مکافاتِ عمل ہی تو ہے اب کیوں روتے ہو
جو آج طاقت و اقتدار کے نشے میں چور اور اندھے ہوئے پڑے ہیں، انہیں بھی جلد خوابِ غفلت سے بیدار ہوجانا چاہیے
فائیو اسٹار ہوٹل کے لگژری کمرے میں مقیم مریم بی بی کے دروازے کی کنڈی ''مبینہ طور پر'' کیا کھڑکا لی گئی، ایک بھونچال سا آگیا۔ یہ بھول گئیں کہ ان ہی کے والد صاحب کے دورِ حکومت میں کراچی سے لے کر خضدار تک، اور گجرات سے لے کر سوات اور اسلام آباد تک، سیکڑوں ہزاروں گھروں کی دیواریں پھاندی گئیں، دروازے توڑے گئے، چادر اور چار دیواری کی حرمتیں پامال کی گئیں۔
اہل خانہ اور بوڑھے ماں باپ کے سامنے نوجوان بیٹوں کو گھسیٹے ہوئے لے جاکر سفید پوش مگر سیاہ کار، بلیک ویگو سیاہ ڈالے میں پھینکتے تھے؛ ایسے جیسے وہ انسان نہیں بھیڑ بکریاں ہوں۔ خواتین تک کو اغوا اور لاپتا کیا جاتا رہا۔ تب تو راوی ہر طرف چین ہی چین لکھ رہا ہوتا تھا۔ تب تو نہ مریم بی بی کوئی ٹویٹ داغتی تھیں نہ ہی پریس کانفرنس اور بھاشن جھاڑتیں۔
اُن مظلوموں اور ان کے درد سے بلکتے بچوں، غم کے پہاڑ سہتی ماؤں، بہنوں، بیویوں کےلیے تو مریم بی بی کبھی جی ٹی روڈ پر نہیں نکلیں۔ آج جب ان کے اپنے شوہر کے ساتھ تھوڑی دیر کا ہلکا پھلکا سا سین کیا ہوگیا، بی بی کو بڑا ہماری تہذیب کی یاد ستانے لگ گئی، خواتین کی حرمت کا خیال آگیا۔
اسی طرح آئی جی صاحب ذرا رات گئے گھر سے کیا دھر لیے گئے، پوری سائیں سرکار نے رولا ڈال دیا اور رونا گانا لگا دیا کہ ہمارے ساتھ بڑا انّیائے ہوگیا۔ حالانکہ اسی بلاول کے باپ نے سندھ پولیس کے اس خونخوار بھیڑیے راؤ انوار کو ''بہادر بچہ'' قرار دیا تھا جس کے دامن پر معصوم جوانوں کے گرم لہو کے صرف چھینٹے ہی نہیں تھے، بلکہ اس کا پورے کا پورا لباس ہی بے گناہوں کے خون سے تر بہ تر ہے۔
وہی راؤ انوار جو ہر دوسری تیسری رات کسی بے گناہ کے گھر پر قہر بن کر ٹوٹتا اور پھر توڑ جوڑ نہ ہونے کی صورت میں جعلی مقابلوں میں ماؤں کے لختِ جگر کو مظلوم ہونے کی پاداش میں موت کے گھاٹ اتار دیتا، ان کی گود اور سہاگنوں کا سہاگ اجاڑ دیتا۔ عمار ہاشمی اور نقیب اللہ محسود جیسے پچاسیوں ہیرے موتی لعل سندھ پولیس کے اسی ''بہادر سپوت'' نے رزقِ خاک کردیے، تب تو بلاول کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی تھی، تب انہیں پولیس کے وقار کا کوئی پاس نہیں تھا۔ آج یہ بڑی بڑی بڑھکیں مار رہے ہیں۔
کہنے کا مقصد یہ ہے کہ مریم بی بی کے شوہر کے ساتھ جو ہوا، ایسا اس ملک میں کوئی پہلی بار تھوڑا ہی ہوا ہے۔ ظلم کی اس تاریک رات کی ایک طویل داستان ہے۔ تب اگر ان حاکموں نے مظلوموں کی داد رسی کی ہوتی، ان کے شانہ بشانہ کھڑے ہوئے ہوتے اور سب نے مل کر ظالموں کے بازو مروڑے ہوتے، تو آج شاید انہیں یوں ذلیل و رسوا نہ ہونا پڑ رہا ہوتا۔
لیکن تب تو ان کے سروں پر بس زیادہ سے زیادہ مال و دولت جمع کرنے کا بھوت سوار تھا، مِلز اور محلّات بنانے کا جنون تھا۔ اگر انہوں نے نوٹوں کے انبار اونچے کرنے کے بجائے اپنے کردار اور ظرف بلند کیے ہوتے تو کسی میں اتنی جرأت نہ ہوتی کہ ان کے آگے اپنی من مانی کرتا۔ پھر ''چوکیدار'' بھی اپنے سائز اور اوقات میں رہتا۔
مگر آپ نے کردار سے زیادہ اہمیت نوٹوں کے انبار کو دی، تو بوٹوں اور ہتھیار والوں کے کانے بن گئے؛ اور وہ آپ کے ماتحت ہونے کے باوجود آپ کے باپ بن گئے۔ اس سب کے بالواسطہ یا بلاواسطہ ذمے دار بہرحال آپ خود ہیں۔
یہ مکافاتِ عمل کی دنیا ہے، جو کچھ آپ نے بویا، وہ آپ کو آج کاٹنا پڑ رہا ہے۔ اسی طرح جو آج طاقت و اقتدار کے نشے میں چور اور اندھے ہوئے پڑے ہیں، انہیں بھی جلد خوابِ غفلت سے بیدار ہوجانا چاہیے، ہوش کے ناخن لینے چاہئیں، ورنہ کل کو ان کے ساتھ بھی یہی سب کچھ ہو کر رہے گا... بلکہ شاید اس سے بڑھ کر ہو۔ تب ان کے پاس بھی سوائے پچھتاوے کے کچھ نہیں ہوگا۔
ڈاکٹر راحت اندوری مرحوم بتلا گئے کہ
جو آج صاحبِ مسند ہیں، کل نہیں ہوں گے
کرائے دار ہیں، ذاتی مکان تھوڑی ہے
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اہل خانہ اور بوڑھے ماں باپ کے سامنے نوجوان بیٹوں کو گھسیٹے ہوئے لے جاکر سفید پوش مگر سیاہ کار، بلیک ویگو سیاہ ڈالے میں پھینکتے تھے؛ ایسے جیسے وہ انسان نہیں بھیڑ بکریاں ہوں۔ خواتین تک کو اغوا اور لاپتا کیا جاتا رہا۔ تب تو راوی ہر طرف چین ہی چین لکھ رہا ہوتا تھا۔ تب تو نہ مریم بی بی کوئی ٹویٹ داغتی تھیں نہ ہی پریس کانفرنس اور بھاشن جھاڑتیں۔
اُن مظلوموں اور ان کے درد سے بلکتے بچوں، غم کے پہاڑ سہتی ماؤں، بہنوں، بیویوں کےلیے تو مریم بی بی کبھی جی ٹی روڈ پر نہیں نکلیں۔ آج جب ان کے اپنے شوہر کے ساتھ تھوڑی دیر کا ہلکا پھلکا سا سین کیا ہوگیا، بی بی کو بڑا ہماری تہذیب کی یاد ستانے لگ گئی، خواتین کی حرمت کا خیال آگیا۔
اسی طرح آئی جی صاحب ذرا رات گئے گھر سے کیا دھر لیے گئے، پوری سائیں سرکار نے رولا ڈال دیا اور رونا گانا لگا دیا کہ ہمارے ساتھ بڑا انّیائے ہوگیا۔ حالانکہ اسی بلاول کے باپ نے سندھ پولیس کے اس خونخوار بھیڑیے راؤ انوار کو ''بہادر بچہ'' قرار دیا تھا جس کے دامن پر معصوم جوانوں کے گرم لہو کے صرف چھینٹے ہی نہیں تھے، بلکہ اس کا پورے کا پورا لباس ہی بے گناہوں کے خون سے تر بہ تر ہے۔
وہی راؤ انوار جو ہر دوسری تیسری رات کسی بے گناہ کے گھر پر قہر بن کر ٹوٹتا اور پھر توڑ جوڑ نہ ہونے کی صورت میں جعلی مقابلوں میں ماؤں کے لختِ جگر کو مظلوم ہونے کی پاداش میں موت کے گھاٹ اتار دیتا، ان کی گود اور سہاگنوں کا سہاگ اجاڑ دیتا۔ عمار ہاشمی اور نقیب اللہ محسود جیسے پچاسیوں ہیرے موتی لعل سندھ پولیس کے اسی ''بہادر سپوت'' نے رزقِ خاک کردیے، تب تو بلاول کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی تھی، تب انہیں پولیس کے وقار کا کوئی پاس نہیں تھا۔ آج یہ بڑی بڑی بڑھکیں مار رہے ہیں۔
کہنے کا مقصد یہ ہے کہ مریم بی بی کے شوہر کے ساتھ جو ہوا، ایسا اس ملک میں کوئی پہلی بار تھوڑا ہی ہوا ہے۔ ظلم کی اس تاریک رات کی ایک طویل داستان ہے۔ تب اگر ان حاکموں نے مظلوموں کی داد رسی کی ہوتی، ان کے شانہ بشانہ کھڑے ہوئے ہوتے اور سب نے مل کر ظالموں کے بازو مروڑے ہوتے، تو آج شاید انہیں یوں ذلیل و رسوا نہ ہونا پڑ رہا ہوتا۔
لیکن تب تو ان کے سروں پر بس زیادہ سے زیادہ مال و دولت جمع کرنے کا بھوت سوار تھا، مِلز اور محلّات بنانے کا جنون تھا۔ اگر انہوں نے نوٹوں کے انبار اونچے کرنے کے بجائے اپنے کردار اور ظرف بلند کیے ہوتے تو کسی میں اتنی جرأت نہ ہوتی کہ ان کے آگے اپنی من مانی کرتا۔ پھر ''چوکیدار'' بھی اپنے سائز اور اوقات میں رہتا۔
مگر آپ نے کردار سے زیادہ اہمیت نوٹوں کے انبار کو دی، تو بوٹوں اور ہتھیار والوں کے کانے بن گئے؛ اور وہ آپ کے ماتحت ہونے کے باوجود آپ کے باپ بن گئے۔ اس سب کے بالواسطہ یا بلاواسطہ ذمے دار بہرحال آپ خود ہیں۔
یہ مکافاتِ عمل کی دنیا ہے، جو کچھ آپ نے بویا، وہ آپ کو آج کاٹنا پڑ رہا ہے۔ اسی طرح جو آج طاقت و اقتدار کے نشے میں چور اور اندھے ہوئے پڑے ہیں، انہیں بھی جلد خوابِ غفلت سے بیدار ہوجانا چاہیے، ہوش کے ناخن لینے چاہئیں، ورنہ کل کو ان کے ساتھ بھی یہی سب کچھ ہو کر رہے گا... بلکہ شاید اس سے بڑھ کر ہو۔ تب ان کے پاس بھی سوائے پچھتاوے کے کچھ نہیں ہوگا۔
ڈاکٹر راحت اندوری مرحوم بتلا گئے کہ
جو آج صاحبِ مسند ہیں، کل نہیں ہوں گے
کرائے دار ہیں، ذاتی مکان تھوڑی ہے
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔