حقیقی ریاست مدینہ
آج کے اس کالم میں ریاست مدینہ کی جھلکیاں آپ تک پہنچانا مقصود ہے۔
الحمد للہ! ماہ ربیع الاول کا آغاز ہوچکا ہے، یہ ماہ مقدس اس اعتبار سے ہر مسلمان کے لیے عزت و تکریم کا باعث ہے کہ اس میں محسن انسانیت، نبی آخرالزماں حضرت محمد مصطفی ﷺ کی تشریف آوری ہوئی، اس پاک پیغمبر کی آمد جس کے بارے میں ماہر القادری لکھتے ہیں۔
سلام اس پر کہ جس نے بے کسوں کی دستگیری کی
سلام اس پر کہ جس نے بادشاہی میں فقیری کی
سلام اس پرکہ اسرارِ محبت جس نے سکھلائے
سلام اس پر کہ جس نے زخم کھا کر پھول برسائے
سلام اس پر کہ جس نے خوں کے پیاسوں کو قبائیں دیں
سلام اس پر کہ جس نے گالیاں سن کر دعائیں دیں
سلام اس پر کہ دشمن کو حیاتِ جاوداں دے دی
سلام اس پر ابو سفیان کو جس نے اماں دے دی
درود اس پر کہ جس کی بزم میں قسمت نہیں سوتی
درود اس پر کہ جس کے ذکر سے سیری نہیں ہوتی
درود اس پر کہ جس کے تذکرے ہیں پاک بازوں میں
درود اس پر کہ جس کا نام لیتے ہیں نمازوں میں
درود اس پر، جسے شمعِ شبستان ازل کہیے
درود اس ذات پر فخرِ بنی آدم جسے کہیے
یہ آپ کی تشریف آوری کا ہی اعجاز تھا کہ عرب کے متحارب و متصادم قبائل شیر و شکر ہوگئے، آپ نے دریاؤں اور پہاڑوں کی مصنوعی سرحدوں کو ختم کرکے ایک ایسا معاشرہ تشکیل فرمایا جس میں کالے اور گورے، عربی و عجمی، آقا و غلام کے درمیان ہر تفریق کو مٹا کر رکھ دیا۔ حبشہ سے آنے والے سیاہ فام صحابی رسول حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور فارس سے آنے والے سرخ و سپید حضرت سلمان فارسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک خاندان بن گئے۔
اسی انسانِ کامل، محسنِ انسانیت سرکار دو عالمﷺ نے اپنے ہاتھوں سے ریاست مدینہ کی بنیاد رکھی، وہ ریاست مدینہ جس میں حضرت محمد مصطفی ﷺ نے اپنی سادہ اور بے تکلف زندگی سے انسانی یگانگت اور مساوات کی جو اعلیٰ ترین مثالیں قائم کیں انسانیت کی معلوم تاریخ اس کی مثال دینے سے قاصر ہے۔
آج کے اس کالم میں ریاست مدینہ کی جھلکیاں آپ تک پہنچانا مقصود ہے تاکہ ہم اپنے آج کے حالات کو مدنظر رکھ کر حقیقی ریاست مدینہ کی معطر فضاؤں کو محسوس کرسکیں، وہ مدینہ کی ریاست جہاں امیر المومنین کو اس بات کا خوف تھا کہ دریائے فرات کے کنارے کوئی کتا بھی بھوکا مرگیا تو رب کی پکڑ میں نہ آجاؤں۔ یہ تھا وہ خوف جو ریاست مدینہ کا خلفاء پر ہر وقت طاری رہتا ہے۔ ایک ہمارے حکمران ہیں جو نام تو ریاست مدینہ کا لیتے ہیں لیکن حقیقت میں اس کی ابجد کا بھی علم نہیں رکھتے۔ ان کے دعوؤں سے لے کر اقدامات تک ہر عمل جھوٹ سے مزین ہے۔ یہ ریاست مدینہ کے سچے حاکموں کی حاکمیت سے واقف نہیں۔
تو آئے مدینہ چلتے ہیں، جہاں سچے نبی کے سچے اور وفادار غلام، خلیفہ ثانی، مراد رسول حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا دور ہے ، آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے مقرر کردہ گورنرز، والیوں اور ججوں پر سخت گرفت فرمایا کرتے تھے۔
ان کی کارکردگی کا جائزہ لیا جاتا تھا، جہاں کہیں سے شکایت ملتی یا کہیں بے انصافی کا گمان ہوتا فوراً گرفت فرماتے۔ خطا پر کبار صحابہ کو معزول کرنے سے بھی دریغ نہ کرتے۔ امیر المومنین گورنروں کی تقرری کرتے وقت ان سے حلف لیتے کہ ترکی گھوڑے پر سوار نہ ہونا، باریک کپڑے نہ پہننا، چھنا ہوا آٹا نہ کھانا، دروازے پر دربان نہ رکھنا، حاجت مندوں کے لیے ہر وقت دروازے کھلے رکھنا۔ ایک مرتبہ ایسا ہوا کہ صوبوں کے تمام گورنروں کو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک مقام پر اکٹھا کیا۔ حضرت ابوعبیدہ بن جراح، حضرت سلمان فارسی، حضرت سعد بن ابی وقاص، حضرت حذیفہ بن الیمان، حضرت عمرو بن العاص، حضرت ابو موسیٰ اشعری، حضرت عتبہ بن غزوان، حضرت عثمان بن عاص، یعلیٰ بن امیہ، نعمان، عمرو بن سعید، مثنیٰ بن حارثہ، عتاب بن اسید رضوان اللہ علیہم اجمعین جیسے متقی، پرہیزگار اور خوف خدا رکھنے والے تمام گورنرز سامنے موجود تھے۔
انھیں اس طرح مخاطب ہوکر نصیحت فرمائی ''خبردار! میں نے تمہیں امیر اور سخت گیر بناکر نہیں بھیجا بلکہ امام بناکر بھیجا ہے تاکہ لوگ تم سے ہدایت پائیں۔ عوام کے حقوق ادا کرو اور ان پر بے جا سختی نہ کرو کہ وہ ذلت محسوس کرنے لگیں اور نہ بلاوجہ نرمی کرو کہ وہ غلط فہمی کا شکار ہوجائیں۔ اپنے دروازے ان پر بند نہ کرنا کہ طاقتور کمزور کو ستانے لگیں اور نہ ہی ان سے کسی بات میں اپنے آپ کو برتر سمجھو کیونکہ یہ ظلم کے مترادف ہے۔''حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ مصر کے گورنر تھے ان کے بیٹے محمد بن عمرو نے ایک شہری کو محض اس لیے چابک مارے کہ اس کا گھوڑا ان سے آگے نکل گیا تھا۔ شہری مدینہ چلا آیا اور امیر المومنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے شکایت کی۔
حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اسے اپنے پاس ٹھہرایا اور حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ان کے بیٹے محمد بن عمرو کو مدینہ بلوا بھیجا۔ جب دونوں مدینہ پہنچے تو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مظلوم مصری کو بلوایا اور اس کے ہاتھ میں چابوک دے کر فرمایا کہ اسے پکڑو اور اپنا بدلہ لو۔ مصری نے چابک لیا اور بدلہ لینا شروع کردیا۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس مصری کو فرمایا کہ عمرو بن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بھی مارو کیونکہ بیٹا تجھے ہرگز نہ مارتا اگر اسے باپ کے اقتدار کا گھمنڈ نہ ہوتا۔
اس نے کہا! یا امیرالمومنین جس نے مجھے مارا تھا میں نے اس سے بدلہ لے لیا، اب میں عمرو بن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو نہیں مارتا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: اللہ کی قسم! اگر تو ان کو بھی مارتا تو ہم تمہیں نہ روکتے۔ پھر عمرو بن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے غضبناک لہجے میں فرمایا: اے عمرو! تم نے لوگوں کو کب سے غلام بنانا شروع کردیا ہے جب کہ ان کی ماؤں نے انھیں آزاد جنا ہے۔ یہ تھی ریاست مدینہ جہاں طاقتور اور کمزور ایک ہی پیج پر تھے، سب کے لیے انصاف کا ایک معیار تھا۔
امیر المومنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ رات کی تاریکی میں مدینہ کی گلیوں میں گشت کیا کرتے تھے، بھیس بدل کر رعایا کی خبر گیری رکھتے تھے، حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک رات مدینہ میں گشت کررہے تھے۔ایک گھر سے بچوں کے رونے کی آوازیںآئیں۔ آپ نے دروازے پر دستک دے کر ''پوچھا بچے کیوں رو رہے ہیں'' عورت نے کہا میرے پاس بچوں کو کھلانے کے لیے کچھ نہیں ہے میں نے ان کی تسلی کے لیے پانی کی دیگچی چولہے پر رکھ دی ہے تاکہ وہ انتظار کرتے کرتے سو جائیں۔ یہ سن کر حضرت عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ رونے لگے ، بیت المال تشریف لے گئے اپنی کمر پر راشن کی بوری اْٹھا کر اس عورت کے گھر پر لے آئے۔
اسے کہتے ہیں ریاست مدینہ، جس کی بنیاد آقا کریمﷺ نے رکھی اور خلفائے راشدین رضوان اللہ علیہم اجمعین نے اسے اسی نہج پر چلایا۔ ہمارے حکمرانوں نے محض اپنے اقتدار کو دوام بخشنے کے لیے ریاست مدینہ کا نعرہ لگایا اور سادہ لوح پاکستانیوں کو بیوقوف بنایا، گزشتہ دو برسوں کے دوران پاکستان اور اہل پاکستان جس مقام پر آکر کھڑے ہیں یہ اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ حکمران ریاست مدینہ کے خدوخال سے بھی واقف نہیں۔ خوشحالی کا سبز باغ دکھا کے عوام کے منہ سے روٹی کا نوالہ بھی چھین لیا، لوگوں کو روزگار کا جھانسہ دے کر لاکھوں سے روز گار چھین لیا، سادہ لوح عوام کو نئے گھروں کا وعدہ کرکے ان کے سر سے چھت تک چھین لی، اگر حکمران ریاست مدینہ کی جانب قدم بڑھاتے تو آج اس ملک میں انصاف کا بول بالا ہوتا، سودی نظام کا خاتمہ ہوتا، غربت، مہنگائی اور بے روزگاری سے عوام بلبلاتے نہیں۔ اس وقت نام نہاد ریاست مدینہ کے دعویداروں کے پاؤں عوام کی گردن اور ہاتھ جیبوں پر ہیں، جس چیز کا نوٹس لیتے ہیں وہ مارکیٹ سے غائب ہوجاتی ہے۔
صنعت کار سے لے کر بھیک مانگنے والے تک ، آج ہر کوئی اس تبدیلی کے اثرات سے پریشان ہے اور اس سے نجات کا خواہشمند ہے۔ حالات کی بے رحمی نے گیارہ اپوزیشن جماعتوں اور بائیس کروڑ عوام کو مولانافضل الرحمان کی قیادت میں ایک پیج پر جمع کردیا ہے، جعلی ووٹ ، مہنگائی ، غربت اور بے روزگاری کے تعاقب میں ملک کی 11 بڑی سیاسی جماعتوں نے حکومت کے خلاف علم ''بغاوت'' بلند کر دیا، گوجرانوالہ کے بعد کراچی میں ان جماعتوں کے پاور شو نے نام نہاد ریاست مدینہ کے دعویداروں میں کھلبلی مچاکے رکھ دی ہے، اگلے دو ماہ ملکی سیاست کے لیے انتہائی اہم دکھائی دے رہے ہیں۔
سلام اس پر کہ جس نے بے کسوں کی دستگیری کی
سلام اس پر کہ جس نے بادشاہی میں فقیری کی
سلام اس پرکہ اسرارِ محبت جس نے سکھلائے
سلام اس پر کہ جس نے زخم کھا کر پھول برسائے
سلام اس پر کہ جس نے خوں کے پیاسوں کو قبائیں دیں
سلام اس پر کہ جس نے گالیاں سن کر دعائیں دیں
سلام اس پر کہ دشمن کو حیاتِ جاوداں دے دی
سلام اس پر ابو سفیان کو جس نے اماں دے دی
درود اس پر کہ جس کی بزم میں قسمت نہیں سوتی
درود اس پر کہ جس کے ذکر سے سیری نہیں ہوتی
درود اس پر کہ جس کے تذکرے ہیں پاک بازوں میں
درود اس پر کہ جس کا نام لیتے ہیں نمازوں میں
درود اس پر، جسے شمعِ شبستان ازل کہیے
درود اس ذات پر فخرِ بنی آدم جسے کہیے
یہ آپ کی تشریف آوری کا ہی اعجاز تھا کہ عرب کے متحارب و متصادم قبائل شیر و شکر ہوگئے، آپ نے دریاؤں اور پہاڑوں کی مصنوعی سرحدوں کو ختم کرکے ایک ایسا معاشرہ تشکیل فرمایا جس میں کالے اور گورے، عربی و عجمی، آقا و غلام کے درمیان ہر تفریق کو مٹا کر رکھ دیا۔ حبشہ سے آنے والے سیاہ فام صحابی رسول حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور فارس سے آنے والے سرخ و سپید حضرت سلمان فارسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک خاندان بن گئے۔
اسی انسانِ کامل، محسنِ انسانیت سرکار دو عالمﷺ نے اپنے ہاتھوں سے ریاست مدینہ کی بنیاد رکھی، وہ ریاست مدینہ جس میں حضرت محمد مصطفی ﷺ نے اپنی سادہ اور بے تکلف زندگی سے انسانی یگانگت اور مساوات کی جو اعلیٰ ترین مثالیں قائم کیں انسانیت کی معلوم تاریخ اس کی مثال دینے سے قاصر ہے۔
آج کے اس کالم میں ریاست مدینہ کی جھلکیاں آپ تک پہنچانا مقصود ہے تاکہ ہم اپنے آج کے حالات کو مدنظر رکھ کر حقیقی ریاست مدینہ کی معطر فضاؤں کو محسوس کرسکیں، وہ مدینہ کی ریاست جہاں امیر المومنین کو اس بات کا خوف تھا کہ دریائے فرات کے کنارے کوئی کتا بھی بھوکا مرگیا تو رب کی پکڑ میں نہ آجاؤں۔ یہ تھا وہ خوف جو ریاست مدینہ کا خلفاء پر ہر وقت طاری رہتا ہے۔ ایک ہمارے حکمران ہیں جو نام تو ریاست مدینہ کا لیتے ہیں لیکن حقیقت میں اس کی ابجد کا بھی علم نہیں رکھتے۔ ان کے دعوؤں سے لے کر اقدامات تک ہر عمل جھوٹ سے مزین ہے۔ یہ ریاست مدینہ کے سچے حاکموں کی حاکمیت سے واقف نہیں۔
تو آئے مدینہ چلتے ہیں، جہاں سچے نبی کے سچے اور وفادار غلام، خلیفہ ثانی، مراد رسول حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا دور ہے ، آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے مقرر کردہ گورنرز، والیوں اور ججوں پر سخت گرفت فرمایا کرتے تھے۔
ان کی کارکردگی کا جائزہ لیا جاتا تھا، جہاں کہیں سے شکایت ملتی یا کہیں بے انصافی کا گمان ہوتا فوراً گرفت فرماتے۔ خطا پر کبار صحابہ کو معزول کرنے سے بھی دریغ نہ کرتے۔ امیر المومنین گورنروں کی تقرری کرتے وقت ان سے حلف لیتے کہ ترکی گھوڑے پر سوار نہ ہونا، باریک کپڑے نہ پہننا، چھنا ہوا آٹا نہ کھانا، دروازے پر دربان نہ رکھنا، حاجت مندوں کے لیے ہر وقت دروازے کھلے رکھنا۔ ایک مرتبہ ایسا ہوا کہ صوبوں کے تمام گورنروں کو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک مقام پر اکٹھا کیا۔ حضرت ابوعبیدہ بن جراح، حضرت سلمان فارسی، حضرت سعد بن ابی وقاص، حضرت حذیفہ بن الیمان، حضرت عمرو بن العاص، حضرت ابو موسیٰ اشعری، حضرت عتبہ بن غزوان، حضرت عثمان بن عاص، یعلیٰ بن امیہ، نعمان، عمرو بن سعید، مثنیٰ بن حارثہ، عتاب بن اسید رضوان اللہ علیہم اجمعین جیسے متقی، پرہیزگار اور خوف خدا رکھنے والے تمام گورنرز سامنے موجود تھے۔
انھیں اس طرح مخاطب ہوکر نصیحت فرمائی ''خبردار! میں نے تمہیں امیر اور سخت گیر بناکر نہیں بھیجا بلکہ امام بناکر بھیجا ہے تاکہ لوگ تم سے ہدایت پائیں۔ عوام کے حقوق ادا کرو اور ان پر بے جا سختی نہ کرو کہ وہ ذلت محسوس کرنے لگیں اور نہ بلاوجہ نرمی کرو کہ وہ غلط فہمی کا شکار ہوجائیں۔ اپنے دروازے ان پر بند نہ کرنا کہ طاقتور کمزور کو ستانے لگیں اور نہ ہی ان سے کسی بات میں اپنے آپ کو برتر سمجھو کیونکہ یہ ظلم کے مترادف ہے۔''حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ مصر کے گورنر تھے ان کے بیٹے محمد بن عمرو نے ایک شہری کو محض اس لیے چابک مارے کہ اس کا گھوڑا ان سے آگے نکل گیا تھا۔ شہری مدینہ چلا آیا اور امیر المومنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے شکایت کی۔
حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اسے اپنے پاس ٹھہرایا اور حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ان کے بیٹے محمد بن عمرو کو مدینہ بلوا بھیجا۔ جب دونوں مدینہ پہنچے تو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مظلوم مصری کو بلوایا اور اس کے ہاتھ میں چابوک دے کر فرمایا کہ اسے پکڑو اور اپنا بدلہ لو۔ مصری نے چابک لیا اور بدلہ لینا شروع کردیا۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس مصری کو فرمایا کہ عمرو بن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بھی مارو کیونکہ بیٹا تجھے ہرگز نہ مارتا اگر اسے باپ کے اقتدار کا گھمنڈ نہ ہوتا۔
اس نے کہا! یا امیرالمومنین جس نے مجھے مارا تھا میں نے اس سے بدلہ لے لیا، اب میں عمرو بن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو نہیں مارتا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: اللہ کی قسم! اگر تو ان کو بھی مارتا تو ہم تمہیں نہ روکتے۔ پھر عمرو بن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے غضبناک لہجے میں فرمایا: اے عمرو! تم نے لوگوں کو کب سے غلام بنانا شروع کردیا ہے جب کہ ان کی ماؤں نے انھیں آزاد جنا ہے۔ یہ تھی ریاست مدینہ جہاں طاقتور اور کمزور ایک ہی پیج پر تھے، سب کے لیے انصاف کا ایک معیار تھا۔
امیر المومنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ رات کی تاریکی میں مدینہ کی گلیوں میں گشت کیا کرتے تھے، بھیس بدل کر رعایا کی خبر گیری رکھتے تھے، حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک رات مدینہ میں گشت کررہے تھے۔ایک گھر سے بچوں کے رونے کی آوازیںآئیں۔ آپ نے دروازے پر دستک دے کر ''پوچھا بچے کیوں رو رہے ہیں'' عورت نے کہا میرے پاس بچوں کو کھلانے کے لیے کچھ نہیں ہے میں نے ان کی تسلی کے لیے پانی کی دیگچی چولہے پر رکھ دی ہے تاکہ وہ انتظار کرتے کرتے سو جائیں۔ یہ سن کر حضرت عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ رونے لگے ، بیت المال تشریف لے گئے اپنی کمر پر راشن کی بوری اْٹھا کر اس عورت کے گھر پر لے آئے۔
اسے کہتے ہیں ریاست مدینہ، جس کی بنیاد آقا کریمﷺ نے رکھی اور خلفائے راشدین رضوان اللہ علیہم اجمعین نے اسے اسی نہج پر چلایا۔ ہمارے حکمرانوں نے محض اپنے اقتدار کو دوام بخشنے کے لیے ریاست مدینہ کا نعرہ لگایا اور سادہ لوح پاکستانیوں کو بیوقوف بنایا، گزشتہ دو برسوں کے دوران پاکستان اور اہل پاکستان جس مقام پر آکر کھڑے ہیں یہ اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ حکمران ریاست مدینہ کے خدوخال سے بھی واقف نہیں۔ خوشحالی کا سبز باغ دکھا کے عوام کے منہ سے روٹی کا نوالہ بھی چھین لیا، لوگوں کو روزگار کا جھانسہ دے کر لاکھوں سے روز گار چھین لیا، سادہ لوح عوام کو نئے گھروں کا وعدہ کرکے ان کے سر سے چھت تک چھین لی، اگر حکمران ریاست مدینہ کی جانب قدم بڑھاتے تو آج اس ملک میں انصاف کا بول بالا ہوتا، سودی نظام کا خاتمہ ہوتا، غربت، مہنگائی اور بے روزگاری سے عوام بلبلاتے نہیں۔ اس وقت نام نہاد ریاست مدینہ کے دعویداروں کے پاؤں عوام کی گردن اور ہاتھ جیبوں پر ہیں، جس چیز کا نوٹس لیتے ہیں وہ مارکیٹ سے غائب ہوجاتی ہے۔
صنعت کار سے لے کر بھیک مانگنے والے تک ، آج ہر کوئی اس تبدیلی کے اثرات سے پریشان ہے اور اس سے نجات کا خواہشمند ہے۔ حالات کی بے رحمی نے گیارہ اپوزیشن جماعتوں اور بائیس کروڑ عوام کو مولانافضل الرحمان کی قیادت میں ایک پیج پر جمع کردیا ہے، جعلی ووٹ ، مہنگائی ، غربت اور بے روزگاری کے تعاقب میں ملک کی 11 بڑی سیاسی جماعتوں نے حکومت کے خلاف علم ''بغاوت'' بلند کر دیا، گوجرانوالہ کے بعد کراچی میں ان جماعتوں کے پاور شو نے نام نہاد ریاست مدینہ کے دعویداروں میں کھلبلی مچاکے رکھ دی ہے، اگلے دو ماہ ملکی سیاست کے لیے انتہائی اہم دکھائی دے رہے ہیں۔