قومی یکجہتی اور ہمارا تعلیمی نصاب
آج کل ہمارا محکمہ تعلیم بھی ایک یکساں بہتر اور جدید نصابِ تعلیم کی تشکیل اور اس کو نافذ کرنے کی اسٹیج میں ہے۔
میں گزشتہ دو دن سے کراچی میں ہوں اور ایک پراجیکٹ کے سلسلے میں ایسے اصحاب سے ملاقاتیں کر رہا ہوں جو سقوطِ ڈھاکہ کے ہنگام میں وہاں تھے اور اُنہوں نے اپنی آنکھوں کے سامنے انسانی شقاوت اور سنگدلی کے وہ مظاہر دیکھے جن کو سوچنے سے صرف رُوح ہی نہیں کانپتی بلکہ انسانیت سے بھی ایمان اُٹھ سا جاتا ہے۔ بد قسمتی سے آج کے پاکستان اور اس وقت کے مغربی پاکستان کے عوام تو کیا چند ایک کو چھوڑ کر خواص کو بھی یہ علم نہیں تھا کہ وہاں کیا ہو رہا ہے اور کیوں ہو رہا ہے۔
خود ہماری نسل کی جو یونیورسٹیوں سے فارغ ہو چکی تھی اور عُرفِ عام میں تعلیم یافتہ اور باخبر کہلاتی تھی بے خبری کا یہ عالم تھا کہ ہماری معلومات کا اول و آخر میڈیا سے ملنے والی وہ اطلاعات تھیں جن میں سچ کے علاوہ سب کچھ ہوتا تھا۔ اگلے سال یعنی 2021 میں اس واقعے کو 50 برس ہو جائیں گے۔
اس دوران میں مختلف ذرائع سے اس کے محرکاّت، نوعیت اور تاریخی عوامل کے بارے میں مغربی پاکستان کی حکومت اور اشرافیہ کی غلطیوں سمیت بہت سی باتیں سامنے آ چکی ہیں اور بنگلہ دیشی قیادت اور بھارتی فوج اور ایجنسیوں کے ذریعے پھیلائی گئی بہت سی افواہوں اور پروپیگنڈے کے پردے بھی چاک ہو چکے ہیں کہ اور تو اور بھارت سے تعلق رکھنے و الے بہت سے ماہرین اور مبصرین نے بھی بہت واضح طور پر اور ٹھوس ثبوتوں کے ساتھ یہ بتا دیا ہے کہ خرابی کے اس منظرنامے میں مغربی پاکستان کے حاکم طبقے اور سیاست دانوں کی ذمے داری کو اگر بیس فیصد مان لیا جائے تو باقی کے اَسی فیصد میں تیس فیصد رول بنگلہ دیشی شدت پسندوں، سیاستدانوں اور مکتی باہنی کا تھا جب کہ باقی کے پچاس فیصد کی ذمے داری صرف اور صرف بھارت اور اُس کی ایجنسیوں پر عائد ہوتی ہے اور کہ اس کی باقاعدہ ابتداء 1952 کے لسانی فسادات سے ہوئی تھی جن سے پیدا ہونے والی نفرت، مایوسی، بد اعتمادی اور غصے کو زندہ رکھنے اور بڑھاوا دینے کا کام اس ہوشیاری اور تسلسل سے کیا گیا کہ وہ ڈھاکہ جہاں1906میں اُس مسلم لیگ کا قیام عمل میں آیا تھا جس کی جدوجہد کے نتیجے میں مسلمان آبادی کی اکثریت کے حامل یہ دونوں ملک آزاد ہوئے تھے وہی ان کو ایک دوسرے سے جُدا کرنے کے عمل کا مرکز و محور بن گیا۔
اس کے بعد کیا ہوا اس کہانی کے مرکزی کردارکون کون تھے اس کے بارے میں بہت کچھ لکھا جا چکا ہے لیکن مرکزی حکومت اور مشرقی پاکستان کی تمام شکائتوں کو اگر ایک جگہ جمع کر لیا جائے تب بھی ان کی اہمیت ایک درمیانہ درجے کے گھریلو جھگڑے سے زیادہ نہ ہوتی۔
اگر وقت پر بھارت کی تخریبی سازشوں اور اُس کے طریقہ کار کو سمجھ کر اُس کا کوئی سدِّباب کر لیا جاتا، بنگالی بھائیوں کی تہذیب اور تاریخ میں وہاں کے ہندؤوں کے اثرات اپنی جگہ کہ ان سے انکار ممکن نہیں لیکن جب تقسیم اور آزاد وطن کے قیام کی بنیاد ہی اُن کے تسلّط اور غلامی کے خدشے سے آزادی ہو تو اصولاً یہ اثر بڑھنے کے بجائے کم ہوتے چلا جانا چاہیے تھا مگر ہوا اس کے بالکل اُلٹ اور یہی وہ سوال تھا جو میں نے اپنے ہر ملاقاتی سے کیا اور واضح رہے کہ ان لوگوں میں ڈاکٹر جنید احمد جیسے نامور اسکالر اور ماہرِ مضمون کے ساتھ ساتھ کئی ایسے اصحاب بھی تھے جو اس سارے عمل کے چشم دید گواہ تھے اور ان میں کچھ ایسے لوگ بھی تھے جن کے جسموں پر آج بھی اُن خوفناک زخموں کے نشانات موجود ہیں جو صرف ارد گرد پھیلی ہوئی بے شمار لاشوں کے نیچے دبنے کی وجہ سے زندہ بچ گئے تھے۔
یہ قتل و غارت اور بر بریت اس قدر سفاکانہ تھی کہ بعض صورتوں میں چنگیز اور ہلاکو کے ساتھی منگول اور تاتاری بھی ''یا اُستاد'' کہہ کر پیچھے ہٹ جاتے لیکن فی الوقت یہ میرا موضوع نہیں کہ میرا سوال اُس ذہنیت کے تشکیلی عناصر کے متعلق تھا جس نے مسکینی کی حد تک امن پسند بنگالیوں کے ایک گروہ کو صرف زبان کے فرق اور پیدائشی بنگالی نہ ہونے کی وجہ سے اپنے ہی ہم وطنوں کو اس طرح سے ہلاک کیا کہ کئی کئی ہزار کی آبادیوں میں پندرہ سولہ سال کی عمر سے بڑا ایک بھی مرد زندہ نہ بچا اور کوئی جوان عورت ایسی نہ تھی جسے گینگ ریپ کا نشانہ نہ بنایا گیا ہو ۔
کُھلے میدانوں میں سیکڑوں کے حساب سے مردوں کو اُن کے بچوں اور بہنوں، بیویوں کی موجودگی میں خاص طور پر مہیا کی گئی تلواروں کے ذریعے بھیڑ بکریوں کی طرح سے ذبح کیا گیا اور بہت سوں کی شہ رگ کو ایک خاص انداز میں تھوڑا سا کاٹنے کے بعد تڑپ تڑپ کر مرنے کے لیے چھوڑ دیا گیا۔
اب تحقیق سے یہ ثابت ہوا ہے کہ را کے ایجنٹوں اور بھارتی فوجیوں سے قطع نظر اُن کے تربیت یافتہ مکتی باہنی کے لوگوں کی کل تعداد شائد پانچ فیصد بھی نہیں تھی جو اپنے تئیں ایک آزاد وطن کے حصول کی خاطر ان لوگوں کو پاکستانی فوج کی حمائت یا مدد کے الزام میں تہہ تیغ کر رہے تھے ان کے ساتھ پانچ فیصد غنڈے، بدمعاش اور آوارہ لوگ لُوٹ مار کی غرض سے شامل ہو گئے مگر اس کے باوجود 90% لوگ ایسے تھے جن کی اکثریت محض خوف کی وجہ سے یہ سب کچھ خاموشی سے دیکھتی رہی حالانکہ وہ نہ پاکستان کو توڑنا چاہتے تھے اور نہ ہی کسی کی جان لینا چاہتے تھے۔
یہ سارا پسِ منظر بیان کرنے کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ ایک ایسے عنصر کی نشاندہی کی جا سکے جس نے مشرقی پاکستان کے ایک عام اور بالخصوص پڑھے لکھے نوجوان کو مکتی باہنی کا آزادی پسند مگر دہشت گرد اور باقیوں کو ہمدرد یا خاموش تماشائی بننے پر مجبور کر دیا اور یہ عنصر وہاں کا وہ نصابِ تعلیم تھا جسے ہندو اساتذہ نے بنایا اور پڑھایا اور اس میں نفرت اور بے سمتی کے زہر کی ماہرانہ آمیزش اور اس کے پھیلاؤ کو آسان اور وسیع تر بنانے کا کام بھارت کی ایجنسیوں اور اُن کے تھنک ٹینکس نے سر انجام دیا۔
مثال کے طور پر 1969 میں ایک تحریک چلائی گئی کہ مطالعہ پاکستان کا مضمون بہت مشکل ا ور بے لُطف ہے اور اس میں بنگال کو نسبتاً کم جگہ دی گئی ہے، اطلاعات کے مطابق دو روپے قیمت کی ا س کتاب کو ایک دم پورے ملک سے اُٹھاکر غائب کروا دیا گیا اور اُس کی جگہ ایک روپے قیمت کی سستی مگر ہندو ستانی تاریخ، تہذیب اور روایات سے پُر ایک ایسی کتاب رائج کر دی گئی جو شائع ہی کلکتہ سے ہوئی تھی۔
اسی طرح اسکول میں کمروں کی دیواروں پر ٹیگور اور دیگر بنگالی مشاہیر کے ساتھ ساتھ بھارتی دیوی دیوتاؤں اور ہیروز کی تصاویر لگائی جاتی تھیں اور اساتذہ بھی آنے بہانے ہر مضمون میں ان کو پروموٹ اور قیام پاکستان اور تقسیم کی برائیاں ایسے ماہرانہ انداز میں اور معاشرے میں موجود روزمرہ کی شکایات کے حوالے سے بیان کرتے تھے کہ بنگالی قومیت کی انفرادیت اور حق تلفی کے معاملات کو زیادہ سے زیادہ ہوا دے کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کی جائے کہ اُن کے اصلی ساتھی مغربی یعنی ہندوستانی بنگال کے لوگ ہیں نہ کہ ایک ہزار میل دُور بسنے والے وہ ظالم اور بے انصاف لوگ جن کے ساتھ وہ خوامخواہ ایک رشتے میں بندھ گئے ہیں۔
یہ معاملہ بہت گہرا سنجیدہ اور تحقیق طلب ہے لیکن اس وقت اس پر بات کرنے کی فوری وجہ یہ بنی کہ آج کل ہمارا محکمہ تعلیم بھی ایک یکساں بہتر اور جدید نصابِ تعلیم کی تشکیل اور اس کو نافذ کرنے کی اسٹیج میں ہے، سو یہ بات انتہائی ضروری ہے کہ وطنِ عزیز کے تمام حصوں کے عوام اُن کے کلچر، روایات، ہیروز اور قومی دھارے کے ساتھ اُن کی وابستگی کے مضامین اور معاملات کو بہت احتیاط اور انصاف کے ساتھ اس کا حصہ بنایا جائے اور علم اور انصاف کے ساتھ ساتھ محبت اور یگانگت کے جذبات کو فروغ دیا جائے تاکہ ہمارا کوئی بھی دشمن اس ضمن میں ہماری غفلت اور غیر ذمے داری سے فائدہ نہ اُٹھا سکے۔
خود ہماری نسل کی جو یونیورسٹیوں سے فارغ ہو چکی تھی اور عُرفِ عام میں تعلیم یافتہ اور باخبر کہلاتی تھی بے خبری کا یہ عالم تھا کہ ہماری معلومات کا اول و آخر میڈیا سے ملنے والی وہ اطلاعات تھیں جن میں سچ کے علاوہ سب کچھ ہوتا تھا۔ اگلے سال یعنی 2021 میں اس واقعے کو 50 برس ہو جائیں گے۔
اس دوران میں مختلف ذرائع سے اس کے محرکاّت، نوعیت اور تاریخی عوامل کے بارے میں مغربی پاکستان کی حکومت اور اشرافیہ کی غلطیوں سمیت بہت سی باتیں سامنے آ چکی ہیں اور بنگلہ دیشی قیادت اور بھارتی فوج اور ایجنسیوں کے ذریعے پھیلائی گئی بہت سی افواہوں اور پروپیگنڈے کے پردے بھی چاک ہو چکے ہیں کہ اور تو اور بھارت سے تعلق رکھنے و الے بہت سے ماہرین اور مبصرین نے بھی بہت واضح طور پر اور ٹھوس ثبوتوں کے ساتھ یہ بتا دیا ہے کہ خرابی کے اس منظرنامے میں مغربی پاکستان کے حاکم طبقے اور سیاست دانوں کی ذمے داری کو اگر بیس فیصد مان لیا جائے تو باقی کے اَسی فیصد میں تیس فیصد رول بنگلہ دیشی شدت پسندوں، سیاستدانوں اور مکتی باہنی کا تھا جب کہ باقی کے پچاس فیصد کی ذمے داری صرف اور صرف بھارت اور اُس کی ایجنسیوں پر عائد ہوتی ہے اور کہ اس کی باقاعدہ ابتداء 1952 کے لسانی فسادات سے ہوئی تھی جن سے پیدا ہونے والی نفرت، مایوسی، بد اعتمادی اور غصے کو زندہ رکھنے اور بڑھاوا دینے کا کام اس ہوشیاری اور تسلسل سے کیا گیا کہ وہ ڈھاکہ جہاں1906میں اُس مسلم لیگ کا قیام عمل میں آیا تھا جس کی جدوجہد کے نتیجے میں مسلمان آبادی کی اکثریت کے حامل یہ دونوں ملک آزاد ہوئے تھے وہی ان کو ایک دوسرے سے جُدا کرنے کے عمل کا مرکز و محور بن گیا۔
اس کے بعد کیا ہوا اس کہانی کے مرکزی کردارکون کون تھے اس کے بارے میں بہت کچھ لکھا جا چکا ہے لیکن مرکزی حکومت اور مشرقی پاکستان کی تمام شکائتوں کو اگر ایک جگہ جمع کر لیا جائے تب بھی ان کی اہمیت ایک درمیانہ درجے کے گھریلو جھگڑے سے زیادہ نہ ہوتی۔
اگر وقت پر بھارت کی تخریبی سازشوں اور اُس کے طریقہ کار کو سمجھ کر اُس کا کوئی سدِّباب کر لیا جاتا، بنگالی بھائیوں کی تہذیب اور تاریخ میں وہاں کے ہندؤوں کے اثرات اپنی جگہ کہ ان سے انکار ممکن نہیں لیکن جب تقسیم اور آزاد وطن کے قیام کی بنیاد ہی اُن کے تسلّط اور غلامی کے خدشے سے آزادی ہو تو اصولاً یہ اثر بڑھنے کے بجائے کم ہوتے چلا جانا چاہیے تھا مگر ہوا اس کے بالکل اُلٹ اور یہی وہ سوال تھا جو میں نے اپنے ہر ملاقاتی سے کیا اور واضح رہے کہ ان لوگوں میں ڈاکٹر جنید احمد جیسے نامور اسکالر اور ماہرِ مضمون کے ساتھ ساتھ کئی ایسے اصحاب بھی تھے جو اس سارے عمل کے چشم دید گواہ تھے اور ان میں کچھ ایسے لوگ بھی تھے جن کے جسموں پر آج بھی اُن خوفناک زخموں کے نشانات موجود ہیں جو صرف ارد گرد پھیلی ہوئی بے شمار لاشوں کے نیچے دبنے کی وجہ سے زندہ بچ گئے تھے۔
یہ قتل و غارت اور بر بریت اس قدر سفاکانہ تھی کہ بعض صورتوں میں چنگیز اور ہلاکو کے ساتھی منگول اور تاتاری بھی ''یا اُستاد'' کہہ کر پیچھے ہٹ جاتے لیکن فی الوقت یہ میرا موضوع نہیں کہ میرا سوال اُس ذہنیت کے تشکیلی عناصر کے متعلق تھا جس نے مسکینی کی حد تک امن پسند بنگالیوں کے ایک گروہ کو صرف زبان کے فرق اور پیدائشی بنگالی نہ ہونے کی وجہ سے اپنے ہی ہم وطنوں کو اس طرح سے ہلاک کیا کہ کئی کئی ہزار کی آبادیوں میں پندرہ سولہ سال کی عمر سے بڑا ایک بھی مرد زندہ نہ بچا اور کوئی جوان عورت ایسی نہ تھی جسے گینگ ریپ کا نشانہ نہ بنایا گیا ہو ۔
کُھلے میدانوں میں سیکڑوں کے حساب سے مردوں کو اُن کے بچوں اور بہنوں، بیویوں کی موجودگی میں خاص طور پر مہیا کی گئی تلواروں کے ذریعے بھیڑ بکریوں کی طرح سے ذبح کیا گیا اور بہت سوں کی شہ رگ کو ایک خاص انداز میں تھوڑا سا کاٹنے کے بعد تڑپ تڑپ کر مرنے کے لیے چھوڑ دیا گیا۔
اب تحقیق سے یہ ثابت ہوا ہے کہ را کے ایجنٹوں اور بھارتی فوجیوں سے قطع نظر اُن کے تربیت یافتہ مکتی باہنی کے لوگوں کی کل تعداد شائد پانچ فیصد بھی نہیں تھی جو اپنے تئیں ایک آزاد وطن کے حصول کی خاطر ان لوگوں کو پاکستانی فوج کی حمائت یا مدد کے الزام میں تہہ تیغ کر رہے تھے ان کے ساتھ پانچ فیصد غنڈے، بدمعاش اور آوارہ لوگ لُوٹ مار کی غرض سے شامل ہو گئے مگر اس کے باوجود 90% لوگ ایسے تھے جن کی اکثریت محض خوف کی وجہ سے یہ سب کچھ خاموشی سے دیکھتی رہی حالانکہ وہ نہ پاکستان کو توڑنا چاہتے تھے اور نہ ہی کسی کی جان لینا چاہتے تھے۔
یہ سارا پسِ منظر بیان کرنے کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ ایک ایسے عنصر کی نشاندہی کی جا سکے جس نے مشرقی پاکستان کے ایک عام اور بالخصوص پڑھے لکھے نوجوان کو مکتی باہنی کا آزادی پسند مگر دہشت گرد اور باقیوں کو ہمدرد یا خاموش تماشائی بننے پر مجبور کر دیا اور یہ عنصر وہاں کا وہ نصابِ تعلیم تھا جسے ہندو اساتذہ نے بنایا اور پڑھایا اور اس میں نفرت اور بے سمتی کے زہر کی ماہرانہ آمیزش اور اس کے پھیلاؤ کو آسان اور وسیع تر بنانے کا کام بھارت کی ایجنسیوں اور اُن کے تھنک ٹینکس نے سر انجام دیا۔
مثال کے طور پر 1969 میں ایک تحریک چلائی گئی کہ مطالعہ پاکستان کا مضمون بہت مشکل ا ور بے لُطف ہے اور اس میں بنگال کو نسبتاً کم جگہ دی گئی ہے، اطلاعات کے مطابق دو روپے قیمت کی ا س کتاب کو ایک دم پورے ملک سے اُٹھاکر غائب کروا دیا گیا اور اُس کی جگہ ایک روپے قیمت کی سستی مگر ہندو ستانی تاریخ، تہذیب اور روایات سے پُر ایک ایسی کتاب رائج کر دی گئی جو شائع ہی کلکتہ سے ہوئی تھی۔
اسی طرح اسکول میں کمروں کی دیواروں پر ٹیگور اور دیگر بنگالی مشاہیر کے ساتھ ساتھ بھارتی دیوی دیوتاؤں اور ہیروز کی تصاویر لگائی جاتی تھیں اور اساتذہ بھی آنے بہانے ہر مضمون میں ان کو پروموٹ اور قیام پاکستان اور تقسیم کی برائیاں ایسے ماہرانہ انداز میں اور معاشرے میں موجود روزمرہ کی شکایات کے حوالے سے بیان کرتے تھے کہ بنگالی قومیت کی انفرادیت اور حق تلفی کے معاملات کو زیادہ سے زیادہ ہوا دے کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کی جائے کہ اُن کے اصلی ساتھی مغربی یعنی ہندوستانی بنگال کے لوگ ہیں نہ کہ ایک ہزار میل دُور بسنے والے وہ ظالم اور بے انصاف لوگ جن کے ساتھ وہ خوامخواہ ایک رشتے میں بندھ گئے ہیں۔
یہ معاملہ بہت گہرا سنجیدہ اور تحقیق طلب ہے لیکن اس وقت اس پر بات کرنے کی فوری وجہ یہ بنی کہ آج کل ہمارا محکمہ تعلیم بھی ایک یکساں بہتر اور جدید نصابِ تعلیم کی تشکیل اور اس کو نافذ کرنے کی اسٹیج میں ہے، سو یہ بات انتہائی ضروری ہے کہ وطنِ عزیز کے تمام حصوں کے عوام اُن کے کلچر، روایات، ہیروز اور قومی دھارے کے ساتھ اُن کی وابستگی کے مضامین اور معاملات کو بہت احتیاط اور انصاف کے ساتھ اس کا حصہ بنایا جائے اور علم اور انصاف کے ساتھ ساتھ محبت اور یگانگت کے جذبات کو فروغ دیا جائے تاکہ ہمارا کوئی بھی دشمن اس ضمن میں ہماری غفلت اور غیر ذمے داری سے فائدہ نہ اُٹھا سکے۔