ایلیٹ سیاست کا آواگان
پی ٹی آئی حکومت ملک میں جو اصلاحات کرنا اور تبدیلیاں لانا چاہ رہی تھی وہ ماضی کے دھندلکوں میں گم ہو جائیں گے۔
عوام کے جلسے، جلوس، ریلیاں، دھرنے، ہڑتالیں وغیرہ سب ناکام ہو جاتے ہیں تو ہماری جمہوریت میں ایک طریقہ رہ جاتا ہے کہ اپوزیشن قومی اسمبلی کا اجلاس بلائے چونکہ 22 کروڑ عوام کے مقابلے میں ڈیڑھ دو سو ارکان کو ''کنونس'' کرنا بہت آسان ہوتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ ہماری پی ڈی ایم یعنی جمہوری اتحاد نے اسمبلی کا اجلاس بلانے کے لیے ریکوزیشن جمع کرا دی ہے جس پر 125 معزز اراکین اسمبلی کے دستخط ہیں۔ یعنی اگر اس مسئلے پر رائے شماری کی جمہوری نوبت آتی ہے تو 125 قابل احترام ارکان اسمبلی حق ادا کرنے کے لیے تیار ہیں یوں 22 کروڑ عوام پر اعتبار نہ کرتے ہوئے ڈیڑھ دو سو ارکان پر اعتبار کرنا جمہوریت کے عین مطابق بھی ہے اور جمہوریت کی بالادستی کی دلیل بھی ہے۔
ہماری ایلیٹ جمہوریت میں جمہوریت کے سرپرستوں نے ایلیٹ کے لیے اتنے متبادل رکھے ہیں کہ پارلیمانی ایلیٹ بھی کسی ناکامی کا سوچ بھی نہیں سکتی۔ ریکوزیشن جمع ہو گئی ہے ویسے تو 125 ارکان اسمبلی کے دستخطوں سے اندازہ ہو سکتا ہے کہ اپوزیشن نے آدھا میدان مار لیا ہے اب جو وقت اجلاس بلانے تک پی ڈی ایم کے پاس ہے باقی ارکان اسمبلی کو ''کنونس'' کرنے کے لیے کافی ہے اگر کوئی آسمانی سلطانی نہ ہو تو ''جمہوری اتحاد'' کامیاب ہو گیا سمجھ لیجیے۔
بے چاری عمرانی جمہوریت اپنی طبقاتی حیثیت کو بھلا کر راج دھانی میں فروکش ہونے کی جو کوشش کر رہی تھی اس نظام میں اس کا جو حشر ہونا تھا وہ ہوتا نظر آ رہا ہے اور ایلیٹ کے محلوں میں ابھی سے گھی کے چراغ جلتے نظر آ رہے ہیں لیکن بات یہیں پر ختم نہیں ہوتی بلکہ ابھی جیسے بھی ہوں انتخابات کا مرحلہ بہرحال باقی ہے۔
ہمار ے عوام جس طرح بے وقوف بنتے آ رہے ہیں، لیکن بے وقوف بننے کی بھی ایک حد ہوتی ہے۔ سرمایہ دارانہ انتخابات میں چونکہ عوام کی تعداد لاکھوں کروڑوں میں ہوتی ہے لہٰذا امیدواروں کا عوام کی اتنی بڑی تعداد سے ملنا اور انھیں کنونس کرنا ممکن نہیں ہوتا۔
ماضی کے دس سال میں عوام کو جس طرح لوٹ کر اربوں روپے اکٹھے کر لیے گئے ہیں اگر ان میں سے 15 فیصد بھی خرچ کر دیے گئے تو بہت کچھ اچھا ہو جاتا۔ ہماری جمہوریت کے ماہرین نے عوام کو زحمت سے بچانے کے لیے جو ''نیابتی جمہوریت'' کا طریقہ ایجاد کیا ہے اسی طرح انتخابات میں کامیابی کے لیے بھی ایک اور نیا نیابتی طریقہ ایجاد کر لیا ہے، کیونکہ ہمارے عوام سے ملنا اور انھیں کنونس کرنا آسان نہیں لہٰذا زبان، قومیت، شہریت کے حوالے سے بھی بے شمار حمایتی ڈھونڈ لیے ہیں ایلیٹ ان حمایتی افراد سے مل کر ووٹوں کا انتظام کر لیتی ہے۔
اپوزیشن پرانے تجربہ کاروں کا ایک کاررواں ہے اس میں ایسے ایسے لوگ ہیں جو ہر مرض کی دوا جانتے ہیں۔ اب مسئلہ قومی اسمبلی کا سیشن بلانے کا ہے۔ جلسے جلوسوں دھرنوں سے اگر بات نہیں بنتی تو اسمبلی کا اجلاس بلائیں اس میں عوام کی وہ بھیڑ نہیں ہوتی جو جلسوں جلوسوں دھرنوں میں دیکھی جاتی ہے۔
اپوزیشن اگر ہر ممبر کو ''کنونس'' کرنے کے لیے دو دو تین تین ارکان کی ڈیوٹی لگا دے اور زاد راہ کا بندوبست کر دے تو انشاء اللہ چند دنوں میں سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔دوبارہ انتخاب ہوں گے اور اپوزیشن بھاری اکثریت سے جیت جائے گی اور لوٹ مار کا وہ سلسلہ شروع ہو جائے گا جو ہماری جمہوریت کا ایک لازمی حصہ ہے۔
اصل مسئلہ ہے عوام کی طاقت کا۔ اگر عوام ماضی کے تجربات سے سبق حاصل کر کے پرانوں کی جگہ نئے اور تازہ دم ایماندار لوگوں کو سامنے لاتی ہے تو یقینا ایک نیا دور شروع ہو سکتا ہے ورنہ ریڑھی والوں ٹھیلے والوں رکشہ والوں کے اکاؤنٹس سے لاکھوں کروڑوں روپے برآمد ہونے لگیں گے اور بیرونی ممالک میں بھاری رقوم کا تبادلہ شروع ہو جائے گا۔
لوٹ مار کے ملزموں کے خلاف برسوں کیسز چلتے رہیں گے اور ماضی کی طرح یہ کارروائیاں نسلوں تک چلتی رہیں گی قانون اور انصاف اپنی طے شدہ راہوں پر چلتا رہے گا اور ایلیٹ کے گلشن کا کاروبار بھی دھڑلے سے چلتا رہے گا۔ شہزادے اور شہزادیاں جنھیں چند روز جیلوں میں رہنا پڑا ہیرو اور ہیروئنیں بن کر عوام کے ہجوموں کو دیکھ کر ایک ادا سے ہاتھ ہلاتے رہیں گے۔ یہ وہ سیاست ہے جو برسوں سے جاری و ساری ہے۔
پچھلے کچھ دنوں سے بعض اہم قومی ادارے ففٹی ففٹی کے حساب سے چل رہے تھے وہ اب ماشا اللہ نواز شریف کی پوزیشن کو مضبوط ہوتا دیکھ کر اپنا وزن اور وژن ایک مضبوط سمت کی طرف کر دیں گے۔ پی ٹی آئی حکومت ملک میں جو اصلاحات کرنا اور تبدیلیاں لانا چاہ رہی تھی وہ ماضی کے دھندلکوں میں گم ہو جائیں گے پھر ایلیٹ ہو گی اور سادہ لوح عوام ہوں گے۔
لوٹ مار کے اربوں روپوں کے استعمال سے عوامی ضرورت کی چیزیں سستی کر دی جائیں گی اور جے جے کار کے نعروں سے فضا گونجنے لگے گی۔ کیا اس سیٹ اپ کی مضبوطی کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ تمام اداروں میں بھی ایماندار لوگ آ جائیں گے اور حکومت چٹان کی طرح مضبوط ہو جائے گی۔
یہی وجہ ہے کہ ہماری پی ڈی ایم یعنی جمہوری اتحاد نے اسمبلی کا اجلاس بلانے کے لیے ریکوزیشن جمع کرا دی ہے جس پر 125 معزز اراکین اسمبلی کے دستخط ہیں۔ یعنی اگر اس مسئلے پر رائے شماری کی جمہوری نوبت آتی ہے تو 125 قابل احترام ارکان اسمبلی حق ادا کرنے کے لیے تیار ہیں یوں 22 کروڑ عوام پر اعتبار نہ کرتے ہوئے ڈیڑھ دو سو ارکان پر اعتبار کرنا جمہوریت کے عین مطابق بھی ہے اور جمہوریت کی بالادستی کی دلیل بھی ہے۔
ہماری ایلیٹ جمہوریت میں جمہوریت کے سرپرستوں نے ایلیٹ کے لیے اتنے متبادل رکھے ہیں کہ پارلیمانی ایلیٹ بھی کسی ناکامی کا سوچ بھی نہیں سکتی۔ ریکوزیشن جمع ہو گئی ہے ویسے تو 125 ارکان اسمبلی کے دستخطوں سے اندازہ ہو سکتا ہے کہ اپوزیشن نے آدھا میدان مار لیا ہے اب جو وقت اجلاس بلانے تک پی ڈی ایم کے پاس ہے باقی ارکان اسمبلی کو ''کنونس'' کرنے کے لیے کافی ہے اگر کوئی آسمانی سلطانی نہ ہو تو ''جمہوری اتحاد'' کامیاب ہو گیا سمجھ لیجیے۔
بے چاری عمرانی جمہوریت اپنی طبقاتی حیثیت کو بھلا کر راج دھانی میں فروکش ہونے کی جو کوشش کر رہی تھی اس نظام میں اس کا جو حشر ہونا تھا وہ ہوتا نظر آ رہا ہے اور ایلیٹ کے محلوں میں ابھی سے گھی کے چراغ جلتے نظر آ رہے ہیں لیکن بات یہیں پر ختم نہیں ہوتی بلکہ ابھی جیسے بھی ہوں انتخابات کا مرحلہ بہرحال باقی ہے۔
ہمار ے عوام جس طرح بے وقوف بنتے آ رہے ہیں، لیکن بے وقوف بننے کی بھی ایک حد ہوتی ہے۔ سرمایہ دارانہ انتخابات میں چونکہ عوام کی تعداد لاکھوں کروڑوں میں ہوتی ہے لہٰذا امیدواروں کا عوام کی اتنی بڑی تعداد سے ملنا اور انھیں کنونس کرنا ممکن نہیں ہوتا۔
ماضی کے دس سال میں عوام کو جس طرح لوٹ کر اربوں روپے اکٹھے کر لیے گئے ہیں اگر ان میں سے 15 فیصد بھی خرچ کر دیے گئے تو بہت کچھ اچھا ہو جاتا۔ ہماری جمہوریت کے ماہرین نے عوام کو زحمت سے بچانے کے لیے جو ''نیابتی جمہوریت'' کا طریقہ ایجاد کیا ہے اسی طرح انتخابات میں کامیابی کے لیے بھی ایک اور نیا نیابتی طریقہ ایجاد کر لیا ہے، کیونکہ ہمارے عوام سے ملنا اور انھیں کنونس کرنا آسان نہیں لہٰذا زبان، قومیت، شہریت کے حوالے سے بھی بے شمار حمایتی ڈھونڈ لیے ہیں ایلیٹ ان حمایتی افراد سے مل کر ووٹوں کا انتظام کر لیتی ہے۔
اپوزیشن پرانے تجربہ کاروں کا ایک کاررواں ہے اس میں ایسے ایسے لوگ ہیں جو ہر مرض کی دوا جانتے ہیں۔ اب مسئلہ قومی اسمبلی کا سیشن بلانے کا ہے۔ جلسے جلوسوں دھرنوں سے اگر بات نہیں بنتی تو اسمبلی کا اجلاس بلائیں اس میں عوام کی وہ بھیڑ نہیں ہوتی جو جلسوں جلوسوں دھرنوں میں دیکھی جاتی ہے۔
اپوزیشن اگر ہر ممبر کو ''کنونس'' کرنے کے لیے دو دو تین تین ارکان کی ڈیوٹی لگا دے اور زاد راہ کا بندوبست کر دے تو انشاء اللہ چند دنوں میں سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔دوبارہ انتخاب ہوں گے اور اپوزیشن بھاری اکثریت سے جیت جائے گی اور لوٹ مار کا وہ سلسلہ شروع ہو جائے گا جو ہماری جمہوریت کا ایک لازمی حصہ ہے۔
اصل مسئلہ ہے عوام کی طاقت کا۔ اگر عوام ماضی کے تجربات سے سبق حاصل کر کے پرانوں کی جگہ نئے اور تازہ دم ایماندار لوگوں کو سامنے لاتی ہے تو یقینا ایک نیا دور شروع ہو سکتا ہے ورنہ ریڑھی والوں ٹھیلے والوں رکشہ والوں کے اکاؤنٹس سے لاکھوں کروڑوں روپے برآمد ہونے لگیں گے اور بیرونی ممالک میں بھاری رقوم کا تبادلہ شروع ہو جائے گا۔
لوٹ مار کے ملزموں کے خلاف برسوں کیسز چلتے رہیں گے اور ماضی کی طرح یہ کارروائیاں نسلوں تک چلتی رہیں گی قانون اور انصاف اپنی طے شدہ راہوں پر چلتا رہے گا اور ایلیٹ کے گلشن کا کاروبار بھی دھڑلے سے چلتا رہے گا۔ شہزادے اور شہزادیاں جنھیں چند روز جیلوں میں رہنا پڑا ہیرو اور ہیروئنیں بن کر عوام کے ہجوموں کو دیکھ کر ایک ادا سے ہاتھ ہلاتے رہیں گے۔ یہ وہ سیاست ہے جو برسوں سے جاری و ساری ہے۔
پچھلے کچھ دنوں سے بعض اہم قومی ادارے ففٹی ففٹی کے حساب سے چل رہے تھے وہ اب ماشا اللہ نواز شریف کی پوزیشن کو مضبوط ہوتا دیکھ کر اپنا وزن اور وژن ایک مضبوط سمت کی طرف کر دیں گے۔ پی ٹی آئی حکومت ملک میں جو اصلاحات کرنا اور تبدیلیاں لانا چاہ رہی تھی وہ ماضی کے دھندلکوں میں گم ہو جائیں گے پھر ایلیٹ ہو گی اور سادہ لوح عوام ہوں گے۔
لوٹ مار کے اربوں روپوں کے استعمال سے عوامی ضرورت کی چیزیں سستی کر دی جائیں گی اور جے جے کار کے نعروں سے فضا گونجنے لگے گی۔ کیا اس سیٹ اپ کی مضبوطی کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ تمام اداروں میں بھی ایماندار لوگ آ جائیں گے اور حکومت چٹان کی طرح مضبوط ہو جائے گی۔