جلسوں میں پی ڈی ایم کی اشتعال انگیز تقاریر پر وزراء کی شدید تنقید
25 اکتوبر کا جلسہ نہ صرف صوبے بلکہ پورے ملک کی تاریخ میں ایک نئی تبدیلی کا باعث بنے گا
پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے یکے بعد دیگرے پاور شو کے جلسوں میں استعمال ہونے والی زبان پر وزیراعظم عمران خان اور ان کے وفاقی وزراء کی طرف سے جہاں سخت ردعمل دیکھنے میں آرہا ہے وہاں تحریک انصاف کی اتحادی جماعتوں نے بھی اس حوالے سے اپنا ردعمل دینا شروع کردیا ہے۔
بلوچستان سے تحریک انصاف کی اتحادی جماعت بلوچستان عوامی پارٹی کی قیادت کا ان جلسوں میں استعمال ہونے والی زبان پر تنقید کرتے ہوئے کہنا ہے کہ پی ڈی ایم کے جلسوں میں ملکی سالمیت کو قائم رکھنے والے اداروں کے خلاف تقریر نہ تو نادانی ہے اور نہ ہی محض اتفاق۔ وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان عالیانی جو کہ بلوچستان عوامی پارٹی کے سربراہ بھی ہیں اُن کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ پی ڈی ایم کے جلسوں میں قومی اداروں کا ذکر اس بات کا ثبوت ہے کہ اپوزیشن اس ملک میں اشتعال کی سیاست کو فروغ دینا چاہتی ہے ہم شائد بھول رہے ہیں کہ دُنیا آج بھی کورونا وائرس کی لپیٹ میں ہے۔
گذشتہ آٹھ ماہ میں کوئی ایسا ملک نہیں جس کی معیشت کورونا وائرس کے سبب متاثر نہ ہوئی ہو جلسوں سے نہ تو کورونا وائرس کا خاتمہ ہوگا اور نہ ہی معیشت کو ہونے والے نقصان کا ازالہ ہو سکتا ہے، یہ وقت ہے کہ قوم مشکلات کا سامنا کرتے ہوئے متحد ہو کر مستقبل کا سوچے ۔ اسی طرح بلوچستان عوامی پارٹی کے وزراء میر ظہور بلیدی، محمد سلیم کھوسہ اور تحریک انصاف کے ایم پی اے مبین خلجی نے مشترکہ پریس کانفرنس میں پی ڈی ایم کو زبردست تنقید کا نشانہ بنایا ان کا کہنا تھا کہ پی ڈی ایم گذشتہ عام انتخابات میں عوام کی جانب سے انہیں مسترد کرنے کا بدلہ عوام ہی سے لے رہی ہے۔
ڈھائی سالہ اقتدار کا معاہدہ کرنے والی جماعت کے صوبے میں کرپشن کے قصوں سے دُنیا واقف ہے، صوبے میں قوم پرستی کا نعرہ لگا کر ایک طرف تو ذاتی مراعات کیلئے محرومیوں کا نام استعمال کیا، آج پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم پر اکٹھے ہو کر ان سب نے جو ڈرامہ شروع کیا ہے یہ تمام ڈرامہ بازی بیرونی ایجنڈے کا حصہ ہے کیونکہ جو زبان اور بیانیہ یہ لوگ استعمال کر رہے ہیں وہ کسی محب وطن کا نہیں ہو سکتا ۔ پی ڈی ایم کو کوئٹہ جلسے کیلئے صوبائی حکومت ہر قسم کی سکیورٹی اور سہولت فراہم کرے گی۔
تاہم ملکی اداروں کے خلاف بولنے کی کسی کو اجازت نہیں دی جائے گی۔ بلوچستان حکومت کے ترجمان نے بھی پی ڈی ایم کے کوئٹہ جلسے کے حوالے سے اس طرف نشاندہی کی ہے کہ ان جلسوں سے کورونا وائرس کے پھیلنے کا شدید خدشہ ہے، لہٰذا انہوں نے یہ پیشکش کی کہ اگر جلسے کے شرکاء ایس او پیز پر عملدرآمد کرتے ہیں تو بلوچستان حکومت انہیں سینی ٹائزر اور ماسک فراہم کرنے کیلئے تیار ہے۔
سیاسی حلقوں کے مطابق پی ڈی ایم کے گوجرانوالہ اور کراچی کے عوامی پاور شوز کی کامیابی کے بعد 25 اکتوبر کو کوئٹہ میں ہونے والے جلسے کو تاریخی بنانے کیلئے اپوزیشن جماعتیں جمعیت علماء اسلام، پشتونخواہ ملی عوامی پارٹی، بلوچستان نیشنل پارٹی، پیپلز پارٹی، مسلم لیگ (ن)، نیشنل پارٹی، عوامی نیشنل پارٹی، جمعیت اہلحدیث اور دیگر جماعتیں پورا سیاسی زور لگا رہی ہیں اور اُن کا کہنا ہے کہ حکومت اور اس کی اتحادی جماعتوں کی صفوں میں کھلبلی سی مچ چکی ہے اور وہ بڑھتے ہوئے عوامی سمندر کی تاب اب نہیں رکھ پائیں گے۔
کوئٹہ کا تاریخی جلسہ ان کو بہا کر لے جائے گا۔ اپوزیشن کی ان جماعتوں نے اس جلسے کو تاریخی بنانے کیلئے عوامی مہم کا بھی آغاز کر رکھا ہے جس کیلئے انہوں نے اپنے ورکروں کو متحرک کردیا ہے، ان جماعتوں کا یہ دعویٰ ہے کہ 25 اکتوبر کا یہ جلسہ نہ صرف صوبے بلکہ پورے ملک کی تاریخ میں ایک نئی تبدیلی کا باعث بنے گا ۔ ان سیاسی حلقوں کے مطابق بلوچستان کی مخلوط حکومت نے پی ڈی ایم کے کوئٹہ جلسے کا جواب دینے کیلئے صوبائی اسمبلی کا اجلاس بلایا ہے۔
25 اکتوبر کے جلسے کے بعد حکومتی اتحاد اس جلسے کے حوالے سے کوئی عوامی اجتماع کرنے کے بجائے بلوچستان اسمبلی کے فورم پر جواب دے گا ۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ تحریک انصاف جو کہ بلوچستان میں جام حکومت کی ایک بڑی اتحادی جماعت تصور کی جاتی ہے گوکہ اُسے وزیراعلیٰ جام کمال سے بعض معاملات میں کئی گلے شکوے ہیں لیکن اپوزیشن جماعتوں (پی ڈی ایم) کے ان جلسوں اور ریلیوں کے جواب کیلئے دونوں جماعتیں ایک پیج پر کھڑی ہو کر بھرپور دفاع کر رہی ہیں جس کاعملی مظاہرہ ان اتحادی جماعتوں کا مختلف فورم اور مشترکہ بیانات سے ظاہر ہو رہا ہے جبکہ اس حوالے سے جام حکومت کی دیگر اتحادی جماعتوں کی خاموشی بھی معنی خیز ہے جو کہ سیاسی حلقوں میں موضوع بحث بنی ہوئی ہے۔
دوسری جانب وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال جو کہ کورونا کا ٹیسٹ پازیٹو آنے کے بعد کورنٹائن ہیں اس کے باوجود وہ اپنے کیمپ سے بھرپور اننگ کھیل رہے ہیں اور تواتر سے اپوزیشن جماعتوں کو جلسے اور بیانیئے پر جواب دے رہے ہیں، پی ڈی ایم کے کراچی جلسے میں سابق وزیراعلیٰ اور نیشنل پارٹی کے سربراہ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کی تقریر پر بھی انہوں نے اپنے سخت ردعمل کا اظہار کیا اور ایک ٹوئٹ میں ان کا کہنا تھا کہ ڈاکٹر مالک نے اپنے دور اقتدار میں تربت میں چار روڈز کے علاوہ گوادر سمیت کسی کیلئے کوئی ترقیاتی کام نہیں کیا ۔ان کا کہنا تھا کہ ماضی میں پانچ پانچ سال حکومت کرنے والے ہمیں بتائیں کہ سی پیک کے کون سے میگا پراجیکٹس ، نیشنل ہائی وے اور موٹر وے سمیت دیگر منصوبے بلوچستان لائے گئے۔
بلوچستان سے تحریک انصاف کی اتحادی جماعت بلوچستان عوامی پارٹی کی قیادت کا ان جلسوں میں استعمال ہونے والی زبان پر تنقید کرتے ہوئے کہنا ہے کہ پی ڈی ایم کے جلسوں میں ملکی سالمیت کو قائم رکھنے والے اداروں کے خلاف تقریر نہ تو نادانی ہے اور نہ ہی محض اتفاق۔ وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان عالیانی جو کہ بلوچستان عوامی پارٹی کے سربراہ بھی ہیں اُن کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ پی ڈی ایم کے جلسوں میں قومی اداروں کا ذکر اس بات کا ثبوت ہے کہ اپوزیشن اس ملک میں اشتعال کی سیاست کو فروغ دینا چاہتی ہے ہم شائد بھول رہے ہیں کہ دُنیا آج بھی کورونا وائرس کی لپیٹ میں ہے۔
گذشتہ آٹھ ماہ میں کوئی ایسا ملک نہیں جس کی معیشت کورونا وائرس کے سبب متاثر نہ ہوئی ہو جلسوں سے نہ تو کورونا وائرس کا خاتمہ ہوگا اور نہ ہی معیشت کو ہونے والے نقصان کا ازالہ ہو سکتا ہے، یہ وقت ہے کہ قوم مشکلات کا سامنا کرتے ہوئے متحد ہو کر مستقبل کا سوچے ۔ اسی طرح بلوچستان عوامی پارٹی کے وزراء میر ظہور بلیدی، محمد سلیم کھوسہ اور تحریک انصاف کے ایم پی اے مبین خلجی نے مشترکہ پریس کانفرنس میں پی ڈی ایم کو زبردست تنقید کا نشانہ بنایا ان کا کہنا تھا کہ پی ڈی ایم گذشتہ عام انتخابات میں عوام کی جانب سے انہیں مسترد کرنے کا بدلہ عوام ہی سے لے رہی ہے۔
ڈھائی سالہ اقتدار کا معاہدہ کرنے والی جماعت کے صوبے میں کرپشن کے قصوں سے دُنیا واقف ہے، صوبے میں قوم پرستی کا نعرہ لگا کر ایک طرف تو ذاتی مراعات کیلئے محرومیوں کا نام استعمال کیا، آج پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم پر اکٹھے ہو کر ان سب نے جو ڈرامہ شروع کیا ہے یہ تمام ڈرامہ بازی بیرونی ایجنڈے کا حصہ ہے کیونکہ جو زبان اور بیانیہ یہ لوگ استعمال کر رہے ہیں وہ کسی محب وطن کا نہیں ہو سکتا ۔ پی ڈی ایم کو کوئٹہ جلسے کیلئے صوبائی حکومت ہر قسم کی سکیورٹی اور سہولت فراہم کرے گی۔
تاہم ملکی اداروں کے خلاف بولنے کی کسی کو اجازت نہیں دی جائے گی۔ بلوچستان حکومت کے ترجمان نے بھی پی ڈی ایم کے کوئٹہ جلسے کے حوالے سے اس طرف نشاندہی کی ہے کہ ان جلسوں سے کورونا وائرس کے پھیلنے کا شدید خدشہ ہے، لہٰذا انہوں نے یہ پیشکش کی کہ اگر جلسے کے شرکاء ایس او پیز پر عملدرآمد کرتے ہیں تو بلوچستان حکومت انہیں سینی ٹائزر اور ماسک فراہم کرنے کیلئے تیار ہے۔
سیاسی حلقوں کے مطابق پی ڈی ایم کے گوجرانوالہ اور کراچی کے عوامی پاور شوز کی کامیابی کے بعد 25 اکتوبر کو کوئٹہ میں ہونے والے جلسے کو تاریخی بنانے کیلئے اپوزیشن جماعتیں جمعیت علماء اسلام، پشتونخواہ ملی عوامی پارٹی، بلوچستان نیشنل پارٹی، پیپلز پارٹی، مسلم لیگ (ن)، نیشنل پارٹی، عوامی نیشنل پارٹی، جمعیت اہلحدیث اور دیگر جماعتیں پورا سیاسی زور لگا رہی ہیں اور اُن کا کہنا ہے کہ حکومت اور اس کی اتحادی جماعتوں کی صفوں میں کھلبلی سی مچ چکی ہے اور وہ بڑھتے ہوئے عوامی سمندر کی تاب اب نہیں رکھ پائیں گے۔
کوئٹہ کا تاریخی جلسہ ان کو بہا کر لے جائے گا۔ اپوزیشن کی ان جماعتوں نے اس جلسے کو تاریخی بنانے کیلئے عوامی مہم کا بھی آغاز کر رکھا ہے جس کیلئے انہوں نے اپنے ورکروں کو متحرک کردیا ہے، ان جماعتوں کا یہ دعویٰ ہے کہ 25 اکتوبر کا یہ جلسہ نہ صرف صوبے بلکہ پورے ملک کی تاریخ میں ایک نئی تبدیلی کا باعث بنے گا ۔ ان سیاسی حلقوں کے مطابق بلوچستان کی مخلوط حکومت نے پی ڈی ایم کے کوئٹہ جلسے کا جواب دینے کیلئے صوبائی اسمبلی کا اجلاس بلایا ہے۔
25 اکتوبر کے جلسے کے بعد حکومتی اتحاد اس جلسے کے حوالے سے کوئی عوامی اجتماع کرنے کے بجائے بلوچستان اسمبلی کے فورم پر جواب دے گا ۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ تحریک انصاف جو کہ بلوچستان میں جام حکومت کی ایک بڑی اتحادی جماعت تصور کی جاتی ہے گوکہ اُسے وزیراعلیٰ جام کمال سے بعض معاملات میں کئی گلے شکوے ہیں لیکن اپوزیشن جماعتوں (پی ڈی ایم) کے ان جلسوں اور ریلیوں کے جواب کیلئے دونوں جماعتیں ایک پیج پر کھڑی ہو کر بھرپور دفاع کر رہی ہیں جس کاعملی مظاہرہ ان اتحادی جماعتوں کا مختلف فورم اور مشترکہ بیانات سے ظاہر ہو رہا ہے جبکہ اس حوالے سے جام حکومت کی دیگر اتحادی جماعتوں کی خاموشی بھی معنی خیز ہے جو کہ سیاسی حلقوں میں موضوع بحث بنی ہوئی ہے۔
دوسری جانب وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال جو کہ کورونا کا ٹیسٹ پازیٹو آنے کے بعد کورنٹائن ہیں اس کے باوجود وہ اپنے کیمپ سے بھرپور اننگ کھیل رہے ہیں اور تواتر سے اپوزیشن جماعتوں کو جلسے اور بیانیئے پر جواب دے رہے ہیں، پی ڈی ایم کے کراچی جلسے میں سابق وزیراعلیٰ اور نیشنل پارٹی کے سربراہ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کی تقریر پر بھی انہوں نے اپنے سخت ردعمل کا اظہار کیا اور ایک ٹوئٹ میں ان کا کہنا تھا کہ ڈاکٹر مالک نے اپنے دور اقتدار میں تربت میں چار روڈز کے علاوہ گوادر سمیت کسی کیلئے کوئی ترقیاتی کام نہیں کیا ۔ان کا کہنا تھا کہ ماضی میں پانچ پانچ سال حکومت کرنے والے ہمیں بتائیں کہ سی پیک کے کون سے میگا پراجیکٹس ، نیشنل ہائی وے اور موٹر وے سمیت دیگر منصوبے بلوچستان لائے گئے۔