گلگت بھاشا ڈیم کی حدود کا تنازع شدید فریقین مورچہ زن
تصادم کا خطرہ، شاہراہ قراقرم بند، موبائل سروس معطل، معاملہ ڈیم کی رائلٹی کا ہے، ذرائع
گلگت بلتستان کے ضلع غذر اورکوہستان کے مابین سرحدی حدود کاتنازع شدت اختیار کرگیا۔
فریقین کا 8 کلومیٹر حدود پر ملکیت کادعویٰ ہے،قبضہ کیلئے دونوں طرف سے ایک دوسرے پردھاوا بولنے کی تیاری کی جارہی ہے اور مسلح افراد پہاڑیوں پر مورچہ زن ہوگئے ہیں،کے پی کے اورگلگت بلتستان پولیس کی بھاری نفری بھی طلب کر لی گئی،خطرے کے پیش نظر شاہراہ قراقرم کو ہر قسم کی ٹریفک کیلیے بند اورگلگت بلتستان میں تین روز سے موبائل سروس بھی معطل کررکھی ہے جس کے باعث عوام اور مسافروں کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔
گلگت بلتستان اور کوہستان کے مابین بھاشا ڈیم کی رائلٹی کے حوالے سے کافی عرصے سے شدیداختلافات کی باتیں سامنے آرہی تھی لیکن دو روز قبل معاملے نے اس وقت شدت اختیار کی جب کوہستان کے ہربن داس کے لوگوں نے گلگت بلتستان کی موجودہ حدود میں آٹھ کلو میٹر پر ملکیت کا دعویٰ کرتے ہوئے وہاں پولیس چیک پوسٹ کو ہٹانے کی کوشش کی اور دھمکی دی کہ اگر دو روز میں اس چوکی کو یہاں سے نہ ہٹایاگیا تو اسے زبردستی ہٹایا جائیگا،اس پر چلاس کے سرحدی گائوں تھورکے لوگ مزاحمت کیلئے تیار ہوگئے،حالات کی سنگینی کا نوٹس لیتے ہوئے صوبائی حکومتوں کی انتظامیہ اور پولیس حرکت میں آگئی اور پولیس کی بھاری نفری سرحد پر تعینات کردی گئی ۔
فریقین کا 8 کلومیٹر حدود پر ملکیت کادعویٰ ہے،قبضہ کیلئے دونوں طرف سے ایک دوسرے پردھاوا بولنے کی تیاری کی جارہی ہے اور مسلح افراد پہاڑیوں پر مورچہ زن ہوگئے ہیں،کے پی کے اورگلگت بلتستان پولیس کی بھاری نفری بھی طلب کر لی گئی،خطرے کے پیش نظر شاہراہ قراقرم کو ہر قسم کی ٹریفک کیلیے بند اورگلگت بلتستان میں تین روز سے موبائل سروس بھی معطل کررکھی ہے جس کے باعث عوام اور مسافروں کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔
گلگت بلتستان اور کوہستان کے مابین بھاشا ڈیم کی رائلٹی کے حوالے سے کافی عرصے سے شدیداختلافات کی باتیں سامنے آرہی تھی لیکن دو روز قبل معاملے نے اس وقت شدت اختیار کی جب کوہستان کے ہربن داس کے لوگوں نے گلگت بلتستان کی موجودہ حدود میں آٹھ کلو میٹر پر ملکیت کا دعویٰ کرتے ہوئے وہاں پولیس چیک پوسٹ کو ہٹانے کی کوشش کی اور دھمکی دی کہ اگر دو روز میں اس چوکی کو یہاں سے نہ ہٹایاگیا تو اسے زبردستی ہٹایا جائیگا،اس پر چلاس کے سرحدی گائوں تھورکے لوگ مزاحمت کیلئے تیار ہوگئے،حالات کی سنگینی کا نوٹس لیتے ہوئے صوبائی حکومتوں کی انتظامیہ اور پولیس حرکت میں آگئی اور پولیس کی بھاری نفری سرحد پر تعینات کردی گئی ۔