کارکردگی سے مقابلہ کیجئے
وزیراعظم اور ان کے ساتھی اپوزیشن کا مقابلہ ذاتیات پر حملوں کے بجائے کارکردگی سے کریں
گزشتہ بلدیاتی انتخابات کے موقع پر وزیراعظم کے معاون خصوصی ندیم افضل چن پر جب ان کے مخالفین نے ذاتی حملے شروع کیے تو انہوں نے روایتی سیاستدانوں کی طرح جوابی ذاتی حملے کرنے کے بجائے مخالفین کو اپنی کارکردگی یاد دلا کر لاجواب کردیا اور مشورہ دیا کہ بہتر ہوگا کہ وہ بھی ان کا مقابلہ کارکردگی سے کریں۔
یہ واقعہ مجھے پی ٹی آئی سرکار کی موجودہ حالت زار دیکھ کر یاد آگیا۔ آج دو سال سے زائد عرصہ گزرنے کے بعد پی ٹی آئی سرکار اپوزیشن کا مقابلہ کارکردگی سے کرنے کے بجائے کبھی طلال چوہدری اور خاتون ایم این اے والے واقعے میں جائے پناہ ڈھونڈتی ہے، کبھی میاں نوازشریف کی واپسی کو ملک کےلیے سب سے بڑا مسئلہ بنا دیا جاتا ہے، تو کبھی کمر توڑ مہنگائی کا ملبہ گزشتہ حکومت پر ڈال کر عوام کو یہ باور کرانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ ان کے تمام مسائل ماضی کی حکومتوں کے پیدا کردہ ہیں۔ حالانکہ تجزیہ کار کہتے ہیں کہ حکومت کے دو سال گزر جائیں تو کم از کم ایک بیانیہ اپنی موت آپ مر جاتا ہے۔ یعنی 'ہم تو نئی حکومت ہیں، اور عوام کی تمام مشکلات کی ذمے دار گزشتہ حکومت ہے'۔ کیونکہ دو سال کی مدت کسی بھی حکومت کےلیے ایک بڑا عرصہ سمجھی جاتی ہے۔
بدقسمتی سے خان صاحب کی حکومت دیامر بھاشا ڈیم، مہمند ڈیم ہائیڈرو پاور کی تعمیر، راوی اربن ڈیولپمنٹ پروجیکٹ (یہ 50 کھرب روپے کا منصوبہ ہے جس کے تحت 60 لاکھ درخت بھی لگائے جائیں گے) بس ریپڈ ٹرانزٹ (بی آر ٹی) کی تکمیل، بجلی کی لاگت کم کرنے کے آئی پی پیز کے ساتھ معاہدوں، اسلام آباد میں ایئر یونیورسٹی کے نئے کیمپس کا قیام، فیصل آباد میں علامہ اقبال انڈسٹریل سٹی کا قیام، ملک کی تاریخ کے سب سے بڑے ہنرمند جوان پروگرام کا آغاز، احساس نشوونما پروگرام، (اس پروگرام کےلیے 8.52 ارب روپے کا بجٹ رکھا گیا ہے) وفاقی حکومت کے پروگرام صحت انصاف کارڈ کا اجرا، اس پروگرام کے تحت تقریباً 8 کروڑ افراد کو صحت کی مفت سہولیات سے مستفید ہوں گے، نیا پاکستان ہاؤسنگ پروگرام، احساس سیلانی لنگر اسکیم، کامیاب جوان پروگرام، ڈیجیٹل پاکستان پروگرام، پناہ گاہ (شیلٹر ہوم) کا قیام جیسے منصوبے شروع کرنے کے باوجو عام آدمی کا بوجھ ہلکا کرنے میں بری طرح ناکام رہی ہے۔
یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ حکومتی اعدادوشمار کے مطابق ملک میں بیروزگار افراد کی تعداد 40 لاکھ سے بڑھ کر 60 لاکھ ہونے کا خدشہ ہے۔ یعنی وہ حکومت جو بیروزگاری کم کرنے آئی تھی وہی بیروزگاری کا باعث بن چکی ہے۔ ایک طرف بیروزگاری ہے تو دوسری طرف کمر توڑ مہنگائی ہے۔ مہنگائی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ گزشتہ دورِ حکومت کے اختتام پر آٹے کی فی کلو قیمت 32 روپے تھی جو اب 76 روپے فی کلو تک پہنچ چکی ہے، جبکہ اسی دورانیے میں چینی کی قیمت 55 روپے سے بڑھ کر 95 روپے ہوگئی ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ ایسے اقدامات کیے جائیں جس سے عام آدمی کو فوری ریلیف ملے، زندگی میں آسانی آئے، لوگوں کو روزگار کے مواقع میسر آئیں، اشیائے ضروریہ عام آدمی کی پہنچ میں ہوں۔ قارئین کی دلچسپی کےلیے عرض کرتا چلوں کہ گزشتہ دو مالی سال کے دوران 29 ارب 20 کروڑ ڈالر مالیت کے بیرونی قرضے لیے گئے ہیں۔ جن میں سے 26 ارب 20 کروڑ ڈالر قرض وزیرِاعظم عمران خان کے دورِ حکومت میں حاصل کیا گیا۔
اعداد و شمار کے مطابق حاصل کردہ قرضوں میں سے 19 ارب 20 کروڑ ڈالر کی رقم پہلے سے حاصل کردہ قرضوں کی واپسی کےلیے استعمال کی گئی۔ لیکن ماہرین معیشت کہتے ہیں کہ عام آدمی کو معیشت سے متعلق اعداد و شمار، ملکی قرضے یا خسارے سے کوئی غرض نہیں، وہ صرف معیشت کو اشیائے ضرورت کی قیمتوں اور روزگار کے دستیاب مواقعوں کے پس منظر میں دیکھتا ہے۔ اور آج عام آدمی کی حالت یہ ہے کہ وہ یہ سمجھتا ہے کہ ''وائرس سے بچ گئے تو مہنگائی مار دے گی''۔
آخر میں میری خان صاحب سے عاجزانہ التماس ہے کہ بیتے دو سال میں آپ کی جس قدر توجہ گزشتہ حکومتوں کو کرپٹ ثابت کرنے میں صرف ہوئی، براہِ کرم بقیہ وقت اپوزیشن کو ذہن سے نکال کر عوام کی حالت زار بدلنے پر لگادیجئے، تاکہ آپ اور آپ کے ساتھی اپوزیشن کا مقابلہ ذاتیات کے بجائے کارکردگی سے کرسکیں اور عوام کو آئندہ بھی آپ کی صورت میں ایک فرشتہ صفت حکمران میسر آسکے۔ لیکن اگر آپ نے ایسا نہ کیا تو غالب گمان ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کی باگ ڈور ایک بار پھر (بقول آپ کے) چوروں اور لٹیروں کے ہاتھ میں آجائے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
یہ واقعہ مجھے پی ٹی آئی سرکار کی موجودہ حالت زار دیکھ کر یاد آگیا۔ آج دو سال سے زائد عرصہ گزرنے کے بعد پی ٹی آئی سرکار اپوزیشن کا مقابلہ کارکردگی سے کرنے کے بجائے کبھی طلال چوہدری اور خاتون ایم این اے والے واقعے میں جائے پناہ ڈھونڈتی ہے، کبھی میاں نوازشریف کی واپسی کو ملک کےلیے سب سے بڑا مسئلہ بنا دیا جاتا ہے، تو کبھی کمر توڑ مہنگائی کا ملبہ گزشتہ حکومت پر ڈال کر عوام کو یہ باور کرانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ ان کے تمام مسائل ماضی کی حکومتوں کے پیدا کردہ ہیں۔ حالانکہ تجزیہ کار کہتے ہیں کہ حکومت کے دو سال گزر جائیں تو کم از کم ایک بیانیہ اپنی موت آپ مر جاتا ہے۔ یعنی 'ہم تو نئی حکومت ہیں، اور عوام کی تمام مشکلات کی ذمے دار گزشتہ حکومت ہے'۔ کیونکہ دو سال کی مدت کسی بھی حکومت کےلیے ایک بڑا عرصہ سمجھی جاتی ہے۔
بدقسمتی سے خان صاحب کی حکومت دیامر بھاشا ڈیم، مہمند ڈیم ہائیڈرو پاور کی تعمیر، راوی اربن ڈیولپمنٹ پروجیکٹ (یہ 50 کھرب روپے کا منصوبہ ہے جس کے تحت 60 لاکھ درخت بھی لگائے جائیں گے) بس ریپڈ ٹرانزٹ (بی آر ٹی) کی تکمیل، بجلی کی لاگت کم کرنے کے آئی پی پیز کے ساتھ معاہدوں، اسلام آباد میں ایئر یونیورسٹی کے نئے کیمپس کا قیام، فیصل آباد میں علامہ اقبال انڈسٹریل سٹی کا قیام، ملک کی تاریخ کے سب سے بڑے ہنرمند جوان پروگرام کا آغاز، احساس نشوونما پروگرام، (اس پروگرام کےلیے 8.52 ارب روپے کا بجٹ رکھا گیا ہے) وفاقی حکومت کے پروگرام صحت انصاف کارڈ کا اجرا، اس پروگرام کے تحت تقریباً 8 کروڑ افراد کو صحت کی مفت سہولیات سے مستفید ہوں گے، نیا پاکستان ہاؤسنگ پروگرام، احساس سیلانی لنگر اسکیم، کامیاب جوان پروگرام، ڈیجیٹل پاکستان پروگرام، پناہ گاہ (شیلٹر ہوم) کا قیام جیسے منصوبے شروع کرنے کے باوجو عام آدمی کا بوجھ ہلکا کرنے میں بری طرح ناکام رہی ہے۔
یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ حکومتی اعدادوشمار کے مطابق ملک میں بیروزگار افراد کی تعداد 40 لاکھ سے بڑھ کر 60 لاکھ ہونے کا خدشہ ہے۔ یعنی وہ حکومت جو بیروزگاری کم کرنے آئی تھی وہی بیروزگاری کا باعث بن چکی ہے۔ ایک طرف بیروزگاری ہے تو دوسری طرف کمر توڑ مہنگائی ہے۔ مہنگائی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ گزشتہ دورِ حکومت کے اختتام پر آٹے کی فی کلو قیمت 32 روپے تھی جو اب 76 روپے فی کلو تک پہنچ چکی ہے، جبکہ اسی دورانیے میں چینی کی قیمت 55 روپے سے بڑھ کر 95 روپے ہوگئی ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ ایسے اقدامات کیے جائیں جس سے عام آدمی کو فوری ریلیف ملے، زندگی میں آسانی آئے، لوگوں کو روزگار کے مواقع میسر آئیں، اشیائے ضروریہ عام آدمی کی پہنچ میں ہوں۔ قارئین کی دلچسپی کےلیے عرض کرتا چلوں کہ گزشتہ دو مالی سال کے دوران 29 ارب 20 کروڑ ڈالر مالیت کے بیرونی قرضے لیے گئے ہیں۔ جن میں سے 26 ارب 20 کروڑ ڈالر قرض وزیرِاعظم عمران خان کے دورِ حکومت میں حاصل کیا گیا۔
اعداد و شمار کے مطابق حاصل کردہ قرضوں میں سے 19 ارب 20 کروڑ ڈالر کی رقم پہلے سے حاصل کردہ قرضوں کی واپسی کےلیے استعمال کی گئی۔ لیکن ماہرین معیشت کہتے ہیں کہ عام آدمی کو معیشت سے متعلق اعداد و شمار، ملکی قرضے یا خسارے سے کوئی غرض نہیں، وہ صرف معیشت کو اشیائے ضرورت کی قیمتوں اور روزگار کے دستیاب مواقعوں کے پس منظر میں دیکھتا ہے۔ اور آج عام آدمی کی حالت یہ ہے کہ وہ یہ سمجھتا ہے کہ ''وائرس سے بچ گئے تو مہنگائی مار دے گی''۔
آخر میں میری خان صاحب سے عاجزانہ التماس ہے کہ بیتے دو سال میں آپ کی جس قدر توجہ گزشتہ حکومتوں کو کرپٹ ثابت کرنے میں صرف ہوئی، براہِ کرم بقیہ وقت اپوزیشن کو ذہن سے نکال کر عوام کی حالت زار بدلنے پر لگادیجئے، تاکہ آپ اور آپ کے ساتھی اپوزیشن کا مقابلہ ذاتیات کے بجائے کارکردگی سے کرسکیں اور عوام کو آئندہ بھی آپ کی صورت میں ایک فرشتہ صفت حکمران میسر آسکے۔ لیکن اگر آپ نے ایسا نہ کیا تو غالب گمان ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کی باگ ڈور ایک بار پھر (بقول آپ کے) چوروں اور لٹیروں کے ہاتھ میں آجائے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔