لداخیوں کے ساتھ ہونے والا ہاتھ
اگر لداخی بھارت سے خوش نہیں رہتے تو پھر اسٹرٹیجک اہمیت کا یہ علاقہ دلی حکومت کے لیے ایک تازہ دردِ سر بن سکتا ہے۔
بھارتی مقبوضہ ریاست جموں و کشمیر میں جموں کی ہندو اکثریت ریاستی تشخص کے خاتمے پر خوش ہے، وادیِ کشمیر کی مسلمان اکثریت ناخوش ہے اور لداخ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہاں کے باشندے شروع میں تو خصوصی تشخص کے خاتمے پر خوش ہوئے۔
کیونکہ ان کے خیال میں سرینگر میں موجود روایتی کشمیری مسلمان حکمران اشرافیہ لداخیوں کو دور دراز خطے کے قبائلی سمجھ کر ان کی ترقی اور حقوق سے اغماز برتتی رہی ہے۔لداخیوں کا خیال تھا کہ سرینگر سے جان چھوٹنے اور یونین ٹیرٹیری ( وفاق کے زیرِ انتظام علاقہ) کی شکل میں براہِ راست دلی کی حکمرانی تلے آنے سے ان کے احساسِ محرومی کا ازالہ ہو جائے گا۔
چنانچہ گزشتہ برس پانچ اگست کو کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کا خیرمقدم کرتے ہوئے لداخ سے بی جے پی کے رکنِ پارلیمان جمیانگ سیرنگ نمگیال نے لوک سبھا میں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ لداخ کی پسماندگی کے ذمے دار آرٹیکل تین سو ستر اور کانگریس کا طویل دورِ حکومت ہے۔اور اب لداخ کے لیے ایک نیا سورج طلوع ہوا ہے۔
مگر اب ان پر کھل رہا ہے کہ حقوق تو پہلے سے بھی زیادہ دور ہو گئے ہیں۔ماضی میں اگر مستقبل کے بارے میں کوئی امیدِ موہوم تھی تو اب وہ بھی نہیں رہی۔لداخ کی بی جے پی شاخ کے سابق صدر چیرنگ ڈورگے نے مرکزی حکومت کی لداخ پالیسی سے اختلاف کرتے ہوئے گذرے مئی میں استعفیٰ دے دیا۔
چیرنگ کا کہنا ہے کہ خصوصی تشخص کو یقینی بنانے والے آرٹیکل تین سو ستر کے خاتمے اور غیر مقامی افراد پر مقامی املاک کی خریداری پر پابندی کا قانون آرٹیکل پینتیس اے منسوخ ہونے کے نتائج مقامی نسلوں کے لیے بھیانک ثابت ہوں گے اور اجنبیوں کی یلغار سے مقامی تشخص خاک میں ملتا چلا جائے گا۔
جیرنگ کا کہنا ہے کہ لداخ کی خودمختار ہل کونسل علاقے کی سرکاری زمین کی مالک تھی مگر وفاقی علاقہ بننے کے بعد یہ کونسل مکمل بے اختیار ہو گئی ہے۔ ہمیں خدشہ ہے کہ اب ہماری زمین ہم سے مشورہ کیے بغیر بیرونِ لداخ صنعت کاروں،کانکنی کی کمپنیوں اور فوج میں بانٹ دی جائے گی۔
ان خدشات کے سبب خود حکمران بی جے پی کے لداخ یونٹ نے گزشتہ ماہ ایک متفقہ قرار داد میں مقامی زمین، ثقافت ، ماحولیات، روزگار اور کاروباری حقوق کے تحفظ کے لیے آئینی اقدامات کا مطالبہ کر دیا۔قرار داد میں کہا گیا کہ یا تو لداخ کو بھارتی آئین کے چھٹے شیڈول کے تحت لایا جائے جس میں قبائلی آبادی کو شناختی تحفظ حاصل ہے۔ویسے بھی لداخ کی ستانوے فیصد آبادی قبائلی ہے۔یا پھر آرٹیکل تین سو اکہتر کی چھتری دی جائے جس کے تحت شمال مشرقی بھارتی ریاستوں کی قبائلی آبادی کو معاشی و املاکی خود مختاری حاصل ہے۔
لداخ کے دارالحکومت لیہہ کی کئی چھوٹی سیاسی تنظیموں اور سول سوسائٹی نے لداخ کو آئین کے چھٹے شیڈول کے تحت تحفظ دینے کے مطالبے پر دباؤ بڑھانے کے لیے ایک مشترکہ اتحاد بھی قائم کر لیا ہے۔
لداخ سطح سمندر سے اٹھارہ ہزار آٹھ سو فٹ بلند ہے۔آبادی تین لاکھ کے لگ بھگ ہے۔یہ خطہ دو اضلاع پر مشتمل ہے۔ضلع لیہہ میں بودھوں کی اور ضلع کرگل میں شیعہ مسلمانوں کی اکثریت ہے۔عام تاثر یہ ہے کہ لداخ بودھ اکثریتی علاقہ ہے۔مگر حقیقت یہ ہے کہ یہاں مسلمان آبادی چھیالیس اعشاریہ چار فیصد ، بودھ آبادی انتالیس اعشاریہ سات فیصد اور ہندو آبادی بارہ اعشاریہ ایک فیصد ہے۔
ایک جانب اگر لداخ کے ضلع لیہہ کی بودھ اکثریت آئینی تحفظات کے تحت وفاق کے زیرِ انتظام ریاست کشمیر سے الگ خطے کے طور پر رہنے کے حق میں ہے تو دوسری جانب ضلع کرگل کی مسلم اکثریت خود کو باقی کشمیر سے کاٹنے کے مرکزی حکومت کے انتظامی اقدامات کی شروع دن سے مخالف ہے۔
کرگل سے لوک سبھا کے سابق رکن اور خود مختار ضلع کونسل کے سابق سربراہ اصغر علی کربلائی کا کہنا ہے کہ ہمیں آئین کے چھٹے شیڈول یا مرکزی حکومت کے براہِ راست کنٹرول میں رہنا منظور نہیں۔اگر مرکزی حکومت کو ہماری اتنی ہی فکر ہے تو پھر لداخ کو ایک مکمل بااختیار ریاست کا درجہ دیا جائے تاکہ لداخ کی مسلم اکثریت اور بودھ اقلیت کے حقوق کا مساوی تحفظ ہو سکے۔
اصغر علی کربلائی کا کہنا ہے کہ ہمیں خدشہ ہے کہ حکومتِ بھارت آر ایس ایس کے ایجنڈے کے تحت پوری کشمیری ریاست کی علاقے، مذہب اور زبان کے نام پر بندر بانٹ کر کے اس کے اجتماعی تاریخی تشخص کو دفن کرنا چاہتی ہے اور اس کے ملبے پر اپنی مرضی کی ثقافت ، تاریخ اور معیشت تھوپنا چاہتی ہے۔
کرگل میں مرکزی حکومت کی پالیسیوں کی مزاحمت کے لیے مقامی لوگوں نے پارٹی سیاست سے بالا ہو کر جو مشترکہ ایکشن کمیٹی بنائی ہے اس کے سیکریٹری ناصر منشی کا کہنا ہے کہ بی جے پی حکومت صرف لیہہ کو پورا لداخ اور بودھ آبادی کو ہی لداخ کی نمایندہ سمجھتی ہے۔جو بھی رہنما ، منتری یا اعلیٰ افسر لداخ آتا ہے وہ صرف لیہہ کا دورہ کر کے چلاجاتا ہے۔ کرگل کو مکمل نظرانداز کیا جاتا ہے۔کوئی ہم سے نہیں پوچھتا کہ آخر ہم کرگل والے کیا چاہتے ہیں۔
سرینگر یونیورسٹی کے شعبہِ قانون کے سینئر استاد شیخ شوکت نے لداخیوں کے المیے کو یوں سمیٹا ہے کہ بھارتی ریاستی ڈھانچے کی جانب سے لداخ کے بودھوں کو ایک طویل عرصے سے بتدریج یہ باور کروانے کی کوشش کی گئی جیسے وادیِ کشمیر والے ان کا استحصال کر رہے ہیں اور اس سے نجات کا ایک ہی طریقہ ہے کہ لداخ کا ناتا کشمیر سے ٹوٹ جائے۔
بقول پروفیسر شوکت لداخیوں کو پٹی پڑھائی گئی کہ ایک بار جب وہ وفاق کے زیرِ انتظام علاقہ بن گئے تو وہ اپنی زمین کے مالک بن جائیں گے۔ مگر پچھلے ایک برس میں لداخیوں پر یہ حقیقت کھل گئی کہ مرکز کے زیرِ انتظام ہونے سے رہی سہی خودمختاری بھی مرکز کی جھولی میں گر گئی ہے اور جس علاقے کو سبز باغ دکھائے جاتے ہیں اسے عملاً ٹھینگا بھی نہیں ملتا۔اس اعتبار سے لداخیوں کے ساتھ جو ہاتھ ہوا ہے وہ باقی کشمیر کے ساتھ ہونے والے المیے سے اگر زیادہ نہیں تو کم بھی نہیں۔
لداخ تاریخی اعتبار سے تبت کا حصہ رہا ہے۔ ان دنوں وہ بھارت چین مسلح کشیدگی کے سبب نہ صرف خبروں میں نمایاں ہے بلکہ آنے والے دنوں میں اس کی جغرافیائی و سیاسی حیثیت اور حساس ہوتی چلی جائے گی۔اگر لداخی بھارت سے خوش نہیں رہتے تو پھر اسٹرٹیجک اہمیت کا یہ علاقہ دلی حکومت کے لیے ایک تازہ دردِ سر بن سکتا ہے۔
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیےbbcurdu.com پر کلک کیجیے)
کیونکہ ان کے خیال میں سرینگر میں موجود روایتی کشمیری مسلمان حکمران اشرافیہ لداخیوں کو دور دراز خطے کے قبائلی سمجھ کر ان کی ترقی اور حقوق سے اغماز برتتی رہی ہے۔لداخیوں کا خیال تھا کہ سرینگر سے جان چھوٹنے اور یونین ٹیرٹیری ( وفاق کے زیرِ انتظام علاقہ) کی شکل میں براہِ راست دلی کی حکمرانی تلے آنے سے ان کے احساسِ محرومی کا ازالہ ہو جائے گا۔
چنانچہ گزشتہ برس پانچ اگست کو کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کا خیرمقدم کرتے ہوئے لداخ سے بی جے پی کے رکنِ پارلیمان جمیانگ سیرنگ نمگیال نے لوک سبھا میں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ لداخ کی پسماندگی کے ذمے دار آرٹیکل تین سو ستر اور کانگریس کا طویل دورِ حکومت ہے۔اور اب لداخ کے لیے ایک نیا سورج طلوع ہوا ہے۔
مگر اب ان پر کھل رہا ہے کہ حقوق تو پہلے سے بھی زیادہ دور ہو گئے ہیں۔ماضی میں اگر مستقبل کے بارے میں کوئی امیدِ موہوم تھی تو اب وہ بھی نہیں رہی۔لداخ کی بی جے پی شاخ کے سابق صدر چیرنگ ڈورگے نے مرکزی حکومت کی لداخ پالیسی سے اختلاف کرتے ہوئے گذرے مئی میں استعفیٰ دے دیا۔
چیرنگ کا کہنا ہے کہ خصوصی تشخص کو یقینی بنانے والے آرٹیکل تین سو ستر کے خاتمے اور غیر مقامی افراد پر مقامی املاک کی خریداری پر پابندی کا قانون آرٹیکل پینتیس اے منسوخ ہونے کے نتائج مقامی نسلوں کے لیے بھیانک ثابت ہوں گے اور اجنبیوں کی یلغار سے مقامی تشخص خاک میں ملتا چلا جائے گا۔
جیرنگ کا کہنا ہے کہ لداخ کی خودمختار ہل کونسل علاقے کی سرکاری زمین کی مالک تھی مگر وفاقی علاقہ بننے کے بعد یہ کونسل مکمل بے اختیار ہو گئی ہے۔ ہمیں خدشہ ہے کہ اب ہماری زمین ہم سے مشورہ کیے بغیر بیرونِ لداخ صنعت کاروں،کانکنی کی کمپنیوں اور فوج میں بانٹ دی جائے گی۔
ان خدشات کے سبب خود حکمران بی جے پی کے لداخ یونٹ نے گزشتہ ماہ ایک متفقہ قرار داد میں مقامی زمین، ثقافت ، ماحولیات، روزگار اور کاروباری حقوق کے تحفظ کے لیے آئینی اقدامات کا مطالبہ کر دیا۔قرار داد میں کہا گیا کہ یا تو لداخ کو بھارتی آئین کے چھٹے شیڈول کے تحت لایا جائے جس میں قبائلی آبادی کو شناختی تحفظ حاصل ہے۔ویسے بھی لداخ کی ستانوے فیصد آبادی قبائلی ہے۔یا پھر آرٹیکل تین سو اکہتر کی چھتری دی جائے جس کے تحت شمال مشرقی بھارتی ریاستوں کی قبائلی آبادی کو معاشی و املاکی خود مختاری حاصل ہے۔
لداخ کے دارالحکومت لیہہ کی کئی چھوٹی سیاسی تنظیموں اور سول سوسائٹی نے لداخ کو آئین کے چھٹے شیڈول کے تحت تحفظ دینے کے مطالبے پر دباؤ بڑھانے کے لیے ایک مشترکہ اتحاد بھی قائم کر لیا ہے۔
لداخ سطح سمندر سے اٹھارہ ہزار آٹھ سو فٹ بلند ہے۔آبادی تین لاکھ کے لگ بھگ ہے۔یہ خطہ دو اضلاع پر مشتمل ہے۔ضلع لیہہ میں بودھوں کی اور ضلع کرگل میں شیعہ مسلمانوں کی اکثریت ہے۔عام تاثر یہ ہے کہ لداخ بودھ اکثریتی علاقہ ہے۔مگر حقیقت یہ ہے کہ یہاں مسلمان آبادی چھیالیس اعشاریہ چار فیصد ، بودھ آبادی انتالیس اعشاریہ سات فیصد اور ہندو آبادی بارہ اعشاریہ ایک فیصد ہے۔
ایک جانب اگر لداخ کے ضلع لیہہ کی بودھ اکثریت آئینی تحفظات کے تحت وفاق کے زیرِ انتظام ریاست کشمیر سے الگ خطے کے طور پر رہنے کے حق میں ہے تو دوسری جانب ضلع کرگل کی مسلم اکثریت خود کو باقی کشمیر سے کاٹنے کے مرکزی حکومت کے انتظامی اقدامات کی شروع دن سے مخالف ہے۔
کرگل سے لوک سبھا کے سابق رکن اور خود مختار ضلع کونسل کے سابق سربراہ اصغر علی کربلائی کا کہنا ہے کہ ہمیں آئین کے چھٹے شیڈول یا مرکزی حکومت کے براہِ راست کنٹرول میں رہنا منظور نہیں۔اگر مرکزی حکومت کو ہماری اتنی ہی فکر ہے تو پھر لداخ کو ایک مکمل بااختیار ریاست کا درجہ دیا جائے تاکہ لداخ کی مسلم اکثریت اور بودھ اقلیت کے حقوق کا مساوی تحفظ ہو سکے۔
اصغر علی کربلائی کا کہنا ہے کہ ہمیں خدشہ ہے کہ حکومتِ بھارت آر ایس ایس کے ایجنڈے کے تحت پوری کشمیری ریاست کی علاقے، مذہب اور زبان کے نام پر بندر بانٹ کر کے اس کے اجتماعی تاریخی تشخص کو دفن کرنا چاہتی ہے اور اس کے ملبے پر اپنی مرضی کی ثقافت ، تاریخ اور معیشت تھوپنا چاہتی ہے۔
کرگل میں مرکزی حکومت کی پالیسیوں کی مزاحمت کے لیے مقامی لوگوں نے پارٹی سیاست سے بالا ہو کر جو مشترکہ ایکشن کمیٹی بنائی ہے اس کے سیکریٹری ناصر منشی کا کہنا ہے کہ بی جے پی حکومت صرف لیہہ کو پورا لداخ اور بودھ آبادی کو ہی لداخ کی نمایندہ سمجھتی ہے۔جو بھی رہنما ، منتری یا اعلیٰ افسر لداخ آتا ہے وہ صرف لیہہ کا دورہ کر کے چلاجاتا ہے۔ کرگل کو مکمل نظرانداز کیا جاتا ہے۔کوئی ہم سے نہیں پوچھتا کہ آخر ہم کرگل والے کیا چاہتے ہیں۔
سرینگر یونیورسٹی کے شعبہِ قانون کے سینئر استاد شیخ شوکت نے لداخیوں کے المیے کو یوں سمیٹا ہے کہ بھارتی ریاستی ڈھانچے کی جانب سے لداخ کے بودھوں کو ایک طویل عرصے سے بتدریج یہ باور کروانے کی کوشش کی گئی جیسے وادیِ کشمیر والے ان کا استحصال کر رہے ہیں اور اس سے نجات کا ایک ہی طریقہ ہے کہ لداخ کا ناتا کشمیر سے ٹوٹ جائے۔
بقول پروفیسر شوکت لداخیوں کو پٹی پڑھائی گئی کہ ایک بار جب وہ وفاق کے زیرِ انتظام علاقہ بن گئے تو وہ اپنی زمین کے مالک بن جائیں گے۔ مگر پچھلے ایک برس میں لداخیوں پر یہ حقیقت کھل گئی کہ مرکز کے زیرِ انتظام ہونے سے رہی سہی خودمختاری بھی مرکز کی جھولی میں گر گئی ہے اور جس علاقے کو سبز باغ دکھائے جاتے ہیں اسے عملاً ٹھینگا بھی نہیں ملتا۔اس اعتبار سے لداخیوں کے ساتھ جو ہاتھ ہوا ہے وہ باقی کشمیر کے ساتھ ہونے والے المیے سے اگر زیادہ نہیں تو کم بھی نہیں۔
لداخ تاریخی اعتبار سے تبت کا حصہ رہا ہے۔ ان دنوں وہ بھارت چین مسلح کشیدگی کے سبب نہ صرف خبروں میں نمایاں ہے بلکہ آنے والے دنوں میں اس کی جغرافیائی و سیاسی حیثیت اور حساس ہوتی چلی جائے گی۔اگر لداخی بھارت سے خوش نہیں رہتے تو پھر اسٹرٹیجک اہمیت کا یہ علاقہ دلی حکومت کے لیے ایک تازہ دردِ سر بن سکتا ہے۔
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیےbbcurdu.com پر کلک کیجیے)