سیاسی و معاشی استحکام کیلئے سنجیدہ ڈائیلاگ کرنا ہونگے
ماہرین امور خارجہ، سیاسی تجزیہ نگاروں اور بزنس کمیونٹی کے نمائندوں کا ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں اظہار خیال
اپوزیشن کی گیارہ جماعتوں پر مشتمل ''پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ'' کی حکومت مخالف احتجاجی تحریک کے آغاز سے ملکی سیاست کا درجہ حرارت شدیدگرم ہے۔ اپوزیشن اور حکومت، دونوں کی جانب سے ہی ایک دوسرے پر بیان بازی کا سلسلہ جاری ہے جس سے کشیدگی میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔
دوسری جانب بھارت، افغان امن عمل، دہشت گردی، معیشت، گورننس، مہنگائی سمیت ملک کو بے شمار اندرونی و بیرونی چیلنجز کا سامنا ہے جن سے نمٹنا یقینا آسان نہیں ہے۔ اس ساری صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے ''سیاسی عدم استحکام اور ملک کو درپیش چیلنجز'' کے موضوع پر ''ایکسپریس فورم'' میں ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں ماہرین امور خارجہ، سیاسی تجزیہ نگاروں اور بزنس کمیونٹی کے نمائندوں نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔
ڈاکٹر اعجاز بٹ
(ماہر امور خارجہ و سیاسی تجزیہ نگار )
ہمارے ہاں صدراتی نظام کی نسبت پارلیمانی نظام کو بہتر قرار دیا جاتا ہے مگر تجربہ یہ بتاتا ہے کہ گورننس، حکومتی امور اور عام آدمی کے مسائل کے حوالے سے صدارتی ادوار بہتر رہے ہیں۔ جنرل (ر) ایوب خان اور جنرل (ر) پرویز مشرف کے میں صدراتی نظام گورننس بہتر تھی اور عوام کے مسائل بھی بہتر طریقے سے حل ہورہے تھے۔ بدقسمتی سے ہماری سیاسی جماعتیں محض جمہوریت کا ڈھنڈورا پیٹتی ہیں، ان میں خود جمہوریت نہیں ہے بلکہ سیاسی لیڈران کی سوچ آمرانہ ہے اور سب ہی اقتدار میں آنے کے بعد ایک جیسے ہوجاتے ہیں۔
عمران خان نے کرپشن کے خاتمے کانعرہ لگایا، میگا پراجیکٹس کے بجائے عوا م کی صحت، تعلیم و دیگر بنیادی سہولیات پر خرچ کرنے کی بات کی تھی مگر گزشتہ دوبرسوں میں ایسا کچھ نہیں ہوا۔ لوگوں کے مسائل بلدیاتی اداروں سے جڑے ہیں، صدراتی نظام کے دوران ہمیں مقامی حکومتوں کا بہترین نظام ملا۔ سوال یہ ہے کہ انہیں بلدیاتی انتخابات کروانے سے کس نے روکا؟ اس وقت حالت یہ ہے کہ کوڑا اٹھانے کا نظام بھی مفلوج ہوچکا ہے۔ لوگ اپوزیشن کے سیاسی بیانیے کے ساتھ نہیں ہیں مگر وہ یہ دیکھ رہے ہیں کہ جس لیڈر نے تبدیلی کا نعرہ لگایا، اس نے پورا نہیں کیا، مقامی ادارے نہیں بنے، تعلیم، صحت کے نظام میں اصلاحات نہیں آئی بلکہ معاملات پہلے سے خراب ہوگئے۔ بدقسمتی سے تحریک انصاف بھی سٹیٹس کو کا حصہ بن گئی ہے اور ماضی کی پالیسیاں ہی اب بھی چل رہی ہیں۔
لوگ سمجھتے ہیں کہ اپوزیشن کی تحریک ان کے اپنے مفادات کیلئے ہے مگر وہ اس لیے ان کا ساتھ دے رہے ہیں کہ موجودہ حکومت ڈیلور نہیں کر سکی بلکہ عوامی مسائل میں اضافہ ہوگیا۔ میرے نزدیک اپوزیشن کی کامیابی دراصل حکومت کی ناکامی ہے، اس کرائسس کی ذمہ داری حکومت پر عائد ہوتی ہے کیونکہ اس کے رویے سے ہی اپوزیشن کامیاب ہورہی ہے۔
ملک کو اندورنی و بیرونی سطح پر بڑے چیلنجز کا سامنا ہے جن میں سی پیک منصوبہ، گلگت بلتستان کو صوبہ بنانا، امریکا، بھارت، فیٹف، معاشی عدم استحکام و دیگر شامل ہیں مگر عمران خان اپنے رویے میں تبدیلی نہیں لارہے، سوال یہ ہے کہ اپوزیشن کو دیوار سے لگا کر کس طرح مسائل حل کرسکتے ہیں؟ یہ پارلیمانی روایات کے خلاف ہے۔ عوام اور حکومت کے اتحادیوں میں مایوسی بڑھ رہی ہے، لوگ ماضی کے حکمرانوں کو بہتر سمجھ رہے ہیں اور حکومتی اتحادی بھی اپوزیشن کے ساتھ جا رہے ہیں، اداروں کو بھی متنازعہ بنایا جارہا ہے لہٰذا اگر حکومت نے اپنا رویہ نہ بدلا تو معاملات ہاتھ سے نکل جائیں گے۔
عمران خان کے بیانیے میں جان ختم ہوگئی ہے، وہ اپنے وعدے پورے کرکے اس میں جان ڈالیں اور لوگوں کے مسائل حل کریں ۔ عمران خان اپنی ٹیم کی اوورہالنگ کریں اور ایسے لوگ شامل کریں جو سنجیدہ و ذمہ دار ہوں اور بہتر پرفارم کرسکیں۔ پنجاب کی صوبائی قیادت میں نہ ویژن ہے اور نہ ہی صلاحیت، عمران خان چاہیں تو تبدیلی آسکتی ہے۔ عمران خان نے لوگوں کو مایوس کیا ہے، انہیں ''سٹیٹس کو'' کا حصہ بننے کے بجائے عوامی امنگوں کی ترجمانی کرنی چاہیے اور وہ تمام وعدے پورے کرنے چاہئیں جو انہوں نے اپنے سیاسی کیریئر میں کیے۔ عوام حقیقی معنوں میں تبدیلی دیکھنا چاہتے ہیں لیکن اگر حکومت نے ڈیلور نہ کیا تو اپوزیشن کو مزید فائدہ ہوگا۔
ڈاکٹر ارم خالد
( چیئرپرسن شعبہ سیاسیات جامعہ پنجاب)
لوگوں کی اکثریت کا اعتماد حکومت اور اس کی کارکردگی پر ہو تو ملک میں سیاسی استحکام ہوتا ہے مگر جب حکومتی کارکردگی پر سوال اٹھے اور لوگ مختلف مسائل کے حل کیلئے حکومتی رسپانس سے مطمئن نہ ہوں تو سیاسی عدم استحکام ہوتا ہے۔ پاکستان کی موجودہ صورتحال کی بات کریں تو اس وقت حکومتی رویہ اور کارکردگی دو بڑے مسائل ہیں جن کی وجہ سے لوگوں کا حکومت پر عدم اطمینان اور عدم اعتماد بڑھ رہا ہے۔
جب کوئی جماعت برسر اقتدار آتی ہے اور شخصیات عہدوں پر آتی ہیں تو ان کا کردار بدل جاتا ہے ، جو جتنے بڑے عہدے پر ہوتا ہے اس سے اتنے ہی زیادہ ذمہ دارانہ رویے کی توقع کی جاتی ہے مگر اب اگر بیان بازی اور حالات کا جائزہ لیا جائے تو افسوس ہوتا ہے کہ کسی بھی فورم سے ذمہ داری کا مظاہرہ نہیں کیا جارہا بلکہ حکومت اور اپوزیشن دونوں اطراف سے ہونے والی بیان بازی سے حالات کشیدہ ہورہے ہیں۔ یہ رویہ جتنا غیر مناسب ہوتا جائے گا، جتنی تلخی بڑھے گی، اتنی ہی بے چینی لوگوں میں بڑھے گی اور اس کا ردعمل آنا شروع ہوجائے گا۔
ہم ملک میں انتہاپسندی اور عدم برداشت پر گزشتہ کئی برسوں سے بات کر رہے ہیں، موجودہ صورتحال اس میں مزید اضافے کا باعث بن سکتی ہے۔ اس وقت سب سے بڑا چیلنج حکومتی کارکردگی ہے۔ لوگوں نے ماضی کے حالات کے پیش نظر موجودہ حکومت کو منتخب کیا اور ان کی توقع تھی کہ موجودہ قیادت ان کے مسائل حل کر دے گی لہٰذا یہاں سوال یہ ہے کہ کیا دو برسوں میں حکومت کی کارکردگی ماضی کی حکومت سے بہتر رہی؟ کیا لوگوں کی صورتحال بہتر ہوئی؟ کیا لوگوں کی روزمرہ کے حالات بہتر ہوئے ؟ لوگوں کا مسئلہ فیٹف اور بیرونی چیلنجز نہیں بلکہ ان کی ضروریات زندگی کا پورا نہ ہونا ہے۔ اگر لوگوں کو ان کی زندگی گزارنے میں مشکل ہو، حالات مزید سخت ہورہے ہو تو پھر حکومتی کارکردگی پر سوال اٹھتا ہے۔ کہا جارہا ہے کہ بجٹ نہیں ہے اس لیے سڑکیں و دیگر ترقیاتی کام نہیں ہورہے۔
سوال یہ ہے کہ لوگوں سے رابطہ رکھنا اور انہیں یہ اطمینان دلوانا کہ ان کے نمائندے مسائل کے حل کیلئے موجود ہیں، حکومت کی کارکردگی میں شامل نہیں؟افسوس ہے کہ حکومت کا تو عام آدمی سے کوئی رابطہ نہیں ہے، عوام کے منتخب نمائندے اپنے حلقے میں نظر نہیں آتے لہٰذا جس حکومت میں عوامی رابطے کا اتنا بڑا خلاء ہو، اس کی کارکردگی پر سوالات اٹھتے ہیں۔ کسی بھی حکومت کو جانچنے کیلئے اس کا رویہ اور کارکردگی پیمانہ ہوتے ہیں، اس پیمانے پر موجودہ حکومت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
علاقائی صورتحال کا جائزہ لیں تو بھارت اس وقت کورونا کرائسس کا بری طرح شکار ہے، اگر ہماری حکومت بھارت کے لوگوں کیلئے انسانی ہمدردی کا پیغام دیتی تو اس سے پاکستان کے قد میں اضافہ ہوتا۔ اب بھی حکومت کو اس طرف سوچنا چاہیے تاکہ ہمسایہ ملک میں رہنے والے لوگوں کے ساتھ سیاسی کمیونی کیشن ہوسکے۔ افغان امن عمل چل رہا ہے، یہ ہمارے لیے کتنا بہتر ہوسکتا ہے اور کون سے چیلنجز درپیش ہوسکتے ہیں، ان پر بھی مسلسل نظر رکھنے اور کام کرنے کی ضرورت ہے۔
امریکا کے انتخابات ہونے جارہے ہیں، وہاں حکومت کی تبدیلی اور اہم شخصیات کے حوالے سے بھی ہمیں مکمل نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں چیلنجز سے بچنے کیلئے مستقبل کی صورتحال کو دیکھتے ہوئے پیشگی اقدامات کرنا ہوں گے۔ مشرق وسطیٰ سے ہمارے جن لوگوں کا روزگار وابستہ ہے، وہ ان ممالک کی بدلتی ہوئی صورتحال میں بے چین ہیں، وزارت خارجہ کو ان مسائل کو بھی دیکھنا ہوگا۔اپوزیشن کی حالیہ احتجاجی تحریک کی بات کریں تو اپوزیشن جماعتیں اپنی ترجیحات کے مطابق سیاسی چال چلتی ہیں۔
وہ جماعتیں جو ایک عرصے سے حکومت میں ہوں، انہیں حکومت سے باہر رہنا برداشت نہیں ہوتا اور اس کے مطابق ہی ان کا ردعمل آتا ہے۔ سندھ میں پیپلزپارٹی کی حکومت ہے یہی وجہ ہے کہ اس کا رویہ دیگر جماعتوں سے مختلف ہے۔ اپوزیشن کے رویے اور سخت تنقید کو برداشت کرنا اور بڑے پن کا مظاہرہ کرنا حکومت کا کام ہے مگر اس وقت حکومت اور اپوزیشن کے رویے میں کوئی فرق نظر نہیں آرہا، حکومت کو ذمہ دارانہ اور سنجیدہ رویہ اپنانا ہوگا۔
ڈاکٹر محمد ارشد
( ریجنل چیئرمین ایف پی سی سی آئی)
مارشل لاء ہو یا سول حکومت، بدقسمتی سے جب بھی پاکستان کی معیشت مستحکم ہونے لگتی ہے تو نامعلوم ہاتھ حرکت میں آجاتے ہیں ، سب کچھ بدل جاتا ہے اور معاشی ترقی کا سفر واپس ہوجاتا ہے۔جنرل(ر) ایوب خان کے دور میں معاشی ترقی ہورہی تھی، اس وقت جب جرمنی نے جب سکلڈ لیبر مانگی تو پاکستان نے انکار کر دیا۔ جنرل(ر) پرویز مشرف دور حکومت میں ایک سے ڈیڑھ لاکھ کمانے والے افراد میں سالانہ ایک کڑور لوگوں کا اضافہ ہورہا تھا۔ ان کے دور میں جب معاشی ترقی ایک حد سے آگے گئی تو معاملات بدل گئے۔
اسی طرح مسلم لیگ (ن) کے سابق دور کے انڈیکیٹرز اور دنیا کی معتبر ریٹنگ ایجنسیاں یہ بتا رہی تھی کہ ملکی معیشت تیزی سے ترقی کر رہی ہے مگر پھر ہمیشہ کی طرح سب کچھ بدل گیا اور معاشی ترقی رک گئی اور اب گروتھ منفی میں چلی گئی ہے۔ موجودہ حالات ہمارے رویوں کا خمیازہ ہیں، چور چور کے نعرے سے دنیا میں ہماری ساکھ متاثر ہوئی اور آج سب ہمیں شک کی نگاہ سے دیکھ رہے ہیں۔ ہمیں اپنے رویے تبدیل کرنا ہوں گے اور یہ طے کرنا ہوگا کہ سیاسی تنقید انتخابی میدان میں ہوگی، اقتدار میںآنے کے بعد حکومت سب کی ہوگی اور ملکی ترقی کیلئے مل کر کام کیا جائے گا۔
بیوروکریسی اور افسران فائلوں پر دستخط کرنے سے ڈرتے ہیں، انہیں ڈر ہے کہ کل کو ان کی ساکھ متاثر ہوسکتی ہے۔ ہاتھی کی لڑائی میں گھاس پس رہی ہے، طاقت کی اس لڑائی میں اگر معیشت پر توجہ نہ دی گئی تو ناقابل تلافی نقصان ہوگا۔غیر یقینی کی صورتحال میں اضافہ اور معاشی عدم استحکام زہر قاتل ہے، حکومت کو چاہیے کہ بھوک کم کرے، غربت کا خاتمہ کرے، لوگوں کو ملازمتیں دے، روزگار دے، مقامی معیشت کا پہیہ چلائے اور برآمدات میں اضافہ کرے، اگر اس حوالے سے جامع حکمت عملی بنا کر کام نہ کیا گیا تو مسائل سنگین ہوجائیں گے۔ ایف پی سی سی آئی کا عہدہ سنبھالنے کے بعد ہم نے وزیراعظم سے ملاقات کی اور انہیں کہا کہ جب تک تین کام نہیں ہوں گے، معاشی ترقی کے لیے کسی اور اقدام کا فائدہ نہیں ہوگا۔ ان میں توانائی کے اخراجات ، مارک اپ کی شرح اور ایکسچینج ریٹ کا کنٹرول شامل ہیں۔
مارک اپ کی زیادہ شرح کی وجہ سے ہمارے ریٹ عالمی مارکیٹ کے مطابق نہیں ہے، چین میں 0 سے 4 فیصد مارک اپ ہے اور وہاں سبسڈی بھی ملتی ہے۔ ہمیں کامیاب اور ترقی یافتہ ممالک سے سیکھنا ہوگا۔ معاشرے میں عدم برداشت بڑھ رہی ہے، اس کی وجہ بھوک، افلاس، غربت ہے، معاشی ترقی سے اس کا خاتمہ ممکن ہے۔ روپے کی قدر میں کمی کی گئی مگر برآمدات میں اضافہ نہیں ہوا۔ اس کے برعکس ماضی کی حکومت نے ڈالر کی قیمت میں اتار چڑھاؤکو 5 سے 7 روپے کے درمیان ہی رکھا مگر موجودہ دور میں ڈالر کسی کی پکڑ میں نہیں ہے۔
کہا جارہا ہے کہ جنوری میں ڈالر کی قیمت 165 جبکہ جون میں 170 کو عبور کرے گی۔ اتنے بڑے فرق میں کوئی بزنس نہیں ہوسکتا اور نہ ہی کوئی پالیسی بنائی جاسکتی ہے۔ ماضی کی حکومت کی معاشی پالیسیاں اچھے نتائج دے رہی تھی، پاکستان، ترکی کے متوازی چلنا شروع ہوگیا تھا اور عالمی ریٹنگ ایجنسیاں یہ پشین گوئی کر رہی تھی کہ 2020ء میں پاکستان کا بجٹ ڈبل ڈیجٹ ہوگا۔ میرے نزدیک اگر موجودہ حکومت سیاسی اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ملکی مفاد میں ان پالیسیوں کو اپنا لے تو معیشت مستحکم ہوسکتی ہے۔
سلمان عابد
(سیاسی تجزیہ نگار )
سیاسی طور پر ایک دوسرے کو تسلیم نہ کرنے کی روایت پرانی ہے۔ اپوزیشن جماعتیں حکومت کے مینڈیٹ کو پہلے دن ہی جعلی قرار دے دیتی ہیں اور اس طرح حکومت کو قبول نہ کرنے کی روش کو برقرار رکھا جاتا ہے۔ اگر حکومت اور اپوزیشن کا پہیہ تدبر سے چلے تو اچھے نتائج ملتے ہیں مگر بدقسمتی سے ہمیں نہ حکومت اچھی ملی اور نہ ہی اپوزیشن ۔ دونوں کے معاملات انفرادی اور ذاتی مفادات سے جڑے ہیں جس سے یہاں قومی سیاست فروغ نہیں پاسکی۔ اپوزیشن یہ سمجھتی ہے کہ عمران خان احتساب کے نام پر اسے دیوار سے لگا رہے ہیں، نیب کو اس کیلئے استعمال کیا جارہا ہے اور انہیں سیاسی میدان نہیں دیا جارہا۔ اس کے علاوہ قانون سازی کے دوران بھی اپوزیشن کے 20 سے 25 اراکین پارلیمنٹ آگے پیچھے ہوجاتے ہیں اور اپوزیشن یہ سمجھتی ہے کہ ہمارے مینڈیٹ کو کمزور کیا جاتا ہے۔
مارچ میں سینیٹ انتخابات آرہے ہیں جس میں تحریک انصاف کی اکثریت ہوگی اور وہ مزید سخت قانون سازی کرے گی۔ اس کو دیکھتے ہوئے اپوزیشن جماعتیں مارچ سے پہلے حکومت کو غیر مستحکم کرنے کی کوشش کررہی ہیں اور اپوزیشن کا بیانیہ اس کے لیے ایک ہتھیار ہے۔
ایک برس سے نواز شریف اپنے معاملات ٹھیک کرنے کی کوشش کر رہے تھے مگر جب کچھ حاصل نہ ہوا تو پھر پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کا آغاز کیا گیا۔ اس میں نواز شریف، مولانا فضل الرحمن ، مریم نواز کا انداز جارحانہ ہے جبکہ پیپلز پارٹی اس طرح کاسخت رویہ نہیں اپنا رہی کیونکہ سندھ میں اس کی حکومت ہے۔ ایک اور اہم بات یہ ہے کہ پی ڈی ایم عوامی طاقت سے حکومت بدلنا نہیں چاہتی بلکہ اسٹیبلشمنٹ سے مطالبہ کر رہی ہے کہ وہ کوئی راستہ نکالے۔ یہ تو خود اسٹیبلشمنٹ کو دعوت دے رہے ہیں۔
عمران خان ہمیشہ سے ہی جارحانہ انداز میں کھیلنے کے عادی ہیں مگرحکومتی لعن طعن، الزام تراشی اور بیان بازی سے مسائل بڑھ رہے ہیں، اب اداروں پر بھی تنقید شروع ہوگئی ہے اور انہیں بلاوجہ ان معاملات میں ملوث کرنے کی کوشش کی جارہی ہے جو کسی بھی طور ملکی مفاد میں نہیں، اس سے غیر ملکی طاقتیں فائدہ اٹھاسکتی ہیں لہٰذا حکومت اور اپوزیشن دونوں کو ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ معاشی استحکام کیلئے سیاسی استحکام ضروری ہے جو اپوزیشن کے ایجنڈے میں نہیں ہے بلکہ مہنگائی اور معاشی بدحالی اپوزیشن کے مفاد میں ہے ۔حکومت کو تمام مسائل کے حل کیلئے جامع حکمت عملی بنانا ہوگی۔ عمران خان کہتے ہیں کہ وہ ان کے ساتھ بیٹھنے کیلئے تیار نہیں۔ وہ تو اپنے اتحادی سردار اختر مینگل سے ملنے کیلئے تیار نہیں ہوتے تھے اور اپنے نمائندے بھیجتے تھے۔
مولانا فضل الرحمن اور مریم نواز حکومت کے وجود کو تسلیم کرنے کیلئے تیار نہیں ہیں۔ صرف پیپلز پارٹی نے ایک تجویز دی تھی کہ ہم حکومت کے ساتھ ملکر کام کرنا چاہتے ہیں جسے عمران خان نے تسلیم نہیں کیا۔ آج حالات جس نہج پر ہیں کیا اس میں حکومت اور اپوزیشن اکٹھے بیٹھ سکتے ہیں؟ حالات کی سنگینی کو سمجھتے ہوئے طاقت کے مراکز کے درمیان سنجیدہ ڈائیلاگ کی ضرورت ہے۔ فوج، عدلیہ، سول ملٹری بیورو کریسی، اپوزیشن، حکومت اور سابق سفارتکار و تھنک ٹینکس بیٹھیں اور بنیادی ڈھانچہ بنائیں کہ گورننس کو بہتر کیسے کرنا ہے، فوج کا کردار کیا ہوگا، معیشت کیسے بہتر ہوگی، علاقائی تناظر میں حکومت اور اپوزیشن کے بیانیے میں ربط کیسے پیدا ہوگا اور نظام صدارتی ہوگا یا پارلیمانی ۔ صدر مملکت اس ڈائیلاگ کا آغاز کریں اور اس میں وزیراعظم انہیں مکمل سپورٹ دیں۔
انہیں سمجھنا چاہیے کہ معیشت، علاقائی سیاست، اندرونی سیاست اور خارجہ پالیسی کے حوالے سے اتفاق رائے درکار ہے۔ فیٹف میں بھارت ہمیں بلیک لسٹ کروانا چاہتا ہے، اگر فیٹف نے مزید قانون سازی کا کہہ دیا تو موجودہ حالات میں اپوزیشن کو کس طرح اعتماد میں لیں گے۔ پاکستان کا مرض کینسر ہے مگر علاج سردرد کی گولی سے کیا جارہا ہے، موجودہ حالات سے نمٹنے کیلئے غیر معمولی اقدامات کرنا ہوںگے۔ موجودہ سیاسی کشیدگی کا فائدہ ریاست، حکومت، اپوزیشن سمیت کسی کو نہیں ہے لہٰذا جتنی جلدی ممکن ہو اس صورتحال سے باہر نکلا جائے۔ ہمیں میثاق معیشت، میثاق سیاست اور میثاق گورننس کرنا ہوگا لیکن اگر حالات ایسے ہی رہے تو ملک آگے نہیں بڑھ سکتا۔
دوسری جانب بھارت، افغان امن عمل، دہشت گردی، معیشت، گورننس، مہنگائی سمیت ملک کو بے شمار اندرونی و بیرونی چیلنجز کا سامنا ہے جن سے نمٹنا یقینا آسان نہیں ہے۔ اس ساری صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے ''سیاسی عدم استحکام اور ملک کو درپیش چیلنجز'' کے موضوع پر ''ایکسپریس فورم'' میں ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں ماہرین امور خارجہ، سیاسی تجزیہ نگاروں اور بزنس کمیونٹی کے نمائندوں نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔
ڈاکٹر اعجاز بٹ
(ماہر امور خارجہ و سیاسی تجزیہ نگار )
ہمارے ہاں صدراتی نظام کی نسبت پارلیمانی نظام کو بہتر قرار دیا جاتا ہے مگر تجربہ یہ بتاتا ہے کہ گورننس، حکومتی امور اور عام آدمی کے مسائل کے حوالے سے صدارتی ادوار بہتر رہے ہیں۔ جنرل (ر) ایوب خان اور جنرل (ر) پرویز مشرف کے میں صدراتی نظام گورننس بہتر تھی اور عوام کے مسائل بھی بہتر طریقے سے حل ہورہے تھے۔ بدقسمتی سے ہماری سیاسی جماعتیں محض جمہوریت کا ڈھنڈورا پیٹتی ہیں، ان میں خود جمہوریت نہیں ہے بلکہ سیاسی لیڈران کی سوچ آمرانہ ہے اور سب ہی اقتدار میں آنے کے بعد ایک جیسے ہوجاتے ہیں۔
عمران خان نے کرپشن کے خاتمے کانعرہ لگایا، میگا پراجیکٹس کے بجائے عوا م کی صحت، تعلیم و دیگر بنیادی سہولیات پر خرچ کرنے کی بات کی تھی مگر گزشتہ دوبرسوں میں ایسا کچھ نہیں ہوا۔ لوگوں کے مسائل بلدیاتی اداروں سے جڑے ہیں، صدراتی نظام کے دوران ہمیں مقامی حکومتوں کا بہترین نظام ملا۔ سوال یہ ہے کہ انہیں بلدیاتی انتخابات کروانے سے کس نے روکا؟ اس وقت حالت یہ ہے کہ کوڑا اٹھانے کا نظام بھی مفلوج ہوچکا ہے۔ لوگ اپوزیشن کے سیاسی بیانیے کے ساتھ نہیں ہیں مگر وہ یہ دیکھ رہے ہیں کہ جس لیڈر نے تبدیلی کا نعرہ لگایا، اس نے پورا نہیں کیا، مقامی ادارے نہیں بنے، تعلیم، صحت کے نظام میں اصلاحات نہیں آئی بلکہ معاملات پہلے سے خراب ہوگئے۔ بدقسمتی سے تحریک انصاف بھی سٹیٹس کو کا حصہ بن گئی ہے اور ماضی کی پالیسیاں ہی اب بھی چل رہی ہیں۔
لوگ سمجھتے ہیں کہ اپوزیشن کی تحریک ان کے اپنے مفادات کیلئے ہے مگر وہ اس لیے ان کا ساتھ دے رہے ہیں کہ موجودہ حکومت ڈیلور نہیں کر سکی بلکہ عوامی مسائل میں اضافہ ہوگیا۔ میرے نزدیک اپوزیشن کی کامیابی دراصل حکومت کی ناکامی ہے، اس کرائسس کی ذمہ داری حکومت پر عائد ہوتی ہے کیونکہ اس کے رویے سے ہی اپوزیشن کامیاب ہورہی ہے۔
ملک کو اندورنی و بیرونی سطح پر بڑے چیلنجز کا سامنا ہے جن میں سی پیک منصوبہ، گلگت بلتستان کو صوبہ بنانا، امریکا، بھارت، فیٹف، معاشی عدم استحکام و دیگر شامل ہیں مگر عمران خان اپنے رویے میں تبدیلی نہیں لارہے، سوال یہ ہے کہ اپوزیشن کو دیوار سے لگا کر کس طرح مسائل حل کرسکتے ہیں؟ یہ پارلیمانی روایات کے خلاف ہے۔ عوام اور حکومت کے اتحادیوں میں مایوسی بڑھ رہی ہے، لوگ ماضی کے حکمرانوں کو بہتر سمجھ رہے ہیں اور حکومتی اتحادی بھی اپوزیشن کے ساتھ جا رہے ہیں، اداروں کو بھی متنازعہ بنایا جارہا ہے لہٰذا اگر حکومت نے اپنا رویہ نہ بدلا تو معاملات ہاتھ سے نکل جائیں گے۔
عمران خان کے بیانیے میں جان ختم ہوگئی ہے، وہ اپنے وعدے پورے کرکے اس میں جان ڈالیں اور لوگوں کے مسائل حل کریں ۔ عمران خان اپنی ٹیم کی اوورہالنگ کریں اور ایسے لوگ شامل کریں جو سنجیدہ و ذمہ دار ہوں اور بہتر پرفارم کرسکیں۔ پنجاب کی صوبائی قیادت میں نہ ویژن ہے اور نہ ہی صلاحیت، عمران خان چاہیں تو تبدیلی آسکتی ہے۔ عمران خان نے لوگوں کو مایوس کیا ہے، انہیں ''سٹیٹس کو'' کا حصہ بننے کے بجائے عوامی امنگوں کی ترجمانی کرنی چاہیے اور وہ تمام وعدے پورے کرنے چاہئیں جو انہوں نے اپنے سیاسی کیریئر میں کیے۔ عوام حقیقی معنوں میں تبدیلی دیکھنا چاہتے ہیں لیکن اگر حکومت نے ڈیلور نہ کیا تو اپوزیشن کو مزید فائدہ ہوگا۔
ڈاکٹر ارم خالد
( چیئرپرسن شعبہ سیاسیات جامعہ پنجاب)
لوگوں کی اکثریت کا اعتماد حکومت اور اس کی کارکردگی پر ہو تو ملک میں سیاسی استحکام ہوتا ہے مگر جب حکومتی کارکردگی پر سوال اٹھے اور لوگ مختلف مسائل کے حل کیلئے حکومتی رسپانس سے مطمئن نہ ہوں تو سیاسی عدم استحکام ہوتا ہے۔ پاکستان کی موجودہ صورتحال کی بات کریں تو اس وقت حکومتی رویہ اور کارکردگی دو بڑے مسائل ہیں جن کی وجہ سے لوگوں کا حکومت پر عدم اطمینان اور عدم اعتماد بڑھ رہا ہے۔
جب کوئی جماعت برسر اقتدار آتی ہے اور شخصیات عہدوں پر آتی ہیں تو ان کا کردار بدل جاتا ہے ، جو جتنے بڑے عہدے پر ہوتا ہے اس سے اتنے ہی زیادہ ذمہ دارانہ رویے کی توقع کی جاتی ہے مگر اب اگر بیان بازی اور حالات کا جائزہ لیا جائے تو افسوس ہوتا ہے کہ کسی بھی فورم سے ذمہ داری کا مظاہرہ نہیں کیا جارہا بلکہ حکومت اور اپوزیشن دونوں اطراف سے ہونے والی بیان بازی سے حالات کشیدہ ہورہے ہیں۔ یہ رویہ جتنا غیر مناسب ہوتا جائے گا، جتنی تلخی بڑھے گی، اتنی ہی بے چینی لوگوں میں بڑھے گی اور اس کا ردعمل آنا شروع ہوجائے گا۔
ہم ملک میں انتہاپسندی اور عدم برداشت پر گزشتہ کئی برسوں سے بات کر رہے ہیں، موجودہ صورتحال اس میں مزید اضافے کا باعث بن سکتی ہے۔ اس وقت سب سے بڑا چیلنج حکومتی کارکردگی ہے۔ لوگوں نے ماضی کے حالات کے پیش نظر موجودہ حکومت کو منتخب کیا اور ان کی توقع تھی کہ موجودہ قیادت ان کے مسائل حل کر دے گی لہٰذا یہاں سوال یہ ہے کہ کیا دو برسوں میں حکومت کی کارکردگی ماضی کی حکومت سے بہتر رہی؟ کیا لوگوں کی صورتحال بہتر ہوئی؟ کیا لوگوں کی روزمرہ کے حالات بہتر ہوئے ؟ لوگوں کا مسئلہ فیٹف اور بیرونی چیلنجز نہیں بلکہ ان کی ضروریات زندگی کا پورا نہ ہونا ہے۔ اگر لوگوں کو ان کی زندگی گزارنے میں مشکل ہو، حالات مزید سخت ہورہے ہو تو پھر حکومتی کارکردگی پر سوال اٹھتا ہے۔ کہا جارہا ہے کہ بجٹ نہیں ہے اس لیے سڑکیں و دیگر ترقیاتی کام نہیں ہورہے۔
سوال یہ ہے کہ لوگوں سے رابطہ رکھنا اور انہیں یہ اطمینان دلوانا کہ ان کے نمائندے مسائل کے حل کیلئے موجود ہیں، حکومت کی کارکردگی میں شامل نہیں؟افسوس ہے کہ حکومت کا تو عام آدمی سے کوئی رابطہ نہیں ہے، عوام کے منتخب نمائندے اپنے حلقے میں نظر نہیں آتے لہٰذا جس حکومت میں عوامی رابطے کا اتنا بڑا خلاء ہو، اس کی کارکردگی پر سوالات اٹھتے ہیں۔ کسی بھی حکومت کو جانچنے کیلئے اس کا رویہ اور کارکردگی پیمانہ ہوتے ہیں، اس پیمانے پر موجودہ حکومت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
علاقائی صورتحال کا جائزہ لیں تو بھارت اس وقت کورونا کرائسس کا بری طرح شکار ہے، اگر ہماری حکومت بھارت کے لوگوں کیلئے انسانی ہمدردی کا پیغام دیتی تو اس سے پاکستان کے قد میں اضافہ ہوتا۔ اب بھی حکومت کو اس طرف سوچنا چاہیے تاکہ ہمسایہ ملک میں رہنے والے لوگوں کے ساتھ سیاسی کمیونی کیشن ہوسکے۔ افغان امن عمل چل رہا ہے، یہ ہمارے لیے کتنا بہتر ہوسکتا ہے اور کون سے چیلنجز درپیش ہوسکتے ہیں، ان پر بھی مسلسل نظر رکھنے اور کام کرنے کی ضرورت ہے۔
امریکا کے انتخابات ہونے جارہے ہیں، وہاں حکومت کی تبدیلی اور اہم شخصیات کے حوالے سے بھی ہمیں مکمل نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں چیلنجز سے بچنے کیلئے مستقبل کی صورتحال کو دیکھتے ہوئے پیشگی اقدامات کرنا ہوں گے۔ مشرق وسطیٰ سے ہمارے جن لوگوں کا روزگار وابستہ ہے، وہ ان ممالک کی بدلتی ہوئی صورتحال میں بے چین ہیں، وزارت خارجہ کو ان مسائل کو بھی دیکھنا ہوگا۔اپوزیشن کی حالیہ احتجاجی تحریک کی بات کریں تو اپوزیشن جماعتیں اپنی ترجیحات کے مطابق سیاسی چال چلتی ہیں۔
وہ جماعتیں جو ایک عرصے سے حکومت میں ہوں، انہیں حکومت سے باہر رہنا برداشت نہیں ہوتا اور اس کے مطابق ہی ان کا ردعمل آتا ہے۔ سندھ میں پیپلزپارٹی کی حکومت ہے یہی وجہ ہے کہ اس کا رویہ دیگر جماعتوں سے مختلف ہے۔ اپوزیشن کے رویے اور سخت تنقید کو برداشت کرنا اور بڑے پن کا مظاہرہ کرنا حکومت کا کام ہے مگر اس وقت حکومت اور اپوزیشن کے رویے میں کوئی فرق نظر نہیں آرہا، حکومت کو ذمہ دارانہ اور سنجیدہ رویہ اپنانا ہوگا۔
ڈاکٹر محمد ارشد
( ریجنل چیئرمین ایف پی سی سی آئی)
مارشل لاء ہو یا سول حکومت، بدقسمتی سے جب بھی پاکستان کی معیشت مستحکم ہونے لگتی ہے تو نامعلوم ہاتھ حرکت میں آجاتے ہیں ، سب کچھ بدل جاتا ہے اور معاشی ترقی کا سفر واپس ہوجاتا ہے۔جنرل(ر) ایوب خان کے دور میں معاشی ترقی ہورہی تھی، اس وقت جب جرمنی نے جب سکلڈ لیبر مانگی تو پاکستان نے انکار کر دیا۔ جنرل(ر) پرویز مشرف دور حکومت میں ایک سے ڈیڑھ لاکھ کمانے والے افراد میں سالانہ ایک کڑور لوگوں کا اضافہ ہورہا تھا۔ ان کے دور میں جب معاشی ترقی ایک حد سے آگے گئی تو معاملات بدل گئے۔
اسی طرح مسلم لیگ (ن) کے سابق دور کے انڈیکیٹرز اور دنیا کی معتبر ریٹنگ ایجنسیاں یہ بتا رہی تھی کہ ملکی معیشت تیزی سے ترقی کر رہی ہے مگر پھر ہمیشہ کی طرح سب کچھ بدل گیا اور معاشی ترقی رک گئی اور اب گروتھ منفی میں چلی گئی ہے۔ موجودہ حالات ہمارے رویوں کا خمیازہ ہیں، چور چور کے نعرے سے دنیا میں ہماری ساکھ متاثر ہوئی اور آج سب ہمیں شک کی نگاہ سے دیکھ رہے ہیں۔ ہمیں اپنے رویے تبدیل کرنا ہوں گے اور یہ طے کرنا ہوگا کہ سیاسی تنقید انتخابی میدان میں ہوگی، اقتدار میںآنے کے بعد حکومت سب کی ہوگی اور ملکی ترقی کیلئے مل کر کام کیا جائے گا۔
بیوروکریسی اور افسران فائلوں پر دستخط کرنے سے ڈرتے ہیں، انہیں ڈر ہے کہ کل کو ان کی ساکھ متاثر ہوسکتی ہے۔ ہاتھی کی لڑائی میں گھاس پس رہی ہے، طاقت کی اس لڑائی میں اگر معیشت پر توجہ نہ دی گئی تو ناقابل تلافی نقصان ہوگا۔غیر یقینی کی صورتحال میں اضافہ اور معاشی عدم استحکام زہر قاتل ہے، حکومت کو چاہیے کہ بھوک کم کرے، غربت کا خاتمہ کرے، لوگوں کو ملازمتیں دے، روزگار دے، مقامی معیشت کا پہیہ چلائے اور برآمدات میں اضافہ کرے، اگر اس حوالے سے جامع حکمت عملی بنا کر کام نہ کیا گیا تو مسائل سنگین ہوجائیں گے۔ ایف پی سی سی آئی کا عہدہ سنبھالنے کے بعد ہم نے وزیراعظم سے ملاقات کی اور انہیں کہا کہ جب تک تین کام نہیں ہوں گے، معاشی ترقی کے لیے کسی اور اقدام کا فائدہ نہیں ہوگا۔ ان میں توانائی کے اخراجات ، مارک اپ کی شرح اور ایکسچینج ریٹ کا کنٹرول شامل ہیں۔
مارک اپ کی زیادہ شرح کی وجہ سے ہمارے ریٹ عالمی مارکیٹ کے مطابق نہیں ہے، چین میں 0 سے 4 فیصد مارک اپ ہے اور وہاں سبسڈی بھی ملتی ہے۔ ہمیں کامیاب اور ترقی یافتہ ممالک سے سیکھنا ہوگا۔ معاشرے میں عدم برداشت بڑھ رہی ہے، اس کی وجہ بھوک، افلاس، غربت ہے، معاشی ترقی سے اس کا خاتمہ ممکن ہے۔ روپے کی قدر میں کمی کی گئی مگر برآمدات میں اضافہ نہیں ہوا۔ اس کے برعکس ماضی کی حکومت نے ڈالر کی قیمت میں اتار چڑھاؤکو 5 سے 7 روپے کے درمیان ہی رکھا مگر موجودہ دور میں ڈالر کسی کی پکڑ میں نہیں ہے۔
کہا جارہا ہے کہ جنوری میں ڈالر کی قیمت 165 جبکہ جون میں 170 کو عبور کرے گی۔ اتنے بڑے فرق میں کوئی بزنس نہیں ہوسکتا اور نہ ہی کوئی پالیسی بنائی جاسکتی ہے۔ ماضی کی حکومت کی معاشی پالیسیاں اچھے نتائج دے رہی تھی، پاکستان، ترکی کے متوازی چلنا شروع ہوگیا تھا اور عالمی ریٹنگ ایجنسیاں یہ پشین گوئی کر رہی تھی کہ 2020ء میں پاکستان کا بجٹ ڈبل ڈیجٹ ہوگا۔ میرے نزدیک اگر موجودہ حکومت سیاسی اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ملکی مفاد میں ان پالیسیوں کو اپنا لے تو معیشت مستحکم ہوسکتی ہے۔
سلمان عابد
(سیاسی تجزیہ نگار )
سیاسی طور پر ایک دوسرے کو تسلیم نہ کرنے کی روایت پرانی ہے۔ اپوزیشن جماعتیں حکومت کے مینڈیٹ کو پہلے دن ہی جعلی قرار دے دیتی ہیں اور اس طرح حکومت کو قبول نہ کرنے کی روش کو برقرار رکھا جاتا ہے۔ اگر حکومت اور اپوزیشن کا پہیہ تدبر سے چلے تو اچھے نتائج ملتے ہیں مگر بدقسمتی سے ہمیں نہ حکومت اچھی ملی اور نہ ہی اپوزیشن ۔ دونوں کے معاملات انفرادی اور ذاتی مفادات سے جڑے ہیں جس سے یہاں قومی سیاست فروغ نہیں پاسکی۔ اپوزیشن یہ سمجھتی ہے کہ عمران خان احتساب کے نام پر اسے دیوار سے لگا رہے ہیں، نیب کو اس کیلئے استعمال کیا جارہا ہے اور انہیں سیاسی میدان نہیں دیا جارہا۔ اس کے علاوہ قانون سازی کے دوران بھی اپوزیشن کے 20 سے 25 اراکین پارلیمنٹ آگے پیچھے ہوجاتے ہیں اور اپوزیشن یہ سمجھتی ہے کہ ہمارے مینڈیٹ کو کمزور کیا جاتا ہے۔
مارچ میں سینیٹ انتخابات آرہے ہیں جس میں تحریک انصاف کی اکثریت ہوگی اور وہ مزید سخت قانون سازی کرے گی۔ اس کو دیکھتے ہوئے اپوزیشن جماعتیں مارچ سے پہلے حکومت کو غیر مستحکم کرنے کی کوشش کررہی ہیں اور اپوزیشن کا بیانیہ اس کے لیے ایک ہتھیار ہے۔
ایک برس سے نواز شریف اپنے معاملات ٹھیک کرنے کی کوشش کر رہے تھے مگر جب کچھ حاصل نہ ہوا تو پھر پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کا آغاز کیا گیا۔ اس میں نواز شریف، مولانا فضل الرحمن ، مریم نواز کا انداز جارحانہ ہے جبکہ پیپلز پارٹی اس طرح کاسخت رویہ نہیں اپنا رہی کیونکہ سندھ میں اس کی حکومت ہے۔ ایک اور اہم بات یہ ہے کہ پی ڈی ایم عوامی طاقت سے حکومت بدلنا نہیں چاہتی بلکہ اسٹیبلشمنٹ سے مطالبہ کر رہی ہے کہ وہ کوئی راستہ نکالے۔ یہ تو خود اسٹیبلشمنٹ کو دعوت دے رہے ہیں۔
عمران خان ہمیشہ سے ہی جارحانہ انداز میں کھیلنے کے عادی ہیں مگرحکومتی لعن طعن، الزام تراشی اور بیان بازی سے مسائل بڑھ رہے ہیں، اب اداروں پر بھی تنقید شروع ہوگئی ہے اور انہیں بلاوجہ ان معاملات میں ملوث کرنے کی کوشش کی جارہی ہے جو کسی بھی طور ملکی مفاد میں نہیں، اس سے غیر ملکی طاقتیں فائدہ اٹھاسکتی ہیں لہٰذا حکومت اور اپوزیشن دونوں کو ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ معاشی استحکام کیلئے سیاسی استحکام ضروری ہے جو اپوزیشن کے ایجنڈے میں نہیں ہے بلکہ مہنگائی اور معاشی بدحالی اپوزیشن کے مفاد میں ہے ۔حکومت کو تمام مسائل کے حل کیلئے جامع حکمت عملی بنانا ہوگی۔ عمران خان کہتے ہیں کہ وہ ان کے ساتھ بیٹھنے کیلئے تیار نہیں۔ وہ تو اپنے اتحادی سردار اختر مینگل سے ملنے کیلئے تیار نہیں ہوتے تھے اور اپنے نمائندے بھیجتے تھے۔
مولانا فضل الرحمن اور مریم نواز حکومت کے وجود کو تسلیم کرنے کیلئے تیار نہیں ہیں۔ صرف پیپلز پارٹی نے ایک تجویز دی تھی کہ ہم حکومت کے ساتھ ملکر کام کرنا چاہتے ہیں جسے عمران خان نے تسلیم نہیں کیا۔ آج حالات جس نہج پر ہیں کیا اس میں حکومت اور اپوزیشن اکٹھے بیٹھ سکتے ہیں؟ حالات کی سنگینی کو سمجھتے ہوئے طاقت کے مراکز کے درمیان سنجیدہ ڈائیلاگ کی ضرورت ہے۔ فوج، عدلیہ، سول ملٹری بیورو کریسی، اپوزیشن، حکومت اور سابق سفارتکار و تھنک ٹینکس بیٹھیں اور بنیادی ڈھانچہ بنائیں کہ گورننس کو بہتر کیسے کرنا ہے، فوج کا کردار کیا ہوگا، معیشت کیسے بہتر ہوگی، علاقائی تناظر میں حکومت اور اپوزیشن کے بیانیے میں ربط کیسے پیدا ہوگا اور نظام صدارتی ہوگا یا پارلیمانی ۔ صدر مملکت اس ڈائیلاگ کا آغاز کریں اور اس میں وزیراعظم انہیں مکمل سپورٹ دیں۔
انہیں سمجھنا چاہیے کہ معیشت، علاقائی سیاست، اندرونی سیاست اور خارجہ پالیسی کے حوالے سے اتفاق رائے درکار ہے۔ فیٹف میں بھارت ہمیں بلیک لسٹ کروانا چاہتا ہے، اگر فیٹف نے مزید قانون سازی کا کہہ دیا تو موجودہ حالات میں اپوزیشن کو کس طرح اعتماد میں لیں گے۔ پاکستان کا مرض کینسر ہے مگر علاج سردرد کی گولی سے کیا جارہا ہے، موجودہ حالات سے نمٹنے کیلئے غیر معمولی اقدامات کرنا ہوںگے۔ موجودہ سیاسی کشیدگی کا فائدہ ریاست، حکومت، اپوزیشن سمیت کسی کو نہیں ہے لہٰذا جتنی جلدی ممکن ہو اس صورتحال سے باہر نکلا جائے۔ ہمیں میثاق معیشت، میثاق سیاست اور میثاق گورننس کرنا ہوگا لیکن اگر حالات ایسے ہی رہے تو ملک آگے نہیں بڑھ سکتا۔