بغل میں چھری منہ میں رام رام
بابری مسجد کو شہید کر کے رام مندر تعمیر کرنے والے بہروپیوں کا یہ ہے اصل بے نقاب چہرہ۔
آخر کار وہی ہوا جس کا اندیشہ تھا۔ بھارتی فیڈرل پولیس کورٹ نے گزشتہ 30 ستمبر بروز بدھ ایودھیا ( اُتر پردیش) کی مشہور و معروف تاریخی بابری مسجد کو شہید کرنے کی گھناؤنی سازش میں ملوث اسلام دشمن مسلم کش اور حکمراں بی۔ جے۔ پی۔ کی جنم داتا بدنام زمانہ ہندوانتہا پسند تنظیم راشٹریہ سوئم سیوک سَنگھ المعروف آر۔ ایس۔ ایس کے سرغنوں کے خلاف دائر کیے گئے کیس میں شامل تمام مجرموں کو بہ یک جنبش ِ قلم بے قصور قرار دے کر انصاف کا جنازہ نکال دیا ہے۔
اس مذموم سازش میں دو چار نہیں بلکہ پورے 32 لوگ شامل تھے جن میں ایل۔کے۔ایڈوانی اور مرلی منوہرجوشی جیسے بدنام ِ زمانہ آر۔ ایس۔ ایس۔کے گُرو گھنٹال پرانے پاپی بھی شامل تھے جو ایسے زہرے سانپ ہیں جن کے کاٹے کا کوئی منتر نہیں ہے۔
خیال رہے کہ یہ عدالتی فیصلہ 28 سال کے طویل عرصہ کے بعد صادر ہوا ہے جو کہ انصاف کے تقاضوں کے عین منافی ہے۔ قانون کے حوالے سے ایک عام کہاوت کے مطابق'' انصاف کے معاملے میں ہونے والی تاخیر بھی انصاف کی نفی کے مترادف ہے ''۔بلا شبہ انصاف کے تقاضوں کی تکمیل میں وقت کی بہت اہمیت ہوتی ہے۔انصاف اگر تاخیر سے حاصل ہو تو اسے انصاف کے بجائے عملاً بے انصافی ہی کہا جائے گا۔ بقول اقبال :
وقت پر کافی ہے قطرہ ابرِخوش ہنگام کا
جل گئی کھیتی اگر برساتو پھر کس کام کا
بابری مسجد کی بے حرمتی کی سازش میں ملوث آر۔ ایس۔ ایس۔ کے غنڈوں کے خلاف دائر کیے گئے مقدمہ کا فیصلہ 28 سال کی طویل مدت کے بعد صادر کیا جانا '' کریلا اور نیم چڑھا '' والی ضرب المثل کے مترادف ہے کیونکہ ایک تو یہ فیصلہ ہی کھلم کھلا بدنیتی اور سر اسر جانب داری اور انصاف کے قتلِ عام کے برابر ہے دوسرے یہ کہ اس کے ذریعے گھناؤنے مجرموں کو ان کے گھناؤنے جرم کی سخت ترین قرار واقعی سزا سنا کر نشان عبرت بنانے کے بجائے انھیں صاف بری کر کے ان کی آیندہ کے لیے حوصلہ افزائی کی ہے۔
بھارت کی سی۔ بی۔ آئی۔ ( CBI ) اسپیشل کور ٹ کا یہ من مانا جانب دارانہ فیصلہ انصاف کے منہ پر زناٹے دار طمانچہ اور انصاف کی عصمت دری کے مترادف ہے۔ اس فیصلے نے بھارتی عدلیہ کی کارکردگی کو پوری دنیا اور عالمی برادری کے سامنے بے نقاب کر کے اس کا اصلی مکروہ چہرہ دکھا دیا ہے۔اس فیصلے سے بھارت اور اس کے انصاف پسند مہذب شہریوں کی بہت رسوائی اور جگ ہنسائی ہوئی ہے۔
بابری مسجد کی بے حرمتی کا واقعہ اچانک پیش نہیں آیا۔اس عظیم سانحہ کے پیچھے اسلام دشمن اور مسلمانوں سے سخت نفرت کی ایک لمبی کہانی ہے ۔ اسلام اور مسلمانوں سے شدید نفرت کے اظہار اور پرچار کا کچھ اندازہ آپ کوبنگلہ زبان کے ایک معروف ہندو لکھاری بنکم چندر چٹرجی کی کتاب ''آنند مَٹھ'' پڑھنے کے بعد ہو جائے گا، اس کتاب میں نہ صرف مسلمانوںکی ہرزہ سرائی کی گئی ہے بلکہ مسلمانوں کے خلاف پرُ تشددکارروائی کرنے اوران کی مساجد کو مسمار کرنے جیسی مذموم اور پرُ تشدد کارروائیوں کا بھی شعلہ بھڑکایا گیا ہے۔
اس کتاب کے مطالعہ سے'' ہندو تواتا '' کے پجاریوں اور پرچارکوں کے عزائم کھل کر سامنے آجاتے ہیں اور یہ سمجھنے میں کچھ دشواری نہیں ہوتی کہ بابری مسجد کی شہادت اور مقبوضہ کشمیر کی حیثیت کو تبدیل کرنے کی بی۔ جے۔ پی۔ کی کوشش تو '' ہندوتوا'' شرپسندی کے ایجنڈے کی شروعات ہے۔ اگر خدا نخواستہ بی۔ جے۔ پی۔ آیندہ عام چناؤ میں تیسری مرتبہ بھی کامیاب ہوجاتی ہے تو رقص ِابلیس اپنی انتہا کو پہنچ کرتانڈو نرتّیہ کی خوفناک صورت اختیار کر لے گا اور انجام کار بھارت میں جاری آزادی کی تحریکیں رنگ لائیں گی۔ جس کے نتیجے میں نہ صرف اکھنڈ بھارت کا سپنا چکنا چور ہوجائے گا بلکہ بھارت خود اپنے ہی ہاتھوں کھنڈت( ٹکڑے ٹکڑے )ہوجائے گا۔
بابری مسجد کی شہادت کا سب سے بڑا مجرم وہ زہریلا ناگ ہے جس کا نام لال کرشن ایڈوانی ہے۔ یہ شخص مسلمانوں سے تعصب کا آتش فشاں ہے۔ اس نے بابری مسجد سے تقریباً ڈیڑھ سو میٹر کے فاصلہ پر واقع ''کَتھا کُنج'' نامی مقام سے وہ اشتعال انگیز بھاشن دیا تھا جس سے بھڑک کر شیو سینا اور آر۔ ایس۔ایس۔ کے غنڈوں نے تاریخی بابری مسجد پر دھاوا بول کر مسلمانوں کی مقدس عبادت گاہ کو شہید کر دیا تھا۔ یہ عظیم سانحہ 6 دسمبر 1992 کو پیش آیا تھا۔ جس کے زخم کبھی مندمل نہیں ہونگے۔
اس سے قبل 1990 میں ایل۔ کے۔ ایڈوانی نے بابری مسجد کو شہید کر کے اس کی جگہ رام مندر کی تعمیر کے مذموم منصوبے پر تعصب پسند ہندوؤں کو اکسانے کے لیے سومناتھ سے ایودھیا تک رتھ یاترا کا ناٹک رچایا تھا، یاترا کا نقطہ ِ آغاز سومناتھ کو سلطان محمود غزنوی کے خلاف انتہا پسند ہندوؤں کو بھڑکانے کی نیت سے کیا گیا تھا۔ جس کا مقصد مسلمانوں کے خلاف جذبہ انتقام کے شعلوں کو بھڑکانا تھا۔ ایڈوانی کی رتھ یاترا کی ویڈیو سے اس کے مذموم عزائم بالکل واضح اور صاف ظاہر ہیں۔
جلوس میں شامل شیوسینا اور آر۔ ایس۔ایس۔ کے جنونی غنڈے جنھیں کار سیوک کہا جاتا ہے اشتعال انگیز مسلم کش نعرے لگاتے ہوئے ریلی میں شامل ہیں لیکن سی۔ بی۔ آئی۔ کی تعصبی اندھی عدالت کو کچھ بھی نظر نہیں آیا اور اس نے اپنا اندھا فیصلہ سنا کر تمام مجرموں کو بری کر کے بھارت کے سیکولرازم کے تابوت میں آخری کیل ٹھونک دی۔دی وائر(The Wire ) نامی خبر رساں ایجنسی نے اس پورے ناٹک کی قلعی کھول دی ہے اور بی۔ جے۔ پی۔ کا اصلی چہرہ عالمی برادری کے سامنے بے نقاب کر دیا ہے۔ سی۔ بی۔ آئی۔ کی خصوصی عدالت کے اس انصاف شکن فیصلے پر تمام انصاف پسند حلقے مذمت کر رہے ہیں۔
جسٹس Liberhan نے میگزین Out Look میں اس پر تبصرے کرتے ہوئے اسے کھلا فریب قرار دیا ہے۔ یہ وہ ریٹائرڈ جج ہیں جو اس کیس کی انکوائری کرنے والے کمیشن کے سربراہ تھے جس نے 17 سال تک اس واقعہ کی تفتیش کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ کورٹ کا فیصلہ کمیشن کے اخذ کیے ہوئے نتائج کے بالکل برعکس ہے۔
اس فیصلے کا اصل مقصد بی۔ جے۔ پی۔ کے 97 سالہ گُرگِ باراں دیدہ ایل۔ کے۔ ایڈوانی اور ان کے شریک ِ جرم مرلی منوہر جوشی اور زہریلی ناگن اوما بھارتی کو جیل جانے سے بچانا تھا۔ بابری مسجد کی بے حرمتی کے وقت سیکریٹری داخلہ کے عہدے پر فائز مادوگونا بول نے بھی اس فیصلے پر جرات کا اظہار کر کے اسے مسترد کر دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ بابری مسجد کی انتہائی عالی شان پُرشکوہ اور پختہ عمارت کو کسی پیشگی منصوبے کے بغیر صرف پانچ گھنٹوں کے مختصر عرصے میں مکمل طور سے منہدم کرنا ممکن نہیں تھا۔
مودی سرکار کے دوغلے پن کا عالم یہ ہے کہ ایک جانب گؤ ہتّیا( گائے کشی ) کے الزام میں بھارت کے مسلمانوں کو زدوکوب اور قتل کیا جارہا ہے اور دوسری جانب بھارت سے بڑے پیمانے پر گائے کا گوشت ایکسپورٹ کیا جارہا ہے۔ یہ ہے گؤ رکشا کا ڈھونگ رچا کر بھارتی مسلمانوں پر ظلم و ستم ڈھانے والے گؤ ماتا کے جھوٹے پجاریوں کا اصل مکروہ چہرہ۔ نیشنل سیمپل سروے آفس کے فراہم کیے ہوئے اعدادو شمار کے مطابق بھارت نے گائے کے گوشت ( Beef ) کی برآمدات میں برازیل کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے۔
بھارت میں گائے کے گوشت کا سب سے بڑا ایکسپورٹر ''الدعا '' نامی ادارہ ہے جو بھاری مقدار میں گائے کا حلال گوشت عرب ممالک کو برآمد کرتا ہے۔ بھارتی وزیر ِمملکت برائے امور داخلہ کرن دی جوجو اور ارونا چل پردیش کے وزیر اعلیٰ نے گائے کا گوشت کھانے کا اعتراف کیاہے۔ اسے کہتے ہیں ''بغل میں چھری منہ میں رام رام ''۔ بابری مسجد کو شہید کر کے رام مندر تعمیر کرنے والے بہروپیوں کا یہ ہے اصل بے نقاب چہرہ۔ چلتے چلتے اس حقیقت کا بھی انکشاف کہ بھارت میں گائے کا گوشت کھانے والے ہندوؤں کی تعداد 12.5 ملین کے لگ بھگ ہے۔ بیچارے مسلمان تو مفت میں بدنام ہیں۔
اس مذموم سازش میں دو چار نہیں بلکہ پورے 32 لوگ شامل تھے جن میں ایل۔کے۔ایڈوانی اور مرلی منوہرجوشی جیسے بدنام ِ زمانہ آر۔ ایس۔ ایس۔کے گُرو گھنٹال پرانے پاپی بھی شامل تھے جو ایسے زہرے سانپ ہیں جن کے کاٹے کا کوئی منتر نہیں ہے۔
خیال رہے کہ یہ عدالتی فیصلہ 28 سال کے طویل عرصہ کے بعد صادر ہوا ہے جو کہ انصاف کے تقاضوں کے عین منافی ہے۔ قانون کے حوالے سے ایک عام کہاوت کے مطابق'' انصاف کے معاملے میں ہونے والی تاخیر بھی انصاف کی نفی کے مترادف ہے ''۔بلا شبہ انصاف کے تقاضوں کی تکمیل میں وقت کی بہت اہمیت ہوتی ہے۔انصاف اگر تاخیر سے حاصل ہو تو اسے انصاف کے بجائے عملاً بے انصافی ہی کہا جائے گا۔ بقول اقبال :
وقت پر کافی ہے قطرہ ابرِخوش ہنگام کا
جل گئی کھیتی اگر برساتو پھر کس کام کا
بابری مسجد کی بے حرمتی کی سازش میں ملوث آر۔ ایس۔ ایس۔ کے غنڈوں کے خلاف دائر کیے گئے مقدمہ کا فیصلہ 28 سال کی طویل مدت کے بعد صادر کیا جانا '' کریلا اور نیم چڑھا '' والی ضرب المثل کے مترادف ہے کیونکہ ایک تو یہ فیصلہ ہی کھلم کھلا بدنیتی اور سر اسر جانب داری اور انصاف کے قتلِ عام کے برابر ہے دوسرے یہ کہ اس کے ذریعے گھناؤنے مجرموں کو ان کے گھناؤنے جرم کی سخت ترین قرار واقعی سزا سنا کر نشان عبرت بنانے کے بجائے انھیں صاف بری کر کے ان کی آیندہ کے لیے حوصلہ افزائی کی ہے۔
بھارت کی سی۔ بی۔ آئی۔ ( CBI ) اسپیشل کور ٹ کا یہ من مانا جانب دارانہ فیصلہ انصاف کے منہ پر زناٹے دار طمانچہ اور انصاف کی عصمت دری کے مترادف ہے۔ اس فیصلے نے بھارتی عدلیہ کی کارکردگی کو پوری دنیا اور عالمی برادری کے سامنے بے نقاب کر کے اس کا اصلی مکروہ چہرہ دکھا دیا ہے۔اس فیصلے سے بھارت اور اس کے انصاف پسند مہذب شہریوں کی بہت رسوائی اور جگ ہنسائی ہوئی ہے۔
بابری مسجد کی بے حرمتی کا واقعہ اچانک پیش نہیں آیا۔اس عظیم سانحہ کے پیچھے اسلام دشمن اور مسلمانوں سے سخت نفرت کی ایک لمبی کہانی ہے ۔ اسلام اور مسلمانوں سے شدید نفرت کے اظہار اور پرچار کا کچھ اندازہ آپ کوبنگلہ زبان کے ایک معروف ہندو لکھاری بنکم چندر چٹرجی کی کتاب ''آنند مَٹھ'' پڑھنے کے بعد ہو جائے گا، اس کتاب میں نہ صرف مسلمانوںکی ہرزہ سرائی کی گئی ہے بلکہ مسلمانوں کے خلاف پرُ تشددکارروائی کرنے اوران کی مساجد کو مسمار کرنے جیسی مذموم اور پرُ تشدد کارروائیوں کا بھی شعلہ بھڑکایا گیا ہے۔
اس کتاب کے مطالعہ سے'' ہندو تواتا '' کے پجاریوں اور پرچارکوں کے عزائم کھل کر سامنے آجاتے ہیں اور یہ سمجھنے میں کچھ دشواری نہیں ہوتی کہ بابری مسجد کی شہادت اور مقبوضہ کشمیر کی حیثیت کو تبدیل کرنے کی بی۔ جے۔ پی۔ کی کوشش تو '' ہندوتوا'' شرپسندی کے ایجنڈے کی شروعات ہے۔ اگر خدا نخواستہ بی۔ جے۔ پی۔ آیندہ عام چناؤ میں تیسری مرتبہ بھی کامیاب ہوجاتی ہے تو رقص ِابلیس اپنی انتہا کو پہنچ کرتانڈو نرتّیہ کی خوفناک صورت اختیار کر لے گا اور انجام کار بھارت میں جاری آزادی کی تحریکیں رنگ لائیں گی۔ جس کے نتیجے میں نہ صرف اکھنڈ بھارت کا سپنا چکنا چور ہوجائے گا بلکہ بھارت خود اپنے ہی ہاتھوں کھنڈت( ٹکڑے ٹکڑے )ہوجائے گا۔
بابری مسجد کی شہادت کا سب سے بڑا مجرم وہ زہریلا ناگ ہے جس کا نام لال کرشن ایڈوانی ہے۔ یہ شخص مسلمانوں سے تعصب کا آتش فشاں ہے۔ اس نے بابری مسجد سے تقریباً ڈیڑھ سو میٹر کے فاصلہ پر واقع ''کَتھا کُنج'' نامی مقام سے وہ اشتعال انگیز بھاشن دیا تھا جس سے بھڑک کر شیو سینا اور آر۔ ایس۔ایس۔ کے غنڈوں نے تاریخی بابری مسجد پر دھاوا بول کر مسلمانوں کی مقدس عبادت گاہ کو شہید کر دیا تھا۔ یہ عظیم سانحہ 6 دسمبر 1992 کو پیش آیا تھا۔ جس کے زخم کبھی مندمل نہیں ہونگے۔
اس سے قبل 1990 میں ایل۔ کے۔ ایڈوانی نے بابری مسجد کو شہید کر کے اس کی جگہ رام مندر کی تعمیر کے مذموم منصوبے پر تعصب پسند ہندوؤں کو اکسانے کے لیے سومناتھ سے ایودھیا تک رتھ یاترا کا ناٹک رچایا تھا، یاترا کا نقطہ ِ آغاز سومناتھ کو سلطان محمود غزنوی کے خلاف انتہا پسند ہندوؤں کو بھڑکانے کی نیت سے کیا گیا تھا۔ جس کا مقصد مسلمانوں کے خلاف جذبہ انتقام کے شعلوں کو بھڑکانا تھا۔ ایڈوانی کی رتھ یاترا کی ویڈیو سے اس کے مذموم عزائم بالکل واضح اور صاف ظاہر ہیں۔
جلوس میں شامل شیوسینا اور آر۔ ایس۔ایس۔ کے جنونی غنڈے جنھیں کار سیوک کہا جاتا ہے اشتعال انگیز مسلم کش نعرے لگاتے ہوئے ریلی میں شامل ہیں لیکن سی۔ بی۔ آئی۔ کی تعصبی اندھی عدالت کو کچھ بھی نظر نہیں آیا اور اس نے اپنا اندھا فیصلہ سنا کر تمام مجرموں کو بری کر کے بھارت کے سیکولرازم کے تابوت میں آخری کیل ٹھونک دی۔دی وائر(The Wire ) نامی خبر رساں ایجنسی نے اس پورے ناٹک کی قلعی کھول دی ہے اور بی۔ جے۔ پی۔ کا اصلی چہرہ عالمی برادری کے سامنے بے نقاب کر دیا ہے۔ سی۔ بی۔ آئی۔ کی خصوصی عدالت کے اس انصاف شکن فیصلے پر تمام انصاف پسند حلقے مذمت کر رہے ہیں۔
جسٹس Liberhan نے میگزین Out Look میں اس پر تبصرے کرتے ہوئے اسے کھلا فریب قرار دیا ہے۔ یہ وہ ریٹائرڈ جج ہیں جو اس کیس کی انکوائری کرنے والے کمیشن کے سربراہ تھے جس نے 17 سال تک اس واقعہ کی تفتیش کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ کورٹ کا فیصلہ کمیشن کے اخذ کیے ہوئے نتائج کے بالکل برعکس ہے۔
اس فیصلے کا اصل مقصد بی۔ جے۔ پی۔ کے 97 سالہ گُرگِ باراں دیدہ ایل۔ کے۔ ایڈوانی اور ان کے شریک ِ جرم مرلی منوہر جوشی اور زہریلی ناگن اوما بھارتی کو جیل جانے سے بچانا تھا۔ بابری مسجد کی بے حرمتی کے وقت سیکریٹری داخلہ کے عہدے پر فائز مادوگونا بول نے بھی اس فیصلے پر جرات کا اظہار کر کے اسے مسترد کر دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ بابری مسجد کی انتہائی عالی شان پُرشکوہ اور پختہ عمارت کو کسی پیشگی منصوبے کے بغیر صرف پانچ گھنٹوں کے مختصر عرصے میں مکمل طور سے منہدم کرنا ممکن نہیں تھا۔
مودی سرکار کے دوغلے پن کا عالم یہ ہے کہ ایک جانب گؤ ہتّیا( گائے کشی ) کے الزام میں بھارت کے مسلمانوں کو زدوکوب اور قتل کیا جارہا ہے اور دوسری جانب بھارت سے بڑے پیمانے پر گائے کا گوشت ایکسپورٹ کیا جارہا ہے۔ یہ ہے گؤ رکشا کا ڈھونگ رچا کر بھارتی مسلمانوں پر ظلم و ستم ڈھانے والے گؤ ماتا کے جھوٹے پجاریوں کا اصل مکروہ چہرہ۔ نیشنل سیمپل سروے آفس کے فراہم کیے ہوئے اعدادو شمار کے مطابق بھارت نے گائے کے گوشت ( Beef ) کی برآمدات میں برازیل کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے۔
بھارت میں گائے کے گوشت کا سب سے بڑا ایکسپورٹر ''الدعا '' نامی ادارہ ہے جو بھاری مقدار میں گائے کا حلال گوشت عرب ممالک کو برآمد کرتا ہے۔ بھارتی وزیر ِمملکت برائے امور داخلہ کرن دی جوجو اور ارونا چل پردیش کے وزیر اعلیٰ نے گائے کا گوشت کھانے کا اعتراف کیاہے۔ اسے کہتے ہیں ''بغل میں چھری منہ میں رام رام ''۔ بابری مسجد کو شہید کر کے رام مندر تعمیر کرنے والے بہروپیوں کا یہ ہے اصل بے نقاب چہرہ۔ چلتے چلتے اس حقیقت کا بھی انکشاف کہ بھارت میں گائے کا گوشت کھانے والے ہندوؤں کی تعداد 12.5 ملین کے لگ بھگ ہے۔ بیچارے مسلمان تو مفت میں بدنام ہیں۔