دفاعِ وطن کا آخری مورچہ
ملک میں سیاسی جماعتوں میں تخریبی اور تعمیری عمل جاری رہتا ہے اور اس کے پیچھے کچھ قوتیں بھی کارفرما ہوتی ہیں
یہ عجیب اتفاق ہے کہ ملک میں سیاسی جماعتوں میں تخریبی اور تعمیری عمل جاری رہتا ہے اور اس کے پیچھے کچھ قوتیں بھی کارفرما ہوتی ہیں لیکن ایم کیو ایم کا معاملہ بالکل ہٹ کر ہے۔ ا ب تک ایم کیو ایم کے خلاف جو سازشیں بھی ہوئیں، ان کا محور صرف یہ تھا کہ کسی طریقے سے الطاف حسین کو یا تو قیادت سے ہٹایاجائے یا پھر انھیں دستبردار کرایاجائے۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں کسی اور لیڈر کے متعلق ہمیں ایسی کوئی معلومات دستیاب نہیں جسے ہٹانے کے لیے پیسے کا بے دریغ استعمال ریاستی طاقت کے ذریعے قتل و غارتگری مچانے اور سیاسی جماعت کے دفاتر پر حملے اور قبضے تک کرائے گئے۔
ان تمام کوششوں کے باوجود الطاف حسین کو قیادت سے ہٹانے کی کوئی کوشش کامیاب نہ ہوسکی۔ اس تناظر میں سوال یہ اٹھتا ہے کہ آخر الطاف حسین ہی ہدف کیوں بنتے ہیں۔ آج وہ کردار زندہ ہیں جو بریف کیس بھر کر پیسے لائے تھے اور الطاف حسین کو مقصد سے ہٹانے یا باالفاظِ دیگر اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنا چاہتے تھے لیکن اس شخصیت نے کمال استقامت کے ساتھ اس وقت کے زمینی خداؤں کو انکارکرکے اس نظام کے خلاف علمِ بغاوت بلند کیا تھا۔ پاکستان کی پوری تاریخ میں اگر کسی شخصیت نے سیاست میں سرکاری ایجنسیوں کے کردار کو بے نقاب کیا تو وہ شخصیت الطاف حسین کی ہے۔ اگر آج 2013ء میں اصغر خان کیس میں ان کرداروں میں سے کچھ کو بے نقاب کیا تو یہ اسی شخصیت کی جدوجہد کا ثمر تھا جس نے ان سازشوں کو اپنی جدوجہد کے آغاز پر ہی عوام کے سامنے بے نقاب کردیا تھا۔
یہی نہیں بلکہ یہ وہ شخصیت ہے جس نے ایوانوں میں ان لوگوں کو بھیجا جن کا عوام سے وعدہ کیا تھا۔ یہاں تک کہ مخصوص نشستوں پر بھی ان کارکنوں کا انتخاب کیا جو اس جدوجہد میں اس کے ہمرکاب رہے۔ اس کے برعکس ہم دیکھتے ہیں کہ دیگر سیاسی جماعتوں کے قائدین کے خاندان مخصوص نشستوں پر ایوان زیریں اور ایوانِ بالا تک جا پہنچے۔ ملک میں موروثیت اور خاندانی جاہ و حشم کو چیلنج کرکے الطاف حسین نے وہ علم بلند کیا جو اس سے قبل کسی نے نہیں کیا دریاں بچھانے والے اور نعرہ لگانے والے کارکنان کو بااختیار بنا کر عوام کے مسائل حل کرنے کے لیے منتخب کرایا اور ان لوگوں کے برابر بٹھا دیا جو انھیں اپنے کمداراور منشی سمجھتے تھے اور اپنے برابر کی نشست پر بٹھانا ان کی نظر میں توہین تھی۔
یہ انقلاب برپا کر کے رائج نظام میں دراڑیں ڈال دیں جو بانیانِ پاکستان کا قتل اور ان کو دیوار سے لگا کر نافذ کیا گیا تھا جس میں عوام کا بول بالا نہ تھا بلکہ مخصوص شخصیات اور اداروں کو استعمال کرکے ماضی کے طالع آزماؤں نے ایک ایک دہائی پر محیط اپنے اقتدار کو طول دیا اور سیاہ و سفید کے مالک رہے تو آج اگر مائنس الطاف حسین کا فارمولا متحرک ہوا ہے تو اس کے پیچھے بھی کوئی بڑی سازش کارفرما ہے جو اقتدار کے ایوانوں میں تبدیلی لا کر اپنے مذموم مقاصد کو پورا کرنا چاہتی ہے اور اس کے لیے رائے عامہ کو ہموار کر رہی ہے لیکن اس جماعت کے کارکنوں نے اپنی استقامت اور قربانیوں کے جذبے کے سہارے ہر اس سازش کو ناکام بنایا جس نے الطاف حسین کو ہٹانے یا اس کا راستہ روکنے کی کوشش کی۔
پاکستان میں موجود متوازی حکومتوں کے روحِ رواں اس کوشش میں آج بھی لگے ہوئے ہیں کہ کسی طریقے سے اس سیاسی جماعت کو کمزور کرکے اس شورش کا راستہ کھولا جائے جس کے تحت ملک کو بلقان کی طرز پر کئی حصوں میں تقسیم کیاجاسکتا ہے۔ اس ضمن میں کئی مقدمات بھی عدالت عظمیٰ کے روبرو موجود ہیں۔ اگر وہ ان کی سماعت کرے تو یہ سازشیں بے نقاب ہوسکتی ہیں، اس کے تحت صوبہ بلوچستان کا علیحدہ کیاجانا، گریٹر پنجاب کے تصور کو عملی جامہ پہنانا اور سندھ کے اندر لسانیت کے نام پر خون خرابہ کرکے کراچی کو مواصلاتی طور پر کنٹرول کرنے کی سازش کو بھی روبہ عمل لانا شامل ہے۔ تاریخ کا آزاد مؤرخ اس حقیقت کو ضرور رقم کریگا کہ الطاف حسین پاکستان کی بلقانیت کی راہ میں سب سے مضبوط مورچہ ہیں اور وہ آخری وقت تک اس پاکستان کو بچانے کی کوشش کرتے رہیں گے جو ان کے اجداد نے لاکھوں جانوں کے نذرانے دے کر حاصل کیا تھا۔ یہ باور رہے کہ مائنس الطاف حسین عوام کو نہ کل قبول تھا اور نہ آج قبول ہے اور نہ ہی مستقبل میں قابل قبول ہوگا۔
ان تمام کوششوں کے باوجود الطاف حسین کو قیادت سے ہٹانے کی کوئی کوشش کامیاب نہ ہوسکی۔ اس تناظر میں سوال یہ اٹھتا ہے کہ آخر الطاف حسین ہی ہدف کیوں بنتے ہیں۔ آج وہ کردار زندہ ہیں جو بریف کیس بھر کر پیسے لائے تھے اور الطاف حسین کو مقصد سے ہٹانے یا باالفاظِ دیگر اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنا چاہتے تھے لیکن اس شخصیت نے کمال استقامت کے ساتھ اس وقت کے زمینی خداؤں کو انکارکرکے اس نظام کے خلاف علمِ بغاوت بلند کیا تھا۔ پاکستان کی پوری تاریخ میں اگر کسی شخصیت نے سیاست میں سرکاری ایجنسیوں کے کردار کو بے نقاب کیا تو وہ شخصیت الطاف حسین کی ہے۔ اگر آج 2013ء میں اصغر خان کیس میں ان کرداروں میں سے کچھ کو بے نقاب کیا تو یہ اسی شخصیت کی جدوجہد کا ثمر تھا جس نے ان سازشوں کو اپنی جدوجہد کے آغاز پر ہی عوام کے سامنے بے نقاب کردیا تھا۔
یہی نہیں بلکہ یہ وہ شخصیت ہے جس نے ایوانوں میں ان لوگوں کو بھیجا جن کا عوام سے وعدہ کیا تھا۔ یہاں تک کہ مخصوص نشستوں پر بھی ان کارکنوں کا انتخاب کیا جو اس جدوجہد میں اس کے ہمرکاب رہے۔ اس کے برعکس ہم دیکھتے ہیں کہ دیگر سیاسی جماعتوں کے قائدین کے خاندان مخصوص نشستوں پر ایوان زیریں اور ایوانِ بالا تک جا پہنچے۔ ملک میں موروثیت اور خاندانی جاہ و حشم کو چیلنج کرکے الطاف حسین نے وہ علم بلند کیا جو اس سے قبل کسی نے نہیں کیا دریاں بچھانے والے اور نعرہ لگانے والے کارکنان کو بااختیار بنا کر عوام کے مسائل حل کرنے کے لیے منتخب کرایا اور ان لوگوں کے برابر بٹھا دیا جو انھیں اپنے کمداراور منشی سمجھتے تھے اور اپنے برابر کی نشست پر بٹھانا ان کی نظر میں توہین تھی۔
یہ انقلاب برپا کر کے رائج نظام میں دراڑیں ڈال دیں جو بانیانِ پاکستان کا قتل اور ان کو دیوار سے لگا کر نافذ کیا گیا تھا جس میں عوام کا بول بالا نہ تھا بلکہ مخصوص شخصیات اور اداروں کو استعمال کرکے ماضی کے طالع آزماؤں نے ایک ایک دہائی پر محیط اپنے اقتدار کو طول دیا اور سیاہ و سفید کے مالک رہے تو آج اگر مائنس الطاف حسین کا فارمولا متحرک ہوا ہے تو اس کے پیچھے بھی کوئی بڑی سازش کارفرما ہے جو اقتدار کے ایوانوں میں تبدیلی لا کر اپنے مذموم مقاصد کو پورا کرنا چاہتی ہے اور اس کے لیے رائے عامہ کو ہموار کر رہی ہے لیکن اس جماعت کے کارکنوں نے اپنی استقامت اور قربانیوں کے جذبے کے سہارے ہر اس سازش کو ناکام بنایا جس نے الطاف حسین کو ہٹانے یا اس کا راستہ روکنے کی کوشش کی۔
پاکستان میں موجود متوازی حکومتوں کے روحِ رواں اس کوشش میں آج بھی لگے ہوئے ہیں کہ کسی طریقے سے اس سیاسی جماعت کو کمزور کرکے اس شورش کا راستہ کھولا جائے جس کے تحت ملک کو بلقان کی طرز پر کئی حصوں میں تقسیم کیاجاسکتا ہے۔ اس ضمن میں کئی مقدمات بھی عدالت عظمیٰ کے روبرو موجود ہیں۔ اگر وہ ان کی سماعت کرے تو یہ سازشیں بے نقاب ہوسکتی ہیں، اس کے تحت صوبہ بلوچستان کا علیحدہ کیاجانا، گریٹر پنجاب کے تصور کو عملی جامہ پہنانا اور سندھ کے اندر لسانیت کے نام پر خون خرابہ کرکے کراچی کو مواصلاتی طور پر کنٹرول کرنے کی سازش کو بھی روبہ عمل لانا شامل ہے۔ تاریخ کا آزاد مؤرخ اس حقیقت کو ضرور رقم کریگا کہ الطاف حسین پاکستان کی بلقانیت کی راہ میں سب سے مضبوط مورچہ ہیں اور وہ آخری وقت تک اس پاکستان کو بچانے کی کوشش کرتے رہیں گے جو ان کے اجداد نے لاکھوں جانوں کے نذرانے دے کر حاصل کیا تھا۔ یہ باور رہے کہ مائنس الطاف حسین عوام کو نہ کل قبول تھا اور نہ آج قبول ہے اور نہ ہی مستقبل میں قابل قبول ہوگا۔