مفت میں کچھ نہیں ملتا

ہم سے بدترین گناہ یہ ہوا کہ ہم نے اپنی قوم کوکبھی سوچنے ہی نہیں دیا۔۔۔

ایک بادشاہ نے اپنے آدمیوں کو حکم دیا کہ وہ جائیں اور پوری دنیا میں تلاش کریں کہ وہ کون سی ایسی چیز ہے جس سے لوگ دانش مندی سیکھ سکتے ہیں۔ بادشاہ کے آدمی پوری دنیا میں پھیل گئے اورکئی سال کی تلاش کے بعد انھوں نے کچھ ہزار ایسی کتابیں جمع کیں جن سے لوگ دانش مندی سیکھ سکتے تھے۔ بادشاہ نے جب ان کتابوں کے ڈھیر کو دیکھا تو کہا کہ ان کتابوں کو پڑھنے کے لیے تو ایک عمر چاہیے، مجھے کوئی اور آسان سی چیز بتاؤ۔ بادشاہ کے لوگوں نے ان کتابوں کے ڈھیر سے 100 ایسی کتابیں تلاش کیں جو ان کے خیال میں دانش مندی سیکھنے کے لیے ضروری تھیں۔

بادشاہ نے کہا کہ نہیں یہ بھی بہت ہیں۔ بادشاہ کے لوگوں نے پھر 10 کتابیں منتخب کیں، بادشاہ ان 10 کتابوں سے بھی مطمئن نہیں ہوا پھر انھوں نے ایک کتاب منتخب کی بادشاہ نے کہا اسے کم کرو تو انھوں نے اس کتاب کا ایک باب نکال دیا۔ بادشاہ نے پھر کہا اسے اور کم کرو، انھوں نے اسے اور کم کر دیا اور کم کرتے کرتے صرف ایک صفحہ رہ گیا اور اس کے بعد صرف ایک پیراگراف رہ گیا۔ بادشاہ نے کہا نہیں مجھے اس سے کم چاہیے۔ آخرکار بادشاہ کے دانش مند لوگوں نے بہت سوچ سمجھ کر صرف ایک جملہ منتخب کیا اور بادشاہ سے کہا کہ اگر لوگ اس جملے کو سمجھ جائیں توہ دانش مند ی سیکھ سکتے ہیں۔

وہ جملہ یہ تھا There is no free lunch یعنی مفت میں کچھ نہیں ملتا۔ اور یہ ہی آفاقی سچائی ہے، کوئی بھی چیز حاصل کرنے کے لیے ہمیں اس کی قیمت ادا کرنا پڑتی ہے۔ اگر ہم قیمت اد اکیے بغیر کوئی بھی چیز حاصل کرنا چاہتے ہیں تو ہم صرف اپنے آپ کو بے وقوف بنا رہے ہوتے ہیں۔ یہ ہی بات ہم بھی جتنی جلدی سمجھ لیں گے اتنا ہی ہمارے حق میں بہتر ہے دوسری صورت میں ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھے رہیں اور تبدیلی کے لیے کسی معجزے کے منتظر رہیں۔

فرینکلن کہتا تھا، خدا ان کی مدد کرتا ہے جو اپنی مدد خود کرتے ہیں، جب کہ ایڈیسن نے کہا ہے کامیابی حاصل کرنے کے لیے ایک فیصد ذہانت اور 99 فیصد محنت کی ضرورت ہے۔ اینڈریو جیکسن اور ابراہم لنکن دونوں امریکا کے عظیم صدور تھے، ابتدائی زندگیوں میں یہ دونوں اشخاص انتہائی غریب تھے، ان کی تعلیم بہت کم تھی جس کا انھیں قطعاً فائدہ نہ تھا لیکن انتھک محنت اور مسلسل جدوجہد سے انھوں نے کامیابی حاصل کی۔ مصطفیٰ کمال ترکی فوج میں ایک عام سپاہی تھا، جو محنت کے بعد ترکی کا حکمران بنا۔ البرٹ نامی ایک جرمن شخص نے ابتدا میں گھوڑوں پر ڈالنے والی زین اور کاٹھی تیار کرنے کا کاروبار شروع کیا اور پہلی جنگ عظیم کے بعد وہ جرمنی کا حکمران بنا۔ رضا شاہ ایرانی فوج میں ایک ادنیٰ رنگروٹ تھا جو بعد میں ایک نہایت ہی دولت مند شخص اور ایران کا شہنشاہ بنا۔ جولیس سیزر مرگی کا مریض تھا جس نے معلوم دنیا فتح کر ڈالی تھی۔ ڈیماس تھینز ہکلا کر بولتا تھا لیکن وہ قدیم یونان کا ایک عظیم خطیب اور مقرر بنا۔ کینٹ نے 70 سال کی عمر کے بعد اپنی عظیم فلسفیانہ کتب تحریر کیں۔


عظیم فرانسیسی مصور مونیٹ 80 سال کی عمر میں اپنی شاندار تصویریں بنا رہا تھا۔ وان ہمبولٹ نے اپنی مشہور تصنیف ''کوسموس'' کا آغاز 70 سال کی عمر میں کیا اور 90 سال کی عمر میں اسے مکمل کیا۔ گوئٹے نے اپنی کتاب ''فاسٹ'' کا دوسرا حصہ 80 سال کی عمر میں تحریر کیا۔ وکٹرہیوگو نے اپنی تخلیق Torguemade، 80 سال کی عمر میں تحریر کی۔ لافانی دھنوں کا خالق بیتھووین بہرا تھا۔ ملٹن نے اپنی عظیم تصنیف ''جنت گم گشتہ'' اس وقت تحریر کی جب وہ اندھا ہوچکا تھا۔ الیگزینڈر پوپ جسمانی طور پر اس قدر معذور تھا کہ وہ بمشکل حرکت کرسکتا تھا لیکن وہ انگریزی ادب کی عظیم المرتبت شخصیت تھا۔ ایک ان پڑھ اور غریب کسان گھرانے سے تعلق رکھنے والی بچی جون آف آرک اپنے ملک فرانس کے بحرانی دور میں ایک بہادر خاتون ثابت ہوئی۔

تھیوڈور روز ویلٹ نوجوانی کے عالم میں بہت کمزور تھا اور بیمار رہتا تھا لیکن اپنی قوت ارادی اور سخت ورزش کے بل پر اس نے اپنے بدن کو بہت مضبوط بنالیا اور پھر بعد میں وہ امریکا کا صدر بھی بنا۔ فرینکلن دی روز ویلٹ بچپن میں فالج کاشکار ہوگیا تھا لیکن پھر وہ اپنی قوت ارادی اور سخت محنت کے باعث امریکا کا صدر مقرر ہوا، جان بن ین نے اپنی قید کے دوران ایک ایسی معرکۃ آلارا کتاب تصنیف کی جسے انگریزی ادب کا شاہکار سمجھا جاتا ہے، اس کتاب کا نام Pilgrim's Progress تھا۔ رابرٹ لوئیس کو اپنی زندگی میں ہمیشہ مختلف بیماریوں مثلاً درد، خشک کھانسی، بخار اور تپ دق لاحق رہے لیکن وہ اپنی قوم کی آئندہ نسلوں کے لیے انگریزی ادب کا بیش بہا خزانہ ثابت ہوا۔ ان سب نے مسائل کی عدم موجودگی میں نہیں بلکہ مسائل کے موجود ہوتے ہوئے محنت اور جدوجہد سے کامیابی حاصل کی۔

کامیابی کی تمام داستانیں عظیم ناکامی کی کہانیاں ہوتی ہیں، واحد فرق یہ ہوتا ہے کہ ہر مرتبہ ناکام ہونے کے بعد وہ ایک بار پھر کوشش کرتے ہیں۔ کامیابی اور ناکامی میں فرق صرف کوشش کا ہے، ناکام کوششوں سے انسان سیکھتا ہے اور آگے بڑھتا ہے۔ یہ سچ ہے کہ ہم بحیثیت قوم ناکام ثابت ہوئے ہیں لیکن یہ ناکامی قوم کی ناکامی نہیں ہے بلکہ دراصل ہمارے کرتا دھرتاؤں کی اختیار کردہ نظریوں، پالیسیوں، رویوں اور سوچ کی ناکامی ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ انھوں نے عظیم ترین صلاحیت یعنی سوچنے کی صلاحیت کو منفی انداز میں استعمال کیا، آج ہم کو درپیش تمام عذاب اسی منفی سوچ کا نتیجہ ہیں۔ جو قومیں خود سوچتی ہیں، تاریخ کو پڑھتی رہتی ہیں اور اس کی روشنی میں اپنی سمت کو درست کرتی چلی جاتی ہیں اور اس سے سبق بھی حاصل کرتی رہتی ہیں، فلاح پالیتی ہیں۔

ہم سے بدترین گناہ یہ ہوا کہ ہم نے اپنی قوم کو کبھی سوچنے ہی نہیں دیا بلکہ سوچنے کے سارے عمل پر چند موقع اور مفاد پرست قابض رہے، جن کی سوچ انتہائی منفی، رجعت و قدامت پرست اور صرف اپنی ذات تک محدود رہی۔ جب سوچ ذات تک محدود ہوجاتی ہے تو وہ قومیں فنا ہو جاتی ہیں۔ تاریخ میں ایسی قوموں کی داستانیں بکھری پڑی ہیں لیکن کبھی بھی دیر نہیں ہوتی۔ ہر ناکامی کے بعد کامیابی ہی ہوتی ہے۔ آئیں ہم اپنی ناکامیوں کو کامیابی میں تبدیل کردیں۔ اس کے لیے سب سے پہلے ہمیں سوچنے کا اختیار دوسروں سے لینا ہوگا۔ جب ہم خود سوچنا شروع کردیں گے تو وہ ہماری کامیابی کا پہلا قدم ہوگا، اس کے بعد سخت محنت اور جدوجہد۔ نتیجتاً ہماری کامیابی یقینی ہے۔

اپنی سوچنے کی صلاحیت استعمال کیے بغیر زندگی گزارنا ایسا ہی ہے جیسے نشانہ لیے بغیر تیر چلانا، زندگی کیفے ٹیریا جیسی ہے، تم اپنی ٹرے لیتے ہو، اپنی پسند کی خوراک منتخب کرتے ہو اور دوسرے سرے پر جاکر پیسے ادا کرتے ہو۔ تم جب قیمت ادا کرنے پر آمادہ ہوتے ہو تو تم ہر چیز حاصل کرسکتے ہو۔ اگر کیفے ٹیریا میں تم یہ انتظار کرو کہ لوگ تمہیں کھانا لا کر دیں گے تو تم ہمیشہ انتظار کرتے رہو گے۔ زندگی بھی ایسی ہی ہے، تمہیں کامیابی کا انتخاب کرکے اس کی قیمت اد اکرنی ہوتی ہے۔ ولیم برائن نے کہا ہے قسمت اتفاقی معاملہ نہیں ہے، یہ انتخاب کا معاملہ ہے، اس کا انتظار نہیں کیا جاتا اسے تو حاصل کیا جاتا ہے۔ اس لیے آئیں سوچیں، اٹھیں اور اپنی قسمت بدل ڈالیں۔
Load Next Story