سیاسی محاذ آرائی کی بجائے عوامی مسائل حل کرنے پر توجہ دینے کی ضرورت
اگر پیپلزپارٹی سندھ کی وحدت پر یقین رکھتی ہے تو اسے کوٹہ سسٹم کا بھی خاتمہ کرنا ہوگا۔
بارشوں کے بعد تباہ حالی کا شکار ملک کے معاشی حب کراچی کی ٹوٹی پھوٹی سڑکیں اس وقت مختلف سیاسی جماعتوں کی ریلیوں کو رونق بخشنے میں مصروف ہیں۔
ایم کیو ایم پاکستان اور جماعت اسلامی کے بعد پاکستان پیپلزپارٹی نے بھی عائشہ منزل سے ایمپریس مارکیٹ تک ''کراچی یکجہتی ریلی'' کا انعقاد کیا، جس سے خطاب کرتے ہوئے پارٹی رہنماؤں کا کہنا تھا کہ کراچی یکجہتی ریلی نفرت، لسانیت اور تقسیم کی سیاست کے خلاف عوامی ریفرنڈم ہے۔
پیپلز پارٹی بلدیاتی انتخابات میں کراچی سمیت صوبے بھر سے کامیابی حاصل کر کے عوام کا مقدمہ لڑے گی، کراچی کی ریلی احتجاج کی ابتدا ہے، اگر ہم نے سندھ بھر میں احتجاج کی کال دی تو عوام حکمرانوں کے خلاف سڑکوں پر ہوں گے، کراچی یکجہتی ریلی صرف پیپلز پارٹی کا اجتماع ہے، جب 11 جماعتیں یکجا ہو کر سڑکوں پر طاقت دکھائیں گی تو حکمرانوں کی نیند حرام کر دیں گے۔
ادھر سندھ کے دوسرے بڑے شہر حیدرآباد میں ایم کیو ایم پاکستان کی جانب سے عوامی اجتماع کا انعقاد کیا گیا جہاں ڈاکٹرخالد مقبول صدیقی ایک مرتبہ پھر نئے صوبے کی بات کرتے ہوئے نظر آئے۔
کنوینر ایم کیو ایم پاکستان کا اپنے خطاب میں کہنا تھا کہ پاکستان کی تقدیر بدلنے کا دن آرہا ہے ایک جانب سندھو دیش کا خواب ہے اور دوسری جانب متروکہ سندھ، جنوبی سندھ صوبہ ہے جو سندھو دیش کے خواب کو چکنا چور کرے گا۔تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس وقت سندھ کے شہری علاقوں میں سیاسی جماعتوں کا طرز عمل سمجھ سے بالاتر ہے۔
خصوصاً پیپلزپارٹی کی جانب سے اچانک کراچی میں ریلی کے انعقاد کی کوئی منطق سمجھ میں نہیں آرہی ہے۔ پیپلزپارٹی اگر سندھ کی سالمیت کی بات کرتی ہے تو اسے یہ بات بھی مدنظررکھنا ہوگی کہ صوبے میں رائج کوٹہ سسٹم بھی تقسیم کی ایک شکل ہی ہے،جس نے سندھ کے شہری اور دیہی علاقوں کو تقسیم کیا ہوا ہے۔
اگر پیپلزپارٹی سندھ کی وحدت پر یقین رکھتی ہے تو اسے کوٹہ سسٹم کا بھی خاتمہ کرنا ہوگا۔کراچی میں ریلی نکالنا اس کا جمہوری حق ہے لیکن ضرورت اس امر کی ہے کہ وہ سڑکوں پر ریلیاں کی بجائے ان سڑکوں کی تعمیر پر اپنی توجہ مرکوز کرے اور وفاقی حکومت کی جانب سے اعلان کردہ گیارہ سو ارب روپے کے پیکجج پر عملدرآمد کے لیے یکسوئی کے ساتھ کام کرے۔
12سال سے زائد عرصے برسراقتدار پیپلزپارٹی کی صوبائی حکومت اگر کراچی کے باسیوں کے لیے عملی اقدامات کرتی ہے تو اسے پھر یہاں کے عوام کے دلوں کو جیتنے کے لیے کسی ریلی کی ضرورت نہیں ہوگی۔ اسی طرح ایم کیو ایم بھی اس وقت وفاقی حکومت کی اتحادی جماعت ہے۔
ان کے پیش نظر بھی یہ بات ہوگی کہ سندھ میں الگ صوبے کی بات ایک سیاسی نعرہ تو ہو سکتا ہے لیکن اس کو عملی شکل دینے کے لیے حالات ناموافق ہیں۔ایم کیو ایم کو بھی اپنی تمام انرجی کراچی پیکج پر عملدرآمد پر لگانی چاہیے۔ ریلیوں کی بجائے عملی اقدامات سے ہی وہ شہر کراچی میں اپنی کھوئی سیاسی میراث حاصل کرنے میں کامیاب ہو سکتی ہے۔
شہداء کربلا کے چہلم کے حوالے سے مذہبی ہم آہنگی کو برقرار رکھنے کے لیے وفاقی اور صوبائی حکومتوں سمیت مذہبی اور سیاسی رہنما بھی متحرک ہیں۔ یوم عاشور اور اس سے قبل پیش آنے والے چند ناخوشگوار واقعات کے بعد چہلم امام حسین کے حوالے سے انتہائی مربوط اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ وزیر اعلی سندھ سید مراد علی شاہ نے بھی اس حوالے سے دو اجلاس منعقد کیے، جس میں جید اہلسنت اور شیعہ علماء نے شرکت کی۔
سید مراد علی شاہ کا کہنا تھا کہ پچھلے کئی دنوں سے کچھ مذموم عناصر صوبے میں فرقہ وارانہ عدم استحکام پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ہم سب کو اس اقدام کو ناکام بنانے کے لئے اتحاد، بھائی چارگی اور رواداری کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ان کا کہنا تھا کہ چہلم امام حسین کے لئے ضابطہ اخلاق پر پہلے ہی ہماری مختلف ملاقاتوں میں اتفاق رائے ہو چکا ہے، لہذا ہمیں اس کی پاسداری کرنی ہوگی۔
ادھر وفاقی وزیر مذہبی امور بین المذاہب و مسالک ہم آہنگی ڈاکٹر پیر نور الحق قادری بھی کراچی پہنچے، جہاں انہوں نے گورنر سندھ سے ملاقات کے علاوہ عظمت صحابہ و اہل بیت کانفرنس بعنوان بین المسالک ہم آہنگی و پرامن بقائے باہمی کانفرنس سے خطاب کیا، وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ مسلکی اور مذہبی اختلافات کی شدت کو کم کرنے کے لیے اتحاد مدارس دینیہ، ملی مجلس یکجہتی کونسل اور متحدہ مجلس عمل ہمارے لیے رول ماڈل ہے۔
جہاں پر ایک پلیٹ فارم پر سب جمع ہوتے ہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ پیغام پاکستان ایک بہترین کاوش ہے جس میں ہزاروں علمائے کرام نے فتوے دیے ہیں اور اب ہم اس کو مزید بہتر بناکر قانونی شکل دے رہے ہیں اور جلد قومی اسمبلی سے بل کی صورت میں منظور کروایا جائے گا۔ سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ مذہبی آہنگی کو برقرار رکھنے کے حوالے سے حکومتی اقدامات قابل تحسین ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ جس ضابطہ اخلاق پر تمام مکاتب فکر کے علماء کرام کا اتفاق ہو چکا ہے اس پر اس کی روح کے مطابق عمل کیا جائے تاکہ ملک میں مذہبی رواداری کو فروغ مل سکے۔
طبی ماہرین کورونا وائرس کے حوالے سے جن خدشات کا اظہار کر رہے تھے انہوں نے سر اٹھانا شروع کردیا ہے۔شادی ہالوں، ریسٹورنٹس اور اسکولوں کے کھلنے کے بعد کراچی سمیت صوبے بھر میں وائرس سے متاثرہ مریضوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے، جس کے بعد صوبائی حکومت متحرک ہوگئی ہے۔کراچی کے مختلف علاقوں میں اس وقت مائیکرواسمارٹ لاک ڈاؤن لگایا جا چکا ہے جبکہ ایس او پیز کی خلاف ورزی پر متعدد ہوٹلز اور شادی ہالز کو سیل کردیا گیا ہے۔کورونا کیسز میں اضافے نے حکومت کو ایک مرتبہ پھر تشویش میں مبتلا کر دیا ہے اور اس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے مختلف آپشنز پر غور کیا جا رہا ہے۔
یہ اطلاعات بھی سامنے آئی ہیں کہ ایس اوپیز پر عمل درآمد میں ناکامی پر شادی ہالز کو دوبارہ بند کرنے کی تجویز کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔ حکومت سندھ کو بتایا گیا ہے کہ سپرمارکیٹس، میگا اسٹورز بھی کورونا وبا کے پھیلاو کا ایک سبب ہیں۔ اس بات میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ ملک کے طبی حلقے لاک ڈاؤن میں نرمی کے سخت مخالف تھے اور ان کی متفقہ رائے تھی کہ شادی ہالز، ریسٹورنٹس اور اسکولوں کے کھلنے کے بعد کورونا کے کیسز میں اضافہ ہوگا لیکن حکومت نے لوگوں کی مشکلات کو سامنے رکھتے ہوئے ان کی بندش کا فیصلہ واپس لیا اور ایس او پیز کے مطابق ان کو کام کرنے کی اجازت دی گئی لیکن افسوسناک امر یہ ہے کہ شادی ہال اور اسکول مالکان بندش کے دنوں میں واویلا کرتے رہے کہ ان کو ایس او پیز کے تحت کام کرنے کی اجازت دی جائے اور جب حکومت نے ان کو اجازت دے دی تو انہوں نے تمام قواعد کی دھجیاں اڑا دیں۔
اس ضمن میں شہری حلقوں کا کہنا ہے کہ حکومت کو اس حوالے سے انتہائی سخت اقدامات کرنے چاہئیں اور ایس او پیز کی خلاف ورزی کے مرتکب افراد اور اداروں کے خلاف سخت ترین کارروائی کی جائے تاکہ دوسرے لوگ بھی اس سے سبق سیکھیں۔ اگر حالات جوں کے توں رہے تو آنے والے دنوں میں کراچی میں کورونا وائرس کی وبا مزید تیزی کے ساتھ پھیلنے کے امکانات ہیں۔ عوام اور کاروباری افراد کو چاہیے کہ وہ حکومتی احکامات پر عملدرآمد کریں کیونکہ اسی میں ان کا اور ملک کا بھلا ہے۔ عوام کو چاہیے کہ وہ ماسک کا استعمال لازمی کریں۔
دوسری جانب پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ نے 18اکتوبر کو کراچی میں وفاقی حکومت کے مخالف جلسے کے انعقاد کا اعلان کیا ہے۔اس جلسے میں پی ڈی ایم کی قیادت اپنے آئندہ کے حکومت مخالف لائحہ عمل کا اعلان کر سکتی ہے۔اب دیکھنا یہ ہوگا کہ پی ٹی آئی کی وفاقی حکومت کس طرح اپوزیشن کی احتجاجی تحریک کا مقابلہ کرتی ہے۔ اپوزیشن کے خلاف قانونی آپشنز یا مذاکرات میں سے کس آپشن کو اختیار کرتی ہے۔ اس کا فیصلہ تو پی ٹی آئی قیادت کرے گی۔ ملک میں جمہوری نظام کی مضبوطی کے لیے ضروری ہے کہ وفاقی حکومت اور اپوزیشن مذاکرات سے معاملات کو حل کرے کیونکہ ملک اس وقت کسی سیاسی افراتفری کا متحمل نہیں ہو سکتا ہے۔
ایم کیو ایم پاکستان اور جماعت اسلامی کے بعد پاکستان پیپلزپارٹی نے بھی عائشہ منزل سے ایمپریس مارکیٹ تک ''کراچی یکجہتی ریلی'' کا انعقاد کیا، جس سے خطاب کرتے ہوئے پارٹی رہنماؤں کا کہنا تھا کہ کراچی یکجہتی ریلی نفرت، لسانیت اور تقسیم کی سیاست کے خلاف عوامی ریفرنڈم ہے۔
پیپلز پارٹی بلدیاتی انتخابات میں کراچی سمیت صوبے بھر سے کامیابی حاصل کر کے عوام کا مقدمہ لڑے گی، کراچی کی ریلی احتجاج کی ابتدا ہے، اگر ہم نے سندھ بھر میں احتجاج کی کال دی تو عوام حکمرانوں کے خلاف سڑکوں پر ہوں گے، کراچی یکجہتی ریلی صرف پیپلز پارٹی کا اجتماع ہے، جب 11 جماعتیں یکجا ہو کر سڑکوں پر طاقت دکھائیں گی تو حکمرانوں کی نیند حرام کر دیں گے۔
ادھر سندھ کے دوسرے بڑے شہر حیدرآباد میں ایم کیو ایم پاکستان کی جانب سے عوامی اجتماع کا انعقاد کیا گیا جہاں ڈاکٹرخالد مقبول صدیقی ایک مرتبہ پھر نئے صوبے کی بات کرتے ہوئے نظر آئے۔
کنوینر ایم کیو ایم پاکستان کا اپنے خطاب میں کہنا تھا کہ پاکستان کی تقدیر بدلنے کا دن آرہا ہے ایک جانب سندھو دیش کا خواب ہے اور دوسری جانب متروکہ سندھ، جنوبی سندھ صوبہ ہے جو سندھو دیش کے خواب کو چکنا چور کرے گا۔تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس وقت سندھ کے شہری علاقوں میں سیاسی جماعتوں کا طرز عمل سمجھ سے بالاتر ہے۔
خصوصاً پیپلزپارٹی کی جانب سے اچانک کراچی میں ریلی کے انعقاد کی کوئی منطق سمجھ میں نہیں آرہی ہے۔ پیپلزپارٹی اگر سندھ کی سالمیت کی بات کرتی ہے تو اسے یہ بات بھی مدنظررکھنا ہوگی کہ صوبے میں رائج کوٹہ سسٹم بھی تقسیم کی ایک شکل ہی ہے،جس نے سندھ کے شہری اور دیہی علاقوں کو تقسیم کیا ہوا ہے۔
اگر پیپلزپارٹی سندھ کی وحدت پر یقین رکھتی ہے تو اسے کوٹہ سسٹم کا بھی خاتمہ کرنا ہوگا۔کراچی میں ریلی نکالنا اس کا جمہوری حق ہے لیکن ضرورت اس امر کی ہے کہ وہ سڑکوں پر ریلیاں کی بجائے ان سڑکوں کی تعمیر پر اپنی توجہ مرکوز کرے اور وفاقی حکومت کی جانب سے اعلان کردہ گیارہ سو ارب روپے کے پیکجج پر عملدرآمد کے لیے یکسوئی کے ساتھ کام کرے۔
12سال سے زائد عرصے برسراقتدار پیپلزپارٹی کی صوبائی حکومت اگر کراچی کے باسیوں کے لیے عملی اقدامات کرتی ہے تو اسے پھر یہاں کے عوام کے دلوں کو جیتنے کے لیے کسی ریلی کی ضرورت نہیں ہوگی۔ اسی طرح ایم کیو ایم بھی اس وقت وفاقی حکومت کی اتحادی جماعت ہے۔
ان کے پیش نظر بھی یہ بات ہوگی کہ سندھ میں الگ صوبے کی بات ایک سیاسی نعرہ تو ہو سکتا ہے لیکن اس کو عملی شکل دینے کے لیے حالات ناموافق ہیں۔ایم کیو ایم کو بھی اپنی تمام انرجی کراچی پیکج پر عملدرآمد پر لگانی چاہیے۔ ریلیوں کی بجائے عملی اقدامات سے ہی وہ شہر کراچی میں اپنی کھوئی سیاسی میراث حاصل کرنے میں کامیاب ہو سکتی ہے۔
شہداء کربلا کے چہلم کے حوالے سے مذہبی ہم آہنگی کو برقرار رکھنے کے لیے وفاقی اور صوبائی حکومتوں سمیت مذہبی اور سیاسی رہنما بھی متحرک ہیں۔ یوم عاشور اور اس سے قبل پیش آنے والے چند ناخوشگوار واقعات کے بعد چہلم امام حسین کے حوالے سے انتہائی مربوط اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ وزیر اعلی سندھ سید مراد علی شاہ نے بھی اس حوالے سے دو اجلاس منعقد کیے، جس میں جید اہلسنت اور شیعہ علماء نے شرکت کی۔
سید مراد علی شاہ کا کہنا تھا کہ پچھلے کئی دنوں سے کچھ مذموم عناصر صوبے میں فرقہ وارانہ عدم استحکام پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ہم سب کو اس اقدام کو ناکام بنانے کے لئے اتحاد، بھائی چارگی اور رواداری کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ان کا کہنا تھا کہ چہلم امام حسین کے لئے ضابطہ اخلاق پر پہلے ہی ہماری مختلف ملاقاتوں میں اتفاق رائے ہو چکا ہے، لہذا ہمیں اس کی پاسداری کرنی ہوگی۔
ادھر وفاقی وزیر مذہبی امور بین المذاہب و مسالک ہم آہنگی ڈاکٹر پیر نور الحق قادری بھی کراچی پہنچے، جہاں انہوں نے گورنر سندھ سے ملاقات کے علاوہ عظمت صحابہ و اہل بیت کانفرنس بعنوان بین المسالک ہم آہنگی و پرامن بقائے باہمی کانفرنس سے خطاب کیا، وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ مسلکی اور مذہبی اختلافات کی شدت کو کم کرنے کے لیے اتحاد مدارس دینیہ، ملی مجلس یکجہتی کونسل اور متحدہ مجلس عمل ہمارے لیے رول ماڈل ہے۔
جہاں پر ایک پلیٹ فارم پر سب جمع ہوتے ہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ پیغام پاکستان ایک بہترین کاوش ہے جس میں ہزاروں علمائے کرام نے فتوے دیے ہیں اور اب ہم اس کو مزید بہتر بناکر قانونی شکل دے رہے ہیں اور جلد قومی اسمبلی سے بل کی صورت میں منظور کروایا جائے گا۔ سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ مذہبی آہنگی کو برقرار رکھنے کے حوالے سے حکومتی اقدامات قابل تحسین ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ جس ضابطہ اخلاق پر تمام مکاتب فکر کے علماء کرام کا اتفاق ہو چکا ہے اس پر اس کی روح کے مطابق عمل کیا جائے تاکہ ملک میں مذہبی رواداری کو فروغ مل سکے۔
طبی ماہرین کورونا وائرس کے حوالے سے جن خدشات کا اظہار کر رہے تھے انہوں نے سر اٹھانا شروع کردیا ہے۔شادی ہالوں، ریسٹورنٹس اور اسکولوں کے کھلنے کے بعد کراچی سمیت صوبے بھر میں وائرس سے متاثرہ مریضوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے، جس کے بعد صوبائی حکومت متحرک ہوگئی ہے۔کراچی کے مختلف علاقوں میں اس وقت مائیکرواسمارٹ لاک ڈاؤن لگایا جا چکا ہے جبکہ ایس او پیز کی خلاف ورزی پر متعدد ہوٹلز اور شادی ہالز کو سیل کردیا گیا ہے۔کورونا کیسز میں اضافے نے حکومت کو ایک مرتبہ پھر تشویش میں مبتلا کر دیا ہے اور اس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے مختلف آپشنز پر غور کیا جا رہا ہے۔
یہ اطلاعات بھی سامنے آئی ہیں کہ ایس اوپیز پر عمل درآمد میں ناکامی پر شادی ہالز کو دوبارہ بند کرنے کی تجویز کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔ حکومت سندھ کو بتایا گیا ہے کہ سپرمارکیٹس، میگا اسٹورز بھی کورونا وبا کے پھیلاو کا ایک سبب ہیں۔ اس بات میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ ملک کے طبی حلقے لاک ڈاؤن میں نرمی کے سخت مخالف تھے اور ان کی متفقہ رائے تھی کہ شادی ہالز، ریسٹورنٹس اور اسکولوں کے کھلنے کے بعد کورونا کے کیسز میں اضافہ ہوگا لیکن حکومت نے لوگوں کی مشکلات کو سامنے رکھتے ہوئے ان کی بندش کا فیصلہ واپس لیا اور ایس او پیز کے مطابق ان کو کام کرنے کی اجازت دی گئی لیکن افسوسناک امر یہ ہے کہ شادی ہال اور اسکول مالکان بندش کے دنوں میں واویلا کرتے رہے کہ ان کو ایس او پیز کے تحت کام کرنے کی اجازت دی جائے اور جب حکومت نے ان کو اجازت دے دی تو انہوں نے تمام قواعد کی دھجیاں اڑا دیں۔
اس ضمن میں شہری حلقوں کا کہنا ہے کہ حکومت کو اس حوالے سے انتہائی سخت اقدامات کرنے چاہئیں اور ایس او پیز کی خلاف ورزی کے مرتکب افراد اور اداروں کے خلاف سخت ترین کارروائی کی جائے تاکہ دوسرے لوگ بھی اس سے سبق سیکھیں۔ اگر حالات جوں کے توں رہے تو آنے والے دنوں میں کراچی میں کورونا وائرس کی وبا مزید تیزی کے ساتھ پھیلنے کے امکانات ہیں۔ عوام اور کاروباری افراد کو چاہیے کہ وہ حکومتی احکامات پر عملدرآمد کریں کیونکہ اسی میں ان کا اور ملک کا بھلا ہے۔ عوام کو چاہیے کہ وہ ماسک کا استعمال لازمی کریں۔
دوسری جانب پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ نے 18اکتوبر کو کراچی میں وفاقی حکومت کے مخالف جلسے کے انعقاد کا اعلان کیا ہے۔اس جلسے میں پی ڈی ایم کی قیادت اپنے آئندہ کے حکومت مخالف لائحہ عمل کا اعلان کر سکتی ہے۔اب دیکھنا یہ ہوگا کہ پی ٹی آئی کی وفاقی حکومت کس طرح اپوزیشن کی احتجاجی تحریک کا مقابلہ کرتی ہے۔ اپوزیشن کے خلاف قانونی آپشنز یا مذاکرات میں سے کس آپشن کو اختیار کرتی ہے۔ اس کا فیصلہ تو پی ٹی آئی قیادت کرے گی۔ ملک میں جمہوری نظام کی مضبوطی کے لیے ضروری ہے کہ وفاقی حکومت اور اپوزیشن مذاکرات سے معاملات کو حل کرے کیونکہ ملک اس وقت کسی سیاسی افراتفری کا متحمل نہیں ہو سکتا ہے۔