لاپتہ

ایسی خستہ حالی اور انسانی وسائل پر ہم اپنی معیشت کو آگے نہیں لے جاسکتے۔

Jvqazi@gmail.com

چھ اکتوبر کے بعد، بڑی تیزی سے منظر بدلتے گئے۔ غزالوں کی طرح دوڑتے گئے، یک بہ یک سب کے سب کہ میں نے بھی اپنی انگلیوں میں لوح و قلم ابھی تھامے نہ تھے اور پھر دو بڑے واقعات نے جنم لیا۔

کیسے تولا جائے ان واقعات کو کہ کونسا چھوٹا تھا اور کونسا واقعہ بڑا تھا۔ جب بات ہو ایک ہوٹل کے کمرے کی جس میں ایک دختر اور اس کا خاوند رات بتانے آئے تھے، سندھ کی دھرتی پر۔ ان سندھیوں کے پاس کچھ بھی نہیں بس کچھ روایتیں ہی تو ہیں۔ ایک روایت یہ بھی کہ ان سندھیوں کو مہمان جان سے پیارا ہوتا ہے اور دوسرا عورت کی چادر کی حرمت اور اس کی چار دیواری کا تقدس ،مگر اس رات ان دونوں روایتوں کو روندھا گیا۔ اس داستان کے پیچھے کون تھا؟

یہ سوال سب کے دماغ میں ہے اور جواب نہ پانے کی صورت میں یہ لوگ اپنے جوابات خود ہی پا لیتے ہیں۔ چادر اور چار دیواری کی پامالی خود آئین شکنی ہے، مگر ایک خود مختار آئین میں اکائی کے انسپکٹر جنرل کا مغوی ہونا، پاکستان کی تاریخ میں یہ بھیانک ترین باب ہے جو اب تک کسی نے نہ لکھا تھا۔ نہ جانے کس کے کہنے پر نو گاڑیاں جس میں سو کے لگ بھگ افراد ہوںگے جا کر انسپکٹر جنرل سندھ کے گھر کا گھیرائو کرتے ہیں، رات کو چار بجے ۔ انسپکٹر جنرل جس کا عہدہ بائیسویں گریڈ کے برابر ہے۔ جہاں وہ گئے وہاں پر ایک اور سینئر افسر سندھ پولیس کا پہلے سے مغوی ہے۔

یہ وہ سندھ پولیس ہے جس نے حال ہی میں دو دہشت گرد حملوں کو ناکام بنایا۔ چینی سفارت خانے اور اسٹاک ایکسچینج پر حملہ کیا گیا اور سندھ پولیس نے بڑی بہادری سے دہشت گردوں کا مقابلہ کیا، جب ایسے ہی جوانوں کو مغوی بنا دیا جائے تو پھر آگے چل کر وہ کس طرح دہشت گردوں کو ٹھکانے لگائیں گے۔ کتنے حوصلے پست ہوئے ہوں گے ان کے۔ اور اس پر ہمارے دشمنوں کی جھوٹ ملی خبریں جس پر انھوں نے پروپیگنڈہ کرنا شروع کردیا، مگر اہم سوال یہ ہے کہ یہ بات اس حد تک کس نے جانے دی۔

پوری پی ڈیم ایم تحریک ایک طرف، چادر اور چار دیواری کا سوال بھی ایک طرف مگر آئی جی صاحب والا واقعہ ، ان سب واقعات میں سب سے بڑا ٹھہرا۔ اب جو باتیں ہونٹوں میں دب جاتی ہیں، وہ باتیں عالم آشکار ، گلیوں اور چوراہوں پر کھلم کھلا ہورہی ہیں۔

ناحق ہم مجبوروں پر یہ تہمت ہے مختاری کی

جو چاہیں سو آپ کریں ہیں ہم کو عبث بدنام کیا


خان صاحب ! یہ محاذ جو کھلا ہوا ہے اس کی کوئی اور وجہ نہیں بلکہ آپ کے رویے ، لہجے اور کارکردگی کا ردعمل ہے۔ اس میں اپوزیشن کی اتنی بڑی محنت نہیں جتنی آپ کی بنائی ہوئی پچ کا کمال ہے اور طاقت کا استعمال بھی کچھ حد سے زیادہ ہی کیا گیا اور اب نہ نیب کا ڈر باقی رہا ہے نہ کسی اور کا۔ طاقت کا بے جا استعمال اور اس پر افراط زر کی انتہا۔ کروڑ سے زائد مزید افراد کو بے روزگاری کی نذر کردیا گیا، اتنا کہ غربت کی لکیر کے نیچے چلے گئے۔ تو پھر یہ مقام تو آنا ہی تھا ۔ جہاں ان سارے لوگوں کا ایک ساتھ بیٹھنا ممکن نہ تھا، مگر خان صاحب نے ممکن بنا دیا۔

کچھ عجیب انداز کی ہوتی ہے، ہائبرڈ جمہوریت۔ اس کا نہ سر ہے نا پیر۔ اب موجودہ صورتحال یہ بتا رہی ہے کہ آخرکار آرڈر کس نے دیا اور پھر اس آرڈر کو کیسے عملی جامہ پہنایا گیا یا اس بات کی خبر وزیر اعظم کو تھی ؟ اور اگر نہیں تھی تو یہ بات مزید لمبی اور بھیانک ہے۔ کون کس کو رپورٹ کر رہا ہے اور اصولی طور پر رپورٹ کیا کرنا ہے۔ ہائبرڈ کا ایک حصہ سامنے ہے اور دوسرا حصہ پردے کے پیچھے ۔ بظاہر ذمے دار ایک ہے مگر حقیقی ذمے دار کوئی اور۔ یہ ہیں وہ نیم تاریک راہیں جو روشن بھی نہیں اور تاریک بھی نہیں۔ ایک اماوس سی ہے۔

اب پاکستان ایک دم سے اس موڑ پر آن کھڑا ہوگا کہ ایک ہی لمحے میں معیشت نہ بیٹھ جائے، اس معیشت کو کچھ تو کورونا نے پیچھے دھکیلا اور کچھ خان صاحب کی ٹیم کی غیر فعالی نے ۔ یقینا یہ تمام آثار اس آنے والی تحریک کے ہیں جو جلد ہی آ نے والی ہے۔ مجھے نہیں لگتا یہ بھنور اب حکومت کو بچا پائے گا اور اگر زبردستی سے بھی یہ اس کو کھینچتے گئے تو پھر بات اور بھی پچیدہ ہوجائے گی۔

لہذا ایک عہد ہم سب کو کرنا ہوگا ۔ قرضوں کے بوجھ تلے دبا یہ پاکستان، جو اپنی آزاد خارجہ پالیسی بھی نہیں بنا سکتا۔ ایسے میں ہم سب کو ایک پیج پر آنا ہوگا اور وہ ایک پیج ہے آئین پاکستان۔ یہ اقرار بھی کرنا ہوگا کہ ہم نے اس سے انحراف کیا ہے کبھی سرِ عام تو کبھی پسِ پردہ کچھ اس طرح کہ بظاہر یہ آئین تو ہے مگر اس پر عمل نہیں۔

نہ ملک کی شرح نمو بڑھ رہی ہے نہ ٹیکس سے پیسے مل سکے۔ اس پست معیشت پر ہم اور ٹیکس لگائے جارہے ہیں اور وہ بھی ان ڈائریکٹ ٹیکس جس سے مہنگائی اور اوپر جارہی ہے اور اگر ٹیکس بڑھانے سے بھی کام نہیں چلتا تو پھر ہم نئے قرضوں کی طرف جاتے ہیں۔ ایسے وقت میں جب ہمارے سالانہ قرضوں کا واپسی خرچ آج کے بجٹ سے بڑا حصہ لے جاتا ہے۔

ایسی خستہ حالی اور انسانی وسائل پر ہم اپنی معیشت کو آگے نہیں لے جاسکتے۔ سب کے سب چھٹیوں پر ہوں جیسے نہ اسکول، نہ اسپتال نہ صاف پانی ، یہاں کی اسی فیصد آبادی کو میسر نہیں۔ ہم تو سائوتھ ایشیا میں بھی سب سے پیچھے رہ گئے ۔ یہ ہمارے اندرونی سیاسی تضادات ہم کو لے ڈوبیں گے ۔ انھی تضادوں نے ہم کو اس بدحالی تک پہنچایا ہے۔

ہندوستان، بنگلہ دیش اس طرح کے تضادات کے شکار نہیں۔ وہاں دکھانے کی ایک حکومت اور حقیقت میں دوسری حکومت نہیں، یہ تو آمریت سے بہت مہنگی ہے، ادارے پنپ نہیں سکتے ۔ اب جس طرح ایک ہی جھٹکے میں آپ نے سندھ پولیس کا اعتماد اور وقار ختم کردیا وہ کیسے بحال ہوگا۔ یہ تو انسپکٹر جنرل صاحب نے بتا دیا ورنہ تو ایسے کئی واقعات ہوئے ہوں گے جو منظر عام نہ ہوسکے ۔ پوری قوم اور پو رے ملک کو تو لاپتہ نہیں کیا جاسکتا۔
Load Next Story