جمہوری نظام کے لیے خطرناک
عجیب وقت ہے کہ وزیر اعظم خفیہ ایجنسیوں کی طرف سے سیاست دانوں کے ٹیلی فون ٹیپ کرنے کے حق میں دلائل دے رہے ہیں۔
محمد خان جونیجو غیر جماعتی انتخابات میں کامیاب ہوئے تھے۔ جنرل ضیاء الحق نے مسلم لیگ کے سربراہ پیر پگارا کی سفارش پر 1985 میں انھیں وزیر اعظم نامزد کیا۔ جب انھوں نے وزیر اعظم کا عہدہ سنبھالا تو جنرل ضیاء الحق کے نافذ کردہ مارشل لاء کو 8 سال ہو چکے تھے۔ ضیاء الحق کا دور ایک جبرکا دور تھا، شہریوں کے بنیادی حقوق معطل تھے۔
اخبارات کو پریس ایڈوائس کے ذریعہ کنٹرول کیا جاتا تھا، کچھ اخبارات پر پری سنسرشپ نافذ تھی اورکئی ہزار سیاسی کارکن جیلوں میں بند تھے۔ ان میں سے بہت سوں کو عدالتوں سے سزائیں ہوئی تھیں،کچھ کے مقدمات زیر التواء تھے اور بہت سے افراد برسوں سے امتناعی قوانین کے تحت نظربند تھے۔ وزیر اعظم محمد خان جونیجو نے قومی اسمبلی میں تقریرکرتے ہوئے دسمبر 1985 تک مارشل لاء کے خاتمہ کا اعلان کیا تھا۔
اس وقت کے سیکریٹری اطلاعات نے وزیر اعظم کے مارشل لاء کے خاتمہ کے اعلان کو پی ٹی وی کی خبروں سے سنسر کر دیا تھا۔ وزیر اعظم محمد خان جونیجو نے سیاسی قیدیوں کی رہائی کے احکامات جاری کیے، جو مقدمات غیر سول عدالتوں میں زیرالتواء تھے وہ سول عدالتوں میں بھیج دیے گئے، سیکریٹری اطلاعات کو ان کے عہدے سے ہٹا دیا گیا ۔
جونیجو حکومت نے اخبارات پر سے تمام پابندیاں ختم کیں اور جلسے جلوسوں کی مکمل طور پر اجازت دیدی گئی۔ 1958 کے مارشل لاء کے بعد سے 1985 تک یہ پہلا موقع تھا کہ شہریوں کے تمام حقوق بحال کر دیے گئے۔
1986 میں پیپلز پارٹی کی چیئرپرسن بینظیر بھٹو نے جلاوطنی ختم کر کے پاکستان آنے کا فیصلہ کیا، بینظیر بھٹو لاہور پہنچیں۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے بینظیر بھٹوکے استقبال کے لیے پیپلز پارٹی کو تمام سہولتیں فراہم کیں، یوں لاکھوں افراد نے بینظیر بھٹوکا فقید المثال استقبال کیا۔
ایسا ہی رویہ سندھ کی حکومت نے کراچی میں اختیار کیا۔ پیپلز پارٹی کے کارکنوں نے بینظیر بھٹو کے جلوس اور جلسہ کے تمام انتظامات سنبھالے۔ بینظیر بھٹو نے اپنی تقاریر میں جونیجو حکومت کے خاتمہ اور جماعتی بنیاد پر انتخابات کرانے کا مطالبہ کیا۔ یہ مطالبہ براہ ِراست وزیر اعظم محمد خان جونیجو کی ذات کے خلاف تھا مگر محمد خان جونیجو کی حکومت نے ان تقاریر پرکوئی توجہ نہ دی اور ہر ضلع میں انتظامیہ نے پیپلز پارٹی کی قیادت سے تعاون کیا، یوں محمد خان جونیجو ایک تاریخ رقم کرگئے۔
موجودہ سیاسی منظر نامے میں جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے حزب اختلاف کی جماعتوں کی کانفرنس بلانے کی تجویز پیش کی۔ ان کی مسلم لیگ کے صدر شہباز شریف اور پیپلز پارٹی کے چیئرپرسن بلاول بھٹو زرداری سے ملاقاتیں ہوئیں۔
وفاقی وزراء نے ان ملاقاتوں کی مذمت کرنا شروع کر دی۔ جب حزب اختلاف کے رہنماؤں نے آل پارٹیزکانفرنس کے انعقاد کا ذکرکرنا شروع کیا تو شیخ رشید نے پیغامات دینے شروع کیے کہ مسلم لیگ سے ش لیگ الگ ہونے والی ہے۔ آل پارٹیز کانفرنس نہیں ہوگی۔ آل پارٹیز کانفرنس کی تاریخ کا اعلان ہوا تو شیخ رشید کی قیادت میں وزراء نے کہنا شروع کیا کہ یہ کانفرنس اگر منعقد ہوئی تو ناکام ہوگی۔
بعد ازاں اسلام آباد میں آل پارٹیز کانفرنس منعقد ہوئی۔ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ قائم ہوئی اور 26 نکات پر اتفاق رائے ہوا۔ پی ڈی ایم نے وفاقی حکومت کے خلاف تحریک کا اعلان کیا اور 16اکتوبر کو گوجرانوالہ میں جلسہ کا اعلان ہوا تو ایوب خان کا دور یاد آگیا، جب ایوب حکومت نے ملک کے بانی بیرسٹر محمد علی جناح کی ہمشیرہ فاطمہ جناح کے جلسوں اور جلوسوں کو ناکام بنانے کے لیے مختلف حربے استعمال کیے تھے۔
اس دور میں جلسوں اور جلوسوں کی تاریخوں کے اعلان کے ساتھ مخالف سیاسی جماعتوںکے رہنماؤں اورکارکنوں کی گرفتاریاں شروع ہو جاتی تھیں۔ شہر اور اطراف کے ٹینٹ ہاؤسزکے مالکان کو تھانوں میں طلب کیا جاتا اور اس شرط پر رہا کیا جاتا کہ وہ فاطمہ جناح کے جلسوں کے لیے شامیانے اور اسٹیج کا سامان اور لاؤڈ اسپیکر وغیرہ فراہم نہیں کریں گے ۔
ڈپٹی کمشنر اپنی نگرانی میں جلسہ گاہ میں چھڑکاؤکرواتے تھے اور اس بات کو یقینی بنایا جاتا تھا کہ جلسہ گاہ میں کئی کئی فٹ پانی جمع رہے مگر حزب اختلاف کا اتحاد پھر بھی جلسے جلوسوں میں کامیاب ہو جاتا تھا۔ گوجرانوالہ میں 16 اکتوبر کے جلسہ کے اعلان کے ساتھ مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی کے کارکنوں کی گرفتاریاں شروع ہوگئیں۔ گوجرانوالہ اور اطراف کے ٹینٹ والوں کو مجبور کیا گیا کہ وہ استقبالیہ کیمپوں اور جلسے کے لیے فرنیچر فراہم نہیں کریں گے۔
اسی طرح پنجاب کے مختلف شہروں میں پولیس والوں نے ان بسوں، ویگنوں اور منی بسوں کو ضبط کرلیا جو گوجرانوالہ جلسہ کے لیے کارکنوں کو لے جانے کے لیے استعمال ہوسکتی تھیں۔ نیشنل پارٹی کے ایک کارکن کا کہنا ہے کہ اس نے منڈی بہاؤ الدین سے اپنی ویگن کو 4 ہزار روپے دے کر پولیس سے چھڑوایا۔ 15 اکتوبر سے گوجرانوالہ اسٹیڈیم جانے والی سڑکوں پر کنٹینر کھڑے کردیے گئے۔
مسلم لیگ ن کے رہنما خرم دستگیر نے 16 اکتوبر کو سیشن کورٹ میں عرضداشت داخل کی کہ اسٹیڈیم جانے والے راستوں پر کھڑے ہوئے کنٹینر ہٹائے جائیں، یوں کچھ پولیس والوں نے کچھ کنٹینر ہٹائے۔ وفاقی وزراء نے ان کنٹینر لگائے جانے کو سیکیورٹی وجوہات قرار دیا ۔ پھر یہ جلسہ ہوا تو اب جلسہ کے منتظمین کے خلاف مقدمہ درج کرلیا گیا ہے۔ شاید خرم دستگیر اور ان کے ساتھی اس جلسہ کے انعقاد کی بناء پرگرفتار ہو جائیں۔
کراچی میں 18 اکتوبر کو جلسہ ہوا۔ اس جلسہ میں ایک لاکھ سے زائد افراد شریک ہوئے۔ اس جلسہ کے قومی سیاست اور بین الاقوامی سطح پر دور رس نتائج برآمد ہوئے۔ مریم نواز جلسہ والے دن مزار قائد پر گئیں۔
ان کے شوہرکیپٹن ریٹائرڈ محمد صفدر نے مادر ملت کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے جذبات میں آ کر نعرے لگائے اور ساتھ ہی ووٹ کو عزت دوکا نعرہ لگایا۔ مادر ملت فاطمہ جناح کو خراج عقیدت فیلڈ مارشل لاء ایوب خان کی آمریت کے خلاف جدوجہد کرنے پر پیش کیا گیا مگر رات گئے نادیدہ قوتوں کے دباؤ پر مقدمہ درج ہوا اور ہوٹل کے کمرہ کا دروازہ توڑکر چاردیواری کا تقدس پامال کرتے ہوئے کیپٹن صفدرکوگرفتار کرلیا گیا۔
سندھ کی حکومت نے کیپٹن صفدرکی گرفتاری سے لاتعلقی کا اظہار کیا۔ متعلقہ مجسٹریٹ نے کیپٹن صفدر کو ضمانت پر رہا کردیا اور درخواست گزارکے موبائل فون کو ضبط کرنے کا حکم دیا۔
تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے 20سال تک طویل جدوجہد کی۔ انھوں نے بینظیر اور نواز شریف حکومت کو چیلنج کیا۔ جنرل پرویز مشرف کے صدارتی ریفرنڈم کی حمایت کی مگر قومی اورصوبائی اسمبلیوں کے انتخابات میں مسلم لیگ ق کی حمایت سے انکار کیا اور حزب اختلاف میں شامل ہو گئے۔ وکلاء کی تحریک میں مختصر عرصہ کے لیے جیل گئے ۔ آئین کی بالادستی اور شفاف انتخابات کے لیے لاہور سے اسلام آباد مارچ کیا۔
شہباز شریف حکومت کی رکاوٹوں کو عبورکیا اور چھ ماہ تک ڈی چوک میں دھرنا دیا۔ اس دوران ملک بھر میں پہیہ جام ہڑتال کی اپیل کی، یوں مشکل ترین حالات کا مقابلہ کیا۔ اس صورتحال میں بعض کو یہ امید تھی کہ عمران خان وزیر اعظم بننے کے بعد انسانی حقوق کی پاسداری کو یقینی بنائیں گے۔
مخالف جماعتوں کو مکمل آزادی دیں گے اور، جلسوں، جلوسوں اور دھرنے کے دوران ان کو اور تحریک انصاف کے کارکنوں کو جو مشکلات ہوئیں ان کو ہمیشہ کے لیے دورکر دیں گے مگر ان عقل مندوں کو اور زیادہ امید اس بناء پر تھی کہ عمران خان نے زندگی کا بڑا حصہ برطانیہ میں گزارا ہے جہاں انسانی حقوق پر قدغن نہیں لگتیں۔ شہریوں کو بغیرکسی رکاوٹ کے جلسے اور جلوسوں کی آزادی ہے مگر عجیب وقت ہے کہ وزیر اعظم خفیہ ایجنسیوں کی طرف سے سیاست دانوں کے ٹیلی فون ٹیپ کرنے کے حق میں دلائل دے رہے ہیں ۔ وہ شہریوں کی پرائیویسی اور سیاسی رہنماؤں کو بلیک میل کرنے جیسے ہتھکنڈوں کو درست قرار دے رہے ہیں۔
وفاقی وزیر شیخ رشید پیش گوئی کررہے ہیں کہ اب ''ڈنڈا ''چلے گا مگرکیپٹن ریٹائرڈ صفدرکی گرفتاری سندھ پولیس کے احتجاج سے واضح ہورہا ہے کہ ہوا کا رخ تبدیل ہوتا جارہا ہے۔ موجودہ حکمرانوںنے محمد خان جونیجوکی روایت پر عمل کرنے کے بجائے ایوب خان کی حکومت کے نقشِ قدم پر چلنا شروع کیا ہے۔ یہ صورتحال جمہوری نظام کے لیے خطرناک ہے۔
اخبارات کو پریس ایڈوائس کے ذریعہ کنٹرول کیا جاتا تھا، کچھ اخبارات پر پری سنسرشپ نافذ تھی اورکئی ہزار سیاسی کارکن جیلوں میں بند تھے۔ ان میں سے بہت سوں کو عدالتوں سے سزائیں ہوئی تھیں،کچھ کے مقدمات زیر التواء تھے اور بہت سے افراد برسوں سے امتناعی قوانین کے تحت نظربند تھے۔ وزیر اعظم محمد خان جونیجو نے قومی اسمبلی میں تقریرکرتے ہوئے دسمبر 1985 تک مارشل لاء کے خاتمہ کا اعلان کیا تھا۔
اس وقت کے سیکریٹری اطلاعات نے وزیر اعظم کے مارشل لاء کے خاتمہ کے اعلان کو پی ٹی وی کی خبروں سے سنسر کر دیا تھا۔ وزیر اعظم محمد خان جونیجو نے سیاسی قیدیوں کی رہائی کے احکامات جاری کیے، جو مقدمات غیر سول عدالتوں میں زیرالتواء تھے وہ سول عدالتوں میں بھیج دیے گئے، سیکریٹری اطلاعات کو ان کے عہدے سے ہٹا دیا گیا ۔
جونیجو حکومت نے اخبارات پر سے تمام پابندیاں ختم کیں اور جلسے جلوسوں کی مکمل طور پر اجازت دیدی گئی۔ 1958 کے مارشل لاء کے بعد سے 1985 تک یہ پہلا موقع تھا کہ شہریوں کے تمام حقوق بحال کر دیے گئے۔
1986 میں پیپلز پارٹی کی چیئرپرسن بینظیر بھٹو نے جلاوطنی ختم کر کے پاکستان آنے کا فیصلہ کیا، بینظیر بھٹو لاہور پہنچیں۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے بینظیر بھٹوکے استقبال کے لیے پیپلز پارٹی کو تمام سہولتیں فراہم کیں، یوں لاکھوں افراد نے بینظیر بھٹوکا فقید المثال استقبال کیا۔
ایسا ہی رویہ سندھ کی حکومت نے کراچی میں اختیار کیا۔ پیپلز پارٹی کے کارکنوں نے بینظیر بھٹو کے جلوس اور جلسہ کے تمام انتظامات سنبھالے۔ بینظیر بھٹو نے اپنی تقاریر میں جونیجو حکومت کے خاتمہ اور جماعتی بنیاد پر انتخابات کرانے کا مطالبہ کیا۔ یہ مطالبہ براہ ِراست وزیر اعظم محمد خان جونیجو کی ذات کے خلاف تھا مگر محمد خان جونیجو کی حکومت نے ان تقاریر پرکوئی توجہ نہ دی اور ہر ضلع میں انتظامیہ نے پیپلز پارٹی کی قیادت سے تعاون کیا، یوں محمد خان جونیجو ایک تاریخ رقم کرگئے۔
موجودہ سیاسی منظر نامے میں جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے حزب اختلاف کی جماعتوں کی کانفرنس بلانے کی تجویز پیش کی۔ ان کی مسلم لیگ کے صدر شہباز شریف اور پیپلز پارٹی کے چیئرپرسن بلاول بھٹو زرداری سے ملاقاتیں ہوئیں۔
وفاقی وزراء نے ان ملاقاتوں کی مذمت کرنا شروع کر دی۔ جب حزب اختلاف کے رہنماؤں نے آل پارٹیزکانفرنس کے انعقاد کا ذکرکرنا شروع کیا تو شیخ رشید نے پیغامات دینے شروع کیے کہ مسلم لیگ سے ش لیگ الگ ہونے والی ہے۔ آل پارٹیز کانفرنس نہیں ہوگی۔ آل پارٹیز کانفرنس کی تاریخ کا اعلان ہوا تو شیخ رشید کی قیادت میں وزراء نے کہنا شروع کیا کہ یہ کانفرنس اگر منعقد ہوئی تو ناکام ہوگی۔
بعد ازاں اسلام آباد میں آل پارٹیز کانفرنس منعقد ہوئی۔ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ قائم ہوئی اور 26 نکات پر اتفاق رائے ہوا۔ پی ڈی ایم نے وفاقی حکومت کے خلاف تحریک کا اعلان کیا اور 16اکتوبر کو گوجرانوالہ میں جلسہ کا اعلان ہوا تو ایوب خان کا دور یاد آگیا، جب ایوب حکومت نے ملک کے بانی بیرسٹر محمد علی جناح کی ہمشیرہ فاطمہ جناح کے جلسوں اور جلوسوں کو ناکام بنانے کے لیے مختلف حربے استعمال کیے تھے۔
اس دور میں جلسوں اور جلوسوں کی تاریخوں کے اعلان کے ساتھ مخالف سیاسی جماعتوںکے رہنماؤں اورکارکنوں کی گرفتاریاں شروع ہو جاتی تھیں۔ شہر اور اطراف کے ٹینٹ ہاؤسزکے مالکان کو تھانوں میں طلب کیا جاتا اور اس شرط پر رہا کیا جاتا کہ وہ فاطمہ جناح کے جلسوں کے لیے شامیانے اور اسٹیج کا سامان اور لاؤڈ اسپیکر وغیرہ فراہم نہیں کریں گے ۔
ڈپٹی کمشنر اپنی نگرانی میں جلسہ گاہ میں چھڑکاؤکرواتے تھے اور اس بات کو یقینی بنایا جاتا تھا کہ جلسہ گاہ میں کئی کئی فٹ پانی جمع رہے مگر حزب اختلاف کا اتحاد پھر بھی جلسے جلوسوں میں کامیاب ہو جاتا تھا۔ گوجرانوالہ میں 16 اکتوبر کے جلسہ کے اعلان کے ساتھ مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی کے کارکنوں کی گرفتاریاں شروع ہوگئیں۔ گوجرانوالہ اور اطراف کے ٹینٹ والوں کو مجبور کیا گیا کہ وہ استقبالیہ کیمپوں اور جلسے کے لیے فرنیچر فراہم نہیں کریں گے۔
اسی طرح پنجاب کے مختلف شہروں میں پولیس والوں نے ان بسوں، ویگنوں اور منی بسوں کو ضبط کرلیا جو گوجرانوالہ جلسہ کے لیے کارکنوں کو لے جانے کے لیے استعمال ہوسکتی تھیں۔ نیشنل پارٹی کے ایک کارکن کا کہنا ہے کہ اس نے منڈی بہاؤ الدین سے اپنی ویگن کو 4 ہزار روپے دے کر پولیس سے چھڑوایا۔ 15 اکتوبر سے گوجرانوالہ اسٹیڈیم جانے والی سڑکوں پر کنٹینر کھڑے کردیے گئے۔
مسلم لیگ ن کے رہنما خرم دستگیر نے 16 اکتوبر کو سیشن کورٹ میں عرضداشت داخل کی کہ اسٹیڈیم جانے والے راستوں پر کھڑے ہوئے کنٹینر ہٹائے جائیں، یوں کچھ پولیس والوں نے کچھ کنٹینر ہٹائے۔ وفاقی وزراء نے ان کنٹینر لگائے جانے کو سیکیورٹی وجوہات قرار دیا ۔ پھر یہ جلسہ ہوا تو اب جلسہ کے منتظمین کے خلاف مقدمہ درج کرلیا گیا ہے۔ شاید خرم دستگیر اور ان کے ساتھی اس جلسہ کے انعقاد کی بناء پرگرفتار ہو جائیں۔
کراچی میں 18 اکتوبر کو جلسہ ہوا۔ اس جلسہ میں ایک لاکھ سے زائد افراد شریک ہوئے۔ اس جلسہ کے قومی سیاست اور بین الاقوامی سطح پر دور رس نتائج برآمد ہوئے۔ مریم نواز جلسہ والے دن مزار قائد پر گئیں۔
ان کے شوہرکیپٹن ریٹائرڈ محمد صفدر نے مادر ملت کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے جذبات میں آ کر نعرے لگائے اور ساتھ ہی ووٹ کو عزت دوکا نعرہ لگایا۔ مادر ملت فاطمہ جناح کو خراج عقیدت فیلڈ مارشل لاء ایوب خان کی آمریت کے خلاف جدوجہد کرنے پر پیش کیا گیا مگر رات گئے نادیدہ قوتوں کے دباؤ پر مقدمہ درج ہوا اور ہوٹل کے کمرہ کا دروازہ توڑکر چاردیواری کا تقدس پامال کرتے ہوئے کیپٹن صفدرکوگرفتار کرلیا گیا۔
سندھ کی حکومت نے کیپٹن صفدرکی گرفتاری سے لاتعلقی کا اظہار کیا۔ متعلقہ مجسٹریٹ نے کیپٹن صفدر کو ضمانت پر رہا کردیا اور درخواست گزارکے موبائل فون کو ضبط کرنے کا حکم دیا۔
تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے 20سال تک طویل جدوجہد کی۔ انھوں نے بینظیر اور نواز شریف حکومت کو چیلنج کیا۔ جنرل پرویز مشرف کے صدارتی ریفرنڈم کی حمایت کی مگر قومی اورصوبائی اسمبلیوں کے انتخابات میں مسلم لیگ ق کی حمایت سے انکار کیا اور حزب اختلاف میں شامل ہو گئے۔ وکلاء کی تحریک میں مختصر عرصہ کے لیے جیل گئے ۔ آئین کی بالادستی اور شفاف انتخابات کے لیے لاہور سے اسلام آباد مارچ کیا۔
شہباز شریف حکومت کی رکاوٹوں کو عبورکیا اور چھ ماہ تک ڈی چوک میں دھرنا دیا۔ اس دوران ملک بھر میں پہیہ جام ہڑتال کی اپیل کی، یوں مشکل ترین حالات کا مقابلہ کیا۔ اس صورتحال میں بعض کو یہ امید تھی کہ عمران خان وزیر اعظم بننے کے بعد انسانی حقوق کی پاسداری کو یقینی بنائیں گے۔
مخالف جماعتوں کو مکمل آزادی دیں گے اور، جلسوں، جلوسوں اور دھرنے کے دوران ان کو اور تحریک انصاف کے کارکنوں کو جو مشکلات ہوئیں ان کو ہمیشہ کے لیے دورکر دیں گے مگر ان عقل مندوں کو اور زیادہ امید اس بناء پر تھی کہ عمران خان نے زندگی کا بڑا حصہ برطانیہ میں گزارا ہے جہاں انسانی حقوق پر قدغن نہیں لگتیں۔ شہریوں کو بغیرکسی رکاوٹ کے جلسے اور جلوسوں کی آزادی ہے مگر عجیب وقت ہے کہ وزیر اعظم خفیہ ایجنسیوں کی طرف سے سیاست دانوں کے ٹیلی فون ٹیپ کرنے کے حق میں دلائل دے رہے ہیں ۔ وہ شہریوں کی پرائیویسی اور سیاسی رہنماؤں کو بلیک میل کرنے جیسے ہتھکنڈوں کو درست قرار دے رہے ہیں۔
وفاقی وزیر شیخ رشید پیش گوئی کررہے ہیں کہ اب ''ڈنڈا ''چلے گا مگرکیپٹن ریٹائرڈ صفدرکی گرفتاری سندھ پولیس کے احتجاج سے واضح ہورہا ہے کہ ہوا کا رخ تبدیل ہوتا جارہا ہے۔ موجودہ حکمرانوںنے محمد خان جونیجوکی روایت پر عمل کرنے کے بجائے ایوب خان کی حکومت کے نقشِ قدم پر چلنا شروع کیا ہے۔ یہ صورتحال جمہوری نظام کے لیے خطرناک ہے۔