اٹھے ہوئے ہاتھ منہ پر پھیرے،جنرل مشرف اٹھ کھڑے ہوئے اوربڑی تیز رفتاری کے ساتھ نماز میں مصروف لوگوں کے سامنے سے گزرنے لگے۔
اس مشکل میں اُن کا میزبان کیاکرے؟ ممکن ہے کہ اُس لمحے خشوع و خضوع سے نماز ادا کرنے کے عادی کور کمانڈر کوکچھ پریشانی لاحق ہوئی ہو لیکن کسی چوکس کمان دار کی طرح فیصلہ کرنے میں انھیں زیادہ دیر نہ لگی۔ جنرل مشرف جس دم اپنے محافظوں کے جلو میں تیزی کے ساتھ آگے بڑھ رہے تھے، عین اسی وقت جنرل عثمانی نے بھی ان کے قدموں کے ساتھ قدم ملانے کے لیے ذرا لمبے ڈگ بھرنے شروع کردیے، کتنا مشکل ہوجاتا ہے، کسی حکمراں کا ساتھ دینا، ایک خیال میرے ذہن میں سرسرایا۔
جنرل مشرف کے اقتدار کو ابھی چند ماہ ہی گزرے ہوں گے کہ جنرل عثمانی کو ڈپٹی چیف آف آرمی اسٹاف بنا دیا گیا۔جنرل مشرف نے انھیں ترقی کیوں دی؟ اس سلسلے میں لوگوں کی رائے منقسم ہے، بعض لوگوں کا خیال ہے کہ یہ اس بہادری اور وفاداری کا انعام تھا جس کا مظاہرہ جنرل عثمانی نے۱۲؍ اکتوبر کی طویل طوفانی رات کے دوران کیا تھا۔ کچھ کی رائے اس کے برعکس ہے۔جنرل عثمانی کے والد فوت ہوئے تو اس موقع پر وہ جس حلیے میں دکھائی دیے،کہا جاتا ہے کہ اس سے بعض طاقت ور حلقوں میں تشویش کی لہر دوڑ گئی۔
اتنے بڑے فوجی افسر کے سر پر اس وقت پاکستانی دیہاتیوں جیسے عام سے صافے کی پگڑی تھی اور وہ دیکھنے میں ایک طاقت ور روشن خیال جرنیل کے ساتھی کے بجائے کسی گاؤں کی مسجد کے پیش امام لگتے تھے، طالبان کی زور آوری کے دور میں یہ حلیہ کہا جاتا ہے کہ ان کے مستقبل کا فیصلہ کر گیا،کیوں کہ وائس چیف آف آرمی اسٹاف بننے کے بعد وہ کور کمانڈر جیسے طاقت ور جرنیل نہیں رہے تھے بلکہ نرے اسٹاف افسر ہو کر رہ گئے تھے جس کا اختیارصرف اپنے پی ایس اور چند دوسرے ماتحتوں تک ہی محدود رہتا ہے اور وہ بھی فوج سے جلد فارغ کردینے کے لیے۔
جنرل عثمانی اور کرنل (ر)اشفاق کا بہت ساتھ رہا ہے، ایک زمانے میں دونوں بزرگوں کے درمیان درست انگریزی لکھنے کے معاملے میں بحث مباحثے بھی ہوجایا کرتے تھے، ایک بار تو تلخی اتنی بڑھی کہ خدا ترس جرنیل نے اپنے ماتحت کو شیر کی نگاہ سے دیکھتے ہوئے خبردار کیا کہ دیکھو ، اگر تم غلط ثابت ہوئے تو فائیو کور میں تمھارا یہ دن آخری بھی ہوسکتا ہے۔ اس چیلنج میں ماتحت کامیاب رہا تو ان کے درمیان اعتماد کا ایسا خوبصورت رشتہ بنا جو تادم آخر قائم رہا۔
شاید اسی اعتمادکے سبب کرنل صاحب نے سوچا ہوگاکہ ان سے ایک سوال پوچھنا چاہیے۔ سوال بڑا سادہ اور آسان تھا۔ ۱۲؍ اکتوبر کی شام وزیر اعظم کے ملٹری سیکریٹری بریگیڈئر جاوید اقبال نے انھیں فون کر کے وزیر اعظم کی اس خواہش سے آگاہ کیا تھا کہ جیسے ہی جنرل مشرف کراچی میں اتریں، انھیں حفاظتی تحویل میں لے لیا جائے۔تھوڑی دیر کے بعد جنرل ضیاالدین نے انھیں فوج کے سربراہ کی حیثیت سے اپنی نامزدگی سے آگاہ کیا اور اس خواہش کا اظہار کیا کہ جنرل مشرف کو حفاظت سے کسی میس میں پہنچا دیا جائے تاکہ وہ کوئی رکاوٹ پیدا نہ کرسکیں۔
یہ ایک تاریخی موقع تھا، اس سے قبل پنڈی کور اور اس کا ٹرپل ون بریگیڈ اس قسم کے اہداف پر کام کیا کرتا تھا، یہ پہلی بارتھی جب کراچی کور ایسی صورت حال سے دوچار ہوئی، اس مرحلے پر جنرل عثمانی اگر مختلف فیصلہ کرتے تو آج تاریخ مختلف ہوتی، کرنل (ر)اشفاق اُن سے پوچھنا یہ چاہتے تھے کہ کیا سبب تھاکہ انھوں نے ایک مختلف فیصلہ کر کے تاریخ میں اپنے لیے جگہ نہ بنائی؟