جدید خلافت کی بحالی
ہمیں اس نظام کی تکمیل کےلیے سب سے پہلے صرف یہ ماننا ہوگا کہ خلافت اب بھی زندہ کی جاسکتی ہے
اسلام کی 14 سو سالہ تاریخ گواہ ہے کہ عرب کے ریگزاروں سے جو روشنی پھوٹی اسے آفتاب عالم بنانے میں سب سے بڑا ہاتھ اتحاد کا تھا۔ اتحاد اور یکجہتی کی امنگ سے ہر قلعہ فتح ہوتا گیا۔ ہر دیوار کفر گرتی گئی اور صدیوں تک کوئی بھی اسلام کا ہم پلہ نہ بن پایا۔ اس اتحاد کے پیچھے سب سے بڑا راز قرآن کا درس تھا جس میں اتحاد کا حکم تھا۔ اتحاد عالم اسلام کی سب سے اہم اور مضبوط کڑی تھی خلافت۔ خلافت کے ادارے نے مسلمانوں کو باہم جوڑ کر رکھا۔ وہ مسلم چاہے عرب کے صحراؤں کا ہو یا ترک سرزمین کا۔ وہ مسلم چاہے ہند کا ہو یا مشرق بعید کا، وہ ایک اکائی سے منسلک تھا جس کا نام تھا اسلام۔
خلافت کا ادارہ مسلمانوں کے بیچ ایک بہت بڑی امید کا نام تھا کہ جو بھی ہے خلیفہ کے ذریعے سے مسلمانوں کی اجتماعی ترجمانی ہورہی ہے۔ خلیفہ کے اعلان جہاد کرتے ہی تمام جہتوں سے لشکر اکٹھا ہونا شروع ہوجاتے تھے۔ محمد بن قاسم کو ہی دیکھ لیجئے، جب وہ دمشق سے نکلا تو ایک چھوٹی سی فوج کی کمان کررہا تھا مگر سندھ پہنچنے تک وہ ایک خاصے بڑے لشکر کا سالار تھا۔
21 ویں صدی میں خلافت بظاہر ناممکن دکھائی دیتی ہے۔ کیونکہ کہا جاتا ہے کہ جدید دنیا میں خلافت جیسے نظام کی کوئی جگہ نہیں، یا یہ بھی کہ خلافت ایک ناپید ادارے کا نام ہے۔ لیکن یاد رکھیے کہ اگر مسلم فتوحات میں خلافت کا ادارہ قائم نہ ہوتا تو کبھی بھی اس وقت کی طاقتیں ڈھیر نہ ہوپاتیں۔ سوال یہ اٹھتا ہے کہ ایک وقت میں 57 ممالک کو کیسے ایک لڑی میں پرویا جاسکتا ہے؟ اس کا جواب نہایہت ہی آسان ہے۔
حال ہی میں دیکھ لیجئے۔ اس وقت کی سپر پاور امریکا بھی 50 ریاستوں کے اکٹھ کا نام ہے۔ امریکا کی تمام ریاستیں اپنا الگ آئین رکھتی ہیں۔ سب سے حیران کن بات یہ ہے کہ تمام ریاستوں کا اپنا ایک پرچم بھی ہے۔ لیکن جب یہ 50 ریاستیں ایک وحدت سے جڑتی ہیں تو دنیا کی ایک عظیم طاقت یعنی کہ سپر پاور امریکا کا ملک وجود میں آتا ہے۔
اس سلسلے میں دوسری سب سے بڑی مثال برطانیہ کی ہے۔ اپنی تمام تر سلطنت اور راج پاٹ کو کھونے کے باوجود، ابھی تک برطانیہ چار اکائیوں پر مشتمل ہے، جس میں سرزمین انگلستان، ویلز اور شمالی آئرلینڈ شامل ہیں۔ یہ تمام ریاستیں آزاد ہیں اور اپنے اپنے دساتیر رکھتی ہیں۔ لیکن گریٹ برٹن کا نعرہ ان کو ایک جسم ایک روح بنا دیتا ہے۔ ان دو طاقتوں کے علاوہ یورپی یونین بھی اہم مثال ہے۔ ماضی میں دیکھا جائے تو 20 ویں صدی کے زیادہ تر دورانیے پر حکومت کرنے والا سوویت یونین بھی کسی ایک ریاست کا نام نہ تھا۔ جیسا کہ نام سے ہی ظاہر ہے وہ ایک یونین تھی جو کہ وسطی ایشیائی ریاستوں، یورپی ریاستوں اور موجودہ روس پر مشتمل تھی۔ اور اس اتحاد کی بدولت روس آج بھی ایک عالمی طاقت کی حیثیت رکھتا ہے۔ یاد رہے کہ موجودہ روس بھی ایک فیڈریشن کا نام ہے جو کہ مختلف چھوٹی چھوٹی ریاستوں پر مشتمل ہے۔ اس کے علاوہ چین کا کمیون سسٹم اور ریاستی مالیاتی آزادیاں ان کو ایک سپر پاور بنانے کےلیے کوشاں ہیں۔ غرض جدھر بھی دیکھیں اتحاد اور مضبوط یکجہتی کی بنا پر ہی بڑے بڑے ممالک کھڑے ہیں۔
اگر نئی دنیا، یعنی کہ امریکا کی ریاستیں مل کر ایک ہوسکتی ہیں تو ہم کیوں نہیں؟ اگر یورپ شدید لسانی و جغرافیائی تنازعات کے باوجود اکٹھا ہوسکتا ہے تو ہمیں کیا ہے؟ ایسا کیوں ممکن نہیں کہ ہم تمام اسلامی ممالک مل کر ایک وحدت قائم کرلیں۔ ہمیں بار بار احادیث اور قرآنی آیات میں متحد رہنے کی تلقین کی گئی ہے۔ لیکن کیا بیرونی دباؤ ہمارے جذبہ ایمانی پر غالب آگیا ہے؟ بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ ہم خود ہی اکٹھے نہیں ہونا چاہتے۔
کیا ایسا ممکن نہیں کہ تمام ممالک مل کر ایک خلافت کا اعلان کردیں؟ 57 مملک مل کر اپنا ایک پرچم، ایک آئین، ایک خلیفہ بنا لیں۔ جس طرح سے امریکا میں تمام 50 ریاستوں کو آئینی آزادیاں ہیں، اسی طرح سب آزادیاں آج کے اسلامی ممالک کو حاصل ہوں۔ جبکہ امور خارجہ اور دفاعی معاملات خلافت کے زیر ہوں۔ تمام ممالک مل کر پہلے اپنے علاقائی سربراہ کا انتخاب کریں اور اس کے بعد وہ شخص براہ راست خلیفہ کا دست و بازو بنے۔ تمام ممالک کے اشتراک سے ایک اسمبلی قائم کی جائے، جس میں ہر ملک کو برابری کی ترجمانی دی جائے۔ اس طرح سے اسلامی ممالک مل کر اب بھی 21 ویں صدی میں بھی خلافت کو نافذ کرسکتے ہیں، جس سے 1.9 ارب لوگوں کی ترجمانی ہوسکے۔ ان کی متحدہ فوج، متحدہ معیشت اور متحدہ آئین ہو۔ ایک معینہ مدت کےلیے خلیفہ کا انتخاب کیا جائے اور جمہوری طریقہ کاروں سے ایک مکمل آزاد فیڈریشن قائم کی جائے۔ ہر ایک ملک اور علاقے کے حصے کو حق حاصل ہو کہ وہ بلا روک ٹوک خلیفہ بننے کےلیے حصہ لے سکے۔ ہر خطے کی نمائندگی ہو اور ایک انتہائی مضبوط اور طاقتور ریاست وجود میں آئے۔ اس کا نام ہم کچھ بھی رکھ سکتے ہیں، خلافت، اسلامک فیڈریشن یا کچھ بھی۔ اس اتحاد کے ذریعے سے تمام ممالک کو علاقائی طور پر ثقافتی آزادیاں ہوں اور داخلی طور پر ہر ریاست آزاد ہو۔
اندازہ لگائیے کہ اگر ایسا ہوجاتا ہے تو کیا ہی شان ہوگی مسلم قوم کی۔ تیل کی دولت، وسیع معیشت، ایٹمی اثاثے اور لاکھوں بلکہ کروڑوں پر مشتمل فوج ہوگی۔ غرض ہر لحاظ سے ہم ایک طاقت بن جائیں گے۔ جب ایک خلیفہ کی پکار پر تمام مسلم دنیا سے مجاہد جہاد کےلیے اکٹھے ہوں گے تو ہمیں بھلا کون للکارے گا پھر؟
آج کی جدید دنیا میں تمام تر علاقائی تقسیم قومیت کے نام سے ہے۔ ہر ملک نے قومیت کی تعریف اپنے حساب سے کر رکھی ہے۔ لیکن اس کے مقابلے میں اسلام نے قومیت کی نہایت سادہ اور واضح تعریف کی ہے۔ کوئی بھی شخص جو کہ کلمہ گو ہو وہ مسلمان ہے۔ خواہ اس کا تعلق کسی بھی علاقے سے ہو۔ اس کا تعلق پنجاب سے ہو یا بنگال سے، ترکی سے ہو یا عرب دنیا سے، وہ مسلمان ہے۔ اور جسد واحد کی حیثیت رکھتا ہے۔ اسلام میں قومیت کی تعریف رنگ، نسل، قوم، قبیلہ اور حتیٰ کہ جغرافیہ کے معاملات سے بھی ما ورا ہے۔ امت مسلمہ میں شامل ہونے کےلیے محض کلمہ گو ہونا لازم ہے۔ اس لیے رنگ و نسل کے نام پر بٹوارا اسلام کے اصولوں کے منافی ہے۔
دین اسلام کی سب سے بڑی مضبوطی اس کے نظام خلافت اور عدل اجتماعی میں موجود ہے۔ خلافت کے ادارے کو 21 ویں صدی میں جمہوری اصولوں سے روشناس کروا کر پھر سے نافذالعمل کرسکتے ہیں۔ میں نے جو طریقے اور اصول بتائے ہیں وہ انتہائی سادہ اور قابل عمل ہیں۔ بلکہ میں نے مشورہ دیا ہے یہ اصول تو پہلے سے ہی دنیا میں موجود ہیں۔ ان سب مقاصد کے حصول کےلیے اگر کسی چیز کی کمی ہے تو وہ ہے ہماری جدوجہد کی۔ اگر ہم مل کر تحریک چلائیں، لوگوں کو یہ باور کروائیں کہ خلافت کس قدر لازم ہے تو ہم اس میں کامیاب ہوسکتے ہیں۔ کیونکہ ہمیں ریاست کی چھت تلے امان ملتی ہے۔
کتنا سادہ سا طریقہ ہے کہ پہلے تمام ممالک اپنا نمائندہ اور سربراہ منتخب کریں اور اس کے بعد تمام نمائندے مل کر ایک خلیفہ کو چنیں۔ ان سب سے ہماری جدید اور مضبوط خلافت قائم ہوسکتی ہے۔ جس کا اپنا ایک دارالخلافہ ہو، جو کہ پوری مسلم امہ کی نمائندگی کرے۔ چاہے معجزے سے ہی سہی لیکن سوچیے کہ اگر اللہ کے کرم سے یہ ہوجائے تو ہم کتنے طاقتور ہوسکتے ہیں۔ جب 2 ارب کے لگ بھگ لوگ اکٹھے ہوکر کشمیر، فلسطین اور قبرص کےلیے آوازیں اٹھائیں گے تو کون ہوگا جو ہمیں روکے گا؟
ہمیں اس نظام کی تکمیل کےلیے سب سے پہلے صرف یہ ماننا ہوگا کہ خلافت اب بھی زندہ کی جاسکتی ہے۔ ہمیں اپنی سوچ کو ایک اکائی کے پرچم تلے اکٹھا کرنا ہوگا۔ ایک پرچم، ایک آئین، ایک خلیفہ، ایک مذہب اور ایک فوج سے ہم ایک بار پھر سے چرخ نیلی فام کو چھولیں گے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
خلافت کا ادارہ مسلمانوں کے بیچ ایک بہت بڑی امید کا نام تھا کہ جو بھی ہے خلیفہ کے ذریعے سے مسلمانوں کی اجتماعی ترجمانی ہورہی ہے۔ خلیفہ کے اعلان جہاد کرتے ہی تمام جہتوں سے لشکر اکٹھا ہونا شروع ہوجاتے تھے۔ محمد بن قاسم کو ہی دیکھ لیجئے، جب وہ دمشق سے نکلا تو ایک چھوٹی سی فوج کی کمان کررہا تھا مگر سندھ پہنچنے تک وہ ایک خاصے بڑے لشکر کا سالار تھا۔
21 ویں صدی میں خلافت بظاہر ناممکن دکھائی دیتی ہے۔ کیونکہ کہا جاتا ہے کہ جدید دنیا میں خلافت جیسے نظام کی کوئی جگہ نہیں، یا یہ بھی کہ خلافت ایک ناپید ادارے کا نام ہے۔ لیکن یاد رکھیے کہ اگر مسلم فتوحات میں خلافت کا ادارہ قائم نہ ہوتا تو کبھی بھی اس وقت کی طاقتیں ڈھیر نہ ہوپاتیں۔ سوال یہ اٹھتا ہے کہ ایک وقت میں 57 ممالک کو کیسے ایک لڑی میں پرویا جاسکتا ہے؟ اس کا جواب نہایہت ہی آسان ہے۔
حال ہی میں دیکھ لیجئے۔ اس وقت کی سپر پاور امریکا بھی 50 ریاستوں کے اکٹھ کا نام ہے۔ امریکا کی تمام ریاستیں اپنا الگ آئین رکھتی ہیں۔ سب سے حیران کن بات یہ ہے کہ تمام ریاستوں کا اپنا ایک پرچم بھی ہے۔ لیکن جب یہ 50 ریاستیں ایک وحدت سے جڑتی ہیں تو دنیا کی ایک عظیم طاقت یعنی کہ سپر پاور امریکا کا ملک وجود میں آتا ہے۔
اس سلسلے میں دوسری سب سے بڑی مثال برطانیہ کی ہے۔ اپنی تمام تر سلطنت اور راج پاٹ کو کھونے کے باوجود، ابھی تک برطانیہ چار اکائیوں پر مشتمل ہے، جس میں سرزمین انگلستان، ویلز اور شمالی آئرلینڈ شامل ہیں۔ یہ تمام ریاستیں آزاد ہیں اور اپنے اپنے دساتیر رکھتی ہیں۔ لیکن گریٹ برٹن کا نعرہ ان کو ایک جسم ایک روح بنا دیتا ہے۔ ان دو طاقتوں کے علاوہ یورپی یونین بھی اہم مثال ہے۔ ماضی میں دیکھا جائے تو 20 ویں صدی کے زیادہ تر دورانیے پر حکومت کرنے والا سوویت یونین بھی کسی ایک ریاست کا نام نہ تھا۔ جیسا کہ نام سے ہی ظاہر ہے وہ ایک یونین تھی جو کہ وسطی ایشیائی ریاستوں، یورپی ریاستوں اور موجودہ روس پر مشتمل تھی۔ اور اس اتحاد کی بدولت روس آج بھی ایک عالمی طاقت کی حیثیت رکھتا ہے۔ یاد رہے کہ موجودہ روس بھی ایک فیڈریشن کا نام ہے جو کہ مختلف چھوٹی چھوٹی ریاستوں پر مشتمل ہے۔ اس کے علاوہ چین کا کمیون سسٹم اور ریاستی مالیاتی آزادیاں ان کو ایک سپر پاور بنانے کےلیے کوشاں ہیں۔ غرض جدھر بھی دیکھیں اتحاد اور مضبوط یکجہتی کی بنا پر ہی بڑے بڑے ممالک کھڑے ہیں۔
اگر نئی دنیا، یعنی کہ امریکا کی ریاستیں مل کر ایک ہوسکتی ہیں تو ہم کیوں نہیں؟ اگر یورپ شدید لسانی و جغرافیائی تنازعات کے باوجود اکٹھا ہوسکتا ہے تو ہمیں کیا ہے؟ ایسا کیوں ممکن نہیں کہ ہم تمام اسلامی ممالک مل کر ایک وحدت قائم کرلیں۔ ہمیں بار بار احادیث اور قرآنی آیات میں متحد رہنے کی تلقین کی گئی ہے۔ لیکن کیا بیرونی دباؤ ہمارے جذبہ ایمانی پر غالب آگیا ہے؟ بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ ہم خود ہی اکٹھے نہیں ہونا چاہتے۔
کیا ایسا ممکن نہیں کہ تمام ممالک مل کر ایک خلافت کا اعلان کردیں؟ 57 مملک مل کر اپنا ایک پرچم، ایک آئین، ایک خلیفہ بنا لیں۔ جس طرح سے امریکا میں تمام 50 ریاستوں کو آئینی آزادیاں ہیں، اسی طرح سب آزادیاں آج کے اسلامی ممالک کو حاصل ہوں۔ جبکہ امور خارجہ اور دفاعی معاملات خلافت کے زیر ہوں۔ تمام ممالک مل کر پہلے اپنے علاقائی سربراہ کا انتخاب کریں اور اس کے بعد وہ شخص براہ راست خلیفہ کا دست و بازو بنے۔ تمام ممالک کے اشتراک سے ایک اسمبلی قائم کی جائے، جس میں ہر ملک کو برابری کی ترجمانی دی جائے۔ اس طرح سے اسلامی ممالک مل کر اب بھی 21 ویں صدی میں بھی خلافت کو نافذ کرسکتے ہیں، جس سے 1.9 ارب لوگوں کی ترجمانی ہوسکے۔ ان کی متحدہ فوج، متحدہ معیشت اور متحدہ آئین ہو۔ ایک معینہ مدت کےلیے خلیفہ کا انتخاب کیا جائے اور جمہوری طریقہ کاروں سے ایک مکمل آزاد فیڈریشن قائم کی جائے۔ ہر ایک ملک اور علاقے کے حصے کو حق حاصل ہو کہ وہ بلا روک ٹوک خلیفہ بننے کےلیے حصہ لے سکے۔ ہر خطے کی نمائندگی ہو اور ایک انتہائی مضبوط اور طاقتور ریاست وجود میں آئے۔ اس کا نام ہم کچھ بھی رکھ سکتے ہیں، خلافت، اسلامک فیڈریشن یا کچھ بھی۔ اس اتحاد کے ذریعے سے تمام ممالک کو علاقائی طور پر ثقافتی آزادیاں ہوں اور داخلی طور پر ہر ریاست آزاد ہو۔
اندازہ لگائیے کہ اگر ایسا ہوجاتا ہے تو کیا ہی شان ہوگی مسلم قوم کی۔ تیل کی دولت، وسیع معیشت، ایٹمی اثاثے اور لاکھوں بلکہ کروڑوں پر مشتمل فوج ہوگی۔ غرض ہر لحاظ سے ہم ایک طاقت بن جائیں گے۔ جب ایک خلیفہ کی پکار پر تمام مسلم دنیا سے مجاہد جہاد کےلیے اکٹھے ہوں گے تو ہمیں بھلا کون للکارے گا پھر؟
آج کی جدید دنیا میں تمام تر علاقائی تقسیم قومیت کے نام سے ہے۔ ہر ملک نے قومیت کی تعریف اپنے حساب سے کر رکھی ہے۔ لیکن اس کے مقابلے میں اسلام نے قومیت کی نہایت سادہ اور واضح تعریف کی ہے۔ کوئی بھی شخص جو کہ کلمہ گو ہو وہ مسلمان ہے۔ خواہ اس کا تعلق کسی بھی علاقے سے ہو۔ اس کا تعلق پنجاب سے ہو یا بنگال سے، ترکی سے ہو یا عرب دنیا سے، وہ مسلمان ہے۔ اور جسد واحد کی حیثیت رکھتا ہے۔ اسلام میں قومیت کی تعریف رنگ، نسل، قوم، قبیلہ اور حتیٰ کہ جغرافیہ کے معاملات سے بھی ما ورا ہے۔ امت مسلمہ میں شامل ہونے کےلیے محض کلمہ گو ہونا لازم ہے۔ اس لیے رنگ و نسل کے نام پر بٹوارا اسلام کے اصولوں کے منافی ہے۔
دین اسلام کی سب سے بڑی مضبوطی اس کے نظام خلافت اور عدل اجتماعی میں موجود ہے۔ خلافت کے ادارے کو 21 ویں صدی میں جمہوری اصولوں سے روشناس کروا کر پھر سے نافذالعمل کرسکتے ہیں۔ میں نے جو طریقے اور اصول بتائے ہیں وہ انتہائی سادہ اور قابل عمل ہیں۔ بلکہ میں نے مشورہ دیا ہے یہ اصول تو پہلے سے ہی دنیا میں موجود ہیں۔ ان سب مقاصد کے حصول کےلیے اگر کسی چیز کی کمی ہے تو وہ ہے ہماری جدوجہد کی۔ اگر ہم مل کر تحریک چلائیں، لوگوں کو یہ باور کروائیں کہ خلافت کس قدر لازم ہے تو ہم اس میں کامیاب ہوسکتے ہیں۔ کیونکہ ہمیں ریاست کی چھت تلے امان ملتی ہے۔
کتنا سادہ سا طریقہ ہے کہ پہلے تمام ممالک اپنا نمائندہ اور سربراہ منتخب کریں اور اس کے بعد تمام نمائندے مل کر ایک خلیفہ کو چنیں۔ ان سب سے ہماری جدید اور مضبوط خلافت قائم ہوسکتی ہے۔ جس کا اپنا ایک دارالخلافہ ہو، جو کہ پوری مسلم امہ کی نمائندگی کرے۔ چاہے معجزے سے ہی سہی لیکن سوچیے کہ اگر اللہ کے کرم سے یہ ہوجائے تو ہم کتنے طاقتور ہوسکتے ہیں۔ جب 2 ارب کے لگ بھگ لوگ اکٹھے ہوکر کشمیر، فلسطین اور قبرص کےلیے آوازیں اٹھائیں گے تو کون ہوگا جو ہمیں روکے گا؟
ہمیں اس نظام کی تکمیل کےلیے سب سے پہلے صرف یہ ماننا ہوگا کہ خلافت اب بھی زندہ کی جاسکتی ہے۔ ہمیں اپنی سوچ کو ایک اکائی کے پرچم تلے اکٹھا کرنا ہوگا۔ ایک پرچم، ایک آئین، ایک خلیفہ، ایک مذہب اور ایک فوج سے ہم ایک بار پھر سے چرخ نیلی فام کو چھولیں گے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔