خود مختار اقتصادی نظام اور جمہوریت

دنیا بھر میں برطانوی پارلیمانی نظام جمہوریت کو مثالی قرار دیا جاتا ہے۔ برطانیہ نے مشترکہ ہندوستان میں اپنے طرز ک۔۔۔

دنیا بھر میں برطانوی پارلیمانی نظام جمہوریت کو مثالی قرار دیا جاتا ہے۔ برطانیہ نے مشترکہ ہندوستان میں اپنے طرز کا نظام سیاست رائج کرنے کے لیے انڈین نیشنل کانگریس اور آل انڈیا مسلم لیگ کے ضلعی سطح کے رہنماؤں کو پارلیمانی طرز جمہوریت کی خصوصی تربیت دی تھی۔ انڈین نیشنل کانگریس نے تو اس طرز جمہوریت کو اپنالیا اور وہ آج ہندوستان کو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت شمار کیا جاتا ہے جب کہ پاکستان کے بانی قائداعظم محمد علی جناح کے جلد انتقال کرنے اور خان لیاقت علی خان کے قتل کے بعد پاکستانی جمہوریت توڑ گئی اور ملک پر پہلے سول بیورو کریٹس کا قبضہ ہوا جو بالآخر ایوب خان کے مارشل لاء پر منتج ہوا۔ ایوب خان نے موقع پرست سیاستدانوں کو اپنے ساتھ شامل کرکے صدارتی نظام حکومت قائم کیا جو دس سال چلنے کے بعد ایک اور مارشل لاء پر ختم ہوا جس کے سربراہ جنرل یحییٰ خان نے عوامی دباؤ کے باعث پاکستان کے پہلے ون مین ون ووٹ کے اصولوں پر عام انتخابات کرائے، ون یونٹ توڑ دیا گیا۔

یحییٰ خان کی توقعات کے قطعی برعکس مشرقی پاکستان سے شیخ مجیب الرحمن کی عوامی لیگ نے بھاری اکثریت حاصل کرلی اور مغربی پاکستان کے چار صوبوں میں دو بڑے صوبوں یعنی سندھ اور پنجاب سے ذوالفقار علی بھٹو کی پاکستان پیپلز پارٹی نے اور دو صوبوں بلوچستان اور خیبر پختونخوا سے صوبائی خودمختاری کی حامی سیاسی جماعت نیشنل عوامی پارٹی نے ولی خان کی قیادت میں کامیابی حاصل کرلی۔ جنرل یحییٰ نے مشرقی پاکستان کے عوام کے مینڈیٹ کو تسلیم نہ کرتے ہوئے کارروائی کردی جس کے نتیجے میں مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن گیا۔ اگر پارلیمانی طرز جمہوریت کے نظام کو اپناتے ہوئے عوامی لیگ کو اقتدار منتقل کردیا جاتا تو مشرقی پاکستان بنگلہ دیش نہ بنتا۔

آج جب اس سانحے کو گزرے ہوئے چالیس سال کا عرصہ گزر چکا ہے، پاکستان کے اصل حکمراں اب بھی اس کوشش میں ہیں کہ پارلیمانی طرز جمہوریت کو ناکام قرار دے کر صدارتی طرز کا نظام نافذ کیا جائے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے گزشتہ پانچ سالہ دور کے بارے میں ایک طاقتور حلقہ یہ کہتا ہے کہ جمہوریت نے ملک کے غریب آدمی کو ماسوائے غربت، افلاس، بے روزگاری اور خراب امن و امان کی صورت حال، بجلی اور گیس کی لوڈ شیڈنگ کے سوا کیا دیا ہے۔ اس حلقے کا یہ بھی کہنا ہے 5 سالہ سیاسی جمہوری دور میں جتنی کرپشن کی گئی اس کی مثال نہیں ملتی۔ اسی طرح موجودہ حکومت جس کی قیادت میاں نواز شریف کر رہے ہیں کے بارے میں یہی تبصرے کیے جا رہے ہیں کہ جمہوری نظام اور حکومت زیادہ عرصہ نہیں چلے گی۔


آج تو صورت حال آصف علی زرداری کے دور سے بھی زیادہ خراب ہو رہی ہے، ڈالر کی قیمت بڑھتی جا رہی ہے اور پاکستانی روپیہ ڈی ویلیو ہوتا جا رہا ہے۔ کراچی، بلوچستان، خیبر پختونخوا میں خراب امن و امان کی صورت حال میں مزید اضافہ ہو رہا ہے اور اب تو پنجاب میں دہشت گردی کے واقعات ہو رہے ہیں۔ القاعدہ اور دیگر دہشت گرد تنظیموں کا عمل دخل بڑھ رہا ہے۔ مہنگائی پہلے سے زیادہ ہوگئی ہے۔ غیر جمہوری قوتیں یہ نہیں کہہ رہی ہیں کہ ملک میں مروج اقتصادی نظام ناکام ہوگیا ہے بلکہ ان کا کہنا یہ ہے کہ سارے مسائل کی ذمے داری جمہوری طرز کے نظام پر عائد ہوتی ہے۔ جب کہ اصل صورت حال یہ ہے کہ پاکستان کی 65 سالہ تاریخ میں آمرانہ اور جمہوری دونوں طرز کی حکومتوں نے پاکستان کے اقتصادی نظام کو درست کرنے کی کوشش نہیں کی، ہمارا اقتصادی نظام مکمل طور پر ورلڈ بینک، آئی ایم ایف، ایشین ڈیولپمنٹ بینک اور دیگر سامراجی مالیاتی اداروں کے تابع ہے۔

ہم اپنے ملک میں پیدا ہونے والی قدرتی گیس اور تیل کی قیمتوں کا تعین خود نہیں کرتے بلکہ بین الاقوامی ادارے کرتے ہیں، بجلی کی کمی دور کرنے کے لیے ہم ایٹمی ٹیکنالوجی کو بروئے کار نہیں لا سکتے، اسی طرح تھرکول کے بڑے ذخائر استعمال کرنے کی ہمیں اجازت نہیں ملتی۔ بجلی کی کمی کے باعث ہماری صنعتیں بند ہو رہی ہیں، بے روزگاری بڑھ رہی ہے، نئی صنعتوں کے قیام کے لیے نہ ہی پبلک سیکٹر میں اور نہ ہی پرائیویٹ سیکٹر کی جانب سے کوئی کام کیا جارہا ہے، زرعی شعبہ بھی ترقی کے بجائے زوال پذیر ہے۔

ہم اپنے اقتصادی نظام کو مکمل طور پر قرضے حاصل کرکے اور نوٹ چھاپ کر چلا رہے ہیں، جو زیادہ عرصہ نہیں چل سکتا۔ زرعی آمدنی پر ٹیکس لگانے کے مطالبے کو وڈیرہ بھی مسترد کردیتا ہے اور سیاسی مصلحتوں کا شکار حکمران بھی مسترد کردیتا ہے۔ اطلاعات کے مطابق پبلک سیکٹر میں چلنے والے بہت سے ادارے جن میں پی آئی اے، پاکستان اسٹیل، پاکستان ریلوے شامل ہیں کی نجکاری کی جارہی ہے، گویا عوام کی خدمت کے بجائے ماضی کی طرح بہت سے نئے سرمایہ دار اور مالیاتی گروپ پیدا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ جب کہ ضرورت اس بات کی تھی کہ پبلک سیکٹر میں چلنے والے اداروں میں کرپٹ اور بددیانت انتظامیہ کو تبدیل کرکے اچھے اور ایماندار لوگوں کو تعینات کیا جاتا۔

لوگوں کی رائے یہ ہے کہ موجودہ حکومت ایسا کچھ اپنی منشا سے نہیں کر رہی بلکہ بین الاقوامی اسٹیبلشمنٹ کی ہدایات پر ایسا کیا جا رہا ہے۔ حکمراں پارٹی سمیت ملک کی تمام سیاسی جماعتیں یہ کہہ رہی ہیں کہ ملک کی اقتصادی صورت حال اس وقت ٹھیک ہوگی جب دہشت گردی، تخریب کاری، بم حملوں، خودکش حملوں، ٹارگٹ کلنگ، اغوا برائے تاوان جیسے بھیانک جرائم کو ختم کردیا جائے۔ لیکن تعجب خیز بات یہ ہے کہ حکمرانوں اور سیاسی جماعتوں کو یہ بات کیوں نہیں سمجھ میں آتی کہ بین الاقوامی اسٹیبلشمنٹ اور اس کے حواری ہی امن و امان خراب کرنے کے ذمے دار ہیں، وہ پاکستان کو اپنے مخصوص مفادات کے پیش نظر اقتصادی و سیاسی دونوں طرح سے اپنا محتاج رکھنا چاہتے ہیں۔ جب تک سیاسی حکمران سامراجی مفادات پورا کرتے رہیں گے ان کی حکومت اور پارلیمانی طرز جمہوریت قائم رہے گی، جیسے ہی اس بات سے انحراف کیا جائے گا جمہوریت کی بساط یہ کہہ کر لپیٹ دی جائے گی کہ پاکستان کے لیے پارلیمانی جمہوریت مناسب نظام نہیں۔
Load Next Story