اقتدار کی ہوس
اقتدار کی ہوس انسان کو اندھا کردیتی ہے، دیوانہ اور سنگدل بھی، لیکن تاریخ بتاتی ہے کہ اس ہوس کا انجام براہے
اقتدار کی ہوس انسان کو اندھا کردیتی ہے، دیوانہ اور سنگدل بھی، لیکن تاریخ بتاتی ہے کہ اس ہوس کا انجام براہے۔ مشہور ہے: ''اہل یونان نے ایک دیوی بنائی، بہت ہی عمدہ و خوبصورت۔ سفید مرمریں بدن پر تیکھے نقوش کھودے گئے۔ قامت میں نخرا اور کاٹھ میں ایک غرور بھرا۔ دیوی کو اٹھا کر ''ایتھنز'' کے مرکزی چوک میں رکھ دیا گیا۔ لوگ جمع ہوئے، سراپا ناز کے حسن اور اعضا کے توازن پر بے شمار داد دی گئی۔ تحسین کا یہ سلسلہ جاری تھا کہ کسی نے آواز لگائی۔ ''لوگو! دیکھو دیوی کی تو آنکھیں ہی نہیں۔'' لوگوں نے چونک کر دیکھا، واقعی آنکھوں کی جگہ ہموار تھی۔
لوگ اعضا کے توازن اور نقوش کی جادوگری میں اتنے کھوگئے تھے کہ انھیں آنکھوں کی کمی کا احساس ہی نہیں ہوا۔ ''ارے، اس کے تو پاؤں بھی غیر انسانی ہیں۔'' کسی نے ہانک لگائی۔ لوگوں کی نظریں بے اختیار دیوی کے قدموں میں آپڑیں۔ دیوی کے پاؤں نہیں تھے۔ بت تراش نے پنڈلیوں کے فوراً بعد پنکھ تراش دیے تھے، چیل کے لمبے لمبے بدصورت پنکھ۔ ''اوئے اس کا دل...'' مجمعے میں سے آواز آئی۔ سب کی نظریں سینے پر جا الجھیں۔ وہاں عین دل کے مقام پر ایک سوراخ تھا اور اس سوراخ میں لوہے کا ایک بدصورت ٹکڑا۔ لوگ سنگ تراش کو ڈھونڈنے لگے۔ بت ساز حاضر ہوگیا۔ لوگوں نے مذمت شروع کردی۔ جب لوگ چیخ چیخ کر تھک گئے تو بت تراش نے اداس لہجے میں کہا۔ ''حضرات! یہ اقتدار کی دیوی ہے۔ اقتدار کی آنکھیں نہیں ہوتی ہیں، لہٰذا اقتدار کا پجاری اندھا ہوتا ہے۔ اقتدار کے سینے میں دل نہیں ہوتا، لہٰذا ہر وہ شخص جس میں رحم ہو، وہ بھی اقتدار تک نہیں پہنچ سکتا اور حضرات! اقتدار کے پاؤں بھی نہیں ہوتے، یہ اڑتا ہوا آتا ہے اور اڑتا ہوا واپس چلا جاتا ہے۔''
حقیقت یہی ہے کہ اقتدار کی ہوس ہر دور میں انسانوں کو اندھا، سنگدل اور دیوانہ بناتی آئی ہے۔ جس پر اقتدار کا بھوت سوار ہوجائے تو پھراقتدار کو حاصل کرنا اور اسے قائم رکھنا ہی اس کی زندگی کا سب سے بڑا مقصد بن جاتا ہے۔ بہت دفعہ ایسا بھی ہوا کہ اقتدار کے نشے نے بھائی کو بھائی کے سامنے لا کھڑا کیا اور ایک دوسرے کا خون بہانے سے بھی دریغ نہیں کیا گیا۔ مغلیہ دور حکومت میں اورنگزیب عالمگیر سب سے زیادہ پارسا بادشاہ گزرے ہیں، ان کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ سلطنت ہند کی سیاہ و سفید کے مالک ہونے کے باوجود اپنے اخراجات پورے کرنے کے لیے اپنے ہاتھ سے ٹوپیاں بنتے تھے اور قرآن مجید کی کتابت کرتے تھے۔
ان کی پارسائی کا اندازہ اس واقعے سے لگائیے: ''اورنگ زیب عالمگیر کے دور حکومت میں دہلی کے ایک بزرگ نے اپنی وفات سے پہلے وصیت لکھ کے بند کی اور کہا: نماز جنازہ سے پہلے وصیت کھول کر پڑھی جائے۔ ان کی وفات کے بعد وصیت پڑھی گئی تو اس میں درج تھا کہ ان شراط پر پورا اترنے والا شخص ہی میرا جنازہ پڑھائے گا۔ وہ شرائط یہ ہیں: اس شخص نے پوری زندگی ہر نماز باجماعت پڑھی ہو۔ ساری زندگی نماز عشاء کے وضو سے فجر کی نماز ادا کی ہو۔ زندگی میں کبھی بھی نماز عصر کی چار موکدہ سنتیں نہ چھوڑی ہوں۔ وصیت سننے کے کافی دیر بعد اشک بار آنکھوں کے ساتھ بادشاہ وقت اورنگزیب عالمگیر آگے بڑھے اور حضرت کی نماز جنازہ پڑھائی اور کہا: ''آپ نے آج اس بھرے مجمعے میں میرا پردہ چاک کردیا ہے۔'' ایسے پارسا انسان اورنگزیب عالمگیر کی زندگی کا بھی ایک حصہ اقتدار کے حصول کے لیے اپنے والد شاہجہان اور اپنے بھائیوں مراد بخش، شجاع اور دارا سے لڑتے گزرا۔
آج تک اقتدار نے کسی کے ساتھ وفا نہیں کی، اقتدار آتا بہت مشکل سے ہے، لیکن جاتے ہوئے پتا بھی نہیں چلتا۔ فرعون کو جب اس کے نجومیوں نے بتایا کہ ایک بچہ تمہارے اقتدار کے لیے خطرہ بنے گا تو فرعون پر یہ بہت شاق گزرا، اپنا اقتدار بچانے کی خاطر اس نے سفاکیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے بے شمار نومولود بچوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا، لیکن اقتدار اس کا پھر بھی نہ بچ سکا اور فرعون دریا میں ڈوب کر عبرت ناک انجام سے دوچار ہوا۔
نمرود کو جب اپنا اقتدار ڈولتا ہوا نظر آیا تو وہ بھی اقتدار کی ہوس میں ایسا اندھا اور دیوانہ ہوا کہ مقرب پیغمبر حضرت ابراہیم علیہ السلام کو آگ میں ڈال دیا، لیکن اس کا اقتدار انتہائی ذلت و رسوائی کے ساتھ اختتام پذیر ہوا۔ فرانس کے بادشاہ لوئی شانزدہم بڑے ٹھاٹھ باٹھ اور شان و شوکت کے ساتھ ایک عرصہ اقتدار پر براجمان رہا، لیکن عوام نے شاہی محل پر حملہ کرکے بادشاہ اور ملکہ کو قید کیا، بعد ازاں دونوں کو موت کی سزا دے دی گئی۔ عالم اسلام کے دو عظیم فاتح تیمور لنگ اور بایزید یلدرم جب تقریباً آدھی دنیا فتح کرچکے تو بلاشرکت غیرے پوری دنیا کے اقتدار کا مالک بننے کے لیے دونوں نے آپس میں لڑکر لاکھوں مسلمانوں کو خون میں نہلادیا، لیکن برا ہو اس اقتدار کا، یہ پھر بھی جاتا رہا۔
اگر ماضی قریب میں جھانکیں تو تاریخ کی گواہی کھل کر سامنے آتی ہے۔ ایران کے رضا شاہ پہلوی نے بڑی عیاشی، دبدبے اور جبر کے ساتھ حکومت کی، لیکن اس کا انجام عبرت سے لبریز ہے۔ اقتدار کی محبت میں غرق حسنی مبارک نے طویل عرصہ تکبر و نخوت کے ساتھ مصر پر راج کیا، لیکن عوام کے ہاتھوں ذلت سے دوچار ہوا۔ کرنل معمر قذافی نے نصف صدی جابرانہ طریقے سے لیبیا کے اقتدار کے مزے لوٹے، وہ بھی عوام کے انتقام کا نشانہ بنا۔ صدام حسین نے بھی اقتدار کی ہوس میں عراق کو ہائی جیک کیے رکھا۔ جب قدرت نے حساب برابر کیا تو صدام حسین کو پھانسی کا پھندا ملا۔
اقتدار کی ہوس کے باعث جو شام اور مصر کو جلارہے ہیں، تاریخ سے سبق سیکھیں۔ اس ہوس کا انجام برا ہے۔ اقتدار کی ہوس کی وجہ سے جنھوں نے پاکستان کو دولخت کیا سب کا انجام غیر طبعی موت کے ذریعے ذلت و رسوائی پر منتج ہوا اور یہ جو بنگال کی حسینہ اپنے ہی ملک کو آگ لگا بیٹھی ہے عبدالقادر ملا کو پھانسی دے کر اور بے تحاشا مظالم کا سلسلہ شروع کرکے، یہ سب صرف پاکستان سے نفرت نہیں بلکہ یہ بھی اقتدار کی ہوس میں ہورہا ہے۔ حسینہ کو آئندہ الیکشن میں اپنا اقتدار جاتا نظر آیا، حسینہ واجد، خالدہ ضیاء سے رقابت کی آگ میں جھلس رہی ہے اور جماعت اسلامی کی حمایت خالدہ ضیاء کے ساتھ رہی ہے۔ حسینہ کو خطرہ تھا کہ جماعت اسلامی، خالدہ ضیاء کے ساتھ مل کر ایسا اتحاد نہ بنالے جس سے حسینہ واجد سیاسی طور پر تنہا نظر آئے، اس لیے یہ سب کچھ کیا گیا، لیکن انجام اس کا بھی حسب روایت ہوگا، کیونکہ جب قدرت کی مار پڑتی ہے تو اقتدار، طاقت، عیش و طرب، حاکمیت اور فرعونیت کاسہ گدائی میں بدل جاتی ہے۔ سچ ہے کہ اقتدار کی ہوس ہے ہی بری۔
لوگ اعضا کے توازن اور نقوش کی جادوگری میں اتنے کھوگئے تھے کہ انھیں آنکھوں کی کمی کا احساس ہی نہیں ہوا۔ ''ارے، اس کے تو پاؤں بھی غیر انسانی ہیں۔'' کسی نے ہانک لگائی۔ لوگوں کی نظریں بے اختیار دیوی کے قدموں میں آپڑیں۔ دیوی کے پاؤں نہیں تھے۔ بت تراش نے پنڈلیوں کے فوراً بعد پنکھ تراش دیے تھے، چیل کے لمبے لمبے بدصورت پنکھ۔ ''اوئے اس کا دل...'' مجمعے میں سے آواز آئی۔ سب کی نظریں سینے پر جا الجھیں۔ وہاں عین دل کے مقام پر ایک سوراخ تھا اور اس سوراخ میں لوہے کا ایک بدصورت ٹکڑا۔ لوگ سنگ تراش کو ڈھونڈنے لگے۔ بت ساز حاضر ہوگیا۔ لوگوں نے مذمت شروع کردی۔ جب لوگ چیخ چیخ کر تھک گئے تو بت تراش نے اداس لہجے میں کہا۔ ''حضرات! یہ اقتدار کی دیوی ہے۔ اقتدار کی آنکھیں نہیں ہوتی ہیں، لہٰذا اقتدار کا پجاری اندھا ہوتا ہے۔ اقتدار کے سینے میں دل نہیں ہوتا، لہٰذا ہر وہ شخص جس میں رحم ہو، وہ بھی اقتدار تک نہیں پہنچ سکتا اور حضرات! اقتدار کے پاؤں بھی نہیں ہوتے، یہ اڑتا ہوا آتا ہے اور اڑتا ہوا واپس چلا جاتا ہے۔''
حقیقت یہی ہے کہ اقتدار کی ہوس ہر دور میں انسانوں کو اندھا، سنگدل اور دیوانہ بناتی آئی ہے۔ جس پر اقتدار کا بھوت سوار ہوجائے تو پھراقتدار کو حاصل کرنا اور اسے قائم رکھنا ہی اس کی زندگی کا سب سے بڑا مقصد بن جاتا ہے۔ بہت دفعہ ایسا بھی ہوا کہ اقتدار کے نشے نے بھائی کو بھائی کے سامنے لا کھڑا کیا اور ایک دوسرے کا خون بہانے سے بھی دریغ نہیں کیا گیا۔ مغلیہ دور حکومت میں اورنگزیب عالمگیر سب سے زیادہ پارسا بادشاہ گزرے ہیں، ان کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ سلطنت ہند کی سیاہ و سفید کے مالک ہونے کے باوجود اپنے اخراجات پورے کرنے کے لیے اپنے ہاتھ سے ٹوپیاں بنتے تھے اور قرآن مجید کی کتابت کرتے تھے۔
ان کی پارسائی کا اندازہ اس واقعے سے لگائیے: ''اورنگ زیب عالمگیر کے دور حکومت میں دہلی کے ایک بزرگ نے اپنی وفات سے پہلے وصیت لکھ کے بند کی اور کہا: نماز جنازہ سے پہلے وصیت کھول کر پڑھی جائے۔ ان کی وفات کے بعد وصیت پڑھی گئی تو اس میں درج تھا کہ ان شراط پر پورا اترنے والا شخص ہی میرا جنازہ پڑھائے گا۔ وہ شرائط یہ ہیں: اس شخص نے پوری زندگی ہر نماز باجماعت پڑھی ہو۔ ساری زندگی نماز عشاء کے وضو سے فجر کی نماز ادا کی ہو۔ زندگی میں کبھی بھی نماز عصر کی چار موکدہ سنتیں نہ چھوڑی ہوں۔ وصیت سننے کے کافی دیر بعد اشک بار آنکھوں کے ساتھ بادشاہ وقت اورنگزیب عالمگیر آگے بڑھے اور حضرت کی نماز جنازہ پڑھائی اور کہا: ''آپ نے آج اس بھرے مجمعے میں میرا پردہ چاک کردیا ہے۔'' ایسے پارسا انسان اورنگزیب عالمگیر کی زندگی کا بھی ایک حصہ اقتدار کے حصول کے لیے اپنے والد شاہجہان اور اپنے بھائیوں مراد بخش، شجاع اور دارا سے لڑتے گزرا۔
آج تک اقتدار نے کسی کے ساتھ وفا نہیں کی، اقتدار آتا بہت مشکل سے ہے، لیکن جاتے ہوئے پتا بھی نہیں چلتا۔ فرعون کو جب اس کے نجومیوں نے بتایا کہ ایک بچہ تمہارے اقتدار کے لیے خطرہ بنے گا تو فرعون پر یہ بہت شاق گزرا، اپنا اقتدار بچانے کی خاطر اس نے سفاکیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے بے شمار نومولود بچوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا، لیکن اقتدار اس کا پھر بھی نہ بچ سکا اور فرعون دریا میں ڈوب کر عبرت ناک انجام سے دوچار ہوا۔
نمرود کو جب اپنا اقتدار ڈولتا ہوا نظر آیا تو وہ بھی اقتدار کی ہوس میں ایسا اندھا اور دیوانہ ہوا کہ مقرب پیغمبر حضرت ابراہیم علیہ السلام کو آگ میں ڈال دیا، لیکن اس کا اقتدار انتہائی ذلت و رسوائی کے ساتھ اختتام پذیر ہوا۔ فرانس کے بادشاہ لوئی شانزدہم بڑے ٹھاٹھ باٹھ اور شان و شوکت کے ساتھ ایک عرصہ اقتدار پر براجمان رہا، لیکن عوام نے شاہی محل پر حملہ کرکے بادشاہ اور ملکہ کو قید کیا، بعد ازاں دونوں کو موت کی سزا دے دی گئی۔ عالم اسلام کے دو عظیم فاتح تیمور لنگ اور بایزید یلدرم جب تقریباً آدھی دنیا فتح کرچکے تو بلاشرکت غیرے پوری دنیا کے اقتدار کا مالک بننے کے لیے دونوں نے آپس میں لڑکر لاکھوں مسلمانوں کو خون میں نہلادیا، لیکن برا ہو اس اقتدار کا، یہ پھر بھی جاتا رہا۔
اگر ماضی قریب میں جھانکیں تو تاریخ کی گواہی کھل کر سامنے آتی ہے۔ ایران کے رضا شاہ پہلوی نے بڑی عیاشی، دبدبے اور جبر کے ساتھ حکومت کی، لیکن اس کا انجام عبرت سے لبریز ہے۔ اقتدار کی محبت میں غرق حسنی مبارک نے طویل عرصہ تکبر و نخوت کے ساتھ مصر پر راج کیا، لیکن عوام کے ہاتھوں ذلت سے دوچار ہوا۔ کرنل معمر قذافی نے نصف صدی جابرانہ طریقے سے لیبیا کے اقتدار کے مزے لوٹے، وہ بھی عوام کے انتقام کا نشانہ بنا۔ صدام حسین نے بھی اقتدار کی ہوس میں عراق کو ہائی جیک کیے رکھا۔ جب قدرت نے حساب برابر کیا تو صدام حسین کو پھانسی کا پھندا ملا۔
اقتدار کی ہوس کے باعث جو شام اور مصر کو جلارہے ہیں، تاریخ سے سبق سیکھیں۔ اس ہوس کا انجام برا ہے۔ اقتدار کی ہوس کی وجہ سے جنھوں نے پاکستان کو دولخت کیا سب کا انجام غیر طبعی موت کے ذریعے ذلت و رسوائی پر منتج ہوا اور یہ جو بنگال کی حسینہ اپنے ہی ملک کو آگ لگا بیٹھی ہے عبدالقادر ملا کو پھانسی دے کر اور بے تحاشا مظالم کا سلسلہ شروع کرکے، یہ سب صرف پاکستان سے نفرت نہیں بلکہ یہ بھی اقتدار کی ہوس میں ہورہا ہے۔ حسینہ کو آئندہ الیکشن میں اپنا اقتدار جاتا نظر آیا، حسینہ واجد، خالدہ ضیاء سے رقابت کی آگ میں جھلس رہی ہے اور جماعت اسلامی کی حمایت خالدہ ضیاء کے ساتھ رہی ہے۔ حسینہ کو خطرہ تھا کہ جماعت اسلامی، خالدہ ضیاء کے ساتھ مل کر ایسا اتحاد نہ بنالے جس سے حسینہ واجد سیاسی طور پر تنہا نظر آئے، اس لیے یہ سب کچھ کیا گیا، لیکن انجام اس کا بھی حسب روایت ہوگا، کیونکہ جب قدرت کی مار پڑتی ہے تو اقتدار، طاقت، عیش و طرب، حاکمیت اور فرعونیت کاسہ گدائی میں بدل جاتی ہے۔ سچ ہے کہ اقتدار کی ہوس ہے ہی بری۔