خواتین کے حقوق اور ہمارا معاشرہ
زندگی کی گاڑی کا دوسراپہیہ کہلانے والی مخلوق یعنی خواتین کے حقوق کا تعین اب کسی مخصوص معاشرے کااندرونی مسئلہ نہیں رہا۔
ہماری آپ کی اس اپنے آ پ سے ہر دم اُلجھتی دنیا کی پیچیدگی کو کم کرنے کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ جو بھی جس کا حق ہے وہ اُس دے دیا جائے کہ یہ انصاف اور انسانیت کا تقاضا بھی ہے اور دیکھا جائے تو اسی میں سب کا بھلا بھی ہے کہ اپنے حقوق کے لیے لڑتے یا اُن کے نہ ملنے پر روتے ہوئے لوگ کسی معاشرے میں انصاف کی صورتِ حال کی نمایندگی تو کرتے ہی ہیں مگر اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی واضح ہو جاتا ہے کہ معاملات کو درُست کیے بغیر ہم اس گلوبل ولیج میں رہتے ہوئے بھی ا س کے باقاعدہ اور عزت دار شہریوں میں شامل نہیں ہو سکتے کہ اب پرانے وقتوں کی طرح کسی کا کچھ بھی چھپا ہُوا نہیں ہے۔
اس ضمن میں زندگی کی گاڑی کا دوسرا پہیہ کہلانے والی مخلوق یعنی خواتین کے حقوق کا تعین اب کسی مخصوص معاشرے کا اندرونی مسئلہ نہیں رہا کہ اسے تاریخ، معیشت یا کلچر کے پسِ منظر میں اُلجھا کر ایک طرف رکھ دیا جائے۔ سو اس بحث میں پڑے بغیر کہ ماضی میں کس مذہب یا معاشرتی نظام نے خواتین کے حقوق کا کس حد تک خیال رکھا یا نہیں رکھا اس بات کو تسلیم کرنے میں کسی کو تأمل نہیں ہونا چاہیے کہ اٹھارویں صدی میں یورپ سے جنم لینے والے صنعتی انقلاب نے آج کے کورونا کی طرح ساری دنیا کو یکسر بدل کے رکھ دیا ہے، عور ت جو چند مستشنیات سے قطع نظر پدرسری اور جاگیردارانہ معاشروں میں گھر کے سامان کا ایک ایسا حصہ ہوا کرتی تھی جس کا مقصدِ حیات گھر کے مرد کی خدمت اور اُس کی نسل کی افزائش تک محدود تھا، اس کی تعلیم، صحت کے مسائل یا گھر سے باہر کی دنیا میں عمل دخل نہ ہونے کے برابر تھا گزشتہ دو صدیوں میں صورتِ حال بہت بدل گئی ہے کہ آج کی عورت کم و بیش زندگی کے ہر میدان میں مرد کے شانہ بشانہ ہی نہیں بلکہ اُس سے آگے نکلتی دکھائی دے رہی ہے اور فیمزم کا فلسفہ ایک تحریک ہی نہیں روائت کی شکل اختیار کرتا جا رہا ہے جس کے ''میرا بدن میری مرضی'' قسم کے کچھ نعروں سے تو اختلاف کیا جا سکتا ہے مگر عمومی طور پر آج کی عورت جس قدر خود مختار ہے اس کا تصور بھی اس تبدیلی سے پہلے شائد ممکن نہیں تھا۔
میری ذاتی رائے میں یہ مسئلہ ماضی میں جائز حقوق کو غصب کیے جانے کے ردّعمل میں بعض ایسے حقوق کی ڈیمانڈ کا ہے جنھیں اگر ناجائز نہیں تو بے حد مبالغہ آمیز ضرور کہا جا سکتا ہے۔ یہ بات بھی اپنی جگہ پر ایک حقیقت ہے کہ بہت سے انقلابی نعرے اصل میں مسلسل حق تلفی کی پیدا کردہ فرسٹریشن کا اظہار ہوتے ہیں جو انقلاب کے رُونما ہو جانے کے بعد خود بخود سین سے غائب ہونا شروع کر دیتے ہیں البتہ چند شدت پسند ضرور ایسے ہوتے ہیں جو ایک انتہا کا جواب دوسری انتہا کو سمجھتے ہیں اور یوں معاملات کو سدھارنے اور کوئی درمیانہ راستہ نکالنے کے بجائے ایک ایسی فضا بنا دیتے ہیں جس میں خواہ مخواہ کے اختلاف اور تلخیاں پیدا ہونا شروع ہو جاتی ہیں۔
کم و بیش یہی صورتِ حال اس وقت پوری دنیا اور بالخصوص غریب اور پسماندہ ممالک میں جاری و ساری ہے کہ بعض خواتین قدرت کے اس قانون کو تسلیم کرنے سے بھی انکار ی ہو جاتی ہیں کہ خدا کی ذات کے علاوہ ہر چیز کی ایک حد ہوتی ہے اور یہ کہ کوئی بھی معاشرہ اپنی بنیادی اور مسلمہ اقدار کو مذاق کا نشانہ بنایا جانا پسند نہیں کرتا یعنی اپنے حقوق کو منوانے کے لیے لازمی ہے کہ آپ دوسروں کے حقوق کا احترام کرنا بھی سیکھیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اپنی ہی طرح کے چند انتہا پسند مردوں کو چھوڑ کر ساری مرد برادری کو اپنا دشمن سمجھنا چھوڑ دیں اپنی بات کی وضاحت کے لیے میں ایک دوست کا واٹس ایپ پر بھیجا گیا ایک اقتباس نقل کرنا چاہوں گا اسے غور سے پڑھنا اور سمجھنا ہم سب کے لیے ضروری ہے کہ زندگی کی گاڑی کو چلانے کے لیے ہم سب توازن تو چاہتے ہیں مگر اپنے اپنے طریقے سے:
''اس نے پوچھا، شاہ لطیف کون تھا؟
میں نے کہا ''دنیا کا پہلا فیمنسٹ شاعر'' (faminist)
اُس نے پوچھا ''کس طرح''
'' وہ جانتا تھا کہ عورت کیا چاہتی ہے''
اس سوال کا جواب ارسطو بھی نہ دے پایا۔
اسی لیے علامہ اقبال نے کہا تھا۔
''ہزار بار حکیموں نے اس کو سمجھایا
مگر یہ مسئلہ زن رہا وہیں کا وہیں''
دنیا کے سارے شاعر اور دانشور کہتے رہے کہ
عورت ایک مسئلہ ہے۔
اس حقیقت کا ادراک صرف لطیف کو تھاکہ
عورت مسئلہ نہیں عورت محبت ہے
مگر وہ محبت نہیں جو مرد کرتا ہے
مرد کے لیے محبت جسم ہے
عورت کے لیے محبت جذبہ ہے
مرد کی محبت جسم کا جال ہے
عورت کی محبت رُوح کی آزادی ہے
مرد کی محبت مقابلہ ہے، عورت کی محبت عاجزی ہے:
مرد کی محبت ایک پُل ہے
عورت کی محبت پوری زندگی ہے
مرد کی محبت ایک افسانہ ہے
عورت کی محبت ایک حقیقت ہے
ہمارے شعرا شیکسپیئر سے لے کر شیلے تک
اور ہومر سے لے کر ہم تم تک
تب یہ سمجھتے رہے کہ عورت معشوق ہے
صرف شاہ کو معلوم تھا کہ عورت عاشق ہے
اس لیے شاہ لطیف نے لکھا ''عورت عشق کی اُستاد ہے''
سب سوچتے رہے کہ عورت آخر کیا چاہتی ہے
تخت، بخت اور جسم سخت؟
شاہ لطیف کو علم تھا کہ عورت کو محبت چاہیے
نرم و نازک، گرم و گداز، جسم سے ماورا، جنس سے آزاد:
مرد جسم کے جنگل میں بھٹکتا ہوا ایک بُھوکا درندہ ہے
عورت رُوح کے چمن میں اُڑتی ہوئی تتلی ہے
جو پیار کی پیاسی ہے، مرد کے لیے محبت بھوک اور
عورت کے لیے پیار ایک پیاس ہے
صرف لطیف جانتا تھا عورت کے ہونٹ ساحل ہیں اور اس کا وجود ایک سمندر ہے
آنکھوں سے بہتے ہوئے اَشکوں جیسا سمندر
جو نمکین بھی ہے اور حسین بھی ہے
جس میں تلاطم ہے جس میں غم ہے
جس میں رنج نہیں صرف اور صرف الم ہے
اس ضمن میں زندگی کی گاڑی کا دوسرا پہیہ کہلانے والی مخلوق یعنی خواتین کے حقوق کا تعین اب کسی مخصوص معاشرے کا اندرونی مسئلہ نہیں رہا کہ اسے تاریخ، معیشت یا کلچر کے پسِ منظر میں اُلجھا کر ایک طرف رکھ دیا جائے۔ سو اس بحث میں پڑے بغیر کہ ماضی میں کس مذہب یا معاشرتی نظام نے خواتین کے حقوق کا کس حد تک خیال رکھا یا نہیں رکھا اس بات کو تسلیم کرنے میں کسی کو تأمل نہیں ہونا چاہیے کہ اٹھارویں صدی میں یورپ سے جنم لینے والے صنعتی انقلاب نے آج کے کورونا کی طرح ساری دنیا کو یکسر بدل کے رکھ دیا ہے، عور ت جو چند مستشنیات سے قطع نظر پدرسری اور جاگیردارانہ معاشروں میں گھر کے سامان کا ایک ایسا حصہ ہوا کرتی تھی جس کا مقصدِ حیات گھر کے مرد کی خدمت اور اُس کی نسل کی افزائش تک محدود تھا، اس کی تعلیم، صحت کے مسائل یا گھر سے باہر کی دنیا میں عمل دخل نہ ہونے کے برابر تھا گزشتہ دو صدیوں میں صورتِ حال بہت بدل گئی ہے کہ آج کی عورت کم و بیش زندگی کے ہر میدان میں مرد کے شانہ بشانہ ہی نہیں بلکہ اُس سے آگے نکلتی دکھائی دے رہی ہے اور فیمزم کا فلسفہ ایک تحریک ہی نہیں روائت کی شکل اختیار کرتا جا رہا ہے جس کے ''میرا بدن میری مرضی'' قسم کے کچھ نعروں سے تو اختلاف کیا جا سکتا ہے مگر عمومی طور پر آج کی عورت جس قدر خود مختار ہے اس کا تصور بھی اس تبدیلی سے پہلے شائد ممکن نہیں تھا۔
میری ذاتی رائے میں یہ مسئلہ ماضی میں جائز حقوق کو غصب کیے جانے کے ردّعمل میں بعض ایسے حقوق کی ڈیمانڈ کا ہے جنھیں اگر ناجائز نہیں تو بے حد مبالغہ آمیز ضرور کہا جا سکتا ہے۔ یہ بات بھی اپنی جگہ پر ایک حقیقت ہے کہ بہت سے انقلابی نعرے اصل میں مسلسل حق تلفی کی پیدا کردہ فرسٹریشن کا اظہار ہوتے ہیں جو انقلاب کے رُونما ہو جانے کے بعد خود بخود سین سے غائب ہونا شروع کر دیتے ہیں البتہ چند شدت پسند ضرور ایسے ہوتے ہیں جو ایک انتہا کا جواب دوسری انتہا کو سمجھتے ہیں اور یوں معاملات کو سدھارنے اور کوئی درمیانہ راستہ نکالنے کے بجائے ایک ایسی فضا بنا دیتے ہیں جس میں خواہ مخواہ کے اختلاف اور تلخیاں پیدا ہونا شروع ہو جاتی ہیں۔
کم و بیش یہی صورتِ حال اس وقت پوری دنیا اور بالخصوص غریب اور پسماندہ ممالک میں جاری و ساری ہے کہ بعض خواتین قدرت کے اس قانون کو تسلیم کرنے سے بھی انکار ی ہو جاتی ہیں کہ خدا کی ذات کے علاوہ ہر چیز کی ایک حد ہوتی ہے اور یہ کہ کوئی بھی معاشرہ اپنی بنیادی اور مسلمہ اقدار کو مذاق کا نشانہ بنایا جانا پسند نہیں کرتا یعنی اپنے حقوق کو منوانے کے لیے لازمی ہے کہ آپ دوسروں کے حقوق کا احترام کرنا بھی سیکھیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اپنی ہی طرح کے چند انتہا پسند مردوں کو چھوڑ کر ساری مرد برادری کو اپنا دشمن سمجھنا چھوڑ دیں اپنی بات کی وضاحت کے لیے میں ایک دوست کا واٹس ایپ پر بھیجا گیا ایک اقتباس نقل کرنا چاہوں گا اسے غور سے پڑھنا اور سمجھنا ہم سب کے لیے ضروری ہے کہ زندگی کی گاڑی کو چلانے کے لیے ہم سب توازن تو چاہتے ہیں مگر اپنے اپنے طریقے سے:
''اس نے پوچھا، شاہ لطیف کون تھا؟
میں نے کہا ''دنیا کا پہلا فیمنسٹ شاعر'' (faminist)
اُس نے پوچھا ''کس طرح''
'' وہ جانتا تھا کہ عورت کیا چاہتی ہے''
اس سوال کا جواب ارسطو بھی نہ دے پایا۔
اسی لیے علامہ اقبال نے کہا تھا۔
''ہزار بار حکیموں نے اس کو سمجھایا
مگر یہ مسئلہ زن رہا وہیں کا وہیں''
دنیا کے سارے شاعر اور دانشور کہتے رہے کہ
عورت ایک مسئلہ ہے۔
اس حقیقت کا ادراک صرف لطیف کو تھاکہ
عورت مسئلہ نہیں عورت محبت ہے
مگر وہ محبت نہیں جو مرد کرتا ہے
مرد کے لیے محبت جسم ہے
عورت کے لیے محبت جذبہ ہے
مرد کی محبت جسم کا جال ہے
عورت کی محبت رُوح کی آزادی ہے
مرد کی محبت مقابلہ ہے، عورت کی محبت عاجزی ہے:
مرد کی محبت ایک پُل ہے
عورت کی محبت پوری زندگی ہے
مرد کی محبت ایک افسانہ ہے
عورت کی محبت ایک حقیقت ہے
ہمارے شعرا شیکسپیئر سے لے کر شیلے تک
اور ہومر سے لے کر ہم تم تک
تب یہ سمجھتے رہے کہ عورت معشوق ہے
صرف شاہ کو معلوم تھا کہ عورت عاشق ہے
اس لیے شاہ لطیف نے لکھا ''عورت عشق کی اُستاد ہے''
سب سوچتے رہے کہ عورت آخر کیا چاہتی ہے
تخت، بخت اور جسم سخت؟
شاہ لطیف کو علم تھا کہ عورت کو محبت چاہیے
نرم و نازک، گرم و گداز، جسم سے ماورا، جنس سے آزاد:
مرد جسم کے جنگل میں بھٹکتا ہوا ایک بُھوکا درندہ ہے
عورت رُوح کے چمن میں اُڑتی ہوئی تتلی ہے
جو پیار کی پیاسی ہے، مرد کے لیے محبت بھوک اور
عورت کے لیے پیار ایک پیاس ہے
صرف لطیف جانتا تھا عورت کے ہونٹ ساحل ہیں اور اس کا وجود ایک سمندر ہے
آنکھوں سے بہتے ہوئے اَشکوں جیسا سمندر
جو نمکین بھی ہے اور حسین بھی ہے
جس میں تلاطم ہے جس میں غم ہے
جس میں رنج نہیں صرف اور صرف الم ہے