مڈ ٹرم خطرے کی بو
ہمارے وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے تحریک انصاف کے ایک معروف رہنما شاہ محمود قریشی کے نکتہ اعتراض کے۔۔۔
ہمارے وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے تحریک انصاف کے ایک معروف رہنما شاہ محمود قریشی کے نکتہ اعتراض کے جواب میں کہا کہ انگوٹھوں کے نشانات کو جواز بنا کر جو مسائل کھڑے کیے جا رہے ہیں مجھے اس سے مڈ ٹرم الیکشن کے لیے سازش کی بو آ رہی ہے، واضح رہے کہ مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف کے درمیان حالیہ الیکشن میں دھاندلی کا تنازعہ چل رہا ہے اور الیکشن میں ہونے والی اس مبینہ دھاندلی کی تحقیق کے لیے نادرا سے انگوٹھوں کی تصدیق کروائی جا رہی ہے۔ اس حوالے سے چیئرمین نادرا کی ان کے عہدے سے علیحدگی پر یہ اعتراض کیا جا رہا ہے کہ حکومت نے اپنی دھاندلیوں کو چھپانے کے لیے ان کے عہدے سے فارغ کر دیا ہے، اگرچہ کہ وزیر داخلہ اس الزام کی تردید کر رہے ہیں لیکن اپوزیشن ان کی تردید کو ماننے کے لیے تیار نہیں۔ چوہدری صاحب کا کہنا ہے کہ نادرا کے چیئرمین کی ان کے عہدے سے علیحدگی کا انگوٹھوں کی نشانات کی تصدیق سے کوئی تعلق نہیں، اس مسئلے کو محض مڈٹرم انتخابات کرانے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے، وزیر داخلہ نے کہا ہے کہ وہ انگوٹھوں کے نشانات کے مسئلے پر اپوزیشن سے مذاکرات کے لیے تیار ہیں۔
ہماری جمہوریت میں انتخابی دھاندلی کے الزامات نئے نہیں۔ انتخابات میں دھاندلی کے الزام ہی کے حوالے سے 1977ء میں بھٹو حکومت کے خلاف تحریک چلائی گئی تھی اور اس تحریک کا آخری نتیجہ بھٹو کے تختہ دار کی شکل میں نکلا تھا حالانکہ سارے اہل سیاست اس بات کا اعتراف کر چکے تھے کہ اس مبینہ دھاندلی کے باوجود پیپلز پارٹی نے مجموعی طور پر یہ انتخابات جیت لیے تھے۔ دھاندلی کے نام پر اور جمہوریت کی سر بلندی کے لیے چلائی جانے والی اس تحریک کے قائدین کو جب پاکستان کے عوام نے فوجی آمر کی حکومت میں شامل ہوتے دیکھا تو حیران رہ گئے کہ ایک معمولی سی دھاندلی کے الزام میں چلائی جانے والی اس تحریک کا انجام کس قدر المناک اور شرمناک تھا۔ 1970ء سے 2013ء تک ہونے والے کوئی انتخابات دھاندلیوں کے الزامات سے پاک نہیں بلکہ دھاندلیوں کے الزامات ایسی پاکباز جماعتوں پر بھی لگائے گئے جن کی صبح وضو سے ہوتی تھی اور شام وضو ہی پر ختم ہوتی تھی۔ سوبے وضو جماعتوں پر اگر دھاندلی کے الزامات لگائے جا رہے ہیں تو یہ نہ کوئی حیرت کی بات ہے نہ کوئی نئی بات۔!
2008ء کے انتخابات پر بھی دھاندلیوں کے الزامات لگتے رہے لیکن ''جمہوریت کا حسن یہی ہے'' کہ جمہوریت نہ صرف چلتی رہتی ہے بلکہ دوستوں اور دشمنوں کو اس طرح دودھ اور پانی بنا دیتی ہے کہ بے چارے عوام آنکھیں مل جل کر اس جمہوریت کو دیکھتے ہیں جو عوام کے انگوٹھوں پر کھڑی تو ہوتی ہے لیکن اقتدار پر براجمان ہوتے ہی عوام کو انگوٹھا دکھا دیتی ہے۔ 2008ء کے الیکشن میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ایک دوسرے کے رقیب روسیاہ تھے اور مسلم لیگ (ن) اگر چاہتی تو پیپلز پارٹی کا دھڑن تختہ کر سکتی تھی لیکن ''جمہوریت کی بالادستی'' کے خیال نے مسلم لیگ (ن) کو پی پی حکومت کا دھڑن تختہ کرنے سے روک لیا اور ہماری جمہوری تاریخ کا وہ سنہرا باب تحریر کرایا جس میں پیپلز پارٹی کی حکومت کو پہلی بار اپنی مدت پوری کرنے کا اعزاز حاصل ہوا اور جمہوریت پسندوں نے اسے پاکستان کی جمہوری تاریخ کی پہلی فتح قرار دیا۔
اس فتح میں اس مسلم لیگ (ن) کا سب سے بڑا کردار تھا جس پر 2013ء کے الیکشن میں دھاندلی کے الزامات لگائے جا رہے ہیں، مسلم لیگ کی مصالحانہ سیاست کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس کے وزیر داخلہ اس مسئلے کو بھی مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کی پیشکش کر رہے ہیں۔سابقہ حکومت اپنی کارکردگی کے حوالے سے پاکستان کی بدنام ترین حکومت کا اعزاز رکھتی ہے، عوام مہنگائی، بیروزگاری، بجلی، گیس کی لوڈ شیڈنگ، دہشت گردی، ٹارگٹ کلنگ، بھتہ خوری، اغوا برائے تاوان اور جرائم کی بھرمار سے اس قدر عاجز تھے کہ اگر مسلم لیگ (ن) چاہتی تو ان بے چارے عوام کو استعمال کر کے پی پی حکومت کا خاتمہ کر سکتی تھی لیکن مسلم لیگ (ن) عوام کو سڑکوں پر لانے کے دیدہ و نادیدہ خطرات سے اچھی طرح واقف تھی اس لیے اس نے پی پی کی حکومت کو اپنے سینے پر مونگ کی طرح برداشت کر لیا لیکن ان ممکنہ خطرات کو قریب آنے نہیں دیا جو ہماری جمہوریت کے سر پر ہمیشہ لٹکتے رہے ہیں۔
آج اسی قربانی کے صلے میں مسلم لیگ (ن) اقتدار کے سنگھاسن پر براجمان ہے۔ وفاقی وزیر داخلہ جس خطرے کی بو سونگھ رہے ہیں وہ خطرہ پی پی پی سے ہرگز نہیں کیونکہ پی پی پی پی کے رہنما بار بار کہہ رہے ہیں کہ ہم مسلم لیگ (ن) کو اپنے اقتدار کی پانچ سالہ مدت پوری کرنے دیں گے، پی پی پی کے علاوہ اگر کسی کو مڈ ٹرم الیکشن کی خواہش ہو سکتی تھی تو وہ تحریک انصاف ہی ہو سکتی ہے، تحریک انصاف کو انتخابی مہم کے دوران بڑے بڑے جلسوں کے اہتمام میں جو کامیابی حاصل ہوئی اس کے پیش نظر عمران خان کا یہ امید کرنا زیادہ غلط نہ تھا کہ وہ اس الیکشن کے بعد پاکستان کے وزیر اعظم بننے جا رہے ہیں۔ امید کرنا اور بات ہے اور یقین کرنا اور بات ہے۔ عمران خان امید کے مرحلے سے گزر کر یقین بلکہ یقین کامل کے مرحلے میں داخل ہو گئے تھے بلکہ وہ یہ سمجھ بیٹھے تھے کہ وہ وزیر اعظم بن گئے ہیں۔ انتخابی جلسوں کے علاوہ اس یقین کی وجہ یہ بھی تھی کہ پی پی پی اور مسلم لیگ اپنی باریاں لے چکے تھے اور ان باریوں میں انھوں نے عوام کی ناراضگی کے علاوہ کچھ اور حاصل نہیں کیا تھا۔
ان دونوں پارٹیوں سے ناراضگی کے بعد تحریک انصاف ہی ان کا واحد آپشن رہ گیا تھا۔ لیکن عمران خان یہ بھول گئے تھے کہ بڑے جلسے ہی انتخابات جیتنے کی ضمانت نہیں ہوتے، میاں برادران اس دوران بولے کم، دعوے کم کیے ''پریکٹیکل'' زیادہ کیے۔ جب کہ عمران خان تھیوری پر ہی بھروسہ کرتے رہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ عمران خان تین بڑے صوبوں سے نکل کر ایک چھوٹے اور انتہائی مشکل صوبے میں محدود ہو کر رہ گئے۔ مسلم لیگ کے پریکٹیکل کے علاوہ عمران خان کی ناکامی میں ان کے نظریاتی خلفشار نے بڑا کردار ادا کیا۔ وہ نعرے تو ایک نئے پاکستان کے لگا رہے تھے لیکن ان کے دائیں بائیں اس پرانے پاکستان کے لوگ تھے جن سے عوام بیزار تھے، سونے پر سہاگہ یہ کہ ان کے سیاسی تعلقات ایسی جماعتوں سے تھے جو پاکستان کو ماضی بعید میں لے جانے والوں کی جماعتوں کی حیثیت سے پہچانے جاتے ہیں۔ اس دوہری سیاست نے بھی عمران خان کی شکست میں اہم کردار ادا کیا۔
بد قسمتی کی بات یہ ہے کہ عمران خان نے اپنی غلطیوں کی اصلاح کے بجائے نئی غلطیاں کرنا شروع کر دیں۔ پاکستان کے اٹھارہ کروڑ عوام دہشتگردوں اور دہشتگردی سے نفرت کی حد تک بیزار ہیں اور کپتان صاحب نے ڈرون حملوں کے خالف مہم چلا کر عوام کے ذہنوں میں یہ خدشات پیدا کر دیے کہ وہ اس مہم کے ذریعے بالواسطہ طور پر دہشتگردوں کی حمایت کر رہے ہیں، ان خدشات کو پختہ کرنے میں عمران خان کی دہشت گردوں کے ہاتھوں قتل ہونے والے 50 ہزار بے گناہ لوگوں کے حوالے سے بے تعلقی تھی۔ عوام دیکھ رہے تھے کہ ڈرون کے خلاف تو عمران خان اپنا سارا زور لگا رہے ہیں لیکن 50 ہزار بے گناہوں کے قتل پر وہ چپ کا روزہ رکھے ہوئے ہیں۔ اس نہ سمجھ آنے والی پالیسی نے انھیں عوام ہی میں نہیں خواص میں بھی مشکوک بنا دیا ہے اور یہ صورت حال مسلم لیگ (ن) کی حکومت کے لیے خطرہ بننے میں حائل ہو رہی ہے۔
اس کے برخلاف دہشت گردوں سے قربت کا الزام اپنے سر پر سجائے میاں برادران عوام اور خواص کو یہ تاثر دینے میں کامیاب ہو رہے ہیں کہ وہ دہشتگردی کو ختم کرنے میں سنجیدہ ہیں، بھارت سے دوستی کو انتہا پسند اسلام دشمنی سے تعبیر کرتے ہیں اور میاں صاحبان بھارت سے نہ صرف دوستی بڑھانے میں کوشاں ہیں بلکہ بھارت سے تجارت کے فروغ کے لیے ہاتھ پائوں مار رہے ہیں، بھارت سے تجارت کو مذہبی انتہا پسندی نہیں بلکہ اعتدال پسند بھی نظریہ پاکستان سے غداری سمجھتے ہیں لیکن میاں صاحب جانتے ہیں کہ بھارت سے دوستی امریکا سے یاری ان کی ضرورت ہی نہیں بلکہ مجبوری ہے۔ اس حوالے سے میاں برادران حالات اور وقت کے تقاضوں کے ساتھ چل رہے ہیں۔ میاں صاحبان اچھی طرح جانتے ہیں کہ آج کی دنیا میں عالمی برادری سے الگ رہ کر زندہ رہنا کس قدر مشکل ہے۔ ایران کی مثال ان کے سامنے ہے، ایران کے موقف سے کوئی باشعور شخص اختلاف نہیں کر سکتا لیکن ایران اکیلا دنیا کی اکلوتی بے رحم طاقت سے مقابلہ نہیں کر سکتا۔ سامراجی پالیسیوں کی مخالفت کے لیے ایک وسیع تر اینٹی سامراج اتحاد کی ضرورت ہے جس کے لیے وقت درکار ہے۔
مڈ ٹرم انتخابات کی حمایت عوام کس امید پر کریں گے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ عوام مسلم لیگ (ن) کی حکومت سے پی پی پی حکومت سے زیادہ پریشان ہیں لیکن جب تک ان کے سامنے کوئی بہتر متبادل نہیں ہو گا وہ مڈ ٹرم کی حمایت کس بنیاد پر کر سکتے ہیں اور ویسے بھی عوام مایوسی اور استحصال کی جس منزل پر کھڑے ہیں اگر وہ اس پس منظر میں سڑکوں پر آتے ہیں تو کیا پاکستان مصر، لیبیا، تیونس اور شام نہیں بن جائے گا؟ اگر ایسا ہوا جس کا امکان ہے تو پھر آئین کے آرٹیکل 6 کا کیا بنے گا۔؟ یہ ایسے سوال ہیں مڈ ٹرم کے خواہش مندوں کو اپنے سامنے رکھنے چاہئیں۔ اگر ان سوالوں پر غور کیے بغیر عشق آتش نمرود میں کود پڑتا ہے تو۔ اس تو کے آگے آگ ہی آگ ہے جس میں مڈ ٹرم سمیت سب کچھ جل جانے کے خطرات ہیں۔ لہٰذا میاں برادران کو زیادہ پریشان ہونے کی ضرورت نہیں کیوں کہ ڈوبنے والے صنم کو ساتھ لے کر ہی ڈوبیں گے کاش! عمران خان وقت کے تقاضوں کو سمجھ سکتے۔
ہماری جمہوریت میں انتخابی دھاندلی کے الزامات نئے نہیں۔ انتخابات میں دھاندلی کے الزام ہی کے حوالے سے 1977ء میں بھٹو حکومت کے خلاف تحریک چلائی گئی تھی اور اس تحریک کا آخری نتیجہ بھٹو کے تختہ دار کی شکل میں نکلا تھا حالانکہ سارے اہل سیاست اس بات کا اعتراف کر چکے تھے کہ اس مبینہ دھاندلی کے باوجود پیپلز پارٹی نے مجموعی طور پر یہ انتخابات جیت لیے تھے۔ دھاندلی کے نام پر اور جمہوریت کی سر بلندی کے لیے چلائی جانے والی اس تحریک کے قائدین کو جب پاکستان کے عوام نے فوجی آمر کی حکومت میں شامل ہوتے دیکھا تو حیران رہ گئے کہ ایک معمولی سی دھاندلی کے الزام میں چلائی جانے والی اس تحریک کا انجام کس قدر المناک اور شرمناک تھا۔ 1970ء سے 2013ء تک ہونے والے کوئی انتخابات دھاندلیوں کے الزامات سے پاک نہیں بلکہ دھاندلیوں کے الزامات ایسی پاکباز جماعتوں پر بھی لگائے گئے جن کی صبح وضو سے ہوتی تھی اور شام وضو ہی پر ختم ہوتی تھی۔ سوبے وضو جماعتوں پر اگر دھاندلی کے الزامات لگائے جا رہے ہیں تو یہ نہ کوئی حیرت کی بات ہے نہ کوئی نئی بات۔!
2008ء کے انتخابات پر بھی دھاندلیوں کے الزامات لگتے رہے لیکن ''جمہوریت کا حسن یہی ہے'' کہ جمہوریت نہ صرف چلتی رہتی ہے بلکہ دوستوں اور دشمنوں کو اس طرح دودھ اور پانی بنا دیتی ہے کہ بے چارے عوام آنکھیں مل جل کر اس جمہوریت کو دیکھتے ہیں جو عوام کے انگوٹھوں پر کھڑی تو ہوتی ہے لیکن اقتدار پر براجمان ہوتے ہی عوام کو انگوٹھا دکھا دیتی ہے۔ 2008ء کے الیکشن میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ایک دوسرے کے رقیب روسیاہ تھے اور مسلم لیگ (ن) اگر چاہتی تو پیپلز پارٹی کا دھڑن تختہ کر سکتی تھی لیکن ''جمہوریت کی بالادستی'' کے خیال نے مسلم لیگ (ن) کو پی پی حکومت کا دھڑن تختہ کرنے سے روک لیا اور ہماری جمہوری تاریخ کا وہ سنہرا باب تحریر کرایا جس میں پیپلز پارٹی کی حکومت کو پہلی بار اپنی مدت پوری کرنے کا اعزاز حاصل ہوا اور جمہوریت پسندوں نے اسے پاکستان کی جمہوری تاریخ کی پہلی فتح قرار دیا۔
اس فتح میں اس مسلم لیگ (ن) کا سب سے بڑا کردار تھا جس پر 2013ء کے الیکشن میں دھاندلی کے الزامات لگائے جا رہے ہیں، مسلم لیگ کی مصالحانہ سیاست کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس کے وزیر داخلہ اس مسئلے کو بھی مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کی پیشکش کر رہے ہیں۔سابقہ حکومت اپنی کارکردگی کے حوالے سے پاکستان کی بدنام ترین حکومت کا اعزاز رکھتی ہے، عوام مہنگائی، بیروزگاری، بجلی، گیس کی لوڈ شیڈنگ، دہشت گردی، ٹارگٹ کلنگ، بھتہ خوری، اغوا برائے تاوان اور جرائم کی بھرمار سے اس قدر عاجز تھے کہ اگر مسلم لیگ (ن) چاہتی تو ان بے چارے عوام کو استعمال کر کے پی پی حکومت کا خاتمہ کر سکتی تھی لیکن مسلم لیگ (ن) عوام کو سڑکوں پر لانے کے دیدہ و نادیدہ خطرات سے اچھی طرح واقف تھی اس لیے اس نے پی پی کی حکومت کو اپنے سینے پر مونگ کی طرح برداشت کر لیا لیکن ان ممکنہ خطرات کو قریب آنے نہیں دیا جو ہماری جمہوریت کے سر پر ہمیشہ لٹکتے رہے ہیں۔
آج اسی قربانی کے صلے میں مسلم لیگ (ن) اقتدار کے سنگھاسن پر براجمان ہے۔ وفاقی وزیر داخلہ جس خطرے کی بو سونگھ رہے ہیں وہ خطرہ پی پی پی سے ہرگز نہیں کیونکہ پی پی پی پی کے رہنما بار بار کہہ رہے ہیں کہ ہم مسلم لیگ (ن) کو اپنے اقتدار کی پانچ سالہ مدت پوری کرنے دیں گے، پی پی پی کے علاوہ اگر کسی کو مڈ ٹرم الیکشن کی خواہش ہو سکتی تھی تو وہ تحریک انصاف ہی ہو سکتی ہے، تحریک انصاف کو انتخابی مہم کے دوران بڑے بڑے جلسوں کے اہتمام میں جو کامیابی حاصل ہوئی اس کے پیش نظر عمران خان کا یہ امید کرنا زیادہ غلط نہ تھا کہ وہ اس الیکشن کے بعد پاکستان کے وزیر اعظم بننے جا رہے ہیں۔ امید کرنا اور بات ہے اور یقین کرنا اور بات ہے۔ عمران خان امید کے مرحلے سے گزر کر یقین بلکہ یقین کامل کے مرحلے میں داخل ہو گئے تھے بلکہ وہ یہ سمجھ بیٹھے تھے کہ وہ وزیر اعظم بن گئے ہیں۔ انتخابی جلسوں کے علاوہ اس یقین کی وجہ یہ بھی تھی کہ پی پی پی اور مسلم لیگ اپنی باریاں لے چکے تھے اور ان باریوں میں انھوں نے عوام کی ناراضگی کے علاوہ کچھ اور حاصل نہیں کیا تھا۔
ان دونوں پارٹیوں سے ناراضگی کے بعد تحریک انصاف ہی ان کا واحد آپشن رہ گیا تھا۔ لیکن عمران خان یہ بھول گئے تھے کہ بڑے جلسے ہی انتخابات جیتنے کی ضمانت نہیں ہوتے، میاں برادران اس دوران بولے کم، دعوے کم کیے ''پریکٹیکل'' زیادہ کیے۔ جب کہ عمران خان تھیوری پر ہی بھروسہ کرتے رہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ عمران خان تین بڑے صوبوں سے نکل کر ایک چھوٹے اور انتہائی مشکل صوبے میں محدود ہو کر رہ گئے۔ مسلم لیگ کے پریکٹیکل کے علاوہ عمران خان کی ناکامی میں ان کے نظریاتی خلفشار نے بڑا کردار ادا کیا۔ وہ نعرے تو ایک نئے پاکستان کے لگا رہے تھے لیکن ان کے دائیں بائیں اس پرانے پاکستان کے لوگ تھے جن سے عوام بیزار تھے، سونے پر سہاگہ یہ کہ ان کے سیاسی تعلقات ایسی جماعتوں سے تھے جو پاکستان کو ماضی بعید میں لے جانے والوں کی جماعتوں کی حیثیت سے پہچانے جاتے ہیں۔ اس دوہری سیاست نے بھی عمران خان کی شکست میں اہم کردار ادا کیا۔
بد قسمتی کی بات یہ ہے کہ عمران خان نے اپنی غلطیوں کی اصلاح کے بجائے نئی غلطیاں کرنا شروع کر دیں۔ پاکستان کے اٹھارہ کروڑ عوام دہشتگردوں اور دہشتگردی سے نفرت کی حد تک بیزار ہیں اور کپتان صاحب نے ڈرون حملوں کے خالف مہم چلا کر عوام کے ذہنوں میں یہ خدشات پیدا کر دیے کہ وہ اس مہم کے ذریعے بالواسطہ طور پر دہشتگردوں کی حمایت کر رہے ہیں، ان خدشات کو پختہ کرنے میں عمران خان کی دہشت گردوں کے ہاتھوں قتل ہونے والے 50 ہزار بے گناہ لوگوں کے حوالے سے بے تعلقی تھی۔ عوام دیکھ رہے تھے کہ ڈرون کے خلاف تو عمران خان اپنا سارا زور لگا رہے ہیں لیکن 50 ہزار بے گناہوں کے قتل پر وہ چپ کا روزہ رکھے ہوئے ہیں۔ اس نہ سمجھ آنے والی پالیسی نے انھیں عوام ہی میں نہیں خواص میں بھی مشکوک بنا دیا ہے اور یہ صورت حال مسلم لیگ (ن) کی حکومت کے لیے خطرہ بننے میں حائل ہو رہی ہے۔
اس کے برخلاف دہشت گردوں سے قربت کا الزام اپنے سر پر سجائے میاں برادران عوام اور خواص کو یہ تاثر دینے میں کامیاب ہو رہے ہیں کہ وہ دہشتگردی کو ختم کرنے میں سنجیدہ ہیں، بھارت سے دوستی کو انتہا پسند اسلام دشمنی سے تعبیر کرتے ہیں اور میاں صاحبان بھارت سے نہ صرف دوستی بڑھانے میں کوشاں ہیں بلکہ بھارت سے تجارت کے فروغ کے لیے ہاتھ پائوں مار رہے ہیں، بھارت سے تجارت کو مذہبی انتہا پسندی نہیں بلکہ اعتدال پسند بھی نظریہ پاکستان سے غداری سمجھتے ہیں لیکن میاں صاحب جانتے ہیں کہ بھارت سے دوستی امریکا سے یاری ان کی ضرورت ہی نہیں بلکہ مجبوری ہے۔ اس حوالے سے میاں برادران حالات اور وقت کے تقاضوں کے ساتھ چل رہے ہیں۔ میاں صاحبان اچھی طرح جانتے ہیں کہ آج کی دنیا میں عالمی برادری سے الگ رہ کر زندہ رہنا کس قدر مشکل ہے۔ ایران کی مثال ان کے سامنے ہے، ایران کے موقف سے کوئی باشعور شخص اختلاف نہیں کر سکتا لیکن ایران اکیلا دنیا کی اکلوتی بے رحم طاقت سے مقابلہ نہیں کر سکتا۔ سامراجی پالیسیوں کی مخالفت کے لیے ایک وسیع تر اینٹی سامراج اتحاد کی ضرورت ہے جس کے لیے وقت درکار ہے۔
مڈ ٹرم انتخابات کی حمایت عوام کس امید پر کریں گے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ عوام مسلم لیگ (ن) کی حکومت سے پی پی پی حکومت سے زیادہ پریشان ہیں لیکن جب تک ان کے سامنے کوئی بہتر متبادل نہیں ہو گا وہ مڈ ٹرم کی حمایت کس بنیاد پر کر سکتے ہیں اور ویسے بھی عوام مایوسی اور استحصال کی جس منزل پر کھڑے ہیں اگر وہ اس پس منظر میں سڑکوں پر آتے ہیں تو کیا پاکستان مصر، لیبیا، تیونس اور شام نہیں بن جائے گا؟ اگر ایسا ہوا جس کا امکان ہے تو پھر آئین کے آرٹیکل 6 کا کیا بنے گا۔؟ یہ ایسے سوال ہیں مڈ ٹرم کے خواہش مندوں کو اپنے سامنے رکھنے چاہئیں۔ اگر ان سوالوں پر غور کیے بغیر عشق آتش نمرود میں کود پڑتا ہے تو۔ اس تو کے آگے آگ ہی آگ ہے جس میں مڈ ٹرم سمیت سب کچھ جل جانے کے خطرات ہیں۔ لہٰذا میاں برادران کو زیادہ پریشان ہونے کی ضرورت نہیں کیوں کہ ڈوبنے والے صنم کو ساتھ لے کر ہی ڈوبیں گے کاش! عمران خان وقت کے تقاضوں کو سمجھ سکتے۔