کوچہ سیاست میں خوش آمدید
افتخار چوہدری صاحب! کوچہ سیاست میں ضرور قدم رکھیے اور اس سسٹم کو بدل ڈالیے۔۔۔
بعض موضوعات اتنے اہم اور گمبھیر ہوتے ہیں کہ ان سے آنکھیں چرانا ممکن نہیں ہوتا، مثلاً سابق چیف جسٹس کا معاملہ اور ریٹائرمنٹ کے بعد اپنی حفاظت کے لیے وزارت داخلہ سے بلٹ پروف گاڑی کا مطالبہ۔۔۔۔ اور ان کی سیاست میں آنے کی دیرینہ خواہش۔ ان دونوں خواہشات پر اور افتخار چوہدری کی ذات کے حوالے سے بہت کچھ سامنے آ رہا ہے۔ ایک طرف سے اگر پھول نچھاور کیے جا رہے ہیں تو دوسری طرف سے سنگ باری بھی ہو رہی ہے۔ اس پر تعجب کیسا؟ یہ تو ہمارا قومی مزاج ہے۔
جب تک کوئی طاقت ور شخصیت برسر اقتدار رہتی ہے، حلقہ یاراں کے علاوہ موقع دیکھ کر جھک کر سلام کرنے والے اور اپنی اپنی تحریروں میں ہر لحاظ سے کامیاب ترین اور بے مثل انسان قرار دینے والے صرف اقتدار تک اس کی ثنا خوانی کرتے ہیں۔ ''ہم مشرف کو سو بار وردی میں صدر منتخب کرائیں گے'' والا جملہ ابھی لوگوں کی یاد داشت میں محفوظ ہے۔ لیکن اقتدار سے محروم ہونے کے بعد خوشامدی ٹولہ یوں غائب ہو گیا جیسے گڑ کی ڈلی ختم کرنے کے بعد مکھیاں غائب ہو جاتی ہیں اور پھر یہ مکھیاں کوئی دوسری گڑ کی ڈلی تلاش کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہیں۔
لیکن ایک بات افتخار چوہدری صاحب کے قصیدہ خوانوں کو ضرور یاد رکھنی چاہیے کہ سابق چیف جسٹس صاحب صرف ایک انسان ہیں اور پاکستانی ہیں۔ لہٰذا ان سے کیسے امید کی جا سکتی تھی کہ وہ دوسروں کو تو کپڑے میں دیکھنا چاہیں، حکمرانوں کی لوٹی ہوئی دولت بھی واپس منگوانا چاہیں، بدعنوان سیاستدانوں کو سزاوار بھی قرار دیں لیکن اپنی وہی مراعات مانگیں جن پر وہ دوسروں کو گردن زدنی قرار دیتے ہیں۔ افسوس اس بات کا ہے کہ بعض سنگین الزامات کی کیچڑ افتخار محمد چوہدری کے دامن پہ واضح نظر آ رہی ہے، جن کا انھیں قوم کو جواب دینا چاہیے تھا، لیکن افسوس کہ ان کا رویہ بھی وہی ہو گیا جو جرنیلوں اور حکمرانوں کا ہوتا ہے۔ کاش ایسا نہ ہوتا۔۔۔۔ افتخار چوہدری نے بلٹ پروف گاڑی حکومت سے مانگ کر اپنے مخالفین کو تنقید کا موقع فراہم کر دیا۔
اب ہم دوسری جانب آتے ہیں، وہ یہ کہ بیشتر سنجیدہ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ افتخار چوہدری کو سیاست کے بدنام کوچے میں قدم نہیں رکھنا چاہیے کیونکہ اس کوچے میں رسوائی کے علاوہ کچھ نہیں۔ لیکن میری ذاتی رائے یہ ہے کہ افتخار چوہدری صاحب کو سیاست میں ضرور آنا چاہیے۔ پہلی وجہ تو یہ کہ ان کو پروٹوکول دوبارہ اسی وقت مل سکتا ہے جب وہ صدر یا وزیر اعظم بن جائیں۔ رہا رسوائی کا سوال تو وہ تو بلٹ پروف گاڑی کے مطالبے نے پورا کر دیا۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ یہ مطالبہ وزارت داخلہ سے کرنے کے بجائے وہ کسی ''اور'' سے کر دیتے تو زیادہ بہتر تھا۔ حاکم کے آگے آگے چلنے والی گاڑیوں کے سائرن کی آوازیں جہاں ایک عام آدمی کی سماعت پہ گراں گزرتی ہیں وہیں جھنڈے والی گاڑی میں بیٹھنے والی شخصیت کو وہ آوازیں سرگم کی طرح بھلی لگتی ہیں۔ ریٹائرمنٹ یا اقتدار سے محرومی کے بعد مدتوں لوگ اپنے اقتدار کے زمانے کو یاد کر کے روتے ہیں کہ ''پھرتے ہیں میرؔ خوار کوئی پوچھتا نہیں'' والا معاملہ ہو جاتا ہے۔ لیکن سیاست کی عاشقی میں اس کی چوکھٹ پہ ماتھا ٹیکنے والوں کو ''عزت سادات'' کے جانے کا کوئی افسوس نہیں ہوتا۔
دوسری اہم وجہ یہ ہے کہ اگر سیاست کی وادی کو گندگی سے بھرا سمجھ کر اچھے کردار کے نیک نام لوگ اس کے پاس سے گزرنے کو بھی گناہ سمجھنے لگیں تو پھر گندگی کو صاف کون کرے گا؟ سیاسی کوچے کی رسوائی کی وجہ سے جب معقول اور ملک و قوم سے محبت کرنے والے لوگ وہاں قدم رکھنے سے اجتناب برتیں گے تو پھر یہ گندگی کبھی صاف نہیں ہو گی اور گُھس بیٹھیے ہمیشہ یہاں سیندھ لگا کر بیٹھے رہیں گے۔ آخر غلطی کون سدھارے گا؟ کوشش تو عمران خان نے بھی کی تھی لیکن ان کی ناکامی کی وجوہات دیگر ہیں۔
لیکن افتخار چوہدری صاحب اگر یہ اعلان کریں کہ وہ اقتدار میں آ کر سب سے پہلے ان مسائل پہ توجہ دیں گے جو وہ اپنی ملازمت کے دوران حل نہ کر پائے، محض سوموٹو ایکشن لینا ہی کافی نہیں ہوتا، افتخار محمد چوہدری کو ایسے لوگوں کے خلاف کھڑا ہونا چاہیے جو کہتے ہیں ''استثنیٰ حاصل ہے، کوئی مائی کا لال گرفتار نہیں کر سکتا''۔ابھی تک 2010ء میں حاجیوں کو لوٹنے والے گرفتار نہیں ہوئے، ایفی ڈرین کیس، نیب کی کرپشن، توقیر صادق کا معاملہ ابھی تک لٹکا ہوا ہے۔ آپ اپنے دور منصفی میں انھیں حل نہ کرا سکے۔ لوگوں کے ذہنوں میں بہت سے سوال ہیں۔ ہم چونکہ پاکستانی ہیں اور کرپشن ہماری شناخت، اس لیے ہم یہ مطالبہ ہرگز نہیں کریں گے کہ آپ حضرت عمر فاروقؓ کی پیروی کیجیے اور اپنے بیٹے سے ان تعیشات کے بارے میں سوال کیجیے جو انھوں نے سر عام کیں۔ ہم نے مانا کہ ہمارے متعفن سسٹم نے آپ کو نگاہیں چرانے پہ مجبور کیا۔۔۔۔ لیکن انسان اپنی غلطیوں ہی سے اپنی اصلاح کرتا ہے۔
افتخار چوہدری صاحب! کوچہ سیاست میں ضرور قدم رکھیے اور اس سسٹم کو بدل ڈالیے جہاں ایک عام انسان انصاف کے لیے در در بھٹکتا پھرے، لوگ اپنے گمشدہ عزیزوں کی تصویریں اٹھائے آنکھوں میں آنسوؤں کی شمعیں جلائے ان کی واپسی کا مطالبہ کریں۔ لیکن حکومت اور ایجنسیوں کے کان پہ جوں بھی نہ رینگے۔ اپنی محنت سے ڈگری حاصل کرنے والا نوکری کے لیے در در بھٹکے، لیکن جعلی ڈگری والا اسمبلی کا ممبر بن جائے۔ چوہدری صاحب! اگر آپ واقعی عدلیہ کی بے توقیری اور حکمرانوں کی فرعونیت کو ختم کرنے کے لیے سیاست میں آنا چاہتے ہیں تو ضرور کامیاب ہوں گے۔ لیکن اگر محض پروٹوکول کی واپسی اور سربراہ مملکت والی سیکیورٹی کی چاہ میں اس وادی میں قدم رکھ رہے ہیں تو بہتر یہی ہے کہ اپنی یادداشتوں اور عدلیہ کے ساتھ مذاق کرنے والوں کو ایک کتاب لکھ کر بے نقاب کریں۔ یہ کتاب ہاٹ کیک کی طرح بکے گی۔
جب تک کوئی طاقت ور شخصیت برسر اقتدار رہتی ہے، حلقہ یاراں کے علاوہ موقع دیکھ کر جھک کر سلام کرنے والے اور اپنی اپنی تحریروں میں ہر لحاظ سے کامیاب ترین اور بے مثل انسان قرار دینے والے صرف اقتدار تک اس کی ثنا خوانی کرتے ہیں۔ ''ہم مشرف کو سو بار وردی میں صدر منتخب کرائیں گے'' والا جملہ ابھی لوگوں کی یاد داشت میں محفوظ ہے۔ لیکن اقتدار سے محروم ہونے کے بعد خوشامدی ٹولہ یوں غائب ہو گیا جیسے گڑ کی ڈلی ختم کرنے کے بعد مکھیاں غائب ہو جاتی ہیں اور پھر یہ مکھیاں کوئی دوسری گڑ کی ڈلی تلاش کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہیں۔
لیکن ایک بات افتخار چوہدری صاحب کے قصیدہ خوانوں کو ضرور یاد رکھنی چاہیے کہ سابق چیف جسٹس صاحب صرف ایک انسان ہیں اور پاکستانی ہیں۔ لہٰذا ان سے کیسے امید کی جا سکتی تھی کہ وہ دوسروں کو تو کپڑے میں دیکھنا چاہیں، حکمرانوں کی لوٹی ہوئی دولت بھی واپس منگوانا چاہیں، بدعنوان سیاستدانوں کو سزاوار بھی قرار دیں لیکن اپنی وہی مراعات مانگیں جن پر وہ دوسروں کو گردن زدنی قرار دیتے ہیں۔ افسوس اس بات کا ہے کہ بعض سنگین الزامات کی کیچڑ افتخار محمد چوہدری کے دامن پہ واضح نظر آ رہی ہے، جن کا انھیں قوم کو جواب دینا چاہیے تھا، لیکن افسوس کہ ان کا رویہ بھی وہی ہو گیا جو جرنیلوں اور حکمرانوں کا ہوتا ہے۔ کاش ایسا نہ ہوتا۔۔۔۔ افتخار چوہدری نے بلٹ پروف گاڑی حکومت سے مانگ کر اپنے مخالفین کو تنقید کا موقع فراہم کر دیا۔
اب ہم دوسری جانب آتے ہیں، وہ یہ کہ بیشتر سنجیدہ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ افتخار چوہدری کو سیاست کے بدنام کوچے میں قدم نہیں رکھنا چاہیے کیونکہ اس کوچے میں رسوائی کے علاوہ کچھ نہیں۔ لیکن میری ذاتی رائے یہ ہے کہ افتخار چوہدری صاحب کو سیاست میں ضرور آنا چاہیے۔ پہلی وجہ تو یہ کہ ان کو پروٹوکول دوبارہ اسی وقت مل سکتا ہے جب وہ صدر یا وزیر اعظم بن جائیں۔ رہا رسوائی کا سوال تو وہ تو بلٹ پروف گاڑی کے مطالبے نے پورا کر دیا۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ یہ مطالبہ وزارت داخلہ سے کرنے کے بجائے وہ کسی ''اور'' سے کر دیتے تو زیادہ بہتر تھا۔ حاکم کے آگے آگے چلنے والی گاڑیوں کے سائرن کی آوازیں جہاں ایک عام آدمی کی سماعت پہ گراں گزرتی ہیں وہیں جھنڈے والی گاڑی میں بیٹھنے والی شخصیت کو وہ آوازیں سرگم کی طرح بھلی لگتی ہیں۔ ریٹائرمنٹ یا اقتدار سے محرومی کے بعد مدتوں لوگ اپنے اقتدار کے زمانے کو یاد کر کے روتے ہیں کہ ''پھرتے ہیں میرؔ خوار کوئی پوچھتا نہیں'' والا معاملہ ہو جاتا ہے۔ لیکن سیاست کی عاشقی میں اس کی چوکھٹ پہ ماتھا ٹیکنے والوں کو ''عزت سادات'' کے جانے کا کوئی افسوس نہیں ہوتا۔
دوسری اہم وجہ یہ ہے کہ اگر سیاست کی وادی کو گندگی سے بھرا سمجھ کر اچھے کردار کے نیک نام لوگ اس کے پاس سے گزرنے کو بھی گناہ سمجھنے لگیں تو پھر گندگی کو صاف کون کرے گا؟ سیاسی کوچے کی رسوائی کی وجہ سے جب معقول اور ملک و قوم سے محبت کرنے والے لوگ وہاں قدم رکھنے سے اجتناب برتیں گے تو پھر یہ گندگی کبھی صاف نہیں ہو گی اور گُھس بیٹھیے ہمیشہ یہاں سیندھ لگا کر بیٹھے رہیں گے۔ آخر غلطی کون سدھارے گا؟ کوشش تو عمران خان نے بھی کی تھی لیکن ان کی ناکامی کی وجوہات دیگر ہیں۔
لیکن افتخار چوہدری صاحب اگر یہ اعلان کریں کہ وہ اقتدار میں آ کر سب سے پہلے ان مسائل پہ توجہ دیں گے جو وہ اپنی ملازمت کے دوران حل نہ کر پائے، محض سوموٹو ایکشن لینا ہی کافی نہیں ہوتا، افتخار محمد چوہدری کو ایسے لوگوں کے خلاف کھڑا ہونا چاہیے جو کہتے ہیں ''استثنیٰ حاصل ہے، کوئی مائی کا لال گرفتار نہیں کر سکتا''۔ابھی تک 2010ء میں حاجیوں کو لوٹنے والے گرفتار نہیں ہوئے، ایفی ڈرین کیس، نیب کی کرپشن، توقیر صادق کا معاملہ ابھی تک لٹکا ہوا ہے۔ آپ اپنے دور منصفی میں انھیں حل نہ کرا سکے۔ لوگوں کے ذہنوں میں بہت سے سوال ہیں۔ ہم چونکہ پاکستانی ہیں اور کرپشن ہماری شناخت، اس لیے ہم یہ مطالبہ ہرگز نہیں کریں گے کہ آپ حضرت عمر فاروقؓ کی پیروی کیجیے اور اپنے بیٹے سے ان تعیشات کے بارے میں سوال کیجیے جو انھوں نے سر عام کیں۔ ہم نے مانا کہ ہمارے متعفن سسٹم نے آپ کو نگاہیں چرانے پہ مجبور کیا۔۔۔۔ لیکن انسان اپنی غلطیوں ہی سے اپنی اصلاح کرتا ہے۔
افتخار چوہدری صاحب! کوچہ سیاست میں ضرور قدم رکھیے اور اس سسٹم کو بدل ڈالیے جہاں ایک عام انسان انصاف کے لیے در در بھٹکتا پھرے، لوگ اپنے گمشدہ عزیزوں کی تصویریں اٹھائے آنکھوں میں آنسوؤں کی شمعیں جلائے ان کی واپسی کا مطالبہ کریں۔ لیکن حکومت اور ایجنسیوں کے کان پہ جوں بھی نہ رینگے۔ اپنی محنت سے ڈگری حاصل کرنے والا نوکری کے لیے در در بھٹکے، لیکن جعلی ڈگری والا اسمبلی کا ممبر بن جائے۔ چوہدری صاحب! اگر آپ واقعی عدلیہ کی بے توقیری اور حکمرانوں کی فرعونیت کو ختم کرنے کے لیے سیاست میں آنا چاہتے ہیں تو ضرور کامیاب ہوں گے۔ لیکن اگر محض پروٹوکول کی واپسی اور سربراہ مملکت والی سیکیورٹی کی چاہ میں اس وادی میں قدم رکھ رہے ہیں تو بہتر یہی ہے کہ اپنی یادداشتوں اور عدلیہ کے ساتھ مذاق کرنے والوں کو ایک کتاب لکھ کر بے نقاب کریں۔ یہ کتاب ہاٹ کیک کی طرح بکے گی۔