حویلی کا راز

مولانا رومی ایک دن بازار تشریف لے گئے، اور دکان پر رک گئے، دیکھا ایک عورت کچھ سودا سلف خرید رہی ہے۔۔۔

shehla_ajaz@yahoo.com

مولانا رومی ایک دن بازار تشریف لے گئے، اور دکان پر رک گئے، دیکھا ایک عورت کچھ سودا سلف خرید رہی ہے، سودا خریدنے کے بعد عورت نے رقم ادا کرنی چاہی تو دکاندار نے منع کردیا اور کہا کہ ''عشق میں پیسے کہاں ہوتے ہیں چھوڑو پیسے اور جاؤ''۔ یہ دونوں عاشق اور معشوق تھے۔ مولانا رومی یہ دیکھ کر غش کھا کر گر پڑے۔ دکاندار گھبرا گیا اور عورت بھی وہاں سے چلی گئی۔ کچھ دیر بعد جب انھیں ہوش آیا تو دکاندار نے پوچھا ''مولانا! آپ کیوں بے ہوش ہوئے؟'' مولانا نے جواب دیا۔

''میں اس بات پر بے ہوش ہوا کہ تم میں اور اس عورت میں عشق اتنا قوی اور مضبوط ہے کہ دونوں میں حساب کتاب نہیں جب کہ اﷲ کے ساتھ میرا عشق اتنا کمزور ہے کہ میں تسبیح گن کر کرتا ہوں''۔

ہم ایسے ہی کمزور عشق میں مبتلا لوگ ہیں جنھیں اس بات کا یقین ہوتا ہے کہ ہم اپنی جگہ بالکل درست ہیں، جو بات ہمارے دل سے ابھری سو فیصد درست ہے اور اس پر آنکھ بند کرکے چلے جاتے ہیں جب کہ اسلام میں مشاورت کو بہت اہمیت دی گئی ہے، کوئی مسئلہ ہو اسے مل بانٹ کر شیئر کرکے دیکھیے مسئلے کا حل نکل سکتا ہے لیکن کسی بھی فرد واحد پر یقین کرکے اس کے ہر صحیح غلط فیصلے پر یقین کرلینا یہ ایک احمقانہ سوچ ہے۔

ہوسکتا ہے کہ جس عقلمند پر بہت سے لوگ یقین اور بھروسہ کر رہے ہوں اس کی عقل ہی بند ہو، عقل کے تالے کو کھولنے کے لیے ہمارے پاس ہدایت کا ایک سرچشمہ قرآن مجید کی صورت میں موجود ہے، اسے فالو کرکے دیکھیے بہت سے مسائل کا حل مل جائے گا لیکن ہم ذرا کاہل واقع ہوئے ہیں، کون اس مسئلے میں پڑے، قرآن مجید کھول کر طویل مطالعہ کرے، بہتر یہ ہے کہ کسی عامل یا مفتی سے رابطہ کرلیا جائے، وہ اﷲ والے ہوتے ہیں، ان کے پاس سے حل آسانی سے دستیاب ہوسکتا ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ واقعی ایسے بڑے بڑے علما اور مشائخ اب بھی ہمارے درمیان موجود ہیں لیکن وہ اﷲ والے اپنی شخصیت پسندی کے پرچار میں مبتلا نہیں ہیں تو بہت سے لوگوں کو ان کی شخصیت کے بارے میں علم ہی نہیں۔ البتہ جو حضرات ٹی وی اسکرین یا بڑے بڑے لوگوں کی وزیٹنگ لسٹ میں شامل ہوتے ہیں ان سے لوگ بخوبی واقف ہیں، ویسے بھی غریب غربا کو کون لفٹ کراتا ہے۔

بات ہو رہی تھی عاشق اور معشوق کی اور اگر یہ عشق کی سرحدیں باری تعالیٰ سے ملائیں تو اتنا وسیع سرکل بنتا ہے کہ سمجھ نہیں آتا کہ ہم کہاں کھڑے ہیں، اس لیے کہ شیطان اس عشق کو کمزور کرنے کے لیے دن رات لگا رہتا ہے۔۔۔۔ کیوں کہ اس کا کام ہی یہ ہے کہ اس عشق میں مبتلا لوگوں کو الجھائے کہ وہ غلط راہ کو بھی صحیح سمجھ کر اسی جانب چل پڑیں۔ یہ فرق بہت مہین ہوتا ہے اور راہ ایسے بدلتی ہے کہ پتہ ہی نہیں چلتا۔ اس راہ بدلنے کی مشکل سے بچنے کا ایک آسان نسخہ ہے کہ صرف اﷲ تعالیٰ پر توکل کریں، اسی کی جانب رجوع کریں، اسی سے مانگیں اور ادھر ادھر الجھنے کی کوشش نہ کریں، کیونکہ ادھر ادھر کی الجھنیں آج کل کے دور میں اتنا بڑا فساد پیدا کردیتی ہیں کہ ایک نیا فرقہ جنم لے لیتا ہے۔ ہمارے یہاں بہت سے فرقے ہیں جن میں ایک دوسرے سے اس حد تک اختلافات ہیں کہ ان کی مذہبی عبادت گاہیں الگ ہیں، امام الگ ہیں، ہم ایک دوسرے کے خلاف زہر اگلنے کو ثواب سمجھتے ہیں، حالانکہ ہم سب مسلمان ہیں پھر بھی ایک ہونے سے کتراتے ہیں۔


شبیر احمد کی کتاب ''حویلی کا راز'' ایک ایسی کتاب ہے کہ جس نے واقعی بہت سے راز کھول دیے، اس میں بہت اختصار سے اسی بات کو لکھا گیا ہے کہ ہمارے مذہب میں شقیں کیسے پڑتی چلی گئیں اور کمزور عقیدے کے لوگ کس طرح اس میں الجھتے چلے گئے۔ نواب سعید خان چھتاری کی یادداشتوں میں سے ایک انکشاف اس طرح سے ہے کہ نواب صاحب 1940 کی دہائی میں صوبہ اتر پردیش کے گورنر رہے، ان کا تعلق کانگریس یا مسلم لیگ سے نہ تھا دوسرے لفظوں میں انگریزوں کا وفادار کہہ سکتے ہیں۔ نواب صاحب کسی سرکاری کام سے لندن گئے ان کا ایک انگریز دوست جو ہندوستان میں کلکٹر رہ چکا تھا، ان سے ایک دن کہا کہ میں آپ کو ایک ایسی جگہ کی سیر کراؤں گا جہاں میرے خیال میں کوئی ہندوستانی نہیں گیا۔

نواب صاحب یہ جان کر بڑے خوش ہوئے کہ نجانے کیسی اہم جگہ ہوگی۔ انگریز نے ان سے ان کا پاسپورٹ لیا اور دو دن بعد خاص اجازت نامہ لے کر آیا اور سفر کی راہ لی۔ گاڑی سرکاری نہ تھی کیونکہ وہاں وہ جا نہیں سکتی تھی۔ بہرحال شہر ختم ہوا جنگل شروع ہوا، جہاں ایک پتلی سی سڑک جا رہی تھی جو چلے ہی جا رہی تھی، نواب صاحب پریشان ہوگئے۔ انگریز نے انھیں دلاسہ دیا کہ بس سفر ختم ہونے کو ہے، بہرحال آدھے گھنٹے بعد ایک طویل و عریض عمارت نظر آئی جس تک عام انسان کا پہنچنا ناممکن تھا کیونکہ وہ خاردار جھاڑیوں سے لیس تھی۔ دروازہ کھلا اور دربان نے کاغذات چیک کیے اور جانے کا اشارہ کیا۔ گاڑی اندر لے جانے کی اجازت نہ تھی، پیدل سفر شروع کیا۔

مختصراً اندر پہنچے تو ایک کمرے کا دروازہ کھلا ایک باریش نوجوان عربی لباس میں ملبوس نکلا، دوسرے کمرے کا دروازہ کھلا دونوں نوجوانوں نے سلام علیک کی اور چلے گئے۔ انگریز نواب صاحب کو لے کر ایک ایک کمرے میں گیا جہاں کہیں قرأت ہو رہی تھی تو کہیں تفسیر کا درس، کہیں بخاری شریف کا درس تھا تو کہیں مسلم شریف کا۔ ایک کمرے میں مسلمانوں اور مسیحیوں کا مناظرہ ہو رہا تھا، ایک کمرے میں فقہی مسائل پر بات ہو رہی تھی، کہیں قرآن کا ترجمہ مختلف زبانوں میں سکھایا جارہا تھا۔ نواب صاحب نے ایک بات نوٹ کی کہ ہر جگہ باریک مسائل پر زور دیا جا رہا تھا۔ مثلاً غسل کا طریقہ، وضو، روزہ، وراثت کا مسئلہ، رضاعت کے جھگڑے، غسل خانے کے آداب، خواتین کے مسائل غرض وہ باریک باریک مسائل جن سے بڑے بڑے مسائل نکلنا آسان ہو، گویا الجھانا مقصد ہو۔

ایک طالب علم نے پوچھا اعمال کے بارے میں تو دوسرے نے کہا کہ قرآن تو کہتا ہے کہ ہر انسان اپنے اعمال کا خود ذمے دار ہے تو جواب دیا گیا کہ قرآن کی بات مت کرو۔ روایات، ورد اور استخارے میں مسلمانوں کا ایمان پکا کرو۔ ستاروں، ہاتھ کی لکیروں، مقدر اور نصیب میں انھیں الجھاؤ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ نواب صاحب کی معصومیت دیکھیے اتنا کچھ دیکھنے کے بعد بھی نہ جان سکے اور انگریز دوست سے پوچھا کہ آپ نے اتنے عظیم دینی مدرسے کو کیوں چھپاکر رکھا ہے؟ تو انگریز نے جواب دیا کہ ''ارے ان سب میں کوئی بھی مسلمان نہیں، یہ سب عیسائی ہیں تعلیم مکمل ہونے کے بعد انھیں مسلمان ملکوں خصوصاً مشرق وسطیٰ، ترکی، ایران اور ہندوستان بھیج دیا جاتا ہے جہاں وہ جاکر یہ کہتے ہیں کہ وہ یورپی مسلمان ہیں اور مصر کی جامعۃ الازہر میں تعلیم پائی ہے، مکمل عالم ہیں، یورپ میں اتنے اسلامی ادارے موجود نہیں کہ تعلیم دے سکیں، بس سردست تنخواہ نہیں چاہیے صرف دو وقت کا کھانا اور سر چھپانے کو جگہ چاہیے''۔ اسی انگریز نے انکشاف کیا کہ راج پال سے 1920 میں نعوذ باﷲ رنگیلا رسول کے نام سے کتاب اسی ادارے نے لکھوائی۔ سلمان رشدی کی کتاب لکھوانے میں بھی اسی ادارے کا ہاتھ ہے اور بہت سے دوسرے فرقے جو انگریزوں کی ہندوستان آمد کے بعد ابھر کر سامنے آئے کھڑے ہیں اسی ادارے کی سازش ہے۔

سازش کسی کی بھی ہو، سوچ کیسی بھی ہو، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا واقعی مسلمان اتنے کچے عقیدے کے ہیں جو ان چھوٹی چھوٹی باتوں میں الجھ کر دین سے دور ہوتے جا رہے ہیں؟ کیا ہمارے ہاتھ واقعی خالی ہیں کہ ہمیں کچھ تھامنے کو سہارا ہی نہیں ہے؟ ہماری آنکھیں اتنی ہی کمزور ہیں کہ ہمیں کچھ نظر نہیں آتا؟ ہمارا دل اتنا ہی معصوم ہے کہ جس نے کچھ بھی کہا اور ہم وہاں لڑھک گئے؟ ہم آخر کب تک حویلی کے راز میں الجھتے رہیں گے اور کب اس حویلی سے نکل کر کھلی فضا میں سانس لیں گے؟
Load Next Story