قافلے اُجالوں کے
ہم خوش گپیوں میں مصروف تھے میں نے تین شادیوں کے تجربے کے حوالے سے سوال کیا۔ بولے بڑا مشکل کام ہے۔
''قافلے اُجالوں کے'' ڈاکٹر محمود احمد کاوش کے لکھے شخصی خاکوں کا مجموعہ ہے۔ ثریا بجیا لکھتی ہیں ''ڈاکٹر کاوش کا اسلوبِ بیاں دلکش ودل نشین ہے۔ ایک پر اثر تحریر کی تمام خوبیاں اس میں موجود ہیں۔
ایک اچھا لکھنے والا اس بات کا خیال رکھتا ہے کہ اس کی تحریر ہر قاری کی سمجھ میں آسکے ۔ اسی کو مدنظر رکھتے ہوئے ڈاکٹرکاوش آسان اور سادہ الفاظ کا چناؤ کرتے ہیں۔ کفایت لفظی ان کی تحریروں کی جان ہے۔ وہ بڑی سے بڑی بات کو چھوٹے چھوٹے مگر جان دار جملوں میں بیان کرتے ہیں۔ سادگی کے ساتھ پرکاری کا عنصر بھی جا بجا نظر آتا ہے یعنی کہیں بھی تشنگی کا احساس نہیں ہوتا۔
موقع کی مناسبت سے اشعار کا استعمال ان کے اسلوب کی ایک خصوصیت ہے۔ڈاکٹر کاوش نے خاکہ نگاری کس طرح شروع کی، اس کا قصہ کچھ یوں ہے کہ انھوں نے اپنی ماں جی کا خاکہ لکھا اور اسے چند احباب کی خدمت میں بھیجا۔ سب نے تحسین و آفرین کے کلمات سے حوصلہ بڑھایا اور اصرار کیا کہ وہ شخصیت نگاری کے اس کام کو آگے بڑھائیں۔ ڈاکٹر کاوش لکھتے ہیں۔ ماں جی میری دوست بھی تھیں، ماں ہی نہیں۔ میں ان سے اپنی ہر بات کہہ سکتا تھا۔ انھوں نے صاف ستھری زندگی گزاری۔ کفایت شعاری کی بدولت گھر کے معاملات کو اچھی طرح چلاتی تھیں۔
فضول خرچی کے انتہائی خلاف تھیں۔ بخل اور کنجوسی کو بھی برا سمجھتی تھیں، جہاں ضروری ہوتا خرچ کرنے میں انھیں کوئی تامل نہیں ہوتا۔ ماں جی کو محلے بھر کی عورتوں میں مرکزی اہمیت حاصل تھی۔ سگھڑ اور سلیم الطبع تھیں۔ گتھیاں سلجھانے اور عقدے وا کرنے میں ید طولیٰ رکھتی تھیں۔ عورتیں اپنے مختلف مسائل لے کر آتیں اور ماں جی سے مشورے کی طالب ہوتیں۔ فضول کاموں سے انھیں نفرت تھی۔ دین دار تھیں۔ میں نے اپنے بچپن سے ماں جی کے صاحب فراش ہونے تک انھیں نماز میں ناغہ کرتے نہیں دیکھا۔ ماں جی موزوں طبع بھی تھیں۔
بیٹھے بیٹھے پنجابی زبان شعر موزوں کرتی رہتی تھیں۔ڈاکٹر کاوش نے اپنے والد اور اپنی شریک حیات کے خاکے بھی لکھے ہیں۔ اپنے والد کے بارے میں وہ لکھتے ہیں ''والد گرامی کاشتکار تھے۔ میں نے گاؤں میں ایک سے بڑھ کر ایک محنتی کسان دیکھے، لیکن والد گرامی جیسا محنتی کسان کوئی نظر نہیں آتا تھا۔ یوں سمجھ لیں کہ ان کی ساری زندگی محنت سے عبارت تھی۔ کاہلی کو کبھی قریب پھٹکنے نہیں دیتے تھے۔ میرے بچپن کے دنوں میں ابھی ٹریکٹر سے کھیتی باڑی کا زیادہ رواج نہیں ہوا تھا۔ بیلوں کی مدد سے کھیتی باڑی کے سارے کام انجام دیے جاتے تھے۔
والد گرامی عام کسانوں سے پہلے رات دو تین بجے بیلوں کو لے کر کھیتوں کا رخ کرتے۔ جلدی کام شروع کرنے کی وجہ سے دھوپ تیز ہونے سے پہلے ایک ایکڑ زمین میں ہل چلا کر فارغ بھی ہو جاتے۔ میری والدہ صاحبہ ان کے لیے ''شاہ ویلا'' (ناشتا) لے کر کھیتوں میں جاتیں۔ تازہ مکھن میں گندھی موٹی موٹی دو روٹیاں کھا کر اور خوب لسی پی کر رب کا شکر ادا کرتے۔''اپنی شریک حیات کے خاکے کا عنوان ڈاکٹر کاوش نے ''بس کتابوں میں لکھا حرفِ وفا رہ جائے گا'' رکھا ہے۔ محترمہ ممتاز محمود کی پوری زندگی اسی عنوان سے عبارت ہے۔
وہ لکھتے ہیں ''ممتاز زیادہ تعلیم یافتہ نہیں ہے لیکن میں پوری ایمان داری سے سمجھتا ہوں کہ ممتاز نہ ہوتی تو میں تعلیمی مدارج طے نہ کر پاتا۔ شادی کے وقت میں سال سوم کا طالب علم تھا۔ میرے بی اے، ایم اے، بی ایڈ، ایم فل اور پی ایچ ڈی کا سہرا ممتاز کے سر ہے۔ ممتاز نے اپنی تعلیمی محرومی کا ازالہ پہلے میری صورت میں اور بعدازاں اولاد کی تعلیم و تربیت کو اہمیت دے کر کیا۔''پروفیسر محمد حسین آسی کی خاکہ کشی دیکھیے۔ ڈاکٹر کاوش لکھتے ہیں ''اگر مجھ سے کہا جائے کہ میں صرف ایک لفظ میں ان کی زندگی کا نقشہ کھینچوں تو میں بلاتامل کہوں گا ''عشق''۔
وہ عشق کی تجسیم تھے۔ اللہ تعالیٰ سے عشق، اللہ کے رسولؐ کی ذات گرامی سے عشق، اپنے شیخ کریم سے عشق، پاکستان سے عشق، نظریہ پاکستان سے عشق، علامہ اقبال سے عشق۔ ان کی زندگی انھی عشقوں سے عبارت تھی، دوستی، دشمنی، محبت اور نفرت، پسند اور ناپسند سبھی اسی عشق کے زیر اثر تھے۔''محمود احمد کاوش جب گورنمنٹ جناح اسلامیہ کالج، سیالکوٹ میں بی اے کے طالب علم تھے تو پروفیسر آسی ان کے اردو کے استاد تھے۔ ان کے عقیدت مندوں کا حلقہ بہت وسیع تھا، کاوش ان میں شامل تھے۔ایک صاحب تھے مبارک حسین۔
یہ اسکول میں کاوش سے سات آٹھ سال سینئر تھے۔ جب ان سے کاوش کی ملاقات ہوئی۔ پھر رفتہ رفتہ ان سے رفاقت بڑھتی گئی اور مبارک حسین کی ذات کی پرتیں ان پر کھلتی گئیں۔ وہ اپنی خوش اخلاقی، شیریں گفتاری اور خداداد ذہانت کی وجہ سے اپنے طالب علم ساتھیوں اور اساتذہ میں بہت مقبول تھے۔ مبارک حسین کی پوری زندگی ایثار سے عبارت تھی۔ وہ اپنے لیے نہیں دوسروں کے لیے جیتے تھے۔
عام طور پر لوگ اپنی دنیا میں مگن ہو کر عزیز و اقارب کو بھول جاتے ہیں مگر انھوں نے ان سب کو ہمیشہ یاد رکھا۔ ڈاکٹرکاوش لکھتے ہیں ''میرے تمام بچے نارووال پبلک اسکول میں پڑھتے رہے ہیں۔ اس حوالے سے اسکول آنا جانا لگا رہتا تھا۔ یہیں محترمہ شگفتہ گل فام سے ملاقات ہوئی۔ بعد میں ان کا تقرر ہمارے کالج میں ہو گیا۔ یوں انھیں قریب سے دیکھنے کا موقعہ ملا اور ان کی صلاحیتوں سے شناسائی کے مواقع میسر آگئے۔ ایک مثالی استاد میں جو خوبیاں ہونی چاہئیں وہ بدرجہ کمال محترمہ شگفتہ گل فام میں موجود تھیں۔ ہمیشہ وقت کی پابندی کرتی تھیں۔ انھیں تدریس کا جنون تھا۔ متحمل مزاج اور بردبار تھیں۔ ان کی زندگی مختصر تھی۔ بیٹی کی ولادت ہوئی، وہ خاصی نحیف و نزار تھی۔ اسے ڈاکٹر کو دکھانے لے گئیں، بیٹھے بیٹھے دل کا دورہ پڑا اور چند لمحوں میں رخصت ہوگئیں۔ دل نے سوچا گل کا ثبات ہی کتنا ہوتا ہے۔''
ڈاکٹرکاوش نے اپنے ایک دوست سجاد ظہیر کا خاکہ لکھا ہے۔ سجاد ظہیر کاروباری آدمی ہیں۔ کاروبار کی باریکیوں سے خوب شناسا ہیں۔ مزدوروں اور کاری گروں کی نفسیات سے بھی واقف ہیں اور کیوں نہ ہوں کہ ''عمر گزاری ہے اسی دشت کی سیاہی میں''۔ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں ''سجاد ظہیر نے تین شادیاں کی ہیں۔ تینوں بیگمات کی طرف سے اولاد کی نعمت سے بھی مال مال ہیں بلکہ کثیرالعیال ہیں۔ ایک بار خوشگوار موڈ میں تھے۔
ہم خوش گپیوں میں مصروف تھے میں نے تین شادیوں کے تجربے کے حوالے سے سوال کیا۔ بولے بڑا مشکل کام ہے۔ میں نے ان کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے کہا کہ علامہ اقبال نے آپ جیسے مرد مجاہدین ہی کے لیے کہا ہے کہ ''انھی کا کام ہے یہ جن کے حوصلے ہیں زیاد۔'' کہنے لگے، منافقت سے کام لینا پڑتا ہے۔ جہاں بھی جاؤ اسی کی محبت کا دم بھرنا پڑتا ہے۔ یہ سمجھیں خاصی ڈرامہ بازی کرنی پڑتی ہے۔ ایک دفعہ میرے ساتھ میرے دوست احمد سعید الحسن بھی تھے۔ یہ بھی دو عدد بیویوں کے شوہر نامدار ہونے کا اعزاز رکھتے ہیں۔
میں نے تعارف کراتے ہوئے کہا، سجاد صاحب، محترم سعید الحسن بھی آپ کی طرح قبیلہ جواں مرداں سے تعلق رکھتے ہیں۔ ماشا اللہ ان کی بھی دو بیویاں ہیں۔ یہ سن کر سجاد ظہیر نے پوچھا، سعید صاحب، آپ نے ان کے رہنے کا کیا بندوبست کیا ہے؟ سعیدالحسن نے بتایا کہ گھر کے نچلے حصے میں چھوٹی بیگم رہتی ہیں۔ بالائی حصے میں بڑی بیگم۔ یہ سن کر سجاد ظہیر بولے، سعید صاحب پھر تو آپ ہمارے پیر و مرشد ٹھہرے۔ ایک گھر میں دو بیویوں کا رکھنا بڑے ہنر کا کام ہے۔''
ڈاکٹر کاوش کی کتاب راشد اشرف نے شایع کی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ مختصر سی کتاب مجھے نہال کرگئی۔ ان کے شریک کار ڈاکٹر پرویز کی دعا ہے کہ ڈاکٹر کاوش کے قلم کو مزید روانی اور جولانی عطا ہو۔ ڈاکٹر نگار سجاد ظہیر فرماتی ہیں کہ ڈاکٹر کاوش نے ہر ممدوح کی ایسی تصویر کشی کی ہے گویا اسے مجسم کردیا ہے۔
ایک اچھا لکھنے والا اس بات کا خیال رکھتا ہے کہ اس کی تحریر ہر قاری کی سمجھ میں آسکے ۔ اسی کو مدنظر رکھتے ہوئے ڈاکٹرکاوش آسان اور سادہ الفاظ کا چناؤ کرتے ہیں۔ کفایت لفظی ان کی تحریروں کی جان ہے۔ وہ بڑی سے بڑی بات کو چھوٹے چھوٹے مگر جان دار جملوں میں بیان کرتے ہیں۔ سادگی کے ساتھ پرکاری کا عنصر بھی جا بجا نظر آتا ہے یعنی کہیں بھی تشنگی کا احساس نہیں ہوتا۔
موقع کی مناسبت سے اشعار کا استعمال ان کے اسلوب کی ایک خصوصیت ہے۔ڈاکٹر کاوش نے خاکہ نگاری کس طرح شروع کی، اس کا قصہ کچھ یوں ہے کہ انھوں نے اپنی ماں جی کا خاکہ لکھا اور اسے چند احباب کی خدمت میں بھیجا۔ سب نے تحسین و آفرین کے کلمات سے حوصلہ بڑھایا اور اصرار کیا کہ وہ شخصیت نگاری کے اس کام کو آگے بڑھائیں۔ ڈاکٹر کاوش لکھتے ہیں۔ ماں جی میری دوست بھی تھیں، ماں ہی نہیں۔ میں ان سے اپنی ہر بات کہہ سکتا تھا۔ انھوں نے صاف ستھری زندگی گزاری۔ کفایت شعاری کی بدولت گھر کے معاملات کو اچھی طرح چلاتی تھیں۔
فضول خرچی کے انتہائی خلاف تھیں۔ بخل اور کنجوسی کو بھی برا سمجھتی تھیں، جہاں ضروری ہوتا خرچ کرنے میں انھیں کوئی تامل نہیں ہوتا۔ ماں جی کو محلے بھر کی عورتوں میں مرکزی اہمیت حاصل تھی۔ سگھڑ اور سلیم الطبع تھیں۔ گتھیاں سلجھانے اور عقدے وا کرنے میں ید طولیٰ رکھتی تھیں۔ عورتیں اپنے مختلف مسائل لے کر آتیں اور ماں جی سے مشورے کی طالب ہوتیں۔ فضول کاموں سے انھیں نفرت تھی۔ دین دار تھیں۔ میں نے اپنے بچپن سے ماں جی کے صاحب فراش ہونے تک انھیں نماز میں ناغہ کرتے نہیں دیکھا۔ ماں جی موزوں طبع بھی تھیں۔
بیٹھے بیٹھے پنجابی زبان شعر موزوں کرتی رہتی تھیں۔ڈاکٹر کاوش نے اپنے والد اور اپنی شریک حیات کے خاکے بھی لکھے ہیں۔ اپنے والد کے بارے میں وہ لکھتے ہیں ''والد گرامی کاشتکار تھے۔ میں نے گاؤں میں ایک سے بڑھ کر ایک محنتی کسان دیکھے، لیکن والد گرامی جیسا محنتی کسان کوئی نظر نہیں آتا تھا۔ یوں سمجھ لیں کہ ان کی ساری زندگی محنت سے عبارت تھی۔ کاہلی کو کبھی قریب پھٹکنے نہیں دیتے تھے۔ میرے بچپن کے دنوں میں ابھی ٹریکٹر سے کھیتی باڑی کا زیادہ رواج نہیں ہوا تھا۔ بیلوں کی مدد سے کھیتی باڑی کے سارے کام انجام دیے جاتے تھے۔
والد گرامی عام کسانوں سے پہلے رات دو تین بجے بیلوں کو لے کر کھیتوں کا رخ کرتے۔ جلدی کام شروع کرنے کی وجہ سے دھوپ تیز ہونے سے پہلے ایک ایکڑ زمین میں ہل چلا کر فارغ بھی ہو جاتے۔ میری والدہ صاحبہ ان کے لیے ''شاہ ویلا'' (ناشتا) لے کر کھیتوں میں جاتیں۔ تازہ مکھن میں گندھی موٹی موٹی دو روٹیاں کھا کر اور خوب لسی پی کر رب کا شکر ادا کرتے۔''اپنی شریک حیات کے خاکے کا عنوان ڈاکٹر کاوش نے ''بس کتابوں میں لکھا حرفِ وفا رہ جائے گا'' رکھا ہے۔ محترمہ ممتاز محمود کی پوری زندگی اسی عنوان سے عبارت ہے۔
وہ لکھتے ہیں ''ممتاز زیادہ تعلیم یافتہ نہیں ہے لیکن میں پوری ایمان داری سے سمجھتا ہوں کہ ممتاز نہ ہوتی تو میں تعلیمی مدارج طے نہ کر پاتا۔ شادی کے وقت میں سال سوم کا طالب علم تھا۔ میرے بی اے، ایم اے، بی ایڈ، ایم فل اور پی ایچ ڈی کا سہرا ممتاز کے سر ہے۔ ممتاز نے اپنی تعلیمی محرومی کا ازالہ پہلے میری صورت میں اور بعدازاں اولاد کی تعلیم و تربیت کو اہمیت دے کر کیا۔''پروفیسر محمد حسین آسی کی خاکہ کشی دیکھیے۔ ڈاکٹر کاوش لکھتے ہیں ''اگر مجھ سے کہا جائے کہ میں صرف ایک لفظ میں ان کی زندگی کا نقشہ کھینچوں تو میں بلاتامل کہوں گا ''عشق''۔
وہ عشق کی تجسیم تھے۔ اللہ تعالیٰ سے عشق، اللہ کے رسولؐ کی ذات گرامی سے عشق، اپنے شیخ کریم سے عشق، پاکستان سے عشق، نظریہ پاکستان سے عشق، علامہ اقبال سے عشق۔ ان کی زندگی انھی عشقوں سے عبارت تھی، دوستی، دشمنی، محبت اور نفرت، پسند اور ناپسند سبھی اسی عشق کے زیر اثر تھے۔''محمود احمد کاوش جب گورنمنٹ جناح اسلامیہ کالج، سیالکوٹ میں بی اے کے طالب علم تھے تو پروفیسر آسی ان کے اردو کے استاد تھے۔ ان کے عقیدت مندوں کا حلقہ بہت وسیع تھا، کاوش ان میں شامل تھے۔ایک صاحب تھے مبارک حسین۔
یہ اسکول میں کاوش سے سات آٹھ سال سینئر تھے۔ جب ان سے کاوش کی ملاقات ہوئی۔ پھر رفتہ رفتہ ان سے رفاقت بڑھتی گئی اور مبارک حسین کی ذات کی پرتیں ان پر کھلتی گئیں۔ وہ اپنی خوش اخلاقی، شیریں گفتاری اور خداداد ذہانت کی وجہ سے اپنے طالب علم ساتھیوں اور اساتذہ میں بہت مقبول تھے۔ مبارک حسین کی پوری زندگی ایثار سے عبارت تھی۔ وہ اپنے لیے نہیں دوسروں کے لیے جیتے تھے۔
عام طور پر لوگ اپنی دنیا میں مگن ہو کر عزیز و اقارب کو بھول جاتے ہیں مگر انھوں نے ان سب کو ہمیشہ یاد رکھا۔ ڈاکٹرکاوش لکھتے ہیں ''میرے تمام بچے نارووال پبلک اسکول میں پڑھتے رہے ہیں۔ اس حوالے سے اسکول آنا جانا لگا رہتا تھا۔ یہیں محترمہ شگفتہ گل فام سے ملاقات ہوئی۔ بعد میں ان کا تقرر ہمارے کالج میں ہو گیا۔ یوں انھیں قریب سے دیکھنے کا موقعہ ملا اور ان کی صلاحیتوں سے شناسائی کے مواقع میسر آگئے۔ ایک مثالی استاد میں جو خوبیاں ہونی چاہئیں وہ بدرجہ کمال محترمہ شگفتہ گل فام میں موجود تھیں۔ ہمیشہ وقت کی پابندی کرتی تھیں۔ انھیں تدریس کا جنون تھا۔ متحمل مزاج اور بردبار تھیں۔ ان کی زندگی مختصر تھی۔ بیٹی کی ولادت ہوئی، وہ خاصی نحیف و نزار تھی۔ اسے ڈاکٹر کو دکھانے لے گئیں، بیٹھے بیٹھے دل کا دورہ پڑا اور چند لمحوں میں رخصت ہوگئیں۔ دل نے سوچا گل کا ثبات ہی کتنا ہوتا ہے۔''
ڈاکٹرکاوش نے اپنے ایک دوست سجاد ظہیر کا خاکہ لکھا ہے۔ سجاد ظہیر کاروباری آدمی ہیں۔ کاروبار کی باریکیوں سے خوب شناسا ہیں۔ مزدوروں اور کاری گروں کی نفسیات سے بھی واقف ہیں اور کیوں نہ ہوں کہ ''عمر گزاری ہے اسی دشت کی سیاہی میں''۔ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں ''سجاد ظہیر نے تین شادیاں کی ہیں۔ تینوں بیگمات کی طرف سے اولاد کی نعمت سے بھی مال مال ہیں بلکہ کثیرالعیال ہیں۔ ایک بار خوشگوار موڈ میں تھے۔
ہم خوش گپیوں میں مصروف تھے میں نے تین شادیوں کے تجربے کے حوالے سے سوال کیا۔ بولے بڑا مشکل کام ہے۔ میں نے ان کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے کہا کہ علامہ اقبال نے آپ جیسے مرد مجاہدین ہی کے لیے کہا ہے کہ ''انھی کا کام ہے یہ جن کے حوصلے ہیں زیاد۔'' کہنے لگے، منافقت سے کام لینا پڑتا ہے۔ جہاں بھی جاؤ اسی کی محبت کا دم بھرنا پڑتا ہے۔ یہ سمجھیں خاصی ڈرامہ بازی کرنی پڑتی ہے۔ ایک دفعہ میرے ساتھ میرے دوست احمد سعید الحسن بھی تھے۔ یہ بھی دو عدد بیویوں کے شوہر نامدار ہونے کا اعزاز رکھتے ہیں۔
میں نے تعارف کراتے ہوئے کہا، سجاد صاحب، محترم سعید الحسن بھی آپ کی طرح قبیلہ جواں مرداں سے تعلق رکھتے ہیں۔ ماشا اللہ ان کی بھی دو بیویاں ہیں۔ یہ سن کر سجاد ظہیر نے پوچھا، سعید صاحب، آپ نے ان کے رہنے کا کیا بندوبست کیا ہے؟ سعیدالحسن نے بتایا کہ گھر کے نچلے حصے میں چھوٹی بیگم رہتی ہیں۔ بالائی حصے میں بڑی بیگم۔ یہ سن کر سجاد ظہیر بولے، سعید صاحب پھر تو آپ ہمارے پیر و مرشد ٹھہرے۔ ایک گھر میں دو بیویوں کا رکھنا بڑے ہنر کا کام ہے۔''
ڈاکٹر کاوش کی کتاب راشد اشرف نے شایع کی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ مختصر سی کتاب مجھے نہال کرگئی۔ ان کے شریک کار ڈاکٹر پرویز کی دعا ہے کہ ڈاکٹر کاوش کے قلم کو مزید روانی اور جولانی عطا ہو۔ ڈاکٹر نگار سجاد ظہیر فرماتی ہیں کہ ڈاکٹر کاوش نے ہر ممدوح کی ایسی تصویر کشی کی ہے گویا اسے مجسم کردیا ہے۔