سٹیزن پولیس لائزن کمیٹی تنازعات کا شکار

 کرپشن اور شہرت کی ہوس نے کمیٹی کو متنازع بنا دیا، حالیہ چناؤ کالعدم قرار

 کرپشن اور شہرت کی ہوس نے کمیٹی کو متنازع بنا دیا، حالیہ چناؤ کالعدم قرار

BELGRADE:
دور حاضر میں پولیس کا ساتھ دے کر معاشرے میں امن عامہ کے خواب کو یقینی بنانے اور بڑھتی ہوئی آبادی کیساتھ کرائم کے گراف کو نیچے لانے معمولی نوعیت کے مقدمات ، جھگڑوں کو نمٹانے، پولیس ملازمین کی ویلفیئر ، اوورسیز پاکستانیوں کی شکایات حل کرنے کے لئے پاکستان کے 21 اضلاع میں پولیس آرڈینینس 2002ء کے تحت سٹیزن پولیس لائزن کمیٹیاں قائم کی گئیں۔

خوش قسمتی سے 2014ء میں تعینات سابق ڈی پی او گجرات رائے اعجاز کی خصوصی دلچسپی سے سٹیزن پولیس لائزن کمیٹی کے قیام کی اس فہرست میں ضلع گجرات کو بھی شامل کر لیا گیا۔

کراچی کے بعد سی پی ایل سی گجرات دو سری تنظیم تھی، جس پر تیزی سے کام شروع کرکے اپنے خواب کو حقیقت کا رنگ د ینے کیلئے رائے اعجاز احمدنے اپنی تمام تر صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے محب وطن، سماجی، کاروباری، مذہبی حلقوں کے امن پسند افراد کا چناؤ کیا مگر ابتدائی مرحلہ مکمل ہوتے ہی ان کا اچانک تبادلہ کر دیا گیا، جس کے بعد سی پی ایل سی کے قیام کا معاملہ سست روی کا شکار ہو گیا۔

لیکن اسی سیٹ پر ان کی ٹرانسفر کے بعد ان کے والد رائے ضمیر الحق تعینات ہوئے تو انہوں نے اپنے بیٹے کے ادھورے خواب کو تعبیر دینے کے لئے 2015ء میں 55 ممبران پر مشتمل سی پی ایل سی تنظیم کو باقاعدہ حتمی شکل دیتے ہوئے ممبران پر واضح کیا کہ ہر دو سال بعد عہدیداران کا انتخاب بذریعہ حفیہ بیلٹ ہوگا، مگر بد قسمتی سے دوسروں کے معاملات میرٹ پر حل کرنے کا دعویٰ کر کے سی پی ایل سی کے عہدیدار ، ممبر بننے والے کہیں اراضی قبضوں، ٹیکس چوری کے مقدمات و الزامات کی زد میں تو کہیں اپنی سیاسی وابستگیوں کے بل بوتے پر انصاف کا گلا گھونٹتے رہے۔

چیئرمین، وائس چیئرمین، فنانس اور سیکرٹری نشرو اشاعت کے عہدوں پر براجمان ہونے کی ہوس میں اس کے ممبران نے خفیہ بیلٹ کے ذریعے الیکشن کروانے کے بجائے آپس میں ہی الیکشن الیکشن کا کھیل رچا لیا۔ چیئرمینی کی حسرت رکھنے والے ایک سیاسی رہنما امجد فاروق نے ڈی پی او گجرات عمر سلامت سمیت محکمہ پولیس کے سی پی ایل سی کیساتھ جڑے آفیسران کو اعتماد میں لیے بغیر پولیس لائن میں سی پی ایل سی کے بند کمرے میں59میں سے 44ممبران سے اپنے حق میں قرار داد پیش کروا کر خود کو دوسری مرتبہ چیئرمین منتخب کروایا تو شہری حلقوں کی جانب سے تنقید ہونے پر ڈی پی او عمر سلامت نے نوٹس لیتے ہوئے نئے عہدیداران کا الیکشن کالعدم قرار دے کر محکمانہ قوانین پر گہری نظر رکھنے والے ڈی ایس پی لیگل اختر گوندل کی سربراہی میں 5 رکنی کمیٹی تشکیل دیدی، جو نئے سرے سے ممبران کے چناؤ کے لئے قواعد و ضوابط ترتیب دے گی۔


بلاشبہ ڈی پی او عمر سلامت کو منصف ہونے کا کردار ادا کر نے پر تمام حلقوں سے داد ملی لیکن انہیں اب اس بات کو بھی یقینی بنانا ہوگا کہ سی پی ایل کے ممبران وعہدیداران کی باقاعدہ سکروٹنی کی جائے تاکہ رضائے الٰہی اور صرف میرٹ پر انصاف کی فراہمی یقینی بنانے والے نیک نیت ، دیانتدار لوگ ہی اس میں شامل ہو سکیں کیونکہ ماضی میں سی پی ایل سی کے نام پر کرپشن کا بازار گرم کیا گیا۔

سی پی ایل سی کے ارکان کے ساتھ ایس ایچ اوز کئی جرائم پیشہ عناصراور معززین سے ہسپتال کے نام پر اپنی جیبیں بھرتے رہے مگر انہیں پوچھنے والا کوئی نہیں۔-20 2018ء کے لئے منتخب ہونیوالے چیئرمین چوہدری افتخار نے اس پلیٹ فارم سے سیف سٹی پراجیکٹ کے کنٹرول روم کے قیام کیلئے نہ صرف کردار ادا کیا بلکہ ڈرون کیمرہ اور پولیس کے لئے ایک ایمبولینس کی فراہمی یقینی بناکر ویلفیئر کے کاموں میں پولیس کا ہاتھ بھی بٹانے کیساتھ پولیس لائن ڈسپنسری کو ادویات ،کرونا وباء کے دوران ماسک ، سینیاٹائزر بھی فراہم کیے۔

لیکن اس کے ساتھ وہ اپنے ہی گاؤں کے لوگوں کی اراضی پرقبضے کی درخواستیں اور الزامات لگنے پر اپنا دامن بھی دغدار کر بیٹھے لیکن اس کے برعکس انہوںنے اپنے دور میں اپنی اجارہ داری ختم ہونے کے ڈر سے نہ تو اہم اداروں کے ذمہ داران کوممبر بنا کرتنظیم میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھنے والی ایڈوائزی کونسل تشکیل دی اور نہ ہی سی پی ایل سی کو رجسٹرڈ کروا کر بااختیار تنظیم کی شکل دی اور نہ ہی پولیس کی کارکردگی رپورٹس جاری کیں جبکہ 24ماہ میں نہ ہی خالی سٹیوں پر ممبران کی تعداد پوری کی اور اب وہ تنظیم کے غیر آئینی عہدیداران کا انتخاب کر وا کے تاریخ کے متنازعہ ترین چیئرمین بن گئے۔ گجرات کی اس بے اختیار سٹیزن پولیس لائزن کمیٹی کے طرز کی مثال پاکستان کے باقی 20اضلاع میں قائم ہونیوالی سی پی ایل کی تنظیموں میں آج تک نہیں مل پائی۔

بدقسمتی سے گجرات کے عہدیداران و ممبران کا واحد مقصد فرنیچر ، چیمبر سمیت مختلف تنظیموں میں شامل ہو کر پولیس آفیسران سے تعلقات بنانا، فوٹو سیشن اور گاڑی کے آگے چیئرمین کی نیم پلیٹ لگوانا ہے۔

ان کی کارکردگی کا اندازہ گزشتہ 5 سالوں کے دوران بننے والے3چیئرمینوں کے انتخاب سے لگایا جاسکتا ہے کہ وہ مجموعی طور پر صرف 780درخواستیں نمٹا پائے جن میںچوہدری اختر چھوکر کلاں نے 80،امجد فاروق نے 226،چوہدری افتخار معروف نے 474خواستیں حل کیں حالانکہ ضلع گجرا ت میں سالانہ 8ہزار سے زائد مقدمات درج ہوتے ہیں اور مجموعی طور پر 2015 سے 2020ء کے دوران اب تک 46ہزار سے زائد مقدمات درج ہوئے جن میں سے 40 فیصد مقدمات لین دین ، لڑائی جھگڑوں ، خاندانی تنازعات ، گھر سے فرار ہونیوالی لڑکیوں کے اغواء کے معاملات کے ہیں حالانکہ لین دین کے تنازعات ، مقدمات کی شرح ثالثی کے عمل سے کم ہونی چاہیے تھی مگر کروڑوں کے لین دین کے تنازعات میں لوگوں کی جانب سے مخالفین پر ڈکیتی کے مقدمات درج کروانے جیسی کئی مثالیں بھی موجود ہیں اور ایسے تنازعات کا مقدمہ کے اندراج سے قبل تصفیہ ہی ٹارگٹ ہونا چاہیے لیکن ایسا نہ ہو سکا۔

ڈیڑھ ماہ قبل تعینات ہونیوالے ڈی پی او گجرات عمر سلامت نے اگر اسی طرح دلچسپی لے کر شب و روز کی عرق ریزی کے بعد اراکین کا انتخاب کیا تو سی پی ایل سی جہاں ان کی معاون ثابت ہوسکتی ہے، وہاں اس کے دورس نتائج نکلیں گے کیوں کہ تھانہ کلچر کو بدلنے کے لئے آئے روز ان کے اچانک چھاپوں، سنگین واقعات میں خود جائے وقوعہ پر پہنچنے کے عمل سے جہاں ضلع میں ان کی دھاک اس وقت بیٹھی ہوئی وہاں انہیں اس تنظیم سے جڑے افراد کواحساس دلا کر ایسے لوگوں کو معاشرے کے کار آمد دھارے میں شامل کرنے پر بھی توجہ دینا ہوگی جوجرم کی دنیا کو چھوڑ کر کارآمد شہری بننا چاہتے ہیں۔
Load Next Story