کیوکاز کیوکوز قفقاز یا کوہ قاف

یقیناً بیسویں صدی میں پیدا ہونے والے ہر عام اردوگو ، اردوداں، پاکستانی اور ہندوستانی (بشمول اہل قلم) نے سنا پڑھا ہوگا۔

یقیناً بیسویں صدی میں پیدا ہونے والے ہر عام اردوگو ، اردوداں، پاکستانی اور ہندوستانی (بشمول اہل قلم) نے سنا پڑھا ہوگا۔فوٹو : فائل

زباں فہمی نمبر 68

کیا خیال ہے،آج کوہ قاف کی سیر نہ کی جائے۔ وہی کوہ قاف جس کا ذکر اردو زبان وادب میں جابجا عام ہے۔ آپ میں کس کس نے کوہ قاف کا نا م سنا ہے؟ یقیناً بیسویں صدی میں پیدا ہونے والے ہر عام اردوگو ، اردوداں، پاکستانی اور ہندوستانی (بشمول اہل قلم) نے سنا پڑھا ہوگا، البتہ اکیسویں صدی کی پَود نے شاید نہ سنا ہویا شاید سنا پڑھا ہو، بھول گئے ہوں۔

یہ وہی کوہ قاف کا علاقہ ہے جہاں کے جنات، دیو اور پریاں ہمارے بچپن سے خوابوں، خیالوں اور کہانیوں میں دکھائی دیتے تھے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ الف لیلہ میں اس کا جابجا ذکر ملتا ہے۔ انتہائی ضخیم داستان 'الف لیلہ ولیلہ' (ایک ہزار ایک راتیں) پڑھنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں، اکثر نے تو خلاصہ ہی دیکھا ہوگا اور نہیں تو ''بچوں کی الف لیلہ'' نامی مختصر کتاب پڑھی ہوگی اور ٹیلی وژن پر ''عینک والا جنّ'' نامی ڈراما سیریز میں کوہ قاف کا ذکر بارہا سنا ہوگا۔ اب اگر کوئی کوہ قاف کو بگاڑ کر کیوکاز۔یا۔کیوکَوز کہے تو آپ کے دل پر کیا گزرے گی؟.....یہ بے ہودہ حرکت کس نے کی، یہ آگے چل کر عرض کروں گا۔

فرہنگ آصفیہ میں لکھا ہے: ''کوہ قاف (فارسی+ عربی) اسم مذکر۔۱۔ایک زُمُرُّد کا مانا ہوا پہاڑ جسے ایشیائی لوگ، دنیا کے گرداگرد خیال کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ آسمان اُس کی اطراف سے مُلحِق ہے۔ حال کی تحقیقات کے موافق، بُحَیرہ اسود کے شِمالی حصے کا وہ پہاڑ جسے انگریزی میں کاکسس کے نام سے موسوم کرتے ہیں ۔۲۔ وہ جگہ جہاں آدمی کا گزر نہ ہوسکے۔ نہایت دشوارگزار اور سنسان پہاڑجو دیو اور پریوں کا ایک فرضی مقام ہے۔'' (میرے روحانی عامل دوست کا کہنا ہے کہ اس پُراَسرارمخلوق کا اب بھی وہیں قیام ہے)۔

موضوع کی وسعت بے کراں کو چھونے کی کوشش کرتے ہوئے نجی کتب خانے میں موجود، ایک مشہور کتاب کا یہ اقتباس بھی آپ کی نذر کرنے کو جی چاہتا ہے: ''بچپن میں بڑے بوڑھوں (سے) اور قصہ کہانیوں میں کوہ قاف کا ذکر اتنی مرتبہ سنا اور پڑھا کہ یہ نام ذہن پر نقش ہوگیا۔ بڑے بڑے باہیبت (ہیبت ناک۔س ا ص)، جنّ، دیو اور خوبصورت پریاں اس نام کے ساتھ ہی پردہ تخیّل پر نمودار ہوجاتیں۔ کچھ ہوش سنبھالا تو معلوم ہوا، یہ سب خیالی باتیں ہیں۔

کوہ قاف بھی ایک تصورّاتی پہاڑ لگا، پھر بلوغ کی سرحد میں پہنچے تو انکشاف ہوا، جنّ، دیو اور پریاں لاکھ خیالی ہوں، مگر کو ہ قاف خیالی پہاڑ نہیں۔'' (پیش لفظ: کوہ قاف کے دیس میں از کوثرنیازی۔ سولہ اپریل سن انیس سو اٹھاسی۔ ناشرجنگ پبلشرز، لاہور: اشاعت چہارم۔ فروری ۱۹۹۰ء)۔ اصل میں کوہ قاف کوئی ایک پہاڑ نہیں، بلکہ یہ وسیع وعریض خطہ ہے جسے قفقاز[Kavkaz] اور کاکیشیا کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ (یہ قاف قاز کا مخفف ہے۔ س ا ص)۔ {کوثرنیازی: ''یہ سچ مچ کا ایک سلسلہ کوہ ہے جو روس میں واقع ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ 'زارشاہی' کے خلاف، اس علاقے میں نامور مسلم مجاہد امام شامل رحمۃ اللہ علیہ کی مسلِح جدوجہد کا تذکرہ بھی نظر سے گزرا ............'' پیش لفظ: کوہ قاف کے دیس میں}۔ انگریزی میں اسے Caucasus کہتے ہیں۔

ان دنوں روس نے (دریائے وولگا کے کنارے) اسی علاقے کے ایک مقام اَسترا خان پر زبردست فوجی مشقوں کا سلسلہ شروع کیا ہے جس میں روس ، بیلاروس، آرمینیہ، چین، میاں مار (اسے سہواً میانمارکہا جاتا ہے)، ایران اور پاکستان کے اسّی ہزار فوجی حصہ لے رہے ہیں، جبکہ آذربائیجان، تاجکستان، قازقستان، انڈونیشیا اور سری لنکا بطور ''مُشاہدہ کار'' [Observers] شریک ہیں۔ ابھی کل کی بات ہے کہ ہمارے دو نجی ٹی وی چینلز نے اس سلسلہ مشق کو بجائے قفقاز 2020[Kavkaz] ۔ یا ۔Caucasus-2020 ، کیوکاز اور کیوکَوز قرار دے دیا۔ اگر کسی غیرملکی ٹی وی چینل کو دیکھنے کی زحمت اٹھاتے یا کسی پڑھے لکھے سے پوچھ لیتے کہ یہ رومن رسم الخط میں کیا لکھا ہے، اسے کیسے پڑھتے ہیں، تلفظ کیسے ادا کرتے ہیں تو یہ غلطی سرزد نہ ہوتی، مگر ایسا کون کرے اور کیوں کرے۔

یہاں تو ایسے کئی نئے اور پرانے خبر خواں اور ٹی وی میزبان موجود ہیں جو اپنے نام کا صحیح تلفظ نہیں جانتے.....بھولے بھالے لوگ۔ قفقاز۔یا۔ کوہ قاف۔یا۔ کاکیشیا کا خطہ ناصرف روسی تاریخ میں بلکہ اسلامی تاریخ میں بھی بہت اہمیت کا حامل ہے۔ یہ سلسلہ کوہ ایشیا اور یورپ کے دوسمندروں بُحَیرہ اسود [Black Sea] اور بُحَیرہ قزوین یاگیلان [Caspian Sea] کے درمیان واقع ہے۔ بُحَیرہ اسود تو ایک چھوٹا سمندر ہے، مگر بُحَیرہ گیلان، درحقیقت دنیا کی سب سے بڑی اور نمکین جھیل ہے۔

روس کا جنوبی حصہ قفقازمیں شامل ہے، جبکہ ایران کا شمالی حصہ۔ قفقاز کے خطے میں ترکی کے شمال مشرقی حصے بھی شامل ہیں۔ کوہ قاف پار۔یا۔ماورائے کوہ قاف/ قفقاز یعنی Transcaucasia کا علاقہ بھی اپنی جگہ بہت اہم ہے۔ ماورائے کوہ قاف/ قفقاز میں جارجیا (قدیم گُرجستان)، آذربائیجان اور آرمینیہ شامل ہیں۔

۲۵دسمبر ۱۹۹۱ء کو پندرہ ممالک یا ریاستوں (آرمینیہ، آذربائیجان، بیلارُوس، استونیا، جارجیا، قازقستان، قرغزستان، لیتویا، لتھوانیا، مالدووا، روس، تاجکستان، ترکمانستان، یوکرین اور اُزبِکستان) پر مشتمل اتحاد، سوویت یونین [Soviet Union/USSR] شکست وریخت کا شکار ہوا تو ایک ایک کرکے سب آزاد ہوتے گئے اور ان میں، بجائے خود سولہ ریاستوں پر مشتمل وفاقِ روسیا[Russian Federation] یعنی روس بھی شامل تھا۔


بعدازآں آئین کی تشکیل کے بعد ملک کو پچاسی (اور پھر نواسی) علاقوں میں تقسیم کیا گیا، بشمول کریمیا اور Sevastopol (متنازعہ فیہ)۔ روس میں چھیالیس صوبے (Oblasts) ہیں، بائیس جمہوریہ ہیں، نو ''کرے'' [Krais ] یعنی علاقے، چار آزاد اضلاع (Okrugs)، ایک خودمختار یہودی صوبہ اور تین وفاقی شہر ماسکو، سینٹ پیٹرز برگ اور سیواستوپول (Moscow, Saint Petersburg, and Sevastopol) ہیں۔ سترہ لاکھ پچھہتر ہزار دوسو مربع کلومیٹر(17,075,200 square kilometres) رقبے پر محیط روس دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے جس کی سرحدیں چودہ ممالک سے ملتی ہیں۔

(چین کی بھی چودہ ممالک سے ملتی ہیں)۔ سوویت یونین سے آزاد ہونے والی مسلم ریاستوں میں اُزبِکستان، تاجکستان، تُرکمانستان، قازقستان (/قزاقستان/کاذخستان)، قرغزستان (/قرغستان) اور آذربائیجان شامل ہیں، جبکہ روس میں آج بھی چیچنیا (شیشان)، انگُشتیا، داغستان، تاتارستان، قرہ قلپاقستان، قرہ چے چرکیسیہ، قبردینو بلکیریہ، بشکیریہ، کریمیا میں مسلمان بہ کثرت آباد ہیں۔ شمالی قفقاز میں واقع ملک روس کے خودمختار علاقے / جمہوریہ ادیگی [Adygea]، قرہ چے چرکیسیہ Karachay-Cherkessia] [، شمالی اوسیتیا [North Ossetia]، انگُشتیا [Ingushetia]، چیچنیا (شیشان)[Chechnya]، قبردینو بلکیریہ [Kabardino-Balkaria] اور داغستان [Dagestan]، نیز جنوبی اوسیتیا، ابخازیہ (مسلم جمہوریہ جس کے اعلان آزادی کو تسلیم نہیں کیا گیا) اور ARTSAKH شامل ہیں۔

وکی پیڈیا سے روس میں مسلم آبادی کے تناسب کے بارے میں سرسری معلومات حاصل ہوتی ہیں۔ استراخان پر بھی مسلم اقتدا ر، بشکل ''خانیت'' یعنی خان نامی سرداروں کی حکومت کی شکل میں تاریخ کا حصہ رہا۔ اس عظیم خطے کے باسیوںکا اردو سمیت بے شمارعالمی زبانوں کی لسانیات اور ادبیات کی پرداخت میں براہ راست یا بالواسطہ دخل رہا ہے۔

(زباں فہمی کالم نمبر تریسٹھ تا پینسٹھ کا ذیلی موضوع ''اردوکی ماں ، گوجری؟'' پیش نظر رہے)۔ اگر ہم صرف یہی دیکھیں کہ اردو کی نشونما میں (نشو ونما غلط ہے) کلیدی کردار ادا کرنے والی زبانوں بشمول عربی، ترکی و فارسی کا بہت بڑا علمی و ادبی خزینہ (علی الخصوص دینی) اسی خطے میں صفحہ قرطاس پر منتقل ہوا اور قفقاز سے لے کر یورپ کے دوردراز ممالک تک، روسی، بیلاروسی، یوکرینی، ازبیک، تاجیک، قرغیز، قازق، آذری، ویغور، چینی (مینڈرین)، بُلغاری، رومانی [Romanian]، پولستانی [Polish]، المانوی [German]، آسٹروی، ہنگیریئن، سربیئن، کروشئین، بوسنیائی سے لے کر لاطینی اور اُس سے جنم لینے والی اطالوی، پرتگیز، ہسِپانوی [Spanish] (نیز آگے چل کر انگریزی) سمیت بے شمار زبانوں میں آج تک مروج الفاظ، تراکیب، محاورہ جات و ضرب الامثال میں اس خطے کے بے شمار جواہر کسی نہ کسی شکل میں نظر آئیں گے۔

یہ موضوع اس قدروسیع اور وقیع ہے کہ خاکسار کا ذہن یہ طے نہیں کرپا رہا کہ کونسا حصہ تاریخ سے لوں، کونسا چھوڑدوں۔ قفقازدوحصوں، قفقازِ کبیر [Greater Caucasus/Caucasus Major] اور قفقازِ صغیر [Lesser Caucasus] پر مشتمل ہے۔ اول الذکر کو آذری زبان میں ''بُویُوک قاف قاز'' کہتے ہیں۔ ساڑھے سات سو میل [1,200 kilometres] طویل اس حصے کو مزید تین حصوں یعنی مغربی (ازبُحَیرہ اسود تا کوہ ایلبروس Mount Elbrus ، قفقاز کی بلند ترین چوٹی جو درحقیقت ایک خُفتہ آتش فَشاں ہے اور سطح سمندر سے 5,642 m (18,510 ft) بلند ہے)، وسطی (کو ہ ایلبروس اور کوہ Kazbek کے مابین) اور مشرقی (کوہ Kazbek تا بحیرہ قزوین) میں تقسیم کیا گیا ہے۔ قفقازِ صغیر تین سو سترمیل 600 km (370 mi) پر محیط ہے۔ یہ جارجیا، ترکی، آرمینیہ، آذربائیجان اور ایران کے درمیان قدرتی سرحد ہے۔

اس کی بلندترین چوٹی Aragats آرمینیہ میں واقع ہے اور اس کی بلندی چار ہزار نوے میٹر 4,090 m (13,420 ft) ہے۔ کوہ قاف کے جنوب مشرق میں آذربائیجان آباد ہے۔ یہ بحث بہرحال اپنی جگہ ہے کہ قدیم آذربائیجان تو درحقیقت ایران کا صوبہ ہے، دریا ئے ارس کے پار بسایا جانے والا ملک آذربائیجان تو نسبتاً نیا ہے۔ اس بابت یہ نکتہ بھی نظرانداز نہیں کیا جاسکتا کہ قدیم پہلوی یا ایرانی مصلح اور توحید پرست پیام بر، زرتشت (دو طرح سے تلفظ: زَرتُشت اور زَرتَشت) کی جائے پیدائش یزد اِسی قدیم حصے یعنی ایرانی صوبے میں واقع ہے۔ (بحوالہ پویا دُوباش پارسی، سابق دفتری رفیق کار)۔ اردو جامع انسائیکلوپیڈیا (ناشر شیخ غلام علی اینڈ سنز، لاہور، جلد اوّل: ۱۹۸۷ء) اور شاہکاراسلامی انسائیکلوپیڈیا میں اس کے برعکس ایرانی آذربائیجان کو مشرقی و مغربی دو حصوں میں منقسم بیان کرتے ہوئے یہ لکھا گیا ہے کہ اول الذکر کا صدر مقام تبریز اور موخرالذکر کا رضائیہ (قدیم ارومیہ) ہے جسے زرتشت کی جائے پیدائش سمجھا جاتا ہے۔

{ ملک آذربائیجان کی بابت نکات بیان کرتے ہوئے مرحوم حکیم محمد سعید نے ملک آذربائیجان کو پانچ ہزار سال قدیم قرار دیا: دَرُونِ روس۔ دیدوشُنید۔ از حکیم محمد سعید، ہمدردفاؤنڈیشن، کراچی: ۱۹۹۱ء}۔ اسکندراعظم کے مفتوحہ علاقوں میں شامل، آذربائیجان، حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ' کے عہدخلافت میں نامور صحابی، حضرت حُذَیفہ بن اَلیَمان رضی اللہ عنہ' کے ہاتھوں فتح ہوکر اسلامی مملکت کا حصہ بنا۔ آذربائیجان پر گیارہویں اور بارھویں صدی میں ترک نژاد سلجوق حکمراں رہے، چودھویں صدی میں امیرتِیموُر اور سترھویں صدی تا انیسویں صدی، ایران کے بادشاہ اس پر قابض رہے جس کے بعد اس کا شمالی حصہ، روس کے حوالے کردیا گیا ، یہی جدید ملک آذربائیجان ہے۔

(شاہکاراسلامی انسائیکلوپیڈیا)۔ آذربائیجان کی قدیم آبادی، ایرانی نژاد ہے، مگر نوسو سال قبل ترکوں کے قبضے کی وجہ سے آذری زبان و ثقافت بڑی حد تک، ترکی سے متأثر ہوئی۔ آذری زبان ترکی زبان کی شاخ ہے۔ پاکستان میں آذربائیجان کے موجودہ سفیر جناب علی زادہ (زادے)، انگریزی کے علاوہ، اردو خوب بولتے ہیں اور خاکسار نے اُن کے ٹوئیٹر پیغامات کے جواب میں برملا اس امر کی نشان دہی کی ہے کہ آج بھی آذری میں کئی ایسے الفاظ (اپنے اصلی مفہوم کے ساتھ) شامل ہیں جو ہماری پیاری اردو کا حصہ ہیں۔ میں نے اُنھیں دعوت دی کہ اس بابت تحقیق کی باقاعدہ کوشش کی جائے۔ بات کہیں اور نکل جائے گی، مگر کیا کریں، زباں فہمی کا راقم بہ یک وقت زبان وادب، تاریخ اور دین کے موضوعات سے خوشہ چینی کا قائل اور عادی ہے۔

ایرانی، مغربی اور مولوی محمد حفظ الرحمن صدیقی سیوہاروی (صاحب ِ قصص القرآن) جیسے مشرقی محققین کی تحقیق کا خلاصہ یہ قیاس ہے کہ زرتشت (سیوہاروی صاحب کے نزدیک حضرت ابراہیم زَردَشت) ناصرف توحید پرست مبلغ، بلکہ صاحب شریعت نبی تھے۔ فقہی مسئلہ تو یہ ہے کہ ہم اپنے تئیں اس قیاس کی تصدیق نہیں کرسکتے، واللہ اعلم بالصواب یعنی بے شک اللہ ہی بہتر جانتا ہے، مگر یہاں چند باتیں بہرحال قابل ذکر ہیں: ۱۔ زرتشت نے قدیم ایرانی مذاہب کے برعکس توحید، رسالت اور آخرت کی تعلیم دی۔ انھوں نے روشنی اور آگ کی اہمیت واضح کرتے ہوئے انھیں یزداں۔ یا۔ اہورامزدا یعنی خدا کی قدرت کے مظاہر قرار دیا تھا (آتش پرستی، قدیم مذہب سے لے کر، اس میں داخل کی گئی تھی) ۔۲۔ انھوں نے شیطان کا نام اہرمن یا اینگرامینو بتایا۔ (ناواقفین نے یزداں کو نیکی کا خدا اور اہرمن کو بدی کا خدا تصور کرتے ہوئے، زرتشت کی تعلیم توحید کو بھی ''ثنویت'' یعنی دوئی میں تبدیل کردیا۔ اسی پس منظر میں رئیس امروہی نے کہا تھا: اہرمن ہے نہ خدا ہے میرا دل)۔ ایک روایت کے مطابق تخلیق کائنات کے عمل میں شامل بنیادی اجزاء آگ، پانی، مٹی اور ہوا کو خالق قرار دینے والا، آخش نامی مبلغ، زرتشت سے بھی پہلے ہوگزرا ہے۔

اس کے پیروکاروں نے آگ ہی کو اہم ترین جانتے ہوئے اس کی پوجا شروع کی تھی۔ (شاہکاراسلامی انسائیکلوپیڈیا، الفیصل ناشران وتاجران کتب، لاہور۔۲۰۰۰ء) ۔ ۳۔ زرتشت نے نبی کریم علیہ الصلوۃ والتسلیم کی آمدوبعثت کی پیش گوئی کرتے ہوئے اُنھیں''سوئش ینت'' یعنی جہانوں کے لیے رحمت قرار دیا تھا۔۴۔ امیرالمومنین سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ' کے عہدخلافت میں یہ اجتہاد (حضور انور ﷺ کے سن ۹ہجری میں ایک موقع پر اِن لوگوں سے جزیہ وصول کرنے کی روایت) حدیث کی بناء پر کیا گیا کہ مجوسی یعنی زرتشت کے ماننے والے بھی اہل کتاب کی طرح جزیہ دیں گے۔۵۔ اردو میں بہ کثرت رائج الفاظ، خدا، نماز، روزہ اور فرشتہ اُنھی کی زبان پہلوی کی یادگار ہیں جو فارسی کی ماں تھی۔ دیکھاصاحبو! علم لسان اور لسانیات کی جزئیات زیربحث آئیں تو کیسی کیسی پرتیں کھُلتی ہیں۔

(کسی اہل علم پارسی یا اُن سے قربت رکھنے والے صاحب ذوق کے علم میں ہوتوخاکسار کو زرتشت کی کتاب 'زِند اَوِستا' کے پہلوی نسخے اور اردو ترجمے تک دسترس میں مدد فراہم کریں۔ آن لائن انگریزی ترجمہ موجود ہے اور اس سے متعلق ایک قدیم کتاب دیکھی ہے جو برطانوی ہند کے ابتدائی دور کی یادگار ہے۔ میرے پاس بھی دو کتب ان کی تعلیمات پر مبنی انگریزی میں موجود ہیں اور بہت سال پہلے پارسی مذہب پر ایک مضمون بزبان انگریزی لکھ چکا ہوں جو ہنوز غیرمطبوعہ اور میرے نجی کتب خانے میں مدفون ہے)۔ تو دیکھا آپ نے کیسے زبان کی ایک معمولی غلطی سے تحقیق کی ایک راہ کھُلتی ہے اور ہم کہاں سے کہاں جاپہنچتے ہیں۔
Load Next Story