ورلڈ بینک نے ٹیکس اصلاحات منصوبے کی ریٹنگ کم کردی
400 ملین ڈالر کے’’پاکستان ریزز ریونیو پروجیکٹ‘‘ کی رفتار پر اظہارعدم اطمینان
ورلڈ بینک نے قابل اطمینان پیش رفت نہ ہونے پر ٹیکس نظام کی بہتری کے لیے400 ملین ڈالر کے پروجیکٹ کی ریٹنگ گھٹا دی۔
پاکستان اور عالمی بینک کے درمیان ٹیکس اصلاحات کیلیے400 ملین ڈالر قرض کا معاہدہ گذشتہ برس جون میں ہوا تھا۔ معاہدے کے تحت عالمی بینک ' پاکستان ریزز ریونیو پروجیکٹ ' کے لیے اب تک101.7 ملین ڈالر فراہم کرچکا ہے۔
منصوبے پر توقع کے مطابق پیشرفت نہ ہونے پر ورلڈ بینک نے گذشتہ بدھ کو جاری کی گئی رپورٹ میں اس پروجیکٹ کی ریٹنگ قابل اطمینان ( satisfactory) سے گھٹا کرکسی حد تک قابل اطمینان (moderately satisfactory ) کردی ہے۔
واضح رہے کہ ٹیکس نظام میں اصلاحات کے منصوبے کی سرکاری حلقوں میں شدید مخالفت ہوئی تھی حتی کہ ایف بی آر کے سابق چیئرمین شبرزیدی بھی اس کے حق میں نہیں تھے جن کا کہنا تھا کہ ٹیکس اصلاحات مہنگے غیرملکی قرضے لے کر نہیں کی جاسکتیں ۔
15 سال کے دوران یہ دوسرا موقع ہے جب ورلڈ بینک نے ایف بی آر میں اصلاحات کے بڑے منصوبے کیلیے قرض دیا ہو۔ قبل ازیں150 ملین ڈالر مالیت کا ' ٹیکس ایڈمنسٹریشن ریفارمز پروجیکٹ' بھی بری طرح ناکام ہوا تھا اور اس مد میں لیا گیا قرض ضایع ہوگیا تھا۔
400ملین ڈالر میں سے 320 ملین ڈالر شفاف اور آسان ٹیکس سسٹم، ٹیکس دہندگان سے ٹیکس کے حصول، کمپلائنس فیسیلیٹیشن اور ادارہ جاتی ترقی کے لیے مختص کیے گئے تھے جبکہ ان تمام کاموں کے لیے امریکی ڈالر سے زیادہ سیاسی قوت ارادی درکار ہوتی ہے۔
400ملین ڈالر کا ایک حصہ ایف بی آر کے افسران کو اعلیٰ کارکردگی پر نوازنے کے لیے رکھا گیا تھا۔ باقی 80 ملین ڈالر ایف بی آر کے انفارمیشن ٹیکنالوجی سسٹم کی اپ گریڈنگ کے لیے مختص کیے گئے۔
ورلڈ بینک کی رپورٹ کے مطابق اس پروجیکٹ کے آغاز کے بعد ٹیکس کا تناسب بلحاظ جی ڈی پی جو جون2018 میں13 فیصد تھا وہ 11 فیصد تک گرگیا۔ پروگرام کے تحت ٹیکس تناسب بلحاظ جی ڈی پی 2024 تک 17 فیصد تک لے جانا ہے مگر ایک سال میں یہ بہتر ہونے کے بجائے یہ گھٹ کر11 فیصد پر آگیا، جو وزیراعظم پاکستان اور ورلڈ بینک کے لیے قابل تشویش ہونا چاہیے۔
ٹیکس دہندگان کی تعداد اگر2.76 ملین تک پہنچ چکی ہے مگر وزیراعظم کے مشیر برائے ادارہ جاتی اصلاحات ڈاکٹر عشرت حسین کے گذشتہ ماہ دیے گئے بیان کے مطابق فی ٹیکس دہندہ ٹیکس جمع کرانے کی اوسط کم ہوگئی۔
ورلڈ بینک کی رپورٹ کے مطابق400 ملین ڈالر کے پروجیکٹ نے منصوبے کے4 میں سے 3 ترقیاتی اہداف حاصل کرلیے ہیں جبکہ کارکردگی سے متعلق 10 میں سے 6 شرائط پوری کردی ہیں۔ تاہم مجموعی پیشرفت تسلی بخش نہیں ہے۔
پاکستان اور عالمی بینک کے درمیان ٹیکس اصلاحات کیلیے400 ملین ڈالر قرض کا معاہدہ گذشتہ برس جون میں ہوا تھا۔ معاہدے کے تحت عالمی بینک ' پاکستان ریزز ریونیو پروجیکٹ ' کے لیے اب تک101.7 ملین ڈالر فراہم کرچکا ہے۔
منصوبے پر توقع کے مطابق پیشرفت نہ ہونے پر ورلڈ بینک نے گذشتہ بدھ کو جاری کی گئی رپورٹ میں اس پروجیکٹ کی ریٹنگ قابل اطمینان ( satisfactory) سے گھٹا کرکسی حد تک قابل اطمینان (moderately satisfactory ) کردی ہے۔
واضح رہے کہ ٹیکس نظام میں اصلاحات کے منصوبے کی سرکاری حلقوں میں شدید مخالفت ہوئی تھی حتی کہ ایف بی آر کے سابق چیئرمین شبرزیدی بھی اس کے حق میں نہیں تھے جن کا کہنا تھا کہ ٹیکس اصلاحات مہنگے غیرملکی قرضے لے کر نہیں کی جاسکتیں ۔
15 سال کے دوران یہ دوسرا موقع ہے جب ورلڈ بینک نے ایف بی آر میں اصلاحات کے بڑے منصوبے کیلیے قرض دیا ہو۔ قبل ازیں150 ملین ڈالر مالیت کا ' ٹیکس ایڈمنسٹریشن ریفارمز پروجیکٹ' بھی بری طرح ناکام ہوا تھا اور اس مد میں لیا گیا قرض ضایع ہوگیا تھا۔
400ملین ڈالر میں سے 320 ملین ڈالر شفاف اور آسان ٹیکس سسٹم، ٹیکس دہندگان سے ٹیکس کے حصول، کمپلائنس فیسیلیٹیشن اور ادارہ جاتی ترقی کے لیے مختص کیے گئے تھے جبکہ ان تمام کاموں کے لیے امریکی ڈالر سے زیادہ سیاسی قوت ارادی درکار ہوتی ہے۔
400ملین ڈالر کا ایک حصہ ایف بی آر کے افسران کو اعلیٰ کارکردگی پر نوازنے کے لیے رکھا گیا تھا۔ باقی 80 ملین ڈالر ایف بی آر کے انفارمیشن ٹیکنالوجی سسٹم کی اپ گریڈنگ کے لیے مختص کیے گئے۔
ورلڈ بینک کی رپورٹ کے مطابق اس پروجیکٹ کے آغاز کے بعد ٹیکس کا تناسب بلحاظ جی ڈی پی جو جون2018 میں13 فیصد تھا وہ 11 فیصد تک گرگیا۔ پروگرام کے تحت ٹیکس تناسب بلحاظ جی ڈی پی 2024 تک 17 فیصد تک لے جانا ہے مگر ایک سال میں یہ بہتر ہونے کے بجائے یہ گھٹ کر11 فیصد پر آگیا، جو وزیراعظم پاکستان اور ورلڈ بینک کے لیے قابل تشویش ہونا چاہیے۔
ٹیکس دہندگان کی تعداد اگر2.76 ملین تک پہنچ چکی ہے مگر وزیراعظم کے مشیر برائے ادارہ جاتی اصلاحات ڈاکٹر عشرت حسین کے گذشتہ ماہ دیے گئے بیان کے مطابق فی ٹیکس دہندہ ٹیکس جمع کرانے کی اوسط کم ہوگئی۔
ورلڈ بینک کی رپورٹ کے مطابق400 ملین ڈالر کے پروجیکٹ نے منصوبے کے4 میں سے 3 ترقیاتی اہداف حاصل کرلیے ہیں جبکہ کارکردگی سے متعلق 10 میں سے 6 شرائط پوری کردی ہیں۔ تاہم مجموعی پیشرفت تسلی بخش نہیں ہے۔