سوچ سمجھ کر فیصلہ کیجیے
بھارت چاہتا ہے کہ ہم بھی اس جیسی غلطی کریں تاکہ مسئلہ کشمیر کو سلامتی کونسل کے ایجنڈے سے ہی باہر کیا جاسکے۔
KARACHI:
گلگت بلتستان پاکستان کا وہ خطہ ہے جسے 1947 میں یہاں کے غیور اور بہادر عوام نے ڈوگرہ راج کے ظلم و ستم کے خلاف علم بغاوت بلند کرکے بعض فوجوں سے مردانہ وار مقابلہ کرکے آزاد کرایا تھا اور پھر قائد اعظم سے اس خطے کو نئی مملکت پاکستان میں شامل کرنے کی درخواست کی تھی اس طرح یہاں کے عوام کی پاکستان سے محبت مثالی ہے۔
اس وقت حکومت پاکستان کے سامنے سب سے اہم مسئلہ یہ درپیش ہے کہ اس خطے کو پاکستان کے دوسرے صوبوں کی طرح ایک آئینی صوبہ بنایا جائے کہ نہیں؟ اس اہم مسئلے نے اس وقت عام بحث و مباحثہ کی صورت اختیارکرلی جب ایک وفاقی وزیر نے پریس کانفرنس منعقد کرکے اس خطے کو پاکستان کا پانچواں صوبہ بنانے کا اظہار کیا۔
دراصل گلگت بلتستان جموں کشمیرکا ایک اہم حصہ ہے، اس طرح یہ ایک عالمی متنازع خطہ ہے اور اس کی قسمت کا فیصلہ بھی مقبوضہ جموں کشمیرکے ساتھ سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق ابھی ہونا باقی ہے البتہ یہ خطہ مقبوضہ جموں کشمیر سے اس طور پر مختلف ہے کہ یہ آزاد ہے اور خوش قسمتی سے پاکستان کے زیر انتظام ہے۔ یہ سیاحوں کے لیے نہایت پرکشش جگہ ہے۔ اس خطے کی اہمیت میں اب مزید چار چاند لگ گئے ہیں کیونکہ یہ سی پیک کا مین گیٹ بن گیا ہے۔ گوادر سے چین جانے والی شاہراہ قراقرم اسی خطے سے گزرتی ہے جو ہمارے دشمن کو ایک آنکھ نہیں بھا رہی ہے۔
بھارت نے جموں کشمیر کے ایک بڑے حصے پر پہلے ہی قبضہ جمایا ہوا ہے مگر اب اسے اس آزاد علاقے کو بھی ہڑپ کرنے کی تڑپ ستانے لگی ہے وہ نہایت ہٹ دھرمی سے اس خطے کو بھی اپنا کہنے لگا ہے اور اس پر قبضہ کرنے کے خواب دیکھنے لگا ہے۔ تاہم اصل مسئلہ یہ کھڑا ہو گیا ہے کہ چین کی دشمنی میں امریکا اور مغربی ممالک بھی سی پیک کے خلاف صف آرا ہو گئے ہیں اور وہ پاکستان کے لیے اس گیم چینجر منصوبے کو بند کرانے کے درپے ہوگئے ہیں، وہ اس سلسلے میں بھارت کے ساتھ مل کر پاکستان مخالف سرگرمیوں میں مصروف ہیں۔
بلوچستان میں جو بھی دہشت گردانہ کارروائیاں ہو رہی ہیں ان میں بھارت کے ساتھ ان کا بھی ہاتھ ہے۔ البتہ بھارت نے یہاں دہشت گردی کا نیٹ ورک قائم کردیا ہے۔ وہ یہاں جاری ترقیاتی کاموں کو روکنے کی بھرپور کوشش کر رہا ہے۔ مغربی ممالک کو پہلے گلگت بلتستان اورگوادر سے کوئی دلچسپی نہیں تھی لیکن جب سے پاکستان نے چین کو راستے کی سہولت دینے کے لیے سی پیک کا منصوبہ شروع کیا ہے وہ بھارت کے ساتھ مل کر ایک طرف گوادرکے ترقیاتی کاموں میں رکاوٹ ڈال رہے ہیں تو دوسری طرف گلگت بلتستان کے علاقے کو پاکستان سے کاٹ کر بھارت کے حوالے کرنے کے لیے سرگرم ہوگئے ہیں۔
گزشتہ دنوں مودی نے بہ بانگ دہل گلگت بلتستان پر حملہ کرکے اس پر قبضہ کرنے کا اعلان کردیا تھا حالانکہ یہ سراسر جارحانہ بیان تھا جس کا اقوام متحدہ کو نوٹس لینا چاہیے تھا مگر مودی نے صرف دھمکی پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ اس سے آگے بڑھ کر اس نے اس خطے پر حملہ کرنے کی تیاریاں مکمل کرلی تھیں دراصل مودی کی اس جارحانہ روش کو ٹرمپ کی مکمل سپورٹ حاصل تھی مگر مودی گلگت بلتستان پر حملہ کیا کرتا اس کے اپنے قابض علاقے لداخ میں چین نے بروقت کئی میل اندر پیش قدمی کرکے اس کے ہوش اڑا دیے۔ اس طرح چین نے مودی کے اس خطے پر قبضہ کرنے کے خواب کو چکنا چور کرکے رکھ دیا۔
غیر مصدقہ طور پر سننے میں آیا ہے کہ چین اس وقت تک لداخ کے وسیع علاقے پر قبضہ کرچکا ہے اور اس کے درجنوں فوجیوں کو ہلاک کرچکا ہے۔ چین کو دراصل بھارت کے خلاف یہ اقدام متنازعہ جموں کشمیر اور لداخ کو بھارت کا مستقل حصہ بنانے اور چین کے علاقے اکسائی کو بھی اپنا علاقہ قرار دینے پر اٹھانا پڑا ہے۔ مودی نے گزشتہ سال پانچ اگست کو مقبوضہ جموں کشمیر سے متعلق بھارتی آئین کی دفعہ 370 کو ہٹا کر بھارت کا آئینی حصہ بنانے کی ناکام کوشش کی ہے اس وقت سے مقبوضہ وادی ایک بڑے جیل خانے میں تبدیل ہوگئی ہے وہاں کے عوام کو تمام بنیادی حقوق سے محروم کردیا گیا ہے۔
مودی نے امریکا کی شے پر گلگت بلتستان کے موجودہ اسٹیٹس کو بھی چیلنج کردیا ہے جس سے حکومت پاکستان عجیب کشمکش میں مبتلا ہوگئی ہے کہ کیا گلگت بلتستان کو پاکستان کا پانچواں صوبہ بنا دیا جائے۔ اس خطے کو صوبہ بنانے کے لیے چین کا بھی حوالہ دیا جا رہا ہے کہ اس کی جانب سے بھی اسے صوبہ بنانے کے لیے پہلے سے زور دیا جا رہا ہے مگر اکثر تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ چین کبھی ایسا دباؤ نہیں ڈال سکتا۔ وہ گلگت بلتستان کے موجودہ اسٹیٹس سے بالکل مطمئن ہے کیونکہ یہ پاکستان کے زیر انتظام ہے اور یہ عمل کسی طرح بھی سلامتی کونسل کی قراردادوں کی خلاف ورزی کے دائرے میں نہیں آتا۔ ستر برس سے یہ سیٹ اپ چل رہا ہے اور کسی بھی ملک نے اس پر نکتہ چینی نہیں کی ہے۔
بھارت البتہ مقبوضہ جموں کشمیر کو اپنا مستقل حصہ بنا کر سلامتی کونسل کی قراردادوں کا کھلم کھلا مذاق اڑا رہا ہے، مگر اس طرح اس نے خود کو توسیع پسند اور سلامتی کونسل کی قراردادوں کا منحرف ملک ثابت کردیا ہے، اگر پاکستان بھی بھارت کے نقش قدم پر چلتا ہے تو پھر وہ کس منہ سے کشمیریوں کی آزادی کی بات کرسکے گا۔
ماہرین قانون کا کہنا ہے کہ یہ ایک بہت نازک مسئلہ ہے حکومت پاکستان کو بہت سوچ سمجھ کرکوئی قدم اٹھانا چاہیے بھارت چاہتا ہے کہ ہم بھی اس جیسی غلطی کریں تاکہ مسئلہ کشمیر کو سلامتی کونسل کے ایجنڈے سے ہی باہر کیا جاسکے تاہم گلگت بلتستان کے عوام کو بھی دیگر کشمیریوں کی طرح صبر و تحمل سے کام لینا چاہیے انھیں مقبوضہ وادی کے اپنے بھائیوں سے اظہار یکجہتی کرتے ہوئے صبر و تحمل کے دامن کو نہیں چھوڑنا چاہیے۔ کشمیر ضرور آزاد ہوگا البتہ اس میں دیر لگ سکتی ہے۔
اب چین کے لداخ پر حملے کے بعد کشمیریوں کی آزادی زیادہ دور نظر نہیں آ رہی ہے کیونکہ لداخ پر کامیاب حملے کے بعد اب مقبوضہ وادی اس کی پہنچ سے زیادہ دور نہیں رہی ہے۔ جہاں تک وہاں کے عوام کے حقوق کا سوال ہے یہ خطہ 72 سال گزرنے کے بعد بھی وہ ترقی نہ کرسکا جو اسے کرنا چاہیے تھی اور یہاں کے عوام وہ سہولیات حاصل نہ کرسکے جو ان کا حق ہے۔ ایک عرصے تک یہ کسی انتخابی عمل سے بھی محروم رہا ہے۔ یہاں کے لوگوں کی بے چینی کا احساس کرتے ہوئے چند سال قبل حکومت پاکستان نے یہاں ایک عارضی صوبائی سیٹ اپ قائم کردیا تھا تاکہ یہاں کے نمایندے اپنے عوام کی خدمت کرسکیں اور اپنے علاقے کو ترقی دے سکیں۔
پیپلز پارٹی کے دور میں یہاں 12 نومبر 2009 کو پہلے انتخابات منعقد ہوئے تھے اب 15 نومبر کو تیسرے عام انتخابات ہونے والے ہیں ملک کی کئی سیاسی پارٹیاں ان میں حصہ لے رہی ہیں۔ اس الیکشن نے اس وقت انتہائی دلچسپ صورت حال اختیار کرلی جب پاکستان کی ایک نئی سیاسی پارٹی نے پہلی دفعہ یہاں الیکشن میں حصہ لیتے ہوئے یہاں کے 20 انتخابی حلقوں میں اپنے امیدوار کھڑے کرنے کا اعلان کردیا۔ یہ پاک سرزمین پارٹی ہے۔ اس پارٹی کے یہاں کے انتخابات میں حصہ لینے سے یہاں کے عوام میں زبردست جوش و خروش دیکھا جا رہا ہے اس کے صدر انیس قائم خانی ایک بڑے وفد کے ساتھ یہاں کا دورہ کرچکے ہیں یہاں کے عوام نے ان کا والہانہ استقبال کیا تھا اس سے اس پارٹی کا یہاں مستقبل روشن نظر آتا ہے۔
گلگت بلتستان پاکستان کا وہ خطہ ہے جسے 1947 میں یہاں کے غیور اور بہادر عوام نے ڈوگرہ راج کے ظلم و ستم کے خلاف علم بغاوت بلند کرکے بعض فوجوں سے مردانہ وار مقابلہ کرکے آزاد کرایا تھا اور پھر قائد اعظم سے اس خطے کو نئی مملکت پاکستان میں شامل کرنے کی درخواست کی تھی اس طرح یہاں کے عوام کی پاکستان سے محبت مثالی ہے۔
اس وقت حکومت پاکستان کے سامنے سب سے اہم مسئلہ یہ درپیش ہے کہ اس خطے کو پاکستان کے دوسرے صوبوں کی طرح ایک آئینی صوبہ بنایا جائے کہ نہیں؟ اس اہم مسئلے نے اس وقت عام بحث و مباحثہ کی صورت اختیارکرلی جب ایک وفاقی وزیر نے پریس کانفرنس منعقد کرکے اس خطے کو پاکستان کا پانچواں صوبہ بنانے کا اظہار کیا۔
دراصل گلگت بلتستان جموں کشمیرکا ایک اہم حصہ ہے، اس طرح یہ ایک عالمی متنازع خطہ ہے اور اس کی قسمت کا فیصلہ بھی مقبوضہ جموں کشمیرکے ساتھ سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق ابھی ہونا باقی ہے البتہ یہ خطہ مقبوضہ جموں کشمیر سے اس طور پر مختلف ہے کہ یہ آزاد ہے اور خوش قسمتی سے پاکستان کے زیر انتظام ہے۔ یہ سیاحوں کے لیے نہایت پرکشش جگہ ہے۔ اس خطے کی اہمیت میں اب مزید چار چاند لگ گئے ہیں کیونکہ یہ سی پیک کا مین گیٹ بن گیا ہے۔ گوادر سے چین جانے والی شاہراہ قراقرم اسی خطے سے گزرتی ہے جو ہمارے دشمن کو ایک آنکھ نہیں بھا رہی ہے۔
بھارت نے جموں کشمیر کے ایک بڑے حصے پر پہلے ہی قبضہ جمایا ہوا ہے مگر اب اسے اس آزاد علاقے کو بھی ہڑپ کرنے کی تڑپ ستانے لگی ہے وہ نہایت ہٹ دھرمی سے اس خطے کو بھی اپنا کہنے لگا ہے اور اس پر قبضہ کرنے کے خواب دیکھنے لگا ہے۔ تاہم اصل مسئلہ یہ کھڑا ہو گیا ہے کہ چین کی دشمنی میں امریکا اور مغربی ممالک بھی سی پیک کے خلاف صف آرا ہو گئے ہیں اور وہ پاکستان کے لیے اس گیم چینجر منصوبے کو بند کرانے کے درپے ہوگئے ہیں، وہ اس سلسلے میں بھارت کے ساتھ مل کر پاکستان مخالف سرگرمیوں میں مصروف ہیں۔
بلوچستان میں جو بھی دہشت گردانہ کارروائیاں ہو رہی ہیں ان میں بھارت کے ساتھ ان کا بھی ہاتھ ہے۔ البتہ بھارت نے یہاں دہشت گردی کا نیٹ ورک قائم کردیا ہے۔ وہ یہاں جاری ترقیاتی کاموں کو روکنے کی بھرپور کوشش کر رہا ہے۔ مغربی ممالک کو پہلے گلگت بلتستان اورگوادر سے کوئی دلچسپی نہیں تھی لیکن جب سے پاکستان نے چین کو راستے کی سہولت دینے کے لیے سی پیک کا منصوبہ شروع کیا ہے وہ بھارت کے ساتھ مل کر ایک طرف گوادرکے ترقیاتی کاموں میں رکاوٹ ڈال رہے ہیں تو دوسری طرف گلگت بلتستان کے علاقے کو پاکستان سے کاٹ کر بھارت کے حوالے کرنے کے لیے سرگرم ہوگئے ہیں۔
گزشتہ دنوں مودی نے بہ بانگ دہل گلگت بلتستان پر حملہ کرکے اس پر قبضہ کرنے کا اعلان کردیا تھا حالانکہ یہ سراسر جارحانہ بیان تھا جس کا اقوام متحدہ کو نوٹس لینا چاہیے تھا مگر مودی نے صرف دھمکی پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ اس سے آگے بڑھ کر اس نے اس خطے پر حملہ کرنے کی تیاریاں مکمل کرلی تھیں دراصل مودی کی اس جارحانہ روش کو ٹرمپ کی مکمل سپورٹ حاصل تھی مگر مودی گلگت بلتستان پر حملہ کیا کرتا اس کے اپنے قابض علاقے لداخ میں چین نے بروقت کئی میل اندر پیش قدمی کرکے اس کے ہوش اڑا دیے۔ اس طرح چین نے مودی کے اس خطے پر قبضہ کرنے کے خواب کو چکنا چور کرکے رکھ دیا۔
غیر مصدقہ طور پر سننے میں آیا ہے کہ چین اس وقت تک لداخ کے وسیع علاقے پر قبضہ کرچکا ہے اور اس کے درجنوں فوجیوں کو ہلاک کرچکا ہے۔ چین کو دراصل بھارت کے خلاف یہ اقدام متنازعہ جموں کشمیر اور لداخ کو بھارت کا مستقل حصہ بنانے اور چین کے علاقے اکسائی کو بھی اپنا علاقہ قرار دینے پر اٹھانا پڑا ہے۔ مودی نے گزشتہ سال پانچ اگست کو مقبوضہ جموں کشمیر سے متعلق بھارتی آئین کی دفعہ 370 کو ہٹا کر بھارت کا آئینی حصہ بنانے کی ناکام کوشش کی ہے اس وقت سے مقبوضہ وادی ایک بڑے جیل خانے میں تبدیل ہوگئی ہے وہاں کے عوام کو تمام بنیادی حقوق سے محروم کردیا گیا ہے۔
مودی نے امریکا کی شے پر گلگت بلتستان کے موجودہ اسٹیٹس کو بھی چیلنج کردیا ہے جس سے حکومت پاکستان عجیب کشمکش میں مبتلا ہوگئی ہے کہ کیا گلگت بلتستان کو پاکستان کا پانچواں صوبہ بنا دیا جائے۔ اس خطے کو صوبہ بنانے کے لیے چین کا بھی حوالہ دیا جا رہا ہے کہ اس کی جانب سے بھی اسے صوبہ بنانے کے لیے پہلے سے زور دیا جا رہا ہے مگر اکثر تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ چین کبھی ایسا دباؤ نہیں ڈال سکتا۔ وہ گلگت بلتستان کے موجودہ اسٹیٹس سے بالکل مطمئن ہے کیونکہ یہ پاکستان کے زیر انتظام ہے اور یہ عمل کسی طرح بھی سلامتی کونسل کی قراردادوں کی خلاف ورزی کے دائرے میں نہیں آتا۔ ستر برس سے یہ سیٹ اپ چل رہا ہے اور کسی بھی ملک نے اس پر نکتہ چینی نہیں کی ہے۔
بھارت البتہ مقبوضہ جموں کشمیر کو اپنا مستقل حصہ بنا کر سلامتی کونسل کی قراردادوں کا کھلم کھلا مذاق اڑا رہا ہے، مگر اس طرح اس نے خود کو توسیع پسند اور سلامتی کونسل کی قراردادوں کا منحرف ملک ثابت کردیا ہے، اگر پاکستان بھی بھارت کے نقش قدم پر چلتا ہے تو پھر وہ کس منہ سے کشمیریوں کی آزادی کی بات کرسکے گا۔
ماہرین قانون کا کہنا ہے کہ یہ ایک بہت نازک مسئلہ ہے حکومت پاکستان کو بہت سوچ سمجھ کرکوئی قدم اٹھانا چاہیے بھارت چاہتا ہے کہ ہم بھی اس جیسی غلطی کریں تاکہ مسئلہ کشمیر کو سلامتی کونسل کے ایجنڈے سے ہی باہر کیا جاسکے تاہم گلگت بلتستان کے عوام کو بھی دیگر کشمیریوں کی طرح صبر و تحمل سے کام لینا چاہیے انھیں مقبوضہ وادی کے اپنے بھائیوں سے اظہار یکجہتی کرتے ہوئے صبر و تحمل کے دامن کو نہیں چھوڑنا چاہیے۔ کشمیر ضرور آزاد ہوگا البتہ اس میں دیر لگ سکتی ہے۔
اب چین کے لداخ پر حملے کے بعد کشمیریوں کی آزادی زیادہ دور نظر نہیں آ رہی ہے کیونکہ لداخ پر کامیاب حملے کے بعد اب مقبوضہ وادی اس کی پہنچ سے زیادہ دور نہیں رہی ہے۔ جہاں تک وہاں کے عوام کے حقوق کا سوال ہے یہ خطہ 72 سال گزرنے کے بعد بھی وہ ترقی نہ کرسکا جو اسے کرنا چاہیے تھی اور یہاں کے عوام وہ سہولیات حاصل نہ کرسکے جو ان کا حق ہے۔ ایک عرصے تک یہ کسی انتخابی عمل سے بھی محروم رہا ہے۔ یہاں کے لوگوں کی بے چینی کا احساس کرتے ہوئے چند سال قبل حکومت پاکستان نے یہاں ایک عارضی صوبائی سیٹ اپ قائم کردیا تھا تاکہ یہاں کے نمایندے اپنے عوام کی خدمت کرسکیں اور اپنے علاقے کو ترقی دے سکیں۔
پیپلز پارٹی کے دور میں یہاں 12 نومبر 2009 کو پہلے انتخابات منعقد ہوئے تھے اب 15 نومبر کو تیسرے عام انتخابات ہونے والے ہیں ملک کی کئی سیاسی پارٹیاں ان میں حصہ لے رہی ہیں۔ اس الیکشن نے اس وقت انتہائی دلچسپ صورت حال اختیار کرلی جب پاکستان کی ایک نئی سیاسی پارٹی نے پہلی دفعہ یہاں الیکشن میں حصہ لیتے ہوئے یہاں کے 20 انتخابی حلقوں میں اپنے امیدوار کھڑے کرنے کا اعلان کردیا۔ یہ پاک سرزمین پارٹی ہے۔ اس پارٹی کے یہاں کے انتخابات میں حصہ لینے سے یہاں کے عوام میں زبردست جوش و خروش دیکھا جا رہا ہے اس کے صدر انیس قائم خانی ایک بڑے وفد کے ساتھ یہاں کا دورہ کرچکے ہیں یہاں کے عوام نے ان کا والہانہ استقبال کیا تھا اس سے اس پارٹی کا یہاں مستقبل روشن نظر آتا ہے۔