آلودگی و ماحولیات کے چیلنجز

عام آدمی کو ماحولیات، عالمی موسمیاتی مسائل سے کوئی لینا دینا نہیں، ہاں اس کام میں ہماری قوم کا جواب نہیں۔

عام آدمی کو ماحولیات، عالمی موسمیاتی مسائل سے کوئی لینا دینا نہیں، ہاں اس کام میں ہماری قوم کا جواب نہیں۔ فوٹو: فائل

RAWALPINDI:
اس حقیقت سے تو شاید کسی کو انکار نہ ہوکہ ہم من حیث القوم ماحولیات کے عالمی چیلنج کی حساسیت اور اہمیت کا کوئی ادراک نہیں رکھتے، ہمارے اسکول ،کالجز اور جامعات کے نصاب بھی اس ضمن میں کوئی شعور اور بیداری کی قندیل جلانے میں معاونت نہیں کرتے، درخت اگانے، سبزہ زاروں سے محبت، پھولوں کی بھینی بھینی خوشبو اورگلرنگ پودوں سے قربت کا کلچر محض اشرافیہ اور امرا کے علاقوں تک محدود ہے۔

عام آدمی کو ماحولیات، عالمی موسمیاتی مسائل سے کوئی لینا دینا نہیں، ہاں اس کام میں ہماری قوم کا جواب نہیں، اگر بات شجرکاری، گرین بیلٹ کے تحفظ، سمندری آلودگی کے سدباب، درخت اگانے، جنگلات کے کٹاؤ کی آ جائے تو کوئی پیچھے نہیں رہتا۔ ایک مشہور مقولہ ہے کہ ''جو وقت انسان کا درختوں کے درمیان گزرتا ہے وہ کبھی ضایع نہیں جاتا'' یہ بھی حقیقت ہے کہ شجرکاری ہمارے یہاں ایک سرکاری میلہ ہوتا ہے، ارباب اختیار فوٹو سیشن کے لیے آتے ہیں ، تقریب کچھ بہر ملاقات ہو جاتی ہے، ملین پودے لگانے کی خبریں چھپتی ہیں اور تمام اخراجات فائلوں کا پیٹ بھرنے کے لیے دکھائے جاتے ہیں۔

اگلے دن چیف جسٹس پاکستان گلزار احمد نے آلودگی کیس میں اداروں کی کارکردگی پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ پشاور شہر میں آلودگی کے باعث عوام کا جینا محال ہو چکا ہے۔ یہاں پر توکورونا کے بعد بھی ماسک کے بغیر نہیں گھوما جا سکتا۔ کہاں گئے وہ بلین ٹری سونامی کے منصوبے جس میں اربوں درخت لگانے کے دعوے کیے گئے تھے۔

ہمیں تو پشاور آتے ہوئے ایک درخت بھی دکھائی نہیں دیا۔ چیف جسٹس کے ریمارکس چشم کشا تھے، وہ جس شجرکاری کا حوالہ دے رہے تھے، اس کا تذکرہ تو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں ہوا تھا، چیف جسٹس کی سربراہی میں فل بنچ نے از خود نوٹس کیس کی سماعت کی۔ اس موقع پر ایڈووکیٹ جنرل، سیکریٹری صنعت، سیکریٹری جنگلات اور دیگر حکام پیش ہوئے۔ چیف جسٹس نے استفسار کیاکہ آپ لوگوں نے آلودگی کنٹرول کرنے کے لیے کیا اقدامات کیے؟ رپورٹس میں کچھ بھی نہیں۔ افسر دفاتر میں بیٹھ کر رپورٹ ہمیں بھجوا دیتے ہیں۔ باہر فیلڈمیں کوئی دکھائی نہیں دے رہا۔ ایسے افسروں کی کوئی ضرورت نہیں، انھیں فارغ کیا جائے۔ کاغذی کارروائی نہیں عملی اقدامات چاہیئیں، شہری سخت عذاب میں مبتلا ہیں۔

حکومت اس جانب توجہ دے۔ عجیب بات ہے کہ آپ لوگوں نے بلین ٹری سونامی کے نام پرمنصوبے شروع کر رکھے ہیں۔ اربوں درخت لگانے کا دعویٰ کیا مگر پشاور موٹر وے سے یہاں تک ایک درخت بھی نہیں ہے۔ وہ درخت کہاں گئے۔ لگتا تو یہ ہے کہ پشاور میں دھول ہی دھول ہے اور افسران اے سی میں بیٹھ کرصرف احکامات صادرکرتے ہیں۔ یہ خزانے پر بوجھ ہیں۔ انھیں فارغ کر کے نئے افسرلائیں تا کہ عوام کی فلاح کاکوئی کام ہو سکے۔ جسٹس فیصل عرب نے ریمارکس دیے کہ آلودگی کو سنجیدگی سے لیناہوگا۔ پچاس سالوں سے ٹیکنالوجی میسر ہے لیکن اس کا استعمال نہیں کیا جا رہا۔ چیف جسٹس نے کہاکہ عوام کی صحت پرکوئی سمجھوتہ قبول نہ ہو گا۔

عدالت عظمیٰ نے قرار دیا کہ نئی صنعتیں لگانی ہیں تو پہلے آلودگی روکنے کے لیے اقدامات کرنا ہوں گے۔ عدالتی حکم پر اگرکوئی عملدرآمد نہیں کرتا تو ایسے کارخانے سیل ہی رہنے دیں۔ اگر عدلیہ کی طرف سے آنے والے اظہاریہ کے تاریخی تناظرکا جائزہ لیا جائے تو ملکی تمدن کی ایک دھندلی سی تصویر نظر آئے گی جس کا ہر ورق درخت کے کاٹنے سے لے کر برائے نام ''سرکاری'' شجرکاری کی فنکاری سے کچھ کم نہیں ہو گا۔

ہمارے دین اور آخری پیغمبر نے شجرکاری، درختوں اور انسانوں کے مابین فطرت کے نازک رشتے اور نباتاتی تعلق و ارتقا کی ایک دل نشین باب تاریخ کے سینہ میں محفوظ کر دیا ہے۔ تاہم ہمارا المیہ کا سیاسی اور سماجی سیاق و سباق بلین ٹری کے قصے سے شروع ہوتا ہے، وضاحتیں بہت ساری ہیں، حکومت، بیوروکریسی اور پارٹی کارکن اس کار خیر میں شمولیت کو شجرکاری کے حوالے سے پوائنٹ اسکورنگ کا ذریعہ بناتے ہیں، مسئلہ بلین ٹری حقیقت میں لگانے کا ہے، درخت اگر لگائے گئے ہیں تو نظر بھی آنے چاہئیں۔


پشاورکے گرد وغبار کی بات آئی تو کورونا کے ماسک اور دیگر ماحولیاتی معاملات پر عدلیہ نے سیر حاصل ریمارکس دیے، مگر جس نباتاتی اور ماحولیاتی تعلق کی ضرورت پر مسند انصاف سے واضح للکار سنائی دی، وہ سیاسی نظام کی غیر سنجیدگی کی ہے، ملک میں کسی حکومت نے شجرکاری،جنگلات، رین فاریسٹ میں آگ، زہریلی گیسز، فضائی اور بحری آلودگی کے مسئلہ کو حل کرنے کے لیے ماسٹر پلان نہیں بنائے ،اگر بنائے بھی تو ان پر موثر عمل نہیں ہوا، سیاسی نظام میں ترجیحات کے جنگل ضرور اگائے گئے مگر ان ترجیحات میں ارضecology کو مرکزی تھیسس کا درجہ نہیں ملا، اسلام آباد میں جو سرسبز و شاداب مقامات ہیں۔

ان کے گرین بیلٹ ہیں، قطار اندر قطار سایہ دار درخت ویسے ہیں جو کراچی کے پوش ایریاز کے علاقے میں نظر آتے ہیں، انتظامی سطح پر درختوں ،گرین بیلٹ کی نگہداشت ہوتی ہے، کنٹونمنٹس کے مالی، خاکروب اور عملہ مصروف کار رہتا ہے، اسی طرح صوبائی دارالحکومتوں میں اہم مقامات پر گرینری باہر ملتی ہے، درخت اور پودے ترتیب سے اگائے جاتے ہیں، لیکن یہ رجحان ایک قومی کلچر اور تمدنی روایت کا ورثہ نہیں دے پایا، محسوس ہوتا ہے کہ جہاں امرا ، روسا اور اشرافیہ کی آبادیاں ہیں وہاں ماحول میں نمائشی گل بوٹے کثرت سے دستیاب ہوتے ہیں لیکن پاکستان کی کچی آبادیوں، غریب علاقوں اور کم آمدنی والے شہروں میں شاید درخت ببول اور برگد کے درخت کٹنے کے لیے اگائے گئے تھے۔

ماحولیات کی تباہی اسی درخت بیزار کلچر کا نتیجہ ہے، لوگوں کی تربیت نہیں ہوئی، کوئی تو ہو جوگھر کے ماحول کو تبدیل کرنے کے لیے درخت لگائے، پودوں کی آفرینش کے لیے وقت نکالے، اس کام کو شجر کاری کے نام پر ایک غیر سنجیدہ عمل بنایا گیا، لہذا کراچی، لاہور، پشاور، حیدر آباد اور بلوچستان میں گرمی انسانی جسم کو جھلسا دیتی ہے، محکمہ موسمیات گرم ترین علاقوں کے درجہ حرارت کا بتا دیتا ہے، حکومتیں مون سون کی اطلاع تک محدود ہیں لیکن اس اطلاع کے ساتھ جو تباہی سیلاب اور موسلا دھار بارشیں لاتی ہیں اس سے ہمارے ارباب اختیار کوئی سروکار نہیں رکھتے۔

کراچی ڈوب جاتا ہے اور ملک بھر میں بارشوں سے کھڑی فصلیں تباہ ہوتی ہیں، معمولات زندگی، زراعت ، صنعت اورکاروبار معطل ہو جاتا ہے، اربوں روپے کا نقصان الگ ہے، سیاسی نظام ریاستی حوالے سب برائے نام رہ جاتے ہیں۔ ماحولیاتی تبدیلی نوع انسانی کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے، مغرب نے آلودگی کی روک تھام کے لیے سسٹم کو مطیع بنایا ہے، اگر پوش ایریاز کے علاقے میں صفائی ہو سکتی ہے، مالی، اور ستھرائی پر مامور عملہ سڑکوں پر جھاڑو دے سکتا ہے، سبزہ کو ہر صبح پانی مل جاتا ہے تو اسلام آباد، لاہور، کراچی، پشاور کیوں گندگی اور کچرے کے ڈھیر میں چھپ جاتے ہیں، آلودگی اور ماحولیاتی بربادی وہاں کے شہریوں کا مقدرکیوں بن جاتی ہے۔

لوگ کہتے ہیں کہ متمدن معاشرے میں ہر شہری کو اپنا مائنڈ سیٹ بدلنے کی فکرکرنی چاہیے، کوئی خود نہیں بدلتا تو اس کا سماج تبدیلیوں سے آگاہ نہیں ہو سکتا، کسی کو تو اس بات کا احساس ہونا چاہیے کہ کچرا پڑوسی کے گھر کے سامنے نہ پھینکا جائے، مگر ہمارے یہاں اکثر لڑائی جھگڑے کی بنیاد یہ بنتی ہے کہ ''تم نے اپنا کچرا میرے گھرکے سامنے کیوں پھینکا؟'' کوئی اس بات کا نوٹس نہیں لیتا کہ سڑکوں کے کنارے کھڑے قدیم سایہ دار درخت کیوں کاٹے جاتے ہیں، سبزے اور پودوں پر پانی کے چھڑکاؤ کا عملہ غائب کیوں رہتا ہے، کراچی میں کلفٹن میں بوٹ بیسن پر بینظیر پارک یا بن قاسم پارک کے اطراف مینگروز کو تباہ کیا گیا، درخت اگائے جا رہے ہیں۔

تاہم ان کے لیے جو باکسز بنائے گئے ہیں ان کی حالت شکستہ ہے، انھیں پانی پابندی سے نہیں مل رہا، کئی ڈھانچے ادھڑ گئے ہیں، یہاں بھی لاکھوں پودے اگائے گئے، مگر وہاں آج دھول اڑ رہی ہے، وہ منظر نامہ ہے جو چیف جسٹس گلزر احمد نے پشاور کا بیان کیا ہے۔ مسئلہ جنگلات اور گرین گیسز کا ہے، ہماری صنعتیں اور انڈسٹریل ایریاز کو بھی آلودگی اور ماحولیات کے خطرات کا سامنا ہے، سمندر آلودگی اور سی ویو کی حالت زار ور گندگی اور آلودگی افسوسناک تھی، شہر کا کیمیکل اور زہریلا نکاس کیا ہوا ، نان ٹریمنٹ شدہ پانی سمندری آلودگی کا سبب بنا ہوا تھا، این جی اوز نے اس کا نوٹس لیا لیکن سطحی اور عارضی اقدامات ملک کے ماحولیاتی اور آلودگی کے مسائل کا ازلہ نہیں کرسکتے۔

اس حقیقت کو تسلیم کرنا ہوگا کہ ملک ماحولیات اور آلودگی کے بھنور میں پھنسا ہے، ملک کے چاروں صوبوں اور وفاق میں ماحولیات اور آلودگی کے سدباب کے لیے سوچ بچارکی ضرورت ہے، دنیا میں موسمیاتی تبدیلیوں اورگلوبل وارمنگ سے پاکستان سمیت متعدد ترقی پذیر ممالک سخت متاثرہونگے، گرد کا طوفان ہر شہرکے نشیبی اور غریب علاقوں کو لپیٹ میں لیے ہوئے ہے، لوگ بیماریوں کے گرداب میں گرفتار ہیں، گردے فیل ہورہے ہیں۔

دل ہیپا ٹائٹس اور شوگر کا عارضہ جھیل رہا ہے، بچوں کو وائرل بیماریوں سے بچاؤ کی ضرورت ہے، ہم ابھی تک پولیو سے بچاؤکی کے لیے ہاتھ پیر مار رہے ہیں، کورونا کی دوسری لہر کا دھڑکا لگ گیا ہے،معاشی شرح نمو اور ماحولیاتی تحفظ کا چولی دامن کا ساتھ ہے، جنگلات کے کٹاؤ میں ملوث طاقور مافیاؤں کو لگام دینا ہوگا، یہ شہری تہذیب کی انسان دشمنی کی انتہا ہے کہ لوگ نشاہ ثانیہ کے دورکی ارفع و اعلیٰ پینٹنگ کوآگ جلانے کے لیے استعمال کرلیں۔ لہذا ارباب اختیار راوی اربن پروجیکٹ اور سندھ وبلوچستان کے جزائر کو آباد کرنے کی کوشش میں ماحولیات اور آلودگی کے خوابیدہ مسائل کو ضرور پیش نظر رکھیں۔
Load Next Story