رہے سلامت سندھ کی دھرتی
سندھ کی دھرتی محبت کی دھرتی جس کا کردار ان انصار مدینہ کی طرح ہے جس نے ہزاروں مہاجرین کے لیے ۔۔۔
KARACHI:
سندھ کی دھرتی محبت کی دھرتی جس کا کردار ان انصار مدینہ کی طرح رہا ہے جس نے انڈیا سے آنے والے ہزاروں مہاجرین کے لیے اپنی بانھیں ایسے کھول دیں جیسے ان ہی کی منتظر تھیں۔ان ہی لٹے پٹے آنیوالے قافلوں میں ایک گھرانہ ہمارا بھی تھا جوکہ انڈیا کے ضلع یوپی سے ہجرت کرکے لب مہران کوٹری آ پہنچا۔ ریلوے اسٹیشن گو کہ اجنبی تھا مگر کوئی تو کشش تھی جو انجان شہر میں کھینچ لائی تھی۔ پھر نئے شہر کا سفر ٹانگے کے ذریعے شروع ہوا جو شہر کے وسط میں جاکر ختم ہوا اور یہ سہوانی محلہ تھا۔
ابھی قافلے والوں کا سامان اترا ہی تھا کہ سندھ کے عظیم سردار مرحوم ملک سکندر کے یہاں سے آنے والے مہاجر خاندان کے لیے اس دھرتی پر پہلا کھانا آگیا۔ یہ عظیم سندھ کی دھرتی کی مہمان نوازی کی ایک مثال تھی اور ایسی ان گنت مثالیں سندھ کے قدیم باسیوں نے رقم کی تھیں اور اسی محبت کے رشتے نے ہمارے جیسے لوگوں کو اپنا اسیر کر لیا تھا۔شاید یہ کمال ''سندھو ندی'' کا بھی ہے جس کا پانی آپ اپنی مثال آپ ہے۔ میرے ماضی کی حسین یادیں دریائے سندھ کے ساتھ ہیں۔ میرا بچپن دریائے سندھ کے ساتھ کھیلتے ہوئے گزرا ہے۔ اپنی سہیلیوں کے ہمراہ دوپٹے کے ذریعے مچھلی کا شکار کرتے ہوئے ہم کس قدر خوش ہوتے تھے اس کا اندازہ شاید آج انٹرنیٹ کے دور کے بچے نہیں کرسکتے۔
میرے شہر کی واحد تفریح گاہ یہی دریائے سندھ ہے۔ میرے خاندان کے لوگ جب کوٹری آئے تو ہم انھیں گھمانے اسی دریائے سندھ لے جاتے تھے اور جب کشتی میں بیٹھ کر گھومتے تو یہی خیال آتا تھا کہ سب ہم ہی اس دریا کے والی وارث ہیں۔ ہمیں اور ہمارے شہر کے لوگوں کو اس دریا سے کبھی ڈر نہیں لگا اس لیے بپھرتا دریا بھی یہاں آکر پرسکون ہوجاتا ہے جس طرح سندھ میں رہنے والے کے دل میں سندھ کی دھرتی اور سندھو دھرتی کی محبت ہوتی ہے اسی طرح ''سندھی پلا'' اور اجرک بھی یہاں کے رہنے والوں کی پسند ہے۔ ''اجرک'' جسے اس کے تخلیق کردہ نے ڈھیر سارے گلابوں کا رنگ دیدیا اور امن کی علامت سفید رنگ کو نیلے آفاقی رنگ میں سما دیا ہے۔میرے والد محترم کے انتقال کے بعد ان کے زیر استعمال اشیا میں سے ایک اجرک تھی جو ان کا خزانہ تھی، جو آج بھی میرے پاس ہے۔یہی ساری روایات ہیں جو مجھے اور میرے جیسے لوگوں کو مجبور کرتی ہیں کہ ہم اس دھرتی میں رہنے والے اس دھرتی کا دن منائیں۔ بالکل ایسے ہی جیسے ہم بسنت مناتے ہیں ، ویلنٹائن ڈے مناتے ہیں، فادر ڈے اور مدرے ڈے مناتے ہیں۔
اسی طرح ہمیں ثقافت ڈے بھی منانا چاہیے اور نہ صرف سندھ کی بلکہ پنجاب، بلوچستان اور خیبر پختونخوا کا۔ اس نفرت بھری فضا میں ہمیں ایک دوسرے کی محبت شیئر کرنی چاہیے۔ ہمیں جس طرح سندھی، بلوچی، پنجابی، پٹھان اور مہاجر کہہ کر لڑایا جا رہا ہے ہمیں دشمنوں کی اس چال کو ناکام بنانا چاہیے۔ جس طرح خیبر پختون خوا، کی کڑائی ہمارے کھانوں میں عام ہے اسی طرح ہم ساگ اور مکئی کی روٹی بھی اپنا سکتے ہیں اور اگر روز نہیں کرسکتے تو سال کے کسی ایک دن تو کرسکتے ہیں اگر یہ غیر شرعی نہ ہو تو۔
آج کے اس تیز رفتار زمانے میں جب پوری دنیا سمٹ کر گلوبل ولیج بن گئی ہے تو ہم کب تک لڑنے کے بہانے سوچتے رہیں گے؟جس طرح سندھ نے 8 دسمبر ثقافت ڈے منانے کا اہتمام کیا ہے اسی طرح پاکستان میں رہنے والے دیگر صوبوں کو یہ اہتمام کرنا چاہیے اور اس میں بھی کوئی حرج نہیں سندھی ثقافت ڈے پنجاب، بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں بھی منایا جائے اور ان کے دن ہم یہاں منائیں۔کیوں کہ یہ ملک پاکستان ایک گلدستے کی مانند ہے جس میں ہر طرح کے پھول ہیں۔ اکٹھے ہیں تو گلدستہ ہیں جدا ہیں تو تب بھی سب کے رنگ خوش نما اور نرالے من بھاتے۔
سندھ کی دھرتی محبت کی دھرتی جس کا کردار ان انصار مدینہ کی طرح رہا ہے جس نے انڈیا سے آنے والے ہزاروں مہاجرین کے لیے اپنی بانھیں ایسے کھول دیں جیسے ان ہی کی منتظر تھیں۔ان ہی لٹے پٹے آنیوالے قافلوں میں ایک گھرانہ ہمارا بھی تھا جوکہ انڈیا کے ضلع یوپی سے ہجرت کرکے لب مہران کوٹری آ پہنچا۔ ریلوے اسٹیشن گو کہ اجنبی تھا مگر کوئی تو کشش تھی جو انجان شہر میں کھینچ لائی تھی۔ پھر نئے شہر کا سفر ٹانگے کے ذریعے شروع ہوا جو شہر کے وسط میں جاکر ختم ہوا اور یہ سہوانی محلہ تھا۔
ابھی قافلے والوں کا سامان اترا ہی تھا کہ سندھ کے عظیم سردار مرحوم ملک سکندر کے یہاں سے آنے والے مہاجر خاندان کے لیے اس دھرتی پر پہلا کھانا آگیا۔ یہ عظیم سندھ کی دھرتی کی مہمان نوازی کی ایک مثال تھی اور ایسی ان گنت مثالیں سندھ کے قدیم باسیوں نے رقم کی تھیں اور اسی محبت کے رشتے نے ہمارے جیسے لوگوں کو اپنا اسیر کر لیا تھا۔شاید یہ کمال ''سندھو ندی'' کا بھی ہے جس کا پانی آپ اپنی مثال آپ ہے۔ میرے ماضی کی حسین یادیں دریائے سندھ کے ساتھ ہیں۔ میرا بچپن دریائے سندھ کے ساتھ کھیلتے ہوئے گزرا ہے۔ اپنی سہیلیوں کے ہمراہ دوپٹے کے ذریعے مچھلی کا شکار کرتے ہوئے ہم کس قدر خوش ہوتے تھے اس کا اندازہ شاید آج انٹرنیٹ کے دور کے بچے نہیں کرسکتے۔
میرے شہر کی واحد تفریح گاہ یہی دریائے سندھ ہے۔ میرے خاندان کے لوگ جب کوٹری آئے تو ہم انھیں گھمانے اسی دریائے سندھ لے جاتے تھے اور جب کشتی میں بیٹھ کر گھومتے تو یہی خیال آتا تھا کہ سب ہم ہی اس دریا کے والی وارث ہیں۔ ہمیں اور ہمارے شہر کے لوگوں کو اس دریا سے کبھی ڈر نہیں لگا اس لیے بپھرتا دریا بھی یہاں آکر پرسکون ہوجاتا ہے جس طرح سندھ میں رہنے والے کے دل میں سندھ کی دھرتی اور سندھو دھرتی کی محبت ہوتی ہے اسی طرح ''سندھی پلا'' اور اجرک بھی یہاں کے رہنے والوں کی پسند ہے۔ ''اجرک'' جسے اس کے تخلیق کردہ نے ڈھیر سارے گلابوں کا رنگ دیدیا اور امن کی علامت سفید رنگ کو نیلے آفاقی رنگ میں سما دیا ہے۔میرے والد محترم کے انتقال کے بعد ان کے زیر استعمال اشیا میں سے ایک اجرک تھی جو ان کا خزانہ تھی، جو آج بھی میرے پاس ہے۔یہی ساری روایات ہیں جو مجھے اور میرے جیسے لوگوں کو مجبور کرتی ہیں کہ ہم اس دھرتی میں رہنے والے اس دھرتی کا دن منائیں۔ بالکل ایسے ہی جیسے ہم بسنت مناتے ہیں ، ویلنٹائن ڈے مناتے ہیں، فادر ڈے اور مدرے ڈے مناتے ہیں۔
اسی طرح ہمیں ثقافت ڈے بھی منانا چاہیے اور نہ صرف سندھ کی بلکہ پنجاب، بلوچستان اور خیبر پختونخوا کا۔ اس نفرت بھری فضا میں ہمیں ایک دوسرے کی محبت شیئر کرنی چاہیے۔ ہمیں جس طرح سندھی، بلوچی، پنجابی، پٹھان اور مہاجر کہہ کر لڑایا جا رہا ہے ہمیں دشمنوں کی اس چال کو ناکام بنانا چاہیے۔ جس طرح خیبر پختون خوا، کی کڑائی ہمارے کھانوں میں عام ہے اسی طرح ہم ساگ اور مکئی کی روٹی بھی اپنا سکتے ہیں اور اگر روز نہیں کرسکتے تو سال کے کسی ایک دن تو کرسکتے ہیں اگر یہ غیر شرعی نہ ہو تو۔
آج کے اس تیز رفتار زمانے میں جب پوری دنیا سمٹ کر گلوبل ولیج بن گئی ہے تو ہم کب تک لڑنے کے بہانے سوچتے رہیں گے؟جس طرح سندھ نے 8 دسمبر ثقافت ڈے منانے کا اہتمام کیا ہے اسی طرح پاکستان میں رہنے والے دیگر صوبوں کو یہ اہتمام کرنا چاہیے اور اس میں بھی کوئی حرج نہیں سندھی ثقافت ڈے پنجاب، بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں بھی منایا جائے اور ان کے دن ہم یہاں منائیں۔کیوں کہ یہ ملک پاکستان ایک گلدستے کی مانند ہے جس میں ہر طرح کے پھول ہیں۔ اکٹھے ہیں تو گلدستہ ہیں جدا ہیں تو تب بھی سب کے رنگ خوش نما اور نرالے من بھاتے۔