جامعہ فاروقیہ کے منتظم مولانا عادل قاتلانہ حملے میں ڈرائیور سمیت شہید
موٹر سائیکل سواروں نے شاہ فیصل کالونی شمع چوک پر نشانہ بنایا، فوٹیج منظر عام پر آگئی، گورنر اور وزیراعلیٰ کا نوٹس
شہر قائد کے علاقے شاہ فیصل کالونی میں موٹر سائیکل سوار ملزمان کی کار پر فائرنگ سے جامعہ فاروقیہ کے مہتمم مولانا عادل ڈرائیور سمیت شہید ہوگئے۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق شاہ فیصل کالونی کے علاقے شمع شاپنگ سینٹر کے قریب موٹر سائیکل سوار دہشت گردوں نے سلور رنگ کی ڈبل کیبن گاڑی پر اندھا دھند فائرنگ کر دی نتیجے میں ڈرائیور مقصود اور کار کی عقبی سیٹ پر بیٹھے ہوئے معروف عالم دین شیخ الحدیث مولانا ڈاکٹر عادل خان شدید زخمی ہوگئے جنھیں فوری طور پر قریبی اسپتال لے جایا گیا بعدازاں انھیں لیاقت نیشنل اسپتال منقتل کر دیا گیا جہاں وہ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے جاں بحق ہوگئے۔
مولانا ڈاکٹر عادل خان شاہ فیصل کالونی میں واقع جامعہ فاروقیہ کے مہتمم اور وفاق المدرس العربیہ پاکستان کے مرکزی عہدے دار بھی تھے۔ وہ شیخ الحدیث مولانا سلیم اللہ خان کے صاحبزادے، کراچی علما کمیٹی کے سربراہ اور دارالعلوم کراچی کے استاد بھی تھے۔
اطلاع ملتے ہی علما کرام سمیت دیگر افراد کی بڑی تعداد اسپتال پہنچ گئی اور دہشت گردوں کو نشان عبرت بنانے کا مطالبہ کیا۔ مولانا عادل خان کی میت ضابطے کی کارروائی کے لیے لیاقت نیشنل اسپتال سے جناح اسپتال لائی گئی جس کے بعد ان کا جسد خاکی ان کی رہائش گاہ اور جامعہ فاروقیہ فیز ٹو حب چوکی روانہ کردیا گیا۔
ابتدائی اطلاعات کے مطابق دہشت گردی کے واقعے میں نائن ایم ایم پستول استعمال کیا گیا جبکہ واقعہ کی سی سی فوٹیج بھی منظر عام پر آگئی جس میں دیکھا جا سکتا ہے کہ مولانا عادل خان کی گاڑی سڑک کے کنارے کھڑی تھی اس دوران شلوار قمیص پہنے ہوئے ایک دہشت گرد پیدل آیا اور ڈرائیونگ سیٹ کی جانب سے پہلے ڈرائیور مقصود اور بعد میں پچھلی سیٹ پر مولانا ڈاکٹر عادل خان کو نشانہ بنایا۔
اس دوران اس کا ایک ساتھی جوکہ پینٹ شرٹ اور جوگر پہنا ہوا تھا اور اس نے ماسک بھی لگایا ہوا تھا۔ اس نے گزرنے والی گاڑیوں کے سامنے آکر راستہ بنایا اور اس دوران دونوں دہشت گرد دوسری جانب سڑک پر ہیلمٹ پہنے موٹر سائیکل پر سوار اپنے تیسرے ساتھی کے ہمراہ بیٹھ کر فرار ہوگئے۔
ڈی آئی جی ایسٹ نعمان صدیقی کا کہنا تھا کہ جس راستے سے دہشت گرد فرار ہوئے ہیں وہاں پر لگے ہوئے کلوز سرکٹ کیمروں کو تلاش کیا جا رہا ہے تاکہ ان کی فوٹیجز کی مدد سے دہشت گردوں کے بارے میں مزید معلومات حاصل ہوسکے جبکہ پولیس موقع پر موجود افراد سے بھی معلومات حاصل کررہی ہے۔
نماز جنازہ بعد ظہر حب ریور روڈ پر ہوگی
مرحوم کی نمازجنازہ اتوار کو بعد نماز ظہر جامعہ فاروقیہ فیز ٹو حب ریور روڈ پر ادا کی جائے گی۔ ترجمان وفاق المدارس کے مطابق ان کی تدفین جامعہ فاروقیہ فیز ٹو حب ریور روڈ میں ان کے والد کے پہلو میں کی جائے گی۔
گورنر اور وزیراعلیٰ کا نوٹس، قاتلوں کی فوری گرفتاری کی ہدایت
گورنر سندھ عمران اسماعیل اور وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے قاتلوں کو فوری گرفتار کرنے کی ہدایت کردی۔ گورنر نے کمشنر کراچی اور ایڈیشنل آئی جی سے واقعہ کی رپورٹ طلب کی اور کہا کہ یہ نہایت افسوس ناک واقعہ ہے، پولیس واقعہ میں ملوث مجرموں کی گرفتاری کے لیے فوری اقدامات کرے۔
اسی طرح وزیراعلیٰ نے کہا کہ کچھ شرپسند عناصر شہر کا امن خراب کرنا چاہتے ہیں، ہم قاتلوں کو کیفر کردار تک پہنچائیں گے۔ انہوں نے مولانا عادل کے اہل خانہ اور ساتھیوں سے یکجہتی کا اظہار کیا اور پولیس کو ٹیکنالوجی کی مدد سے قاتلوں تک فوری رسائی کی ہدایت کی۔
وزیراعلیٰ کو ابتدائی رپورٹ پیش
آئی جی سندھ مشتاق مہر نے وزیراعلیٰ سندھ کو واقعے کی ابتدائی رپورٹ پیش کردی جس کے مطابق شمع شاپنگ سینٹر پی ایس شاہ فیصل کورنگی کے پاس مولانا عادل اپنی ویگو کے ساتھ رُکے، اُن کا ایک ساتھی کچھ خریدنے گیا، اس دوران 2 موٹر سائیکل سواروں نے مولانا پر فائرنگ کی جس میں 5 گولیاں چلائی گئیں، مولانا کے ساتھی عمیر کو کوئی نقصان نہیں پہنچا۔
جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق نے واقعے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ یہ حملہ ایک سازش ہے جس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے، علم کی شمع کو بجھا دیا گیا، ملک ایک عظیم علمی شخصیت سے محروم ہوگیا۔
واقعے پر جمعیت علماء اسلام نے بھی اظہار مذمت کیا ہے۔ جے یو آئی کے رہنماء قاری محمد عثمان نے اپنے بیان میں کہا کہ مولانا عادل خان پر حملہ فرقہ واریت کی آگ بھڑکانے کی گہری سازش ہے، مولانا کی شہادت کی ذمہ دار حکومت اور سیکیورٹی ادارے ہیں، علماء کو نہتاء کرکے سیکیورٹی واپس لینے کے عمل سے حکومت اور انتظامیہ حملہ آوروں کی معاون و مددگار ثابت ہوتی ہے۔
مولانا عادل کی زندگی پر ایک نظر
مولانا ڈاکٹر عادل خان کی عمر 60 برس تھی وہ اپنے والد معروف عالم دین مولانا سلیم اللہ خان کی وفات کے بعد جامعہ فاروقیہ کراچی کے مہتمم مقررہوئے۔ 2017 ء میں والد مولانا سلیم اللہ خان رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ کے انتقال کے بعد پاکستان واپس آئے دینی درسگاہ جامعہ فاروقیہ کی دونوں شاخوں کا نظم و نسق سنبھالا اور شیخ الحدیث کے عہدے پر فائز ہوئے۔
بعدازاں جامعہ فاروقیہ شاہ فیصل اپنے بھائی مولانا عبیداللہ خالد کے حوالے کرکے اپنی تمام تر توجہ جامعہ فاروقیہ حب چوکی پر مرکوز کی جس کو وہ ایک جدید خالص عربی پر مبنی تعلیمی ادارہ اور یونیورسٹی بنانا چاہتے تھے، آپ جامعہ فاروقیہ شاہ فیصل کے سرپرست اور جامعہ فاروقیہ حب چوکی کے مہتمم تھے۔
مولانا عادل علما ایکشن کمیٹی کراچی اور اتحاد تنظیمات مدارس دینیہ پاکستان کے فعال رہنما تھے۔ وہ ملائیشیا کی اسلامی یونیورسٹی میں استاد بھی رہے۔ کراچی سمیت ملک بھر میں حالیہ عظمت صحابہؓ ریلیوں کے روح رواں تھے اور گزشتہ ہفتہ ہی تاریخ پاکستان سے متعلق ان کی ایک کتاب منظر عام پہ آئی تھی۔
انہوں نے 1973ء دینی درسگاہ جامعہ فاروقیہ سے سند فراغت حاصل کی ، کراچی یونیورسٹی سے 1976ء بی اے ہیومن سائنس ، 1978ء میں ایم اے عربک اور 1992ء میں اسلامک کلچر میں پی ایچ ڈی کی۔ 1980ء میں چھپنے والے رسالے (اردو انگلشن اور عربی ) الفاروق کے تاحال ایڈیٹر رہے۔
تحریک سواد اعظم میں اپنے والد مولانا سلیم اللہ خان کے شانہ بشانہ رہے، 1986ء سے 2010ء تک جامعہ فاروقیہ کراچی کے سیکریٹری جنرل رہے اور اسی دوران آپ نے اپنے والد سے مل کر جامعہ کے بہت سے تعلیمی و تعمیری منصوبوں کی تکمیل کی پھر کچھ عرصہ امریکا میں مقیم رہے اور جہاں ایک بڑا اسلامی سینٹر قائم کیا م
ملائشیا کوالا لمپور کی مشہور یونیورسٹی میں 2010ء سے 2018ء تک کلیۃ معارف الوحی اور انسانی علوم میں بطور پروفیسر خدمات انجام دی۔ 2018 ء ریسرچ و تصنیف و تحقیق میں ملائشیا ہائیر ایجوکیشن کی جانب سے فائیو اسٹار رینکنگ ایوارڈ سے نوازا گیا۔ یہ انعام آپ کو ملائشیا کے صدر کے ہاتھوں دیا گیا۔
آپ وفاق المدارس العربیہ کے مرکزی کمیٹی کے سینئر رکن اور وفاق المدارس کی مالیات نصابی اور دستوری کمیٹی جیسی بہت سی اہم کمیٹیوں کے چیئرمین بھی رہے۔ مولانا ڈاکٹر عادل خان کو اردو، انگلش اور عربی سمیت کئی زبانوں پر عبور حاصل تھا۔
وہ بہترین معلم، خطیب اور ادیب ہونے کے ساتھ ساتھ علوم القرآن، علوم الحدیث، تعارف اسلام، اسلامی دنیا، اسلامی معاشیات، اخلاقیات فقہی مسائل آیات احکام القرآن اور احکام فی الاحادیث، مقاصد شریعہ، تاریخ اسلام، خاص کر تاریخ پاکستان اور اردو اور عربی ادب جیسے موضوعات پر دلچسپی رکھتے تھے۔
انہوں ںے پسماندگان میں مولانا مفتی انس عادل، مولانا عمیر، مولانا زبیر، مولانا حسن ، ایک بیٹی، ایک بیوہ، دو بھائی مولانا عبیداللہ خالد اور عبدالرحمن سوگوار چھوڑا، دوبیٹے مولانا زبیر اور مولانا حسن اور ایک بیٹی ملائشیا میں مقیم ہیں۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق شاہ فیصل کالونی کے علاقے شمع شاپنگ سینٹر کے قریب موٹر سائیکل سوار دہشت گردوں نے سلور رنگ کی ڈبل کیبن گاڑی پر اندھا دھند فائرنگ کر دی نتیجے میں ڈرائیور مقصود اور کار کی عقبی سیٹ پر بیٹھے ہوئے معروف عالم دین شیخ الحدیث مولانا ڈاکٹر عادل خان شدید زخمی ہوگئے جنھیں فوری طور پر قریبی اسپتال لے جایا گیا بعدازاں انھیں لیاقت نیشنل اسپتال منقتل کر دیا گیا جہاں وہ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے جاں بحق ہوگئے۔
مولانا ڈاکٹر عادل خان شاہ فیصل کالونی میں واقع جامعہ فاروقیہ کے مہتمم اور وفاق المدرس العربیہ پاکستان کے مرکزی عہدے دار بھی تھے۔ وہ شیخ الحدیث مولانا سلیم اللہ خان کے صاحبزادے، کراچی علما کمیٹی کے سربراہ اور دارالعلوم کراچی کے استاد بھی تھے۔
اطلاع ملتے ہی علما کرام سمیت دیگر افراد کی بڑی تعداد اسپتال پہنچ گئی اور دہشت گردوں کو نشان عبرت بنانے کا مطالبہ کیا۔ مولانا عادل خان کی میت ضابطے کی کارروائی کے لیے لیاقت نیشنل اسپتال سے جناح اسپتال لائی گئی جس کے بعد ان کا جسد خاکی ان کی رہائش گاہ اور جامعہ فاروقیہ فیز ٹو حب چوکی روانہ کردیا گیا۔
ابتدائی اطلاعات کے مطابق دہشت گردی کے واقعے میں نائن ایم ایم پستول استعمال کیا گیا جبکہ واقعہ کی سی سی فوٹیج بھی منظر عام پر آگئی جس میں دیکھا جا سکتا ہے کہ مولانا عادل خان کی گاڑی سڑک کے کنارے کھڑی تھی اس دوران شلوار قمیص پہنے ہوئے ایک دہشت گرد پیدل آیا اور ڈرائیونگ سیٹ کی جانب سے پہلے ڈرائیور مقصود اور بعد میں پچھلی سیٹ پر مولانا ڈاکٹر عادل خان کو نشانہ بنایا۔
اس دوران اس کا ایک ساتھی جوکہ پینٹ شرٹ اور جوگر پہنا ہوا تھا اور اس نے ماسک بھی لگایا ہوا تھا۔ اس نے گزرنے والی گاڑیوں کے سامنے آکر راستہ بنایا اور اس دوران دونوں دہشت گرد دوسری جانب سڑک پر ہیلمٹ پہنے موٹر سائیکل پر سوار اپنے تیسرے ساتھی کے ہمراہ بیٹھ کر فرار ہوگئے۔
ڈی آئی جی ایسٹ نعمان صدیقی کا کہنا تھا کہ جس راستے سے دہشت گرد فرار ہوئے ہیں وہاں پر لگے ہوئے کلوز سرکٹ کیمروں کو تلاش کیا جا رہا ہے تاکہ ان کی فوٹیجز کی مدد سے دہشت گردوں کے بارے میں مزید معلومات حاصل ہوسکے جبکہ پولیس موقع پر موجود افراد سے بھی معلومات حاصل کررہی ہے۔
نماز جنازہ بعد ظہر حب ریور روڈ پر ہوگی
مرحوم کی نمازجنازہ اتوار کو بعد نماز ظہر جامعہ فاروقیہ فیز ٹو حب ریور روڈ پر ادا کی جائے گی۔ ترجمان وفاق المدارس کے مطابق ان کی تدفین جامعہ فاروقیہ فیز ٹو حب ریور روڈ میں ان کے والد کے پہلو میں کی جائے گی۔
گورنر اور وزیراعلیٰ کا نوٹس، قاتلوں کی فوری گرفتاری کی ہدایت
گورنر سندھ عمران اسماعیل اور وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے قاتلوں کو فوری گرفتار کرنے کی ہدایت کردی۔ گورنر نے کمشنر کراچی اور ایڈیشنل آئی جی سے واقعہ کی رپورٹ طلب کی اور کہا کہ یہ نہایت افسوس ناک واقعہ ہے، پولیس واقعہ میں ملوث مجرموں کی گرفتاری کے لیے فوری اقدامات کرے۔
اسی طرح وزیراعلیٰ نے کہا کہ کچھ شرپسند عناصر شہر کا امن خراب کرنا چاہتے ہیں، ہم قاتلوں کو کیفر کردار تک پہنچائیں گے۔ انہوں نے مولانا عادل کے اہل خانہ اور ساتھیوں سے یکجہتی کا اظہار کیا اور پولیس کو ٹیکنالوجی کی مدد سے قاتلوں تک فوری رسائی کی ہدایت کی۔
وزیراعلیٰ کو ابتدائی رپورٹ پیش
آئی جی سندھ مشتاق مہر نے وزیراعلیٰ سندھ کو واقعے کی ابتدائی رپورٹ پیش کردی جس کے مطابق شمع شاپنگ سینٹر پی ایس شاہ فیصل کورنگی کے پاس مولانا عادل اپنی ویگو کے ساتھ رُکے، اُن کا ایک ساتھی کچھ خریدنے گیا، اس دوران 2 موٹر سائیکل سواروں نے مولانا پر فائرنگ کی جس میں 5 گولیاں چلائی گئیں، مولانا کے ساتھی عمیر کو کوئی نقصان نہیں پہنچا۔
جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق نے واقعے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ یہ حملہ ایک سازش ہے جس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے، علم کی شمع کو بجھا دیا گیا، ملک ایک عظیم علمی شخصیت سے محروم ہوگیا۔
واقعے پر جمعیت علماء اسلام نے بھی اظہار مذمت کیا ہے۔ جے یو آئی کے رہنماء قاری محمد عثمان نے اپنے بیان میں کہا کہ مولانا عادل خان پر حملہ فرقہ واریت کی آگ بھڑکانے کی گہری سازش ہے، مولانا کی شہادت کی ذمہ دار حکومت اور سیکیورٹی ادارے ہیں، علماء کو نہتاء کرکے سیکیورٹی واپس لینے کے عمل سے حکومت اور انتظامیہ حملہ آوروں کی معاون و مددگار ثابت ہوتی ہے۔
مولانا عادل کی زندگی پر ایک نظر
مولانا ڈاکٹر عادل خان کی عمر 60 برس تھی وہ اپنے والد معروف عالم دین مولانا سلیم اللہ خان کی وفات کے بعد جامعہ فاروقیہ کراچی کے مہتمم مقررہوئے۔ 2017 ء میں والد مولانا سلیم اللہ خان رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ کے انتقال کے بعد پاکستان واپس آئے دینی درسگاہ جامعہ فاروقیہ کی دونوں شاخوں کا نظم و نسق سنبھالا اور شیخ الحدیث کے عہدے پر فائز ہوئے۔
بعدازاں جامعہ فاروقیہ شاہ فیصل اپنے بھائی مولانا عبیداللہ خالد کے حوالے کرکے اپنی تمام تر توجہ جامعہ فاروقیہ حب چوکی پر مرکوز کی جس کو وہ ایک جدید خالص عربی پر مبنی تعلیمی ادارہ اور یونیورسٹی بنانا چاہتے تھے، آپ جامعہ فاروقیہ شاہ فیصل کے سرپرست اور جامعہ فاروقیہ حب چوکی کے مہتمم تھے۔
مولانا عادل علما ایکشن کمیٹی کراچی اور اتحاد تنظیمات مدارس دینیہ پاکستان کے فعال رہنما تھے۔ وہ ملائیشیا کی اسلامی یونیورسٹی میں استاد بھی رہے۔ کراچی سمیت ملک بھر میں حالیہ عظمت صحابہؓ ریلیوں کے روح رواں تھے اور گزشتہ ہفتہ ہی تاریخ پاکستان سے متعلق ان کی ایک کتاب منظر عام پہ آئی تھی۔
انہوں نے 1973ء دینی درسگاہ جامعہ فاروقیہ سے سند فراغت حاصل کی ، کراچی یونیورسٹی سے 1976ء بی اے ہیومن سائنس ، 1978ء میں ایم اے عربک اور 1992ء میں اسلامک کلچر میں پی ایچ ڈی کی۔ 1980ء میں چھپنے والے رسالے (اردو انگلشن اور عربی ) الفاروق کے تاحال ایڈیٹر رہے۔
تحریک سواد اعظم میں اپنے والد مولانا سلیم اللہ خان کے شانہ بشانہ رہے، 1986ء سے 2010ء تک جامعہ فاروقیہ کراچی کے سیکریٹری جنرل رہے اور اسی دوران آپ نے اپنے والد سے مل کر جامعہ کے بہت سے تعلیمی و تعمیری منصوبوں کی تکمیل کی پھر کچھ عرصہ امریکا میں مقیم رہے اور جہاں ایک بڑا اسلامی سینٹر قائم کیا م
ملائشیا کوالا لمپور کی مشہور یونیورسٹی میں 2010ء سے 2018ء تک کلیۃ معارف الوحی اور انسانی علوم میں بطور پروفیسر خدمات انجام دی۔ 2018 ء ریسرچ و تصنیف و تحقیق میں ملائشیا ہائیر ایجوکیشن کی جانب سے فائیو اسٹار رینکنگ ایوارڈ سے نوازا گیا۔ یہ انعام آپ کو ملائشیا کے صدر کے ہاتھوں دیا گیا۔
آپ وفاق المدارس العربیہ کے مرکزی کمیٹی کے سینئر رکن اور وفاق المدارس کی مالیات نصابی اور دستوری کمیٹی جیسی بہت سی اہم کمیٹیوں کے چیئرمین بھی رہے۔ مولانا ڈاکٹر عادل خان کو اردو، انگلش اور عربی سمیت کئی زبانوں پر عبور حاصل تھا۔
وہ بہترین معلم، خطیب اور ادیب ہونے کے ساتھ ساتھ علوم القرآن، علوم الحدیث، تعارف اسلام، اسلامی دنیا، اسلامی معاشیات، اخلاقیات فقہی مسائل آیات احکام القرآن اور احکام فی الاحادیث، مقاصد شریعہ، تاریخ اسلام، خاص کر تاریخ پاکستان اور اردو اور عربی ادب جیسے موضوعات پر دلچسپی رکھتے تھے۔
انہوں ںے پسماندگان میں مولانا مفتی انس عادل، مولانا عمیر، مولانا زبیر، مولانا حسن ، ایک بیٹی، ایک بیوہ، دو بھائی مولانا عبیداللہ خالد اور عبدالرحمن سوگوار چھوڑا، دوبیٹے مولانا زبیر اور مولانا حسن اور ایک بیٹی ملائشیا میں مقیم ہیں۔