اسرائیل کی نئی حکمت عملی

نیتن یاہو فی الوقت عالم اسلام میں اپنی پرامن پالیسیوں کو نمایاں کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔

anisbaqar@hotmail.com

اسرائیل کے قیام کو بھی ستر سال ہو چکے ہیں۔ ایک زمانہ تھا جب جمال عبدالناصر مصر کے مرد آہن تھے تو انھوں نے عرب ریاستوں کو اسرائیل کے خلاف منظم کرنے کی کوششیں شروع کیں جس میں انھیں کامیابی تو نصیب نہ ہوئی مگر عرب ریاستوں کا اسرائیل کے حق میں گفتگو کرنے کا ماحول جاتا رہا۔ البتہ عرب ملکوں سے جو طلبا پاکستان خصوصاً کراچی آتے تھے وہ کسی نہ کسی ایسی تنظیم سے منسلک ہوتے تھے جو اسرائیل کے وجود کے خلاف تھیں۔

دراصل یہ عرب تنظیمیں اسرائیل کے وجود کے خلاف نہ تھیں بلکہ اسرائیل کا جارحانہ پہلو اور عرب دنیا کے باشندوں کے خلاف کارروائی نے عربوں کو یکجا کرنے کا منصوبہ بنایا جسے عرب دنیا کے اہم لیڈر یاسر عرفات نے منظم کیا۔ یاسر عرفات کو صرف اسرائیل سے خدشہ نہ تھا بلکہ عرب کے بادشاہ بھی ان کے خلاف تھے۔ کیونکہ وہ عرب دنیا میں عوامی جمہوری انقلاب چاہتے تھے۔

انھیں اندرونی محاذ پر اردن کی بادشاہت سے بھی برسرپیکار ہونا پڑا۔ جس میں یاسر عرفات کو بھاری نقصان اٹھانا پڑا مگر ان کی جدوجہد جاری رہی۔ دوسری جانب ان کے ہمنوا جمال عبدالناصر اسرائیل سے دو بڑی جنگوں میں شکست کھا بیٹھے اس کی وجہ ان کی اپنی فوج میں اسرائیل کے ہمنوا جاسوس موجود تھے۔ جمال عبدالناصر کے بعد مصر میں انوار السادات کی حکومت برسر اقتدار آئی جس نے اسرائیل سے مفاہمت کی پینگیں بڑھائیں جس کا نتیجہ آج یہ ہے کہ سیاسی محاذ پر مصر کی حکومت کے اسرائیل سے دوستانہ تعلقات ہیں جس کا اظہار کھلم کھلا نہیں ہو رہا۔ جب کہ اسرائیل کے خلاف واحد مزاحمتی تنظیم حماس آج سیاسی طور پر تنہائی کا شکار ہے۔

البتہ انھیں حزب اللہ کے قائد نصراللہ اور ایران کی حمایت حاصل ہے۔ کیونکہ ایران کا بارڈر براہ راست اسرائیل سے نہیں لگتا۔ اس لیے ایران کی حمایت سیاسی طور پر تقویت کا باعث تو ضرور ہے مگر دوش بہ دوش مزاحمت کے لیے اتنی کارآمد نہیں جتنی کہ بارڈر سے ملاپ کی شکل میں ہوا کرتی ہے ادھر خود اسرائیل ستر سال سے مزاحمتی سیاست کر رہا ہے تو وہاں کے عوام بھی اسرائیل کی عرب دنیا سے دشمنی کے خلاف صف آرا ہوچکے ہیں۔ چند ماہ قبل اسرائیل میں خود جنگ کے خلاف کئی بڑے مظاہرے دیکھے جا چکے ہیں۔ چونکہ عوام کسی بھی علاقے کے ہوں وہ سکون کے خواہاں ہوتے ہیں۔

بدامنی کی سیاست تھوڑے عرصے چلا کرتی ہے ابھی گزشتہ دو برسوں میں بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نیتن یاہو سے نئی بستیاں بسانے اور پرانی کو اجاڑنے کی سیاست کر رہے تھے مگر نیتن یاہو خود اس پالیسی میں فیل ہوگئے۔ اب بھلا نریندر مودی اس سیاست کو کیسے آگے بڑھا سکتے ہیں۔ امن و سکون، ترقی و خوشحالی انسان کا بنیادی حق اور اس کی سرشت کا حصہ ہے۔ اسی لیے اسرائیلی وزیر اعظم نے مار دھاڑ کی پالیسی کو ترک کرکے آخرکار عرب دنیا سے دوستی کی سیاست شروع کی ہے۔

تقریباً تمام شاہی ریاستوں سے ان کے دوستانہ تعلقات ہوگئے اور اب وہ کوشاں ہیں کہ سعودی عرب سے بھی نارمل تعلقات ہوجائیں۔ جب کہ دونوں ملکوں میں کشیدگی باقی نہیں رہی۔ اس وقت سب سے اہم بات یہ ہے کہ اسرائیل لبنان سے دوستانہ تعلقات قائم کرنے کی کوشش کر رہا ہے اس کوشش میں امریکی صدر جو ان دنوں علیل ہیں ان کی معاونت کریں گے اور یہ ڈیل اقوام متحدہ کے زیر اثر ہوگی۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ یہ مذاکرات کس حد تک کامیاب ہوتے ہیں۔ کیونکہ لبنان کے سیاسی اور عسکری مردآہن حزب اللہ کے رہنما نصراللہ ہیں۔ جن کے ایران سے نہ صرف دوستانہ تعلقات ہیں بلکہ غیر علانیہ ایسا لگتا ہے کہ دونوں ایک معاہدے میں شریک ہیں۔ کیونکہ شام اور داعش کی جنگ میں یہ عمل نمایاں ہو چکا تھا اور فی الحال ایران اور حزب اللہ کے تعلقات کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں۔

خود اسرائیل بھی لبنان سے دوستی کا خواہاں اس لیے ہوا کہ اس نے حزب اللہ سے کئی مرتبہ جنگ کی صورت میں شدید فوجی نقصان اٹھائے ہیں۔ لہٰذا یہ دوستی محض عرب ریاستوں کی دوستی نہ ہوگی بلکہ دو مزاحمتی قوتوں کے مابین تعلقات کی بہتری کی دستاویز ہوگی۔

اس سے اس علاقے میں رفتہ رفتہ ممکن ہے کہ بہتری کے امکانات نمایاں ہوں اور ایران کے ساتھ بھی دوستی کے دور میں امکانات پیدا ہوں جو اس وقت علاقے کی واحد قوت ہے جسے اسرائیل کا وجود ناپسند ہے۔ لیکن نئی صورتحال سے تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ نیتن یاہو اپنے سابقہ رہنماؤں اور خود اپنی زندگی کے جنگجویانہ طریقوں سے تنگ آچکے ہیں۔ کیونکہ انھیں جنگ کی صورت میں اپنے عوام کو دہشت زدہ کرنے کے علاوہ کچھ حاصل نہ ہوا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ایران، لبنان اور اسرائیل کے دوستانہ تعلق کو کس رنگ سے دیکھتا ہے۔


آیا ایران حزب اللہ کے ذریعے لبنانی حکومت پر دباؤ ڈالتا ہے کہ وہ اسرائیل سے دوستانہ تعلقات قائم کرے تو اس کی بعض اہم شرائط کیا ہوں گی۔ خصوصاً مسجد اقصیٰ کے متعلق ایران ماضی میں سخت بیانات دیتا رہا ہے۔ اور اب ایسا لگتا ہے کہ ایران خود کو مسلم دنیا کا لیڈر سمجھنے لگا ہے۔ جب کہ عرب حکومتیں خصوصاً جہاں بادشاہ گدی نشین ہیں وہ ایران کی سیاسی لائن کو آگے بڑھانے کے درپے نہیں۔ بہرصورت موجودہ صورتحال میں کہ اسرائیل اور لبنان کے تعلقات بہتر ہوں، ایران اس میں مزاحمت نہیں کرے گا۔ کیونکہ اس کا ایک بارڈر مزید محفوظ ہو جائے گا لبنان کے نئے وزیر اعظم مسٹر حسن ایک مشہور مفکر ہیں۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ ان کی فکر کا دائرہ کون سے فیصلے لیتا ہے۔ لبنان گوکہ ایک چھوٹا ملک ہے لیکن یہاں کئی عسکری تنظیمیں ہیں۔ ان کے درمیان تصادم خود ایران کے حق میں نہیں جاتا اور ایسا لگتا ہے کہ اب آنے والے دنوں میں لبنان اور اسرائیل کی سرحدیں پرامن ہو جائیں گی ، اس سے امریکا کی سیاسی قیادت کو سکون سے رہنے کا موقعہ ملے گا۔ اور وہ خود کو پرسکون رکھنے کو ترجیح دیں گے۔ اسرائیل نے اپنا نیا موقف 'امن اور دوستی' کا پھیلانا چاہا ہے یہ دراصل نیتن یاہو کی کاوشیں نہیں بلکہ اسرائیل کی حزب اختلاف اور وہاں سے بائیں بازو کا اثر ہے۔

امریکا ان دنوں اپنے قومی انتخابات میں الجھا ہوا ہے لہٰذا اس کو کسی چھوٹی بڑی جھڑپ کی طرف دیکھنے کی فرصت نہیں ہے۔ اور خصوصاً ایسے موقع پر جب کہ ان کے صدر خود علیل رہے ہیں اور ابھی اسپتال سے نکلے ہیں۔ جہاں تک اسرائیل کا تعلق ہے وہ ایک چال باز سیاستدان ہیں۔ جنھیں مسلمانوں سے خدا واسطے کا بیر ہے اس لیے وہ اپنی توانائی کے تمام منفی پہلو مسٹر مودی کے ہاتھوں مفت فروخت کر رہے ہیں کہ بستیاں کیسے اجاڑی جائیں اور نئے لوگ کیسے بسائے جائیں۔ یہ ان کی فطرت کا حصہ ہے لیکن طویل جنگ اور اسرائیلی عوام کے دباؤ کی بنا پر وہ امن کا راستہ اختیار کر رہے ہیں۔

مقبوضہ کشمیر میں بھارتی حکومت اسرائیلی اشاروں پر عمل پیرا ہے۔ لیکن اس کا وہ راستہ جو اس نے ماضی میں اختیار کیا تھا ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ ترک ہو جائے گا اور لبنان سے بھی دیر یا سویر معمول کے تعلقات استوار ہو جائیں گے۔ عرب ریاستوں سے تو اسرائیل کے تعلقات معمول کے مطابق جاری ہیں اس کا مطلب یہ نہیں کہ مستقبل قریب میں کسی اسلامی طاقت سے کوئی جنگ متوقع ہے بلکہ اسرائیل کو اب اپنا پرامن چہرہ پبلک کو دکھانا ہے تاکہ اس کا وہ پہلو جو اس نے ماضی میں خونریزی کی ہے اور بستیوں کو تاراج کیا ہے اسرائیل اور لبنان کی دوستی تو ممکن نہیں لیکن آئے دن کے سرحدی جھگڑے بھی ختم ہونے کی توقع ہے۔

یہ سرحدی تصادم تو اب تقریباً ستر برس ہونے کو ہیں جاری رہے گا۔ یہ علاقے چھوٹے ضروری ہیں مگر جنگ کی لپیٹ میں رہتے ہیں جس میں بڑے ممالک بھی کبھی نہ کبھی اس میں کود سکتے ہیں۔ لیکن فی الحال کسی چھوٹی یا بڑی جنگ کی توقع نہیں ہے کیونکہ نیتن یاہو فی الوقت عالم اسلام میں اپنی پرامن پالیسیوں کو نمایاں کرنے میں لگے ہوئے ہیں جس سے عالم اسلام میں غصے کی لہر ہلکی پڑ جائے گی۔

ایک زمانہ تھا جب یاسر عرفات زندہ تھے تو یہ نعرے لگا کرتے تھے اور جمال عبدالناصر بھی حیات تھے تو یہ آوازیں بلند ہوتی تھیں:

یاسر، ناصر، یا حبیب

فتحٗ فتحٗ تل ابیب

مگر اب یہ نعرے خواب و خیال کی دنیا میں رہ گئے۔ کیونکہ مسلم سیاست انتشار کا شکار ہے۔ اب اسرائیل نے نیا سیاسی روپ اختیار کیا ہے جو یقیناً اس کے لیے امن کا ضامن ہے۔
Load Next Story