فزیبلٹی اسٹڈی کیے بغیر ٹڈی دل خاتمے کے منصوبے کیلیے رقم رکھی گئی
عجلت میں 33ارب کی رقم مختص کرکے پارلیمانی طریقہ کار کی خلاف ورزی کی گئی
وفاقی حکومت نے ٹڈی دل کے خاتمے کے منصوبے کے لیے رقم مختص کی ہے جو معاشی ماہرین کے مطابق وفاقی حکومت نے انتہائی عجلت میں اس رقم کی منظوری دی ہے۔
وفاقی حکومت نے ٹڈی دل کے خاتمے کے منصوبے کے لیے 200 ملین ڈالر یا 33 ارب روپے کی رقم مختص کی ہے جو معاشی ماہرین کے مطابق وفاقی حکومت نے انتہائی عجلت میں اس رقم کی منظوری دی ہے اور جس کے لیے آئین میں وضع کردہ پارلیمانی طریقہ کار کی خلاف ورزی کی گئی ہے کیونکہ اس طرح کے بڑے منصوبوں کی منظوری سے قبل ضروری ہوتا ہے کہ تمام معاملے کی اچھی طرح چھان بین کرکے اس کا جائزہ لے لیا جائے۔
منصوبے کی دستاویزات سے نظر آتا ہے کہ یہ منصوبہ فزبیلٹی اسٹڈی کیے بغیر تیار کیا گیا ہے جو پبلک فنانس منیجمنٹ ایکٹ 2019 کی خلاف ورزی ہے۔ جبکہ چیف پلاننگ کمیشن کے مطابق اس منصوبے کے لیے پی سی ون میں فزیبلٹی اسٹڈی کی گئی ہے جو منصوبے کے لیے درکار سامان کی خریداری کا عمل پی سی ون کی منظوری سی قبل ہی شروع کردیا گیا ہے۔
اگراس منصوبے کی تفصیلات کا بغور جائزہ لیا جائے تو نظر آتا ہے اس میں ساری توجہ اور دلچسپی 310 نئی گاڑیوں، 485 لیپ ٹاپ کی خریداری کے علاوہ 528 نئی اسامیوں کی بھرتی پر ہے جبکہ کسانوں کی بہبود ترجیحات میں نظر نہیں آتا۔ منظور کیے گئے 20 کروڑ ڈالر میں سے 10کروڑ 20 لاکھ دالر کا براہ راست تعلق ٹڈی دل کے بچاؤ سے ہے بھی نہیں۔
منصوبے کے لیے رکھی گئی 33 ارب روپے کی رقم میں سے 4 ارب 70 کروڑ کی رقم صرف ڈبل کیبن گاڑیوں کی خریداری کے لیے ہے۔ 50کروڑ کی رقم سے لیپ ٹاپ خریدے جائیں گے جبکہ تقریبا ایک ارب روپے مالیت اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے کو دیے جائیں گے تاکہ اس سے تکنیکی معاونت حاصل کی جاسکے جبکہ پلاننگ کمیشن نے اس کی مخالفت بھی کی ہے۔
دستاویزات کے مطابق اس منصوبے کے لیے مخصوص کی گئی 33 ارب روپے کی رقم یعنی 200 ملین ڈالر عالمی بینک سے قرض لیے جائیں گے۔
وفاقی حکومت نے ٹڈی دل کے خاتمے کے منصوبے کے لیے 200 ملین ڈالر یا 33 ارب روپے کی رقم مختص کی ہے جو معاشی ماہرین کے مطابق وفاقی حکومت نے انتہائی عجلت میں اس رقم کی منظوری دی ہے اور جس کے لیے آئین میں وضع کردہ پارلیمانی طریقہ کار کی خلاف ورزی کی گئی ہے کیونکہ اس طرح کے بڑے منصوبوں کی منظوری سے قبل ضروری ہوتا ہے کہ تمام معاملے کی اچھی طرح چھان بین کرکے اس کا جائزہ لے لیا جائے۔
منصوبے کی دستاویزات سے نظر آتا ہے کہ یہ منصوبہ فزبیلٹی اسٹڈی کیے بغیر تیار کیا گیا ہے جو پبلک فنانس منیجمنٹ ایکٹ 2019 کی خلاف ورزی ہے۔ جبکہ چیف پلاننگ کمیشن کے مطابق اس منصوبے کے لیے پی سی ون میں فزیبلٹی اسٹڈی کی گئی ہے جو منصوبے کے لیے درکار سامان کی خریداری کا عمل پی سی ون کی منظوری سی قبل ہی شروع کردیا گیا ہے۔
اگراس منصوبے کی تفصیلات کا بغور جائزہ لیا جائے تو نظر آتا ہے اس میں ساری توجہ اور دلچسپی 310 نئی گاڑیوں، 485 لیپ ٹاپ کی خریداری کے علاوہ 528 نئی اسامیوں کی بھرتی پر ہے جبکہ کسانوں کی بہبود ترجیحات میں نظر نہیں آتا۔ منظور کیے گئے 20 کروڑ ڈالر میں سے 10کروڑ 20 لاکھ دالر کا براہ راست تعلق ٹڈی دل کے بچاؤ سے ہے بھی نہیں۔
منصوبے کے لیے رکھی گئی 33 ارب روپے کی رقم میں سے 4 ارب 70 کروڑ کی رقم صرف ڈبل کیبن گاڑیوں کی خریداری کے لیے ہے۔ 50کروڑ کی رقم سے لیپ ٹاپ خریدے جائیں گے جبکہ تقریبا ایک ارب روپے مالیت اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے کو دیے جائیں گے تاکہ اس سے تکنیکی معاونت حاصل کی جاسکے جبکہ پلاننگ کمیشن نے اس کی مخالفت بھی کی ہے۔
دستاویزات کے مطابق اس منصوبے کے لیے مخصوص کی گئی 33 ارب روپے کی رقم یعنی 200 ملین ڈالر عالمی بینک سے قرض لیے جائیں گے۔