ایڈز کا وائرس حیاتِ نو کی نوید بن گیا
لوکیمیا میں مبتلا بچی کا ایچ آئی وی سے کام یاب علاج
ایڈز ایک لا علاج بیماری ہے جس میں مبتلا مریض بہ تدریج موت کی طرف بڑھتا جاتا ہے۔
سائنس دانوں نے یہ مرض 1981ء میں دریافت کیا تھا۔ اسی برس ایڈز لاحق ہونے کا سبب بھی دریافت کرلیا گیا تھا۔ 1981ء سے لے کر 2012ء کے اختتام تک ایڈز سے تین کروڑ 60 لاکھ افراد ہلاک ہوچکے تھے۔ ایک رپورٹ کے مطابق 2012ء تک دنیا بھر میں ساڑھے تین کروڑ افراد اس مہلک مرض میں مبتلا تھے۔ اس مہلک مرض کا سبب ایک وائرس ہوتا ہے جو Human immunodeficiency virus ( ایچ آئی وی) کہلاتا ہے۔ یہ وائرس جسم انسانی کے دفاعی یا مناعتی نظام کو نشانہ بناتا ہے، اور بہ تدریج اسے ناکارہ کردیتا ہے۔
آپ نے ایچ آئی وی پازیٹیو کی اصطلاح تو سنی ہوگی۔ یہ اصطلاح ان لوگوں کے لیے استعمال کی جاتی ہے جن کے جسم میں یہ وائرس داخل تو ہوجاتا ہے مگر فعال نہیں ہوتا بلکہ ایک خاموش قاتل کی طرح جسم میں چھپ کر بیٹھ جاتا ہے۔ ایچ آئی وی کے فعال ہونے پر وہ فرد ایڈز کا شکار ہوجاتا ہے۔
ایچ آئی وی کے باعث اب تک کروڑوں افراد ایڈز جیسے لاعلاج مرض میں مبتلا ہوکر زندگی کی بازی ہار چکے ہیں، مگر بعض اوقات زہر بھی تریاق بن جایا کرتا ہے۔ کچھ ایسا ہی امریکی ریاست پنسلوانیا میں رہنے والی چھے سالہ ایملی وائٹ ہیڈ کے معاملے میں بھی ہوا۔ ایملی کو خون کا سرطان لاحق ہوگیا تھا جسے طبی اصطلاح میں '' لوکیمیا'' کہا جاتا ہے۔ یہ مرض بھی انسانی جسم کے دفاعی نظام میں خرابی کی وجہ سے لاحق ہوتا ہے۔ خون کا سرطان تشخیص ہونے کے بعد مختلف ڈاکٹروں سے اس کا علاج کروایا گیا مگر ایملی کی حالت میں کوئی بہتری نہیں آئی۔ بالآخر یہ بچی یونی ورسٹی آف پنسلوانیا کے دو ماہر ڈاکٹروں کارل جون اور ڈیوڈ پورٹر کے زیرعلاج آگئی۔ دنیا کو مہلک ترین امراض سے پاک کرنا ان ڈاکٹروں نے اپنی زندگی کا مشن بنارکھا ہے۔
کئی برس کی تحقیق کے بعد کارل اور ڈیوڈ نے آگ کے ساتھ آگ سے لڑنے کا فیصلہ کیا۔ انھوں نے ایملی کے مناعتی نظام کو فعال کرنے کی غرض سے اس کے جسم میں ایک وائرس داخل کیا۔ یہ وائرس ایچ آئی وی ہی سے اخذ کیا گیا تھا۔ اس بارے میں ایک جریدے کو انٹرویو دیتے ہوئے پورٹر نے بتایا،'' یہ ایک نیا طریقہ تھا جس میں ہم نے مریضہ کے جسم سے خلیے لے کر ان میں ایک وائرس داخل کیا جس نے ان خلیوں میں جینیاتی تغیر پیدا کیا۔ اس جینیاتی تبدیلی کے نتیجے میں ان خلیوں میں لوکیمیا کے خلیوں کے خلاف مزاحمت کرنے کی صلاحیت پیدا ہوگئی۔ دراصل یہ وائرس ہم نے ایچ آئی وی کے ساتھ ' چھیڑ چھاڑ' کر کے پیدا کیا تھا۔ بہ الفاظ دیگر یہ تبدیل شدہ ایچ آئی وی ہی تھا۔ ''
جینیاتی طور پر تبدیل شدہ خلیوں کو ڈاکٹروں نے '' سیریل کِلر سیلز'' کا نام دیا ہے، کیوں کہ ان میں سے ہر خلیہ سرطان سے متاثرہ ایک ہزار سے خلیوں کو ختم کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ ایچ آئی وی میں تبدیلی کے ذریعے اسے زندگی بچانے والے خلیے کی شکل دینے کا طریقہ ابھی آزمائشی مرحلے میں ہے اور فی الحال اس کا استعمال خطرناک بھی ہوسکتا ہے، تاہم ایملی کا مرض آخری اسٹیج پر پہنچ چکا تھا اور اس کی زندگی بچانے کے لیے یہ تجربہ کرنے کے سوا کوئی راستہ نہیں تھا۔ اب یہ ایملی کی خوش نصیبی تھی کہ تجربہ کام یاب رہا اور اسے اس مرض سے نجات مل گئی۔
سائنس دانوں نے یہ مرض 1981ء میں دریافت کیا تھا۔ اسی برس ایڈز لاحق ہونے کا سبب بھی دریافت کرلیا گیا تھا۔ 1981ء سے لے کر 2012ء کے اختتام تک ایڈز سے تین کروڑ 60 لاکھ افراد ہلاک ہوچکے تھے۔ ایک رپورٹ کے مطابق 2012ء تک دنیا بھر میں ساڑھے تین کروڑ افراد اس مہلک مرض میں مبتلا تھے۔ اس مہلک مرض کا سبب ایک وائرس ہوتا ہے جو Human immunodeficiency virus ( ایچ آئی وی) کہلاتا ہے۔ یہ وائرس جسم انسانی کے دفاعی یا مناعتی نظام کو نشانہ بناتا ہے، اور بہ تدریج اسے ناکارہ کردیتا ہے۔
آپ نے ایچ آئی وی پازیٹیو کی اصطلاح تو سنی ہوگی۔ یہ اصطلاح ان لوگوں کے لیے استعمال کی جاتی ہے جن کے جسم میں یہ وائرس داخل تو ہوجاتا ہے مگر فعال نہیں ہوتا بلکہ ایک خاموش قاتل کی طرح جسم میں چھپ کر بیٹھ جاتا ہے۔ ایچ آئی وی کے فعال ہونے پر وہ فرد ایڈز کا شکار ہوجاتا ہے۔
ایچ آئی وی کے باعث اب تک کروڑوں افراد ایڈز جیسے لاعلاج مرض میں مبتلا ہوکر زندگی کی بازی ہار چکے ہیں، مگر بعض اوقات زہر بھی تریاق بن جایا کرتا ہے۔ کچھ ایسا ہی امریکی ریاست پنسلوانیا میں رہنے والی چھے سالہ ایملی وائٹ ہیڈ کے معاملے میں بھی ہوا۔ ایملی کو خون کا سرطان لاحق ہوگیا تھا جسے طبی اصطلاح میں '' لوکیمیا'' کہا جاتا ہے۔ یہ مرض بھی انسانی جسم کے دفاعی نظام میں خرابی کی وجہ سے لاحق ہوتا ہے۔ خون کا سرطان تشخیص ہونے کے بعد مختلف ڈاکٹروں سے اس کا علاج کروایا گیا مگر ایملی کی حالت میں کوئی بہتری نہیں آئی۔ بالآخر یہ بچی یونی ورسٹی آف پنسلوانیا کے دو ماہر ڈاکٹروں کارل جون اور ڈیوڈ پورٹر کے زیرعلاج آگئی۔ دنیا کو مہلک ترین امراض سے پاک کرنا ان ڈاکٹروں نے اپنی زندگی کا مشن بنارکھا ہے۔
کئی برس کی تحقیق کے بعد کارل اور ڈیوڈ نے آگ کے ساتھ آگ سے لڑنے کا فیصلہ کیا۔ انھوں نے ایملی کے مناعتی نظام کو فعال کرنے کی غرض سے اس کے جسم میں ایک وائرس داخل کیا۔ یہ وائرس ایچ آئی وی ہی سے اخذ کیا گیا تھا۔ اس بارے میں ایک جریدے کو انٹرویو دیتے ہوئے پورٹر نے بتایا،'' یہ ایک نیا طریقہ تھا جس میں ہم نے مریضہ کے جسم سے خلیے لے کر ان میں ایک وائرس داخل کیا جس نے ان خلیوں میں جینیاتی تغیر پیدا کیا۔ اس جینیاتی تبدیلی کے نتیجے میں ان خلیوں میں لوکیمیا کے خلیوں کے خلاف مزاحمت کرنے کی صلاحیت پیدا ہوگئی۔ دراصل یہ وائرس ہم نے ایچ آئی وی کے ساتھ ' چھیڑ چھاڑ' کر کے پیدا کیا تھا۔ بہ الفاظ دیگر یہ تبدیل شدہ ایچ آئی وی ہی تھا۔ ''
جینیاتی طور پر تبدیل شدہ خلیوں کو ڈاکٹروں نے '' سیریل کِلر سیلز'' کا نام دیا ہے، کیوں کہ ان میں سے ہر خلیہ سرطان سے متاثرہ ایک ہزار سے خلیوں کو ختم کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ ایچ آئی وی میں تبدیلی کے ذریعے اسے زندگی بچانے والے خلیے کی شکل دینے کا طریقہ ابھی آزمائشی مرحلے میں ہے اور فی الحال اس کا استعمال خطرناک بھی ہوسکتا ہے، تاہم ایملی کا مرض آخری اسٹیج پر پہنچ چکا تھا اور اس کی زندگی بچانے کے لیے یہ تجربہ کرنے کے سوا کوئی راستہ نہیں تھا۔ اب یہ ایملی کی خوش نصیبی تھی کہ تجربہ کام یاب رہا اور اسے اس مرض سے نجات مل گئی۔