کہاں گئی وہ گلی اور میں
میں نے سن ِ بلوغت کے بعداسی لائبریری سے ایسا ہی ایک ناول دوگناکرایہ دے کرپڑھا تواس میں بھی مرد مسلمان اورعورت ہندوتھی۔
فیس بک پر کسی نے اس سینما اسکوپ جادوئی ڈبے کی تصویر شئیر کی جس میں تین گول کھڑکیاں ہوتی تھیں اور بچے اکڑوں بیٹھ کر ان کھڑکیوں سے آنکھیں ٹکا کر اکنی کا سینما دیکھا کرتے تھے۔ ڈبے والا نیچے لگے ہینڈل سے چرخی گھماتے گھماتے بدلتی تصویروں پر رواں تبصرہ کرتا جاتا۔ افریقہ کا ہاتھی دیکھو ، آگرہ کا تاج محل دیکھو ، بارہ من کی دھوبن دیکھو، وجنتی مالا کا ناچ دیکھو، بادشاہی مسجد دیکھو ، مکہ اور مدینہ دیکھو۔رنگین مچھلی دیکھو ، خدا کی قدرت دیکھو۔
اس الف لیلوی ڈبے سے مجھے اپنی گلی یاد آگئی۔جہاں ہر وقت کچھ نہ کچھ ہوتا رہتا تھا۔جمعے کے جمعے ایک ریچھ والا آتا اور تھکن سے نڈھال ریچھ کو ڈنڈے کے اشارے پر نچاتا۔ مجھے یہ ناچ پسند نہیں تھا کیونکہ ریچھ کے نتھنوں میں ایک موٹی سی رسی ڈلی ہوتی تھی اور اس رسی سے ریچھ کی ناک زخمی اور سوجھی ہوئی رہتی تھی۔
البتہ ڈگڈگی پر بندر کا تماشا اچھا لگتا تھا۔ بندر والے کے پاس ایک بکری بھی تھی۔یہ بکری چارپائی کے سیروے پر چاروں کھرجما کے کھڑی ہو جاتی اور ہم سب تالیاں پیٹتے۔ بندر جنٹلمین کی چال چل کر دکھاتا اور پھر بکری کی پیٹھ پر کھڑا ہو کے ایک ٹانگ سے ناچتا اور پھر اسی پر سواری کرتے ہوئے ہاتھ پھیلا دیتا۔کوئی بچہ ایک پیسہ دیتا کوئی پانچ پیسے کا سکہ۔
موسم بدلتا تو سنگھاڑے والا چکر لگانے لگتا۔ اخباری کاغذ پر کالے کالے چھلے ہوئے اللے سنگھاڑوں کے سفید گودے پر نمک چھڑک کر کھانے کا مزہ۔
پھول اور پان کے ڈیزائن والے ٹین کے سانچوں میں برف کا چورہ ہاتھ سے دبا دبا کر بننے والے گولے گنڈے پر قوسِ قزح کے میٹھے شربتی رنگ چھڑکنے کا منظر اور پھر اس گولے کی ٹھنڈک سے منہ کا سن ہو جانا۔
ایک قلفی والا بھی آتا تھا جو جست کے قلفی نما سانچوں کو برف میں دبا کر لاتا اور دوسرا قلفی والا مٹکے میں سے جست کے سانچے نکال کر ان پر منڈھی ہوئی ربڑ الگ کرتا اور پھر سنگِ مرمر جیسی قلفی پیالے میں چھری سے کاٹ کر فالودے کی سویاں ڈال کے روح افزا چھڑک کے دیتا تھا۔ اور سرکنڈے کے تیلے پر چیونگم کی مرغی یا کبوتر بنا کر دینے والا منہ سے چوں چوں کی آواز بھی نکالتا تھا۔مرنڈے ، بتاشے ، اور گڑ کی میوے والی پت اور تل کے لڈو شیشے کے شو کیس میں رکھ کے ٹھیلہ کھینچنے والا ، تخمِ ملنگوسے بھرپور لال ٹھنڈا ٹھار شربت بیچنے والا، چاندی کے ورق لگی میٹھی املی میں سے دیا سلائی کی آگ سے شعلہ نکال کر بیچنے والا، ککڑیوں کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے کر کے کالی مرچ چھڑک کر دینے والا، میٹھی میٹھی مولیوں کو بیچ میں سے لمبا لمبا کاٹ کر پھول بنا کر نمک چھڑکنے والا ، برف کی آدھی سل کے اندر کے خلا اور سل کے اوپر ٹھنڈے ٹھنڈے ہرے ہرے مٹھے رکھ کر بیچنے والا عندالطلب تیز چھری سے دو حصوں میں کاٹ کاٹ کر اور کالی مرچ چھڑک کر یہ کہتے ہوئے دیتا جاتا، پیٹ کے لیے بڑا اچھا ہے ، جلدی جلدی چوس لو ورنہ کڑوا ہو جائے گا۔
اور وہ دہی بھلے والا جس نے ٹھیلے کے اردگرد ہرے سلادی پتوں کی اونچی سی باڑھ بنا رکھی تھی اور حسبِ فرمائش مصالحہ کم زیادہ کر کے دہی پھلکیاں ، چھولے کی چاٹ اور مکس پلیٹ بناتا تھا ( یہ واحد ٹھیلہ ہے جو بڑے شہروں اور قصبوں میں آج بھی زندہ ہے )۔
اور وہ نائی جو خودکش بمبار کی طرح سینے پر چمڑے کی ایک چوڑی پٹی باندھ کر آتا تھا۔اس پٹی میں قینچی ، استرا ، ناخن کاٹنے والا نیہرنا ، استرا تیز کرنے والا چمڑے کا ٹکڑا ، شیونگ برش، ایک آدھ کریم اور ڈیٹول کی شیشی اڑسی رہتی تھی۔ ہاتھ میں چھوٹی سی ڈولچی اور لکڑی کی پیڑھی ہوتی۔
ڈولچی میں وہ محلے کے کسی بھی گھر سے پانی لیتا اور جسے بھی شیو یا بال بنوانے ہوتے وہ اس پیڑھی پر بیٹھ جاتا اور نائی اکڑوں بیٹھ کر پانچ منٹ میں کام مکمل کر لیتا۔چھوٹے بچوں کی عموماً سرمنڈائی ہوتی تاکہ ہر ہفتے پندھرواڑے بال کٹوانے کی زخمت نہ ہو اور والدین کے پیسے بچیں۔نائی سر منڈائی کے بعد گنجی ٹانٹ پر ڈیٹول ملتا تو اس کی جلن سے بچہ آدھا کھڑا ہو جاتا اور اس کا منہ تکلیف سے سرخ ٹماٹر ہوجاتا، آنکھوں میں آنسو بھی آ جاتے مگر ارد گرد کھڑے بچوں کے مذاق کا خوف یا طفلانہ غیرت آنسو ٹپکنے نہیں دیتے تھے۔
گلی کے دوسرے کونے پر سائیکل پنکچر والے کی کٹیا تھی۔پنکچر سے اس کا گذارہ نہیں ہوتا تھا لہذا وہ بچوں اور بڑوں کو چار آنے گھنٹہ پر سائیکل کرائے پر دیتا تھا۔پندرہ منٹ اوپر ہونے پر وہ درگزر کر دیتا تھا البتہ آدھا گھنٹہ اوپر ہونے پر وہ پورے اضافی گھنٹے کی چونی چارج کرتا تھا۔ کرائے کی سائیکل پر صرف ایک سواری ہی بیٹھ سکتی تھی کیونکہ سائیکل کے پچھلے بمپر پر تین نوکوں والی فولادی پتری ویلڈ ہونے کے سبب اضافی سواری کا بیٹھنا ناممکن تھا۔
اسی گلی میں ایک بے روزگار نوجوان نے باہر کی طرف کھلنے والے اپنے ہی گھر کے ایک کمرے کو کرائے کی لائبریری میں بدل دیا تھا۔ اس میں جاسوسی ناول ، ڈائجسٹ اور بچوں کے رسالے رکھے جاتے تھے۔نئے ڈائجسٹ اور ناول کا کرایہ چار آنے اور پرانے کا کرایہ دو آنے فی دن تھا۔بچوں کے رسالے تو گھر میں بھی آتے تھے مگر جاسوسی ناول چھپ چھپ کے پڑھنے کا چسکا میری نسل کو ایسی ہی محلہ لائبریریوں سے پڑا۔
بہت عرصے بعد میں نے نوٹ کیا کہ کچھ پتلی پتلی کتابیں ہمارا یہ لائببریرین پلاسٹک کے ایک تھیلے میں الگ سے رکھتا ہے اور صرف چند بڑے لڑکوں کو ہی پڑھنے کے لیے دیتا ہے۔
میں چونکہ اس لائبریری سے جاسوسی ناول باقاعدہ کرائے پر لیتا تھا لہذا ایک دن میں نے جرات کر کے پوچھ ہی لیا کہ تھیلے میں کون سی کتابیں ہیں۔اس نے پہلے تو مجھے گھورا۔پھر کہا یہ کتابیں تمہارے لیے نہیں بڑے لڑکوں کے لیے ہیں اور ان کا کرایہ بھی ڈبل ہے۔ظاہر ہے میں صبر کے گھونٹ پی کر رہ گیا۔
ایک دن ہمارے اس لائبریرین کو اچانک اپنی والدہ کو ڈاکٹر کے پاس لے جانا پڑا۔اس نے مجھ سے کہا چھوٹے تو تھوڑی دیر کے لیے کرسی پر بیٹھ جا میں اماں کو دکھا کر لاتا ہوں۔میں بیٹھ گیا۔اور پھر اچانک تجسس جاگا کہ تھیلے کا راز معلوم کیا جائے۔ایک کتاب نکال کر ورق گردانی کی۔پہلے تو کچھ سمجھ میں نہ آیا۔جب اندازہ ہوا کہ یہ تو بہت گندی باتیں لکھی ہوئی ہیں تو ادھر ادھر دیکھتے ہوئے کتاب فوراً تھیلے میں رکھ دی۔مگر ایک بات پلے نہیں پڑی۔اس کتاب کے مرد کردار کا نام اسلم تھا اور عورت کا نام شکنتلا۔
جب میں نے سن ِ بلوغت کے بعد اسی لائبریری سے ایسا ہی ایک ناول دوگنا کرایہ دے کر پڑھا تو اس میں بھی مرد مسلمان اور عورت ہندو تھی۔میں نے لائبریرین سے پوچھا کہ کیا تم نے یہ بات نوٹ کی۔اس نے کہا ابے بھائی یہ ناول بٹوارے کے بعد کے قومی جوش میں لکھے گئے تھے۔اب نہیں لکھے جاتے۔تم اتنا مت سوچا کرو۔بس پڑھ کے بھول جایا کرو۔
اب نہ وہ گلی ہے ، نہ وہ کردار اور نہ وہ میں۔
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com پر کلک کیجیے )
اس الف لیلوی ڈبے سے مجھے اپنی گلی یاد آگئی۔جہاں ہر وقت کچھ نہ کچھ ہوتا رہتا تھا۔جمعے کے جمعے ایک ریچھ والا آتا اور تھکن سے نڈھال ریچھ کو ڈنڈے کے اشارے پر نچاتا۔ مجھے یہ ناچ پسند نہیں تھا کیونکہ ریچھ کے نتھنوں میں ایک موٹی سی رسی ڈلی ہوتی تھی اور اس رسی سے ریچھ کی ناک زخمی اور سوجھی ہوئی رہتی تھی۔
البتہ ڈگڈگی پر بندر کا تماشا اچھا لگتا تھا۔ بندر والے کے پاس ایک بکری بھی تھی۔یہ بکری چارپائی کے سیروے پر چاروں کھرجما کے کھڑی ہو جاتی اور ہم سب تالیاں پیٹتے۔ بندر جنٹلمین کی چال چل کر دکھاتا اور پھر بکری کی پیٹھ پر کھڑا ہو کے ایک ٹانگ سے ناچتا اور پھر اسی پر سواری کرتے ہوئے ہاتھ پھیلا دیتا۔کوئی بچہ ایک پیسہ دیتا کوئی پانچ پیسے کا سکہ۔
موسم بدلتا تو سنگھاڑے والا چکر لگانے لگتا۔ اخباری کاغذ پر کالے کالے چھلے ہوئے اللے سنگھاڑوں کے سفید گودے پر نمک چھڑک کر کھانے کا مزہ۔
پھول اور پان کے ڈیزائن والے ٹین کے سانچوں میں برف کا چورہ ہاتھ سے دبا دبا کر بننے والے گولے گنڈے پر قوسِ قزح کے میٹھے شربتی رنگ چھڑکنے کا منظر اور پھر اس گولے کی ٹھنڈک سے منہ کا سن ہو جانا۔
ایک قلفی والا بھی آتا تھا جو جست کے قلفی نما سانچوں کو برف میں دبا کر لاتا اور دوسرا قلفی والا مٹکے میں سے جست کے سانچے نکال کر ان پر منڈھی ہوئی ربڑ الگ کرتا اور پھر سنگِ مرمر جیسی قلفی پیالے میں چھری سے کاٹ کر فالودے کی سویاں ڈال کے روح افزا چھڑک کے دیتا تھا۔ اور سرکنڈے کے تیلے پر چیونگم کی مرغی یا کبوتر بنا کر دینے والا منہ سے چوں چوں کی آواز بھی نکالتا تھا۔مرنڈے ، بتاشے ، اور گڑ کی میوے والی پت اور تل کے لڈو شیشے کے شو کیس میں رکھ کے ٹھیلہ کھینچنے والا ، تخمِ ملنگوسے بھرپور لال ٹھنڈا ٹھار شربت بیچنے والا، چاندی کے ورق لگی میٹھی املی میں سے دیا سلائی کی آگ سے شعلہ نکال کر بیچنے والا، ککڑیوں کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے کر کے کالی مرچ چھڑک کر دینے والا، میٹھی میٹھی مولیوں کو بیچ میں سے لمبا لمبا کاٹ کر پھول بنا کر نمک چھڑکنے والا ، برف کی آدھی سل کے اندر کے خلا اور سل کے اوپر ٹھنڈے ٹھنڈے ہرے ہرے مٹھے رکھ کر بیچنے والا عندالطلب تیز چھری سے دو حصوں میں کاٹ کاٹ کر اور کالی مرچ چھڑک کر یہ کہتے ہوئے دیتا جاتا، پیٹ کے لیے بڑا اچھا ہے ، جلدی جلدی چوس لو ورنہ کڑوا ہو جائے گا۔
اور وہ دہی بھلے والا جس نے ٹھیلے کے اردگرد ہرے سلادی پتوں کی اونچی سی باڑھ بنا رکھی تھی اور حسبِ فرمائش مصالحہ کم زیادہ کر کے دہی پھلکیاں ، چھولے کی چاٹ اور مکس پلیٹ بناتا تھا ( یہ واحد ٹھیلہ ہے جو بڑے شہروں اور قصبوں میں آج بھی زندہ ہے )۔
اور وہ نائی جو خودکش بمبار کی طرح سینے پر چمڑے کی ایک چوڑی پٹی باندھ کر آتا تھا۔اس پٹی میں قینچی ، استرا ، ناخن کاٹنے والا نیہرنا ، استرا تیز کرنے والا چمڑے کا ٹکڑا ، شیونگ برش، ایک آدھ کریم اور ڈیٹول کی شیشی اڑسی رہتی تھی۔ ہاتھ میں چھوٹی سی ڈولچی اور لکڑی کی پیڑھی ہوتی۔
ڈولچی میں وہ محلے کے کسی بھی گھر سے پانی لیتا اور جسے بھی شیو یا بال بنوانے ہوتے وہ اس پیڑھی پر بیٹھ جاتا اور نائی اکڑوں بیٹھ کر پانچ منٹ میں کام مکمل کر لیتا۔چھوٹے بچوں کی عموماً سرمنڈائی ہوتی تاکہ ہر ہفتے پندھرواڑے بال کٹوانے کی زخمت نہ ہو اور والدین کے پیسے بچیں۔نائی سر منڈائی کے بعد گنجی ٹانٹ پر ڈیٹول ملتا تو اس کی جلن سے بچہ آدھا کھڑا ہو جاتا اور اس کا منہ تکلیف سے سرخ ٹماٹر ہوجاتا، آنکھوں میں آنسو بھی آ جاتے مگر ارد گرد کھڑے بچوں کے مذاق کا خوف یا طفلانہ غیرت آنسو ٹپکنے نہیں دیتے تھے۔
گلی کے دوسرے کونے پر سائیکل پنکچر والے کی کٹیا تھی۔پنکچر سے اس کا گذارہ نہیں ہوتا تھا لہذا وہ بچوں اور بڑوں کو چار آنے گھنٹہ پر سائیکل کرائے پر دیتا تھا۔پندرہ منٹ اوپر ہونے پر وہ درگزر کر دیتا تھا البتہ آدھا گھنٹہ اوپر ہونے پر وہ پورے اضافی گھنٹے کی چونی چارج کرتا تھا۔ کرائے کی سائیکل پر صرف ایک سواری ہی بیٹھ سکتی تھی کیونکہ سائیکل کے پچھلے بمپر پر تین نوکوں والی فولادی پتری ویلڈ ہونے کے سبب اضافی سواری کا بیٹھنا ناممکن تھا۔
اسی گلی میں ایک بے روزگار نوجوان نے باہر کی طرف کھلنے والے اپنے ہی گھر کے ایک کمرے کو کرائے کی لائبریری میں بدل دیا تھا۔ اس میں جاسوسی ناول ، ڈائجسٹ اور بچوں کے رسالے رکھے جاتے تھے۔نئے ڈائجسٹ اور ناول کا کرایہ چار آنے اور پرانے کا کرایہ دو آنے فی دن تھا۔بچوں کے رسالے تو گھر میں بھی آتے تھے مگر جاسوسی ناول چھپ چھپ کے پڑھنے کا چسکا میری نسل کو ایسی ہی محلہ لائبریریوں سے پڑا۔
بہت عرصے بعد میں نے نوٹ کیا کہ کچھ پتلی پتلی کتابیں ہمارا یہ لائببریرین پلاسٹک کے ایک تھیلے میں الگ سے رکھتا ہے اور صرف چند بڑے لڑکوں کو ہی پڑھنے کے لیے دیتا ہے۔
میں چونکہ اس لائبریری سے جاسوسی ناول باقاعدہ کرائے پر لیتا تھا لہذا ایک دن میں نے جرات کر کے پوچھ ہی لیا کہ تھیلے میں کون سی کتابیں ہیں۔اس نے پہلے تو مجھے گھورا۔پھر کہا یہ کتابیں تمہارے لیے نہیں بڑے لڑکوں کے لیے ہیں اور ان کا کرایہ بھی ڈبل ہے۔ظاہر ہے میں صبر کے گھونٹ پی کر رہ گیا۔
ایک دن ہمارے اس لائبریرین کو اچانک اپنی والدہ کو ڈاکٹر کے پاس لے جانا پڑا۔اس نے مجھ سے کہا چھوٹے تو تھوڑی دیر کے لیے کرسی پر بیٹھ جا میں اماں کو دکھا کر لاتا ہوں۔میں بیٹھ گیا۔اور پھر اچانک تجسس جاگا کہ تھیلے کا راز معلوم کیا جائے۔ایک کتاب نکال کر ورق گردانی کی۔پہلے تو کچھ سمجھ میں نہ آیا۔جب اندازہ ہوا کہ یہ تو بہت گندی باتیں لکھی ہوئی ہیں تو ادھر ادھر دیکھتے ہوئے کتاب فوراً تھیلے میں رکھ دی۔مگر ایک بات پلے نہیں پڑی۔اس کتاب کے مرد کردار کا نام اسلم تھا اور عورت کا نام شکنتلا۔
جب میں نے سن ِ بلوغت کے بعد اسی لائبریری سے ایسا ہی ایک ناول دوگنا کرایہ دے کر پڑھا تو اس میں بھی مرد مسلمان اور عورت ہندو تھی۔میں نے لائبریرین سے پوچھا کہ کیا تم نے یہ بات نوٹ کی۔اس نے کہا ابے بھائی یہ ناول بٹوارے کے بعد کے قومی جوش میں لکھے گئے تھے۔اب نہیں لکھے جاتے۔تم اتنا مت سوچا کرو۔بس پڑھ کے بھول جایا کرو۔
اب نہ وہ گلی ہے ، نہ وہ کردار اور نہ وہ میں۔
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com پر کلک کیجیے )