گوجرانوالہ جلسہ اور سیاسی پیغام
کسی سیاسی تحریک کو طوفان کا پیش خیمہ نہیں ہونا چاہیے۔
حکومت مخالف اپوزیشن اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) نے گوجرانوالہ کے جلسہ عام میں اپنے پہلے سیاسی پاور پلے کا مظاہرہ کیا، جلسے میں پی ڈی ایم کی پوری قیادت شریک ہوئی جس میں اتحاد کے سربراہ مولانا فضل الرحمان، مریم نواز، بلاول بھٹو زرداری، شاہد خاقان عباسی، اقبال احسن، رانا ثنا اللہ، سینئر سیاست دان جاوید ہاشمی، محمود خان اچکزئی، میاں افتخار حسین اور محمد زبیر نے خطاب کیا۔
اپوزیشن ذرائع اور غیر جانبدار مبصرین کے مطابق گوجرانوالہ کا جناح اسٹیڈیم کھچا کھچ بھرا ہوا تھا تاہم حکومت کی ٹیم صورت حال اس کے بر عکس بتا رہی ہے۔ بہرحال سوشل میڈیا پر اس جلسے کی جھلکیاں دیکھی جاتی رہی ہیں۔
پی ٹی آئی حکومت کے دو سال کے دوران متحدہ اپوزیشن کا یہ پہلا جلسہ عام تھا جس میں ملکی سیاسی صورت حال پر اپوزیشن رہنماؤں نے اظہار خیال کیا، حکومت کو آڑے ہاتھوں لیا، اقتصادی، معاشی، سماجی، سیاسی منظر نامہ اور حکومتی کارکردگی کا تنقیدی جائزہ لیا، بعض حلقوں کا کہنا ہے کہ عوام کے پرجوش ماحول میں اپوزیشن کے سیاسی رہنماؤں نے اپنے دل کی بھڑاس بھی خوب نکالی،حکومتی پالیسیوں پر کھل کر تنقید کی اور حکومت کی رخصتی کی ڈیڈ لائن تک دے ڈالی۔
اس سیاسی اجتماع کی اہم بات جلسے کے شرکاء کا اپنے رہنماؤں کی تقاریر سننے میں سنجیدگی اور رواداری تھی، ایک ہائی پروفائل جذباتی فضا میں گوجرانوالہ جلسے کا اختتام جس جمہوری روایت کے ساتھ ہوا، اس پر گوجرانوالہ کے عوام تعریف کے مستحق ہیں، جلسے کے انعقاد سے قبل حکومتی وزرا اور اپوزیشن رہنماؤں کے بیانات اور تبصروں سے سیاسی کشیدگی اور کشمکش کی قیاس آرائیاں بھی جاری تھیں، کریک ڈاؤن اور گرفتاریوں کے خطرات بھی بعید از قیاس نہ تھے، لیکن سیاسی اختلاف رائے، ہجومی نفسیات، سیاسی تناؤ اور اعصابی جنگ جیسی صورت حال میں کسی سیاسی اجتماع کا پرامن طریقے سے اختتام پذیر ہوجانا حکومت اور اپوزیشن دونوں کا کریڈٹ ہے۔
پاکستانی سیاست نے حقیقت میں سنجیدہ سیاسی مکالمے اور اجتماع کی جمہوری سرخروئی میں ایک سنگ میل عبور کیا ہے، سیاسی چھیڑخانی اور بیانات کی حد تک چشمک زنی جمہوری روایت اور پارلیمانی نظام اقدار کا حسن ہے۔ اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد پی ڈی ایم کے گوجرانوالا جلسہ سے تمام سیاسی رہنماؤں کے کھل کر خطاب کیا۔
وزیر اعظم عمران خان نے اپنے رد عمل میں کہا کہ نیب زدگان سے کوئی خطرہ نہیں، سوچتا ہوں اگر این آر او دوں تو زندگی آسان ہو جائے، اپوزیشن کی طرف سے جواب یہ آیا کہ حکومت کو این آر او نہیں ملے گا، ہم جمہوریت کے لیے نکلے ہیں۔
واضح رہے جس دن گوجرانوالہ میں جلسہ ہونے جا رہا تھا، قومی اسمبلی اور سینیٹ کے اجلاس بھی صدر مملکت نے طلب کر لیے تھے، وزیر اعظم عمران خان ایوان میں اپوزیشن کے شور شرابے کی وجہ سے تقریر نہ کرسکے اور وہ بغیر تقریر کیے وہاں سے چلے گئے جب کہ سیاسی مبصرین کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم اور حکومت کے لیے یہ زریں موقع تھا کہ وہ جلسہ کے اثرات و نتائج سے قطع نظر ملکی سیاسی، اقتصادی صورت حال پر اپنا ہنگامی روڈ میپ قوم کے سامنے لے آتے، مہنگائی اور بے روزگاری کے خاتمہ کا کوئی حل بتاتے لیکن حکومتی ٹیم نے اس موقع کو بلیم گیم میں گنوا دیا۔
حکومتی ارکان کا کہنا تھا کہ اپوزیشن کی سیاست ختم ہوگی ہے اور اس کے سیاسی غبارے سے ہوا نکل چکی ہے حالانکہ حکومت کے پاس جمعہ کا پورا دن تھا، ملک کے دو صوبوں میں دہشت گردی کے الم ناک واقعات ہوئے، انتہا پسندوں نے ہمارے 20 ہم وطنوں کو شہید کیا، یہ ایک بزدلانہ واردات تھی اور ضرورت تھی کہ اس المیہ کے ساتھ قومی یکجہتی کا مظاہرہ اس جذبہ اور شدت غم سے ہوتا کہ پوری قوم اس بربریت کے خلاف سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن جاتی تاکہ گوجرانوالا کے جلسہ گاہ تک دہشت گردی کی اس واردات سے قوم کے جذبات کا سفر جاری رہتا۔
یہ حقیقت ہے کہ ملک ایک سیمابی کیفیت سے گزر رہا ہے، ابھی مزید جلسے ہوںگے، ایک مومنٹم بنا ہوا ہے، سیاست جمود زدہ تھی مگر اب سیاسی تغیرات کی زد میں ہے، انہونیوں سے مفر نہیں، بڑی سیاسی دانش مندی اور دور اندیشی سے قدم اٹھانے کی ضرورت ہے، جلسوں میں اپوزیشن رہنماؤں کی دھواں دار تقاریر کے اقتباسات بیان کرنے کی یہاں ضرورت نہیں، ان کا پیغام میڈیا کے ذریعے عوام تک پہنچ چکا، کیمرے فضائی اور زمینی عکس بندی کے مراحل طے کرچکے۔
برطانیہ کے اخبار ''گارجین'' کے مطابق اپوزیشن دسیوں ہزاروں افراد نکالنے میں کامیاب رہی، حکومتی ناقدین حکومت کے رخصت ہونے کی شروعات کے عندیے دے رہے ہیں، یہ بحث طول پکڑ سکتی ہے، سیاسی رسہ کشی بھی عروج پر ہے اس لیے بقول میر ؎
لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام
آفاق کی اس کارگہِ شیشہ گری کا
اب وقت اس غیر منطقی تکرار میں ضایع نہیں ہونا چاہیے کہ جلسہ کے شرکا کی تعداد کتنی تھی، جلسہ میں دس بیس ہزار لوگ آئے، شو فلاپ تھا، یا نہیں، بلکہ ملک کے سنگین اور حساس سیاسی اور سماجی معاملات پر بحث ہونی چاہیے، سیاسی بالغ نظری کا ثبوت تو گوجرانوالہ جلسہ نے مہیا کر دیا اب بات سیاسی ہم آہنگی، مفاہمانہ اور جمہوری اسپرٹ سے کام لینے کو فروغ دینے کی ہے، یہ آج کا اہم ترین مسئلہ نہیں کہ بڑا سیاسی باکس آفس شو تھا، کچھ اسے عوامی ریفرنڈم کہیں گے، چند ایک کے لیے جناح اسٹیڈیم بھرا نہیں جاسکا۔
اس مناظرے سے بالاتر ہوکر اس ملک کے سیاسی مستقبل، عوامی مسائل اور حکومت کی گڈ گورننس کو بہتر بنانے کے مختلف پہلوؤں پر سوچئے اورایک مربوط اور خوف سے پاک کاروباری حکمت عملی تیار کی جائے، ٹیکس نظام میں کاروباری طبقے کی مشاورت سے مثبت تبدیلیاں کی جائیں تاکہ ملک کا تاجر اور مینوفیکچرز خوف سے باہر نکل کر آزادانہ کاروبار کرسکیں۔ اس وقت حقیقی جائزہ لیا جائے تو اس سچائی سے انکار نہ ممکن ہو گا کہ ملک میں کاروبار تاریخی مندی کا شکار ہے۔
پوش ایریاز سے لے کر درمیانے درجے کی مارکیٹوں میں چلے جائیں، وہاں کاروباری سرگرمیاں انتہائی کم اور سست رفتار نظر آئیں گی۔ حکومت نے تعمیراتی صنعت کو جو رعایت یا مراعات دی ہیں، اس کا پھل بھی اب تک امراء کی ٹوکریوں تک ہی پہنچا ہے، اس کے اثرات نچلی سطح تک نہیں آئے کیونکہ مالدار طبقہ صرف زمینوں کی خریداری میں اپنا پیسہ انویسٹ کر رہا ہے تاکہ وہ حکومت کی دی گئی سہولت سے فائدہ اٹھا سکے اور اپنی چھپائی ہوئی دولت کو قانونی کر سکے جب کہ ضرورت اس امر کی ہے کہ تعمیراتی سرگرمیاں شروع ہوں یعنی سرمایہ کار پلازوں، ہوٹلوں، مارکیٹوں اور گھروں کی تعمیر کا آغاز کرے۔
اس طریقے سے ہی یومیہ اجرت پر کام کرنے والے مزدوروں اور راج مستریوں کو روزگار مہیا ہو گا۔ یہیں سے کھڑکیاں دروازے بنانے والے، فرنیچرز بنانے والے، ٹائلز اور باتھ رومز کا سامان بنانے والے اپنا کاروبار چلا سکیں گے۔ اس طریقے سے ملک کی کاروباری صنعت کا پہیہ چلے گا، حکومت کی موجودہ پالیسی سے دولت ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ میں منتقل ہو رہی ہے اور اس کا پھیلاؤ نہیں ہو رہا۔
اب جب کہ جلسہ ہوچکا، اس کے اثرات ونتائج کو پیش نظر رکھتے ہوئے حکومت آیندہ کے لائحہ عمل اور اسٹریٹجک پلانز پر غور کرے، اس حکمت عملی کو بروئے کار لائے جو اپوزیشن کے باقی جلسوں کے جواب میں عملی اقدامات اور معاشی روڈ میپ کی تیاری سے متعلق ہوں۔ حقیقت یہ ہے کہ گوجرانوالہ جلسے کے شرکا نے ٹی وی چینلز کے رپورٹرز اور خاتون اینکرز کو اپنے سفر کی صعوبتوں کے بنیادی سبب پر بتایا کہ وہ مہنگائی سے تنگ آئے ہیں، اپنے رہنماؤں سے اس گرانی کے خاتمے کے بارے میں کچھ سننے آئے ہیں۔
مبصرین کی رائے یہ ہے کہ جلسہ نے سیاسی جمود توڑا ہے، مکالمہ اور سیاسی اختلاف رائے کو مہمیز ملی ہے، حکومت اور قوم تک اپوزیشن کی آواز پہنچی ہے، حکومت کے لیے گوجرانوالہ جلسہ چشم کشا ہے، اس سے حکومت کے لیے اقدام و امکان کے کئی زاویے کھل گئے ہیں، پی ڈی ایم کی قیادت نے آئین وقانون کے دائرہ میں رہتے ہوئے برف کے سیاسی گلیشیئر کو توڑنے کی کوشش کی ہے، جمہوری راستہ کلیئر ہوگا تو حکومت اور اپوزیشن انتخاب، جمہوریت، پارلیمنٹ کی بالادستی اور قوم وملک کی ترقی وخوشحالی کے خواب دیکھ بھی سکیں گے اور قوم کو دکھا بھی سکیں گی۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ اپوزیشن اور حکومت جلسوں سے پیدا شدہ صورت حال کو بند گلی میں نہ لے جائیں، جلسہ کھلے اسٹیڈیم میں ہوا تھا،اب بھی قومی اتفاق رائے، سیاسی ہم آہنگی اور پارلیمانی اشتراک عمل کا راستہ کھلا رہنا چاہیے، سیاسی اسٹیک ہولڈرز قوم کو باور کرائیں کہ مستقبل جمہوری استحکام سے ہی وابستہ ہے اور ملکی سیاست کو دور اندیشی، عوامی مسائل کے حل کے لیے غیر معمولی افہام و تفہیم اور سیاسی بصیرت کی ضرورت ہے۔
کسی سیاسی تحریک کو طوفان کا پیش خیمہ نہیں ہونا چاہیے، وقت کا اولین تقاضہ ہے کہ آیندہ بھی بے پایاں سیاسی خیر سگالی سے حکومت اور اپوزیشن اپنے سیاسی معاملات کا سفر جمہوری اسپرٹ سے طے کریں، یہ ملک سب کا ہے، اس کی سلامتی، بقا اور عوام کی آسودگی کو قومی سیاست کے بنیادی ستون کی اہمیت حاصل ہونی چاہیے۔ عوام کو سیاست میں مرکزی حصہ دینے کی بات ہونی چاہیے۔
اپوزیشن ذرائع اور غیر جانبدار مبصرین کے مطابق گوجرانوالہ کا جناح اسٹیڈیم کھچا کھچ بھرا ہوا تھا تاہم حکومت کی ٹیم صورت حال اس کے بر عکس بتا رہی ہے۔ بہرحال سوشل میڈیا پر اس جلسے کی جھلکیاں دیکھی جاتی رہی ہیں۔
پی ٹی آئی حکومت کے دو سال کے دوران متحدہ اپوزیشن کا یہ پہلا جلسہ عام تھا جس میں ملکی سیاسی صورت حال پر اپوزیشن رہنماؤں نے اظہار خیال کیا، حکومت کو آڑے ہاتھوں لیا، اقتصادی، معاشی، سماجی، سیاسی منظر نامہ اور حکومتی کارکردگی کا تنقیدی جائزہ لیا، بعض حلقوں کا کہنا ہے کہ عوام کے پرجوش ماحول میں اپوزیشن کے سیاسی رہنماؤں نے اپنے دل کی بھڑاس بھی خوب نکالی،حکومتی پالیسیوں پر کھل کر تنقید کی اور حکومت کی رخصتی کی ڈیڈ لائن تک دے ڈالی۔
اس سیاسی اجتماع کی اہم بات جلسے کے شرکاء کا اپنے رہنماؤں کی تقاریر سننے میں سنجیدگی اور رواداری تھی، ایک ہائی پروفائل جذباتی فضا میں گوجرانوالہ جلسے کا اختتام جس جمہوری روایت کے ساتھ ہوا، اس پر گوجرانوالہ کے عوام تعریف کے مستحق ہیں، جلسے کے انعقاد سے قبل حکومتی وزرا اور اپوزیشن رہنماؤں کے بیانات اور تبصروں سے سیاسی کشیدگی اور کشمکش کی قیاس آرائیاں بھی جاری تھیں، کریک ڈاؤن اور گرفتاریوں کے خطرات بھی بعید از قیاس نہ تھے، لیکن سیاسی اختلاف رائے، ہجومی نفسیات، سیاسی تناؤ اور اعصابی جنگ جیسی صورت حال میں کسی سیاسی اجتماع کا پرامن طریقے سے اختتام پذیر ہوجانا حکومت اور اپوزیشن دونوں کا کریڈٹ ہے۔
پاکستانی سیاست نے حقیقت میں سنجیدہ سیاسی مکالمے اور اجتماع کی جمہوری سرخروئی میں ایک سنگ میل عبور کیا ہے، سیاسی چھیڑخانی اور بیانات کی حد تک چشمک زنی جمہوری روایت اور پارلیمانی نظام اقدار کا حسن ہے۔ اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد پی ڈی ایم کے گوجرانوالا جلسہ سے تمام سیاسی رہنماؤں کے کھل کر خطاب کیا۔
وزیر اعظم عمران خان نے اپنے رد عمل میں کہا کہ نیب زدگان سے کوئی خطرہ نہیں، سوچتا ہوں اگر این آر او دوں تو زندگی آسان ہو جائے، اپوزیشن کی طرف سے جواب یہ آیا کہ حکومت کو این آر او نہیں ملے گا، ہم جمہوریت کے لیے نکلے ہیں۔
واضح رہے جس دن گوجرانوالہ میں جلسہ ہونے جا رہا تھا، قومی اسمبلی اور سینیٹ کے اجلاس بھی صدر مملکت نے طلب کر لیے تھے، وزیر اعظم عمران خان ایوان میں اپوزیشن کے شور شرابے کی وجہ سے تقریر نہ کرسکے اور وہ بغیر تقریر کیے وہاں سے چلے گئے جب کہ سیاسی مبصرین کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم اور حکومت کے لیے یہ زریں موقع تھا کہ وہ جلسہ کے اثرات و نتائج سے قطع نظر ملکی سیاسی، اقتصادی صورت حال پر اپنا ہنگامی روڈ میپ قوم کے سامنے لے آتے، مہنگائی اور بے روزگاری کے خاتمہ کا کوئی حل بتاتے لیکن حکومتی ٹیم نے اس موقع کو بلیم گیم میں گنوا دیا۔
حکومتی ارکان کا کہنا تھا کہ اپوزیشن کی سیاست ختم ہوگی ہے اور اس کے سیاسی غبارے سے ہوا نکل چکی ہے حالانکہ حکومت کے پاس جمعہ کا پورا دن تھا، ملک کے دو صوبوں میں دہشت گردی کے الم ناک واقعات ہوئے، انتہا پسندوں نے ہمارے 20 ہم وطنوں کو شہید کیا، یہ ایک بزدلانہ واردات تھی اور ضرورت تھی کہ اس المیہ کے ساتھ قومی یکجہتی کا مظاہرہ اس جذبہ اور شدت غم سے ہوتا کہ پوری قوم اس بربریت کے خلاف سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن جاتی تاکہ گوجرانوالا کے جلسہ گاہ تک دہشت گردی کی اس واردات سے قوم کے جذبات کا سفر جاری رہتا۔
یہ حقیقت ہے کہ ملک ایک سیمابی کیفیت سے گزر رہا ہے، ابھی مزید جلسے ہوںگے، ایک مومنٹم بنا ہوا ہے، سیاست جمود زدہ تھی مگر اب سیاسی تغیرات کی زد میں ہے، انہونیوں سے مفر نہیں، بڑی سیاسی دانش مندی اور دور اندیشی سے قدم اٹھانے کی ضرورت ہے، جلسوں میں اپوزیشن رہنماؤں کی دھواں دار تقاریر کے اقتباسات بیان کرنے کی یہاں ضرورت نہیں، ان کا پیغام میڈیا کے ذریعے عوام تک پہنچ چکا، کیمرے فضائی اور زمینی عکس بندی کے مراحل طے کرچکے۔
برطانیہ کے اخبار ''گارجین'' کے مطابق اپوزیشن دسیوں ہزاروں افراد نکالنے میں کامیاب رہی، حکومتی ناقدین حکومت کے رخصت ہونے کی شروعات کے عندیے دے رہے ہیں، یہ بحث طول پکڑ سکتی ہے، سیاسی رسہ کشی بھی عروج پر ہے اس لیے بقول میر ؎
لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام
آفاق کی اس کارگہِ شیشہ گری کا
اب وقت اس غیر منطقی تکرار میں ضایع نہیں ہونا چاہیے کہ جلسہ کے شرکا کی تعداد کتنی تھی، جلسہ میں دس بیس ہزار لوگ آئے، شو فلاپ تھا، یا نہیں، بلکہ ملک کے سنگین اور حساس سیاسی اور سماجی معاملات پر بحث ہونی چاہیے، سیاسی بالغ نظری کا ثبوت تو گوجرانوالہ جلسہ نے مہیا کر دیا اب بات سیاسی ہم آہنگی، مفاہمانہ اور جمہوری اسپرٹ سے کام لینے کو فروغ دینے کی ہے، یہ آج کا اہم ترین مسئلہ نہیں کہ بڑا سیاسی باکس آفس شو تھا، کچھ اسے عوامی ریفرنڈم کہیں گے، چند ایک کے لیے جناح اسٹیڈیم بھرا نہیں جاسکا۔
اس مناظرے سے بالاتر ہوکر اس ملک کے سیاسی مستقبل، عوامی مسائل اور حکومت کی گڈ گورننس کو بہتر بنانے کے مختلف پہلوؤں پر سوچئے اورایک مربوط اور خوف سے پاک کاروباری حکمت عملی تیار کی جائے، ٹیکس نظام میں کاروباری طبقے کی مشاورت سے مثبت تبدیلیاں کی جائیں تاکہ ملک کا تاجر اور مینوفیکچرز خوف سے باہر نکل کر آزادانہ کاروبار کرسکیں۔ اس وقت حقیقی جائزہ لیا جائے تو اس سچائی سے انکار نہ ممکن ہو گا کہ ملک میں کاروبار تاریخی مندی کا شکار ہے۔
پوش ایریاز سے لے کر درمیانے درجے کی مارکیٹوں میں چلے جائیں، وہاں کاروباری سرگرمیاں انتہائی کم اور سست رفتار نظر آئیں گی۔ حکومت نے تعمیراتی صنعت کو جو رعایت یا مراعات دی ہیں، اس کا پھل بھی اب تک امراء کی ٹوکریوں تک ہی پہنچا ہے، اس کے اثرات نچلی سطح تک نہیں آئے کیونکہ مالدار طبقہ صرف زمینوں کی خریداری میں اپنا پیسہ انویسٹ کر رہا ہے تاکہ وہ حکومت کی دی گئی سہولت سے فائدہ اٹھا سکے اور اپنی چھپائی ہوئی دولت کو قانونی کر سکے جب کہ ضرورت اس امر کی ہے کہ تعمیراتی سرگرمیاں شروع ہوں یعنی سرمایہ کار پلازوں، ہوٹلوں، مارکیٹوں اور گھروں کی تعمیر کا آغاز کرے۔
اس طریقے سے ہی یومیہ اجرت پر کام کرنے والے مزدوروں اور راج مستریوں کو روزگار مہیا ہو گا۔ یہیں سے کھڑکیاں دروازے بنانے والے، فرنیچرز بنانے والے، ٹائلز اور باتھ رومز کا سامان بنانے والے اپنا کاروبار چلا سکیں گے۔ اس طریقے سے ملک کی کاروباری صنعت کا پہیہ چلے گا، حکومت کی موجودہ پالیسی سے دولت ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ میں منتقل ہو رہی ہے اور اس کا پھیلاؤ نہیں ہو رہا۔
اب جب کہ جلسہ ہوچکا، اس کے اثرات ونتائج کو پیش نظر رکھتے ہوئے حکومت آیندہ کے لائحہ عمل اور اسٹریٹجک پلانز پر غور کرے، اس حکمت عملی کو بروئے کار لائے جو اپوزیشن کے باقی جلسوں کے جواب میں عملی اقدامات اور معاشی روڈ میپ کی تیاری سے متعلق ہوں۔ حقیقت یہ ہے کہ گوجرانوالہ جلسے کے شرکا نے ٹی وی چینلز کے رپورٹرز اور خاتون اینکرز کو اپنے سفر کی صعوبتوں کے بنیادی سبب پر بتایا کہ وہ مہنگائی سے تنگ آئے ہیں، اپنے رہنماؤں سے اس گرانی کے خاتمے کے بارے میں کچھ سننے آئے ہیں۔
مبصرین کی رائے یہ ہے کہ جلسہ نے سیاسی جمود توڑا ہے، مکالمہ اور سیاسی اختلاف رائے کو مہمیز ملی ہے، حکومت اور قوم تک اپوزیشن کی آواز پہنچی ہے، حکومت کے لیے گوجرانوالہ جلسہ چشم کشا ہے، اس سے حکومت کے لیے اقدام و امکان کے کئی زاویے کھل گئے ہیں، پی ڈی ایم کی قیادت نے آئین وقانون کے دائرہ میں رہتے ہوئے برف کے سیاسی گلیشیئر کو توڑنے کی کوشش کی ہے، جمہوری راستہ کلیئر ہوگا تو حکومت اور اپوزیشن انتخاب، جمہوریت، پارلیمنٹ کی بالادستی اور قوم وملک کی ترقی وخوشحالی کے خواب دیکھ بھی سکیں گے اور قوم کو دکھا بھی سکیں گی۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ اپوزیشن اور حکومت جلسوں سے پیدا شدہ صورت حال کو بند گلی میں نہ لے جائیں، جلسہ کھلے اسٹیڈیم میں ہوا تھا،اب بھی قومی اتفاق رائے، سیاسی ہم آہنگی اور پارلیمانی اشتراک عمل کا راستہ کھلا رہنا چاہیے، سیاسی اسٹیک ہولڈرز قوم کو باور کرائیں کہ مستقبل جمہوری استحکام سے ہی وابستہ ہے اور ملکی سیاست کو دور اندیشی، عوامی مسائل کے حل کے لیے غیر معمولی افہام و تفہیم اور سیاسی بصیرت کی ضرورت ہے۔
کسی سیاسی تحریک کو طوفان کا پیش خیمہ نہیں ہونا چاہیے، وقت کا اولین تقاضہ ہے کہ آیندہ بھی بے پایاں سیاسی خیر سگالی سے حکومت اور اپوزیشن اپنے سیاسی معاملات کا سفر جمہوری اسپرٹ سے طے کریں، یہ ملک سب کا ہے، اس کی سلامتی، بقا اور عوام کی آسودگی کو قومی سیاست کے بنیادی ستون کی اہمیت حاصل ہونی چاہیے۔ عوام کو سیاست میں مرکزی حصہ دینے کی بات ہونی چاہیے۔