نوجوان نسل والدین کی نافرمان کیوں
والدین پر اولاد کے تشدد کے کئی واقعات جو دنیا بھر میں رپورٹ ہورہے ہیں، ہمارے اخلاقی انحطاط کی طرف اشارہ کرتے ہیں
ہمارے مذہب اسلام میں، جو کہ دین فطرت ہے، والدین کی عزت اور تکریم کو ایک امتیازی حیثیت حاصل ہے۔ بلکہ یوں کہنا مناسب ہوگا کہ والدین کی خدمت اور ان کے ساتھ حسن سلوک کو باقاعدہ ثواب کا درجہ دیا گیا ہے۔ دیگر معاشروں کا حوالہ میں نے اس لیے نہیں دیا کہ وہاں بہت پہلے ہی اولڈ ہاؤسز بننا شروع ہوچکے تھے اور والدین کو اپنی زندگیوں سے الگ تھلگ کرنے کا عمل جاری تھا۔ اولڈ ہاؤسز سے متعلق بحث کرنا آج کا موضوع نہیں لیکن آج یہ ضرور جاننا ہے کہ ایک اسلامی معاشرے میں ہوتے ہوئے بھی ہم والدین کی نافرمانی کیوں کررہے ہیں؟
حالیہ مثال کہ راولپنڈی کے علاقے ڈھوک علی اکبر کی رہائشی گلنار بی بی پر اس کے بیٹے ارسلان نے تشدد کیا، جس کی ویڈیو بھی وائرل ہوئی جو خاتون کی بیٹی نے بنائی تھی۔ اس ویڈیو کی وجہ سے عوام میں کافی غم وغصہ بھی پایا گیا۔ ارسلان کو پولیس گرفتار کرکے لے گئی۔ خاتون کی بہو بسمہ کے بیانات بھی چند گھنٹے ٹوئٹر کی زینت بنے، اور بالآخر گلنار بی بی نے ممتا کے ہاتھوں مجبور ہوکر اپنے ناخلف بیٹے ارسلان کو معاف کردیا۔
والدین پر اولاد کے تشدد کے کئی واقعات جو دنیا بھر میں بھی رپورٹ ہورہے ہیں، ہمارے اخلاقی انحطاط کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ ہمارے ماں باپ جنہیں غصے کی حالت میں بھی اف تک کہنے کی اجازت نہیں، ان کے ساتھ اب ناروا سلوک ہونے لگا ہے۔
قرآن پاک کی آیت میں بھی ہے کہ اپنے والدین کے ساتھ بہترین برتاؤ کرو اور ان کے اس دنیا سے چلے جانے کے بعد بھی دعا مانگو کہ اللہ تعالیٰ ان پر اس طرح رحم فرما جس طرح انھوں نے مجھے بچپن میں رحم اور شفقت سے پالا۔ اسی طرح ایک مرتبہ ایک شخص ہمارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے پاس اپنے بیٹے کی شکایت لے کر آیا کہ وہ اپنے مال و اسباب میں سے بوڑھے باپ کی خدمت نہیں کرتا تو ہمارے نبی غضبناک ہوئے اور انھوں نے اس کے بیٹے کو بلا کر کہا کہ خبردار جان لو کہ تم اور تمھارا مال تمھارے والد کا ہے۔
اسی طرح ایک ماں جو نو ماہ اپنے بطن میں بچے کو پالتی ہے اولاد ساری زندگی ان کو حج عمرے کرواتی رہے اس ایک رات کا بدلہ نہیں اتار سکتی کہ جب انھوں نے سوتے میں بستر گیلا کردیا تھا اور ماں نے اس کو خشک بستر پر لٹا کر خود تکلیف برداشت کی تھی۔
اب اگر اس پہلو پر غور کریں کہ لوگ والدین کی عزت کیوں نہیں کرتے تو اس میں بہت سے ایسے عوامل ہیں جنہیں دیکھنا یا جاننا ضروری ہے۔ یاد رہے کہ میں سب نوجوان نسل کی بات نہیں کررہی، کئی لوگ اب بھی اپنے والدین کا سہارا ہیں اور اپنی زندگی کے بعد بھی اپنے وارثین کو ان کے خیال کی تاکید کرتے ہیں۔ لیکن بات ہورہی ہے چند گندے انڈوں کی، جو کہ اس لیے ماں باپ کی خدمت کرتے ہیں کہ جلد ہی وہ مر جائیں گے اور ان کی جائیداد انھیں مل جائے گی۔ یہ خودغرضی کی انتہا ہے بلکہ کئی لوگ تو والدین کی وفات کا بھی انتظار نہیں کرتے، دھوکا دہی سے جائیداد کے کاغذوں پر جعلی دستخط، مال و اسباب کےلیے والدین کا قتل بھی آج معمولی بات بن چکی ہے۔
وہ والدین جو آپ کو پیدا کرکے آپ کی پرورش کرتے ہیں اور اپنی بساط کے مطابق آپ کو روزی روٹی کھلاتے ہیں۔ اولاد ماں باپ کےلیے ہی تازیانہ بن جاتی ہے۔ رشتوں کی مضبوطی کےلیے سچائی اور خلوص شرط ہے لیکن یہ دونوں خصائص اب اس معاشرے میں خال خال ہی نظر آتے ہیں۔
لیکن اگر میں یہ کہوں کہ اولاد کو خودغرض بنانے میں کسی حد تک والدین کا بھی ہاتھ ہوتا ہے، تو یہ غلط نہیں ہے۔ بچوں کی غلطیوں پر انھیں ڈانٹ ڈپٹ کرنا تو آج کل کے والدین اپنی شان کے خلاف سمجھتے ہیں۔ والدین اور بچوں میں کوئی حد فاصل نہیں رہی۔ وہ جنریشن گیپ کا ذکر کرتے ہوئے بچوں کو بے تحاشا لاڈ پیار کرتے ہیں کہ بچے ان کو اپنا ہم عمر تصور کرلیتے ہیں اور ساتھ ہی بدتمیزی کی ہر حد پار کرلیتے ہیں۔ ایسے بچوں میں والدین سمیت تمام بڑے افراد کا خوف ختم ہوجاتا ہے۔ والدین کی آنکھ کا ڈر کافی ہونا چاہیے، لیکن آج کل کے معاشرے میں والدین آپ کو بچوں سے کوئی بازپرس کرتے دکھائی نہیں دیں گے۔ والدین انتہائی حد پر چلے جاتے ہیں۔ بہت زیادہ لاڈ پیار یا بہت زیادہ مار پیٹ اور ڈانٹ ڈپٹ، جبکہ یہ دونوں چیزیں ہی غلط ہیں۔
بچوں کی تربیت شروع سے ہی اچھی نہیں کی جاتی۔ مائیں بیٹوں کو بہت لاڈ پیار دیتی ہیں جبکہ بڑھاپے میں سہارا بیٹیاں ہی بنتی ہیں۔ دوسری طرف شادی کے بعد یہ بتانے کی ضرورت ہی کیوں کر پیش آتی ہے کہ تم میری ماں کا ادب کرو۔ لڑکے چمک دمک اور خوبصورتی سے متاثر ہوکر شائستہ لڑکیوں کا انتخاب نہیں کرتے اور پھر جو بہو آتی ہے وہ کبھی ساس کا ادب نہیں کرتی اور جب کوئی عورت یہ دیکھتی ہے کہ میرا شوہر بھی اپنی ماں بہنوں کی عزت نہیں کررہا تو وہ بھی اس کی ماں کو ماں کا درجہ نہیں دیتی۔
ہمارے معاشرے میں یہ تو کہا جاتا ہے کہ عورت ایک نسل کی پرورش کرتی ہے، یہ سو فیصد درست ہے لیکن جب کسی لڑکے کی شادی ہوجائے تو اس پر دہری ذمے داری ہے کہ وہ رشتوں میں توازن پیدا کرے۔ نہ تو ماں کی بات کو سن کر بیوی کے خلاف ہو اور نہ ہی بیوی کو زیادہ اہمیت دے کر ماں کو بناوٹی انداز میں خوش کرے۔ کیونکہ جو بھی ترازو کے دونوں پلڑوں کو برابر نہیں رکھتا درحقیقت وہی نقصان اٹھاتا ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
حالیہ مثال کہ راولپنڈی کے علاقے ڈھوک علی اکبر کی رہائشی گلنار بی بی پر اس کے بیٹے ارسلان نے تشدد کیا، جس کی ویڈیو بھی وائرل ہوئی جو خاتون کی بیٹی نے بنائی تھی۔ اس ویڈیو کی وجہ سے عوام میں کافی غم وغصہ بھی پایا گیا۔ ارسلان کو پولیس گرفتار کرکے لے گئی۔ خاتون کی بہو بسمہ کے بیانات بھی چند گھنٹے ٹوئٹر کی زینت بنے، اور بالآخر گلنار بی بی نے ممتا کے ہاتھوں مجبور ہوکر اپنے ناخلف بیٹے ارسلان کو معاف کردیا۔
والدین پر اولاد کے تشدد کے کئی واقعات جو دنیا بھر میں بھی رپورٹ ہورہے ہیں، ہمارے اخلاقی انحطاط کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ ہمارے ماں باپ جنہیں غصے کی حالت میں بھی اف تک کہنے کی اجازت نہیں، ان کے ساتھ اب ناروا سلوک ہونے لگا ہے۔
قرآن پاک کی آیت میں بھی ہے کہ اپنے والدین کے ساتھ بہترین برتاؤ کرو اور ان کے اس دنیا سے چلے جانے کے بعد بھی دعا مانگو کہ اللہ تعالیٰ ان پر اس طرح رحم فرما جس طرح انھوں نے مجھے بچپن میں رحم اور شفقت سے پالا۔ اسی طرح ایک مرتبہ ایک شخص ہمارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے پاس اپنے بیٹے کی شکایت لے کر آیا کہ وہ اپنے مال و اسباب میں سے بوڑھے باپ کی خدمت نہیں کرتا تو ہمارے نبی غضبناک ہوئے اور انھوں نے اس کے بیٹے کو بلا کر کہا کہ خبردار جان لو کہ تم اور تمھارا مال تمھارے والد کا ہے۔
اسی طرح ایک ماں جو نو ماہ اپنے بطن میں بچے کو پالتی ہے اولاد ساری زندگی ان کو حج عمرے کرواتی رہے اس ایک رات کا بدلہ نہیں اتار سکتی کہ جب انھوں نے سوتے میں بستر گیلا کردیا تھا اور ماں نے اس کو خشک بستر پر لٹا کر خود تکلیف برداشت کی تھی۔
اب اگر اس پہلو پر غور کریں کہ لوگ والدین کی عزت کیوں نہیں کرتے تو اس میں بہت سے ایسے عوامل ہیں جنہیں دیکھنا یا جاننا ضروری ہے۔ یاد رہے کہ میں سب نوجوان نسل کی بات نہیں کررہی، کئی لوگ اب بھی اپنے والدین کا سہارا ہیں اور اپنی زندگی کے بعد بھی اپنے وارثین کو ان کے خیال کی تاکید کرتے ہیں۔ لیکن بات ہورہی ہے چند گندے انڈوں کی، جو کہ اس لیے ماں باپ کی خدمت کرتے ہیں کہ جلد ہی وہ مر جائیں گے اور ان کی جائیداد انھیں مل جائے گی۔ یہ خودغرضی کی انتہا ہے بلکہ کئی لوگ تو والدین کی وفات کا بھی انتظار نہیں کرتے، دھوکا دہی سے جائیداد کے کاغذوں پر جعلی دستخط، مال و اسباب کےلیے والدین کا قتل بھی آج معمولی بات بن چکی ہے۔
وہ والدین جو آپ کو پیدا کرکے آپ کی پرورش کرتے ہیں اور اپنی بساط کے مطابق آپ کو روزی روٹی کھلاتے ہیں۔ اولاد ماں باپ کےلیے ہی تازیانہ بن جاتی ہے۔ رشتوں کی مضبوطی کےلیے سچائی اور خلوص شرط ہے لیکن یہ دونوں خصائص اب اس معاشرے میں خال خال ہی نظر آتے ہیں۔
لیکن اگر میں یہ کہوں کہ اولاد کو خودغرض بنانے میں کسی حد تک والدین کا بھی ہاتھ ہوتا ہے، تو یہ غلط نہیں ہے۔ بچوں کی غلطیوں پر انھیں ڈانٹ ڈپٹ کرنا تو آج کل کے والدین اپنی شان کے خلاف سمجھتے ہیں۔ والدین اور بچوں میں کوئی حد فاصل نہیں رہی۔ وہ جنریشن گیپ کا ذکر کرتے ہوئے بچوں کو بے تحاشا لاڈ پیار کرتے ہیں کہ بچے ان کو اپنا ہم عمر تصور کرلیتے ہیں اور ساتھ ہی بدتمیزی کی ہر حد پار کرلیتے ہیں۔ ایسے بچوں میں والدین سمیت تمام بڑے افراد کا خوف ختم ہوجاتا ہے۔ والدین کی آنکھ کا ڈر کافی ہونا چاہیے، لیکن آج کل کے معاشرے میں والدین آپ کو بچوں سے کوئی بازپرس کرتے دکھائی نہیں دیں گے۔ والدین انتہائی حد پر چلے جاتے ہیں۔ بہت زیادہ لاڈ پیار یا بہت زیادہ مار پیٹ اور ڈانٹ ڈپٹ، جبکہ یہ دونوں چیزیں ہی غلط ہیں۔
بچوں کی تربیت شروع سے ہی اچھی نہیں کی جاتی۔ مائیں بیٹوں کو بہت لاڈ پیار دیتی ہیں جبکہ بڑھاپے میں سہارا بیٹیاں ہی بنتی ہیں۔ دوسری طرف شادی کے بعد یہ بتانے کی ضرورت ہی کیوں کر پیش آتی ہے کہ تم میری ماں کا ادب کرو۔ لڑکے چمک دمک اور خوبصورتی سے متاثر ہوکر شائستہ لڑکیوں کا انتخاب نہیں کرتے اور پھر جو بہو آتی ہے وہ کبھی ساس کا ادب نہیں کرتی اور جب کوئی عورت یہ دیکھتی ہے کہ میرا شوہر بھی اپنی ماں بہنوں کی عزت نہیں کررہا تو وہ بھی اس کی ماں کو ماں کا درجہ نہیں دیتی۔
ہمارے معاشرے میں یہ تو کہا جاتا ہے کہ عورت ایک نسل کی پرورش کرتی ہے، یہ سو فیصد درست ہے لیکن جب کسی لڑکے کی شادی ہوجائے تو اس پر دہری ذمے داری ہے کہ وہ رشتوں میں توازن پیدا کرے۔ نہ تو ماں کی بات کو سن کر بیوی کے خلاف ہو اور نہ ہی بیوی کو زیادہ اہمیت دے کر ماں کو بناوٹی انداز میں خوش کرے۔ کیونکہ جو بھی ترازو کے دونوں پلڑوں کو برابر نہیں رکھتا درحقیقت وہی نقصان اٹھاتا ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔